اتوار، 18 اگست، 2019

بلا عنوان


جانتی ہوں کہ ایک جملہ کہنے کے لئے پوری کہانی سنانا وقت کا زیاں ہے اور مانتی ہوں کہ کچھ جملے اپنے آپ میں مکمل داستان ہوتے ہیں مگر کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ  جنہیں  بیان کرنے کے لئے محض ایک جملے سے تشفی نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں ایک خوفناک احساس رہ جاتا ہے۔ بات نہ پہنچا پانے کا احساس۔ میں اس احساس سے ڈرتی ہوں۔ اور شاید اس ہی لئے کہانی کو ایک جملے تک محدود نہیں رکھ پا رہی۔  حالانکہ کہانی بہت مختصر سی ہے۔ میں کسی کے نکاح میں نہیں ہوں۔  اصولی طور پر کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہئے اور قارئین کو قیاس کے گھوڑے دوڑانا شروع کر دینا چاہئیں کہ مجھے بن  بیاہی، بیوہ یا مطلقہ کے خانے میں رکھ کر میری کردارسازی  کرسکیں اور اس خانے میں میرے ہونے کی وجوہات اپنی ذہنی استعداد کے مطابق طے کر کے کہانی کو اپنی مرضی کا انجام دے کر آگے بڑھ سکیں۔ جیسے کہ ہندی آرٹ پکچرز اور پاکستانی حقیقی زندگی میں ہوتا ہے۔ مگر میں اصولوں کی اتنی ہی پاسدار ہوتی تو اس معاشرے میں اب تک اکیلی کاہے کو ہوتی؟  سو اصولی طور پر یہ کہانی بے شک ختم ہوگئی ہو مگر میری کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ رواداری کے نام پر البتہ اتنا ضرور کر دیتی ہوں کہ کہانی کو آگے اس اسلوب میں بیان کر دوں گی کہ جس کو سننے اور پڑھنے کے آپ سب عادی رہے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جگہ پر ایک لڑکی رہتی  تھی۔ اس کی عمر کیا تھی؟ اس  کی صورت کیسی تھی؟ گوری تھی کہ کالی؟ بال لانبے تھے کہ چھوٹے؟  یہ سب غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ وہ بس آپ کی جیسی لڑکی تھی۔ یا آپ کے اندر موجود لڑکی جیسی لڑکی تھی۔ اب اگر یہ جملہ آپ کی سمجھ آگیا تو آگے کی کہانی بھی سمجھ آجائے گی۔ اگر نہیں آیا تو میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ تو جو کسی جگہ پر جو لڑکی رہتی تھی وہ کسی کو دل دے بیٹھی۔ اب یہ دل دینے کی واردات کی تفصیلات کیا ہیں؟ آیا یہ دل حلال طریقے سے دیا گیا یا دل کی یہ ترسیل کسی ہنڈی حوالے قسم کی کسی غیر اخلاقی و غیر قانونی  طریقے پر ہوئی؟ یہ سوالات اضافی ہیں کہ زمانے کا نیب پہلے ہی اس لڑکی سے ان سوالات پر ان گنت پیشیوں میں تفتیش کر چکا ہے۔ اگر آپ مُصِر ہیں اور  تفصیلات کے متقاضی ہیں تو زمانے سے رابطہ کیجئے کہ جو لڑکیوں کے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہے جو بیچاریاں اپنے ہی بارے میں خود تک نہیں جانتیں۔
تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جس انسان کو اس لڑکی نے دل دیا تھا وہ غریب نہ رہا۔ وہ اس کے قریب نہ رہا یا اس دنیا میں نہ رہا ، یہ آپ اپنے اندر کی لڑکی سے خود پوچھ لیجئے۔ تو جانے والا تو گیا مگر جاتے جاتے ساتھ اس بیچاری کا دل بھی لے گیا۔ تصور تو کیجئے، بغیر دل کی لڑکی؟ تقابل اور سمجھانے کے لئے اگر کہوں تو مرد کے جسم میں ایک دل ہوتا ہے جبکہ لڑکی کے دل میں ایک جسم۔  اب جب دل ہی نہ رہ گیا تو اس غریب کے پاس بچا کیا؟ لے دے کر ایک جسم؟ اس لئے میں نے اسے بیچاری کہا۔ تو اب وہ بیچاری لڑکی بغیر دل کے ایک جسم بن کر رہنے لگی۔ اور کرتی بھی کیا؟ تقدیر کے علاوہ لڑکیوں کی زندگی اور موت  بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تو اب وہ بیچاری بغیر دل کے جسم لئے زندگی گزارنے کی کوشش کرنے لگی۔
کچھ دنوں بعد وہاں سے ایک ہمدرد مسافر کا گزر ہوا ۔ اس نے جب اس لڑکی کو اکیلا دیکھا تو اسے بہت ترس آیا۔  اس نے چاہا کہ وہ اس کا جوڑ کسی بھلے مانس سے کرا دے۔ مگر دنیا کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ یہاں ہر چیز کی ایک قیمت رہا کرتی ہے اور ساتھ کی قیمت ہوا کرتی ہے دل! جو اس غریب کے پاس رہا نہیں تھا۔ مگر اڑچن یہ تھی کہ لڑکی بہرحال انسان تھی اور انسان اپنی کم مائیگی کا احساس خود خدا کے سامنے بھی شدید مشکل میں ہی بمشکل کر پاتا ہے سو کسی دوسرے انسان کے سامنے کیسے کرے؟  کس منہ سے اسے بتاتی کہ بھائی صاحب! میں اب اس رشتے کی قیمت چکانے کے لئے کنگال ہوں کہ کل کمائی جانے والا ساتھ لے جا چکا ہے اور دل بازار سے ملتا نہیں کہ ایک بار چلا گیا تو دوسرا بازار سے لے کر استعمال میں لے آئے۔ بیچاری بس اتنا ہی کہہ پائی کہ" بھائی صاحب! کوئی مناسب جوڑ اگر ملا تو سوچوں گی۔ مگر  رشتے کی قیمت چکانے کی اب نہ حیثیت ہے نہ تاب" مسافر چونکہ مرد تھا اس لئے یہ جواب سن کر حیران رہ گیا۔ بولا ماشاءاللہ بھری پری ہو۔ قیمت کیونکر نہ چکا پاؤ گی؟ جی تو اس لڑکی کا بھی چاہا کہ فلسفے کا  دفتر کھول کر اس ہمدرد کو سمجھائے کہ لڑکی کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے چھوٹی چیز اس کا جسم ہوتا ہے۔ مگر وہ ذہین تھی اور جان گئی تھی کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ہمدرد اس بات کو کبھی سمجھ ہی نہ پائے گا اور یوں متفق ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سو وہ بیچاری مسکرا کر بس اتنا کہہ پائی کہ "انشاءاللہ، اللہ آسانیاں فراہم کرے گا"
وہ ہمدرد تو مدت ہوئی گزر گیا مگر کہانی اور کہانی کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی اب بھی وہیں ہے اور ہمدرد قطار اندر قطار آئے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو وہاں جا کر یہ بورڈ لگا دے کہ "لڑکی جسم سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتی ہے اور اس کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے کم مایہ چیز اس کا جسم ہوتا ہے۔ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں! "

ہفتہ، 3 اگست، 2019

کنگال


عورت اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی جاتی ہے جبکہ مرد اولاد کے جوان ہونے پر  بوڑھا     ہو جاتا ہے۔ اور شاید کنگال بھی۔  
خیر یہ کنگال والی بات تو اضافی ہے جو میں اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ بینک کے کاؤنٹر پر بیٹھا وہ نوجوان جس رحم آمیز نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے، میں سمجھ چکا ہوں کہ کھاتے میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ کھسیاہٹ کا احساس کم کرنے کے لئے میں نے اپنے اندر موجود بچا کھچا تمام اعتماد مجتمع کر کے اس سے پوچھا کہ آیا سسٹم میں کوئی خرابی ہے؟  جس پر اس نے اپنی نگاہوں کا تمام ترحم اپنے لہجے میں انڈیلتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ میں کھاتے میں جمع شدہ تمام رقم بہت پہلے اپنی رعایا کے نام منتقل کر چکا ہوں۔ اب اس کھاتے میں سے نکالنے لائق کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ محاورے کی زبان میں ،پھوٹی کوڑی  بھی نہیں!
آپ شاید اب تک اس کہانی کا سرا پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں  اور چاہتے ہیں کہ مصنف یہاں رک کر آپ کو کرداروں سے متعارف کروائے ۔ یہ نہیں تو کم از کم منظر کا پس منظر آپ پر واضح کرے۔  مگر کہانی کار ان تمام چیزوں سے قاصر ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک بینک میں موجود ہے، یعنی اسے سرمائے کی ضرورت ہے۔ اور آپ یہ بھی جان گئے ہیں کہ وہ اپنا تمام سرمایہ صرف کرچکا ہے۔  تو اب ایک ایسے انسان سے کہ جو سرمائے کی ضرورت میں ہو اور اس کا کھاتہ ویران پڑا ہو، آپ کیسے ہوشمندی اور سلیقے کی امید کرسکتے ہیں؟ تفصیلات کہ یہ بینک سرکاری تھا یا نجی؟ سرمایہ لکھوکھا تھا کہ ہزارہا؟ یہ سب باتیں مصنف آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ سمجھا بھی سکتا ہو تو اس وقت نہیں سمجھا سکتا۔ سو آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے سمجھئے۔ بینک کو سرکاری سمجھیں کہ نجی آپ کی مرضی! آپ چاہیں تو اسے زندگی کا ایک استعارہ سمجھ لیں۔ مصنف ان تمام باتوں سے بے پرواہ ہے۔  مصنف کو پرواہ ہے تو بس اس بات کی کہ وہ ایک مرد ہے اور اپنا کل سرمایہ لٹا چکا ہے۔ اور اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی کہانی آپ سے بیان کرے ۔  بنا تکلفات میں پڑے اور بغیر تفصیلات میں جائے۔  اس امید پر کہ شاید آپ اسے اس کی مشکل سے نجات دے دیں۔
کیونکہ کہانی ہمیشہ سے ایک ہی رہتی ہے سو کہانی آج بھی وہی ہے۔ مگر چونکہ یہ دستورِ سخن ہے کہ ہم وہی گھسی پٹی لکھوکھا سال پرانی کہانی شکل بدل کر سناتے آئے ہیں سو آج اس کنگال لکھیک کی کہانی بھی دوبارہ  سن لیجئے۔ آپ میں سے چند ہی کی طرح لکھیک بھی ایک مرد تھا جس کی رعیت میں ایک عورت شامل کر دی گئی تھی۔ عرفِ عام میں اس عمل کو شادی کہتے ہیں۔ حسبِ دستور آنے والی رعایا اپنے ساتھ عزتِ نفس اور شخصیت  کی بقا کے لئے محض جہیز لائی تھی  جو کہ ایک مقررہ معیار  و مقدار سے تھوڑا بھی کم ہو تو بالعموم ناکافی رہتا ہے۔  ہماری کہانی کی دلہن تو اس معاملے میں بالکل ہی کنگال تھی۔  غریبوں کی اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ جب تک غریب رہیں، مال کی قدر کرتے رہتے ہیں۔ وہ غریب بھی چونکہ مکمل تہی دست تھی لہٰذا مال کی قدر جانتی تھی۔ جو بھی کچھ تھوڑا بہت جمع کرپاتی اسے خرچ کرنے  کی کبھی ہمت ہی نہیں کرپاتی تھی۔ لکھیک چونکہ مرد تھا لہٰذا پیدائش کے فورا بعد ہی  عزت کے معاملے میں کروڑپتی ٹھہرا تھا۔ بڑے ہونے کے ساتھ وہ اس سرمائے میں بغیر کوشش کے مسلسل اضافہ ہی دیکھتا آیا تھا۔   (جس طرح مغرب میں چند لوگ فرینڈز ود بینیفٹ  رکھ لیتے ہیں اس کے برخلاف مشرق  یا کم از کم ہمارے معاشرے میں ہر مرد غلام ود بینیفٹ  رکھنے کا پیدائشی مکلف ہوتا ہے)۔  اپنا ذاتی غلام ود بینیفٹ آجانے کے بعد  وہ سرمائے کے معاملے میں کافی بے پرواہ ہوگیا تھا۔  عزت کا معاملہ بھی افیم کا سا ہوتا ہے۔ حق کی کمائی ختم ہوجائے تو انسان حاصل کرنے کے لئے چوری سے بھی باز نہیں آتا۔ دیگر تمام مردوں کی طرح لکھیک بھی یہ بات نہیں جانتا تھا کہ عزت کا سرمایہ   کسی بھی دوسرے سرمائے کی مانند ہی ہوتا ہے۔ کمائی کے ذرائع نہ ڈھونڈے جائیں اور جمع پونجی مسلسل خرچ ہوتی رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ سرمایہ مکمل اجڑ جاتا ہے۔
اپنا اصل سرمایہ تو شاید بادشاہت کے شروع میں ہی ختم ہوگیا تھامگر احساس یوں نہ ہوا کہ رعایا کے کھاتوں سے ملنے والا سرمایہ اتنا بہت تھا کہ اصل سرمائے کی کمی کبھی محسوس ہی نہ ہوئی۔ رعایا کے آنے سے ویسے ہی لکھیک بادشاہ کے درجے سے بلند ہوکر دیوتا کے درجے پر جا پہنچا تھا اور اب اپنی ذاتی مخلوقات بھی  رکھتا تھا۔ گھر کے مندر میں اس کے قدم رکھتے ہی جیسے مخلوقات کا دم نکلتا  تھا، اسے لگتا تھا اس کا سرمایہ یکدم کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔  مخلوق سے جواب طلبی کا جو مزہ خالقِ کائنات محض ایک مرتبہ محشر کے لئے محفوظ رکھتا ہے، وہ اس سے روز محظوظ ہوا کرتا تھا۔
مگر یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ اب اس کی اپنی مخلوقات ، اپنے اپنے مندروں کے دیوتا ہیں۔ اصولی طور پر اب اس کو قارون سے زیادہ امیر ہوجانا چاہئے مگر بینک والوں کا کہنا ہے کہ اس  کا کھاتہ بالکل ویران پڑا ہوا ہے۔ محاورے کی زبان میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے۔ دوسری طرف اس کی رعایا جو  بالکل تہی دست آئی تھی، خدا جانے کہاں سے سرمایا جوڑ کر اب کروڑ پتی ہوئی بیٹھی ہے۔  جوڑا کہاں سے ہوگا؟ یقینا یہ وہی سرمایہ ہے جو لکھیک کے کھاتے سے نکال کر اس کو دیا گیا ہے۔  اور دینے والے بھی کوئی اور نہیں، نئے زمانے کے دیوتا ہیں۔  ان کا ماننا ہے کہ لکھیک اپنے حصے کا تمام سرمایہ جوانی میں ہی اپنی رعایا سے وصول کر چکا ہے لہٰذا اب اس سرمائے پر پرانے دیوتا سے زیادہ اس رعایا کا حق ہے جس نے ساری عمر اس سرمائے کو محض دور سے ہی دیکھا ہے۔  اگر جوانی میں سرمائے میں سے رعایا کو حصہ دے دیا جاتا تو آج سود کے ساتھ ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔
یہ ہے لکھیک کی کل کہانی اور اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ دیر سے بینک میں کھڑا ہوکر بڑبڑا رہا ہے کہ عورت اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی جاتی ہے جبکہ مرد اولاد کے جوان ہونے پر  بوڑھا     ہو جاتا ہے۔ اور شاید کنگال بھی۔   کوئی جاکر اسے تسلی دے دے!

بلاگ فالوورز

آمدورفت