یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ کرنے کو کچھ نہیں ہے سو مجبوراٗ ڈائری لکھنی پڑ رہی ہے۔
پیاری ڈائری! قصہ کچھ یوں ہے کہ پرسوں سے محلے میں میڈیا کا پہرہ ہے اور ہم اس بڑھی ہوئی داڑھی کے ساتھ ان کے سامنے جا نہیں سکتے کہ پھسٹ امپریسن لاسٹ امپریسن والی بات ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ یہ مجمع ٹلے تو ہم بھی باہر نکلیں اور ہوا کھائیں۔ سنا ہے کہ یہ سب ہمارے پڑوس میں رہنے والے گلو بھائی کے سلسلے میں یہاں جمع ہیں۔
گلو بھائی بھی خوب انسان ہیں ویسے۔ وزیر بننا ان کا بچپن کا خواب ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گلو بھائی پیدا ہوئے تو ان کی ماں مر گئی، تس پر ان کے باپ جو ایک پہنچے ہوئے نائی تھے، نے پیش گوئی کی کہ چونکہ یہ پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کو کھا گیا ہے سو یہ انشاءاللہ بڑا ہوکر کم سے کم وزیر بنے گا۔ لوگوں نے پوچھا کہ ماں کو مارنے سے وزیر بننے کا کیا تعلق تو اس پہنچی ہوئی ہستی نے وضاحت کی کہ جس ملک میں امیر بیوی کو مارکر صدر بنا جا سکتا ہو وہاں غریب ماں کو مار کر کم سے کم وزیر بننا تو انکے بیٹے کا حق ہے۔ خیر بڑے میاں کی خرافات تو بڑے میاں جانیں، ویسے بھی ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہٰں والا لطیفہ ہم سب نے سن ہی رکھا ہے۔
گلو میاں کے بارے میں اس سے بہتر کیا بیان کروں کہ ڈائری میری، قلم میرا اور گلو میاں مفت میں در آئے۔ ویسے ہی جیسے دفتر کسی کا، بیریئر کسی کے، پولیس کسی کی، آرڈر کسی کا، مگر گلو بھائی کہ جن کو نہ پولیس، نہ لیگ، نہ پارٹی، کوئی بھی اپنانے کو تیار نہیں مگر یہ ہیں کہ پوری کاروائی میں سب سے آگے آگے ہیں۔ اُن کے اِن ہی اوصافِ جمیلہ کی بنیاد پر محلے میں سب گلو بھائی سے بنا کر رکھتے ہیں کہ جس قسم کے خبطی یہ ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آگے چل کر صوبے کے وزیرِ قانون لگ جائیں۔ برا وقت ویسے بھی کونسا بتا کر آتا ہے، اور غریبوں کے معاملے میں تو ایک دفعہ آجائے تو ہمیشہ کیلئے بس جاتا ہے۔ سو گلو بھائی بچپن سے ہی محلے کے سیاستدان تھے۔ ٹین ڈبے کی دکان سے انہوں نے کام شروع کیا اور ٹین ڈبوں کی چوری سے ٹرین کے ڈبوں کی چوری تک کا سفر بڑی کامیابی کے ساتھ طے کرتے چلے گئے۔ پیاری ڈائری تم جانتی ہو کہ میں یہ رائیونڈ والے گلو کی نہیں، اپنے محلے کے گلو کی بات کر رہا ہوں!! وقت کے ساتھ ساتھ گلو بھائی نے سیکھ لیا تھا کہ اس شخص سے بڑا احمق کوئی نہیں جس کے پاس کھانے کیلئے پورا ملک پڑا ہو اور وہ لوہے کے کارخانے ہڑپنے میں وقت ضائع کرتا رہے۔ سو گلو بھائی اب سارے فالتو کام دھندے چھوڑ کر ملک اور جیب سنوارنے کے اس ہی کارخیر میں مصروف تھے کہ پرسوں حکم ملا کہ ماڈل ٹائون میں جاکر کچھ سکریپ کی گاڑیاں توڑ دو۔ گلو بھائی نے مرشد کے حکم پر جاکر گاڑیاں توڑ دیں اور جیسے کے صوبے کی روایت ہے، کام ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ تس کے بعد آپ نے گرم موسم میں ٹھنڈی کوک لی، خود بھی پی، پولیسیوں کو بھی پلائی اور ناچتے گاتے گھر آگئے۔ شام گئے بڑی سرکار کا فون آیا کہ گرفتاری پیش کردی جائے سو گلو بھائی نے خیر سے گرفتاری بھی پیش کردی اور عدالت میں پیشی کے موقع پر پٹ بھی آئے۔ تب سے اب تک یہ میڈیا یہاں موجود ہے اور گلی میں موجود کھمبے کو مسلسل پیٹے جارہا ہے اور خدا معلوم کب تک پیٹتا رہے گا۔
میری پیاری ڈائری! یہ سب باتیں تمہیں سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اب خیر منائو۔ جس ملک کا میڈیا اور تمام افراد 11 انسانوں کے قاتل کو بھول کر 4 گاڑیوں کو شہید کرنے والے پر پچھلے دو دن سے کوریج دے رہے ہوں وہاں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تمہارا خیر خواہ
زبان دراز
19- جون - 2014
آج کا شعر:
بستی جلی ، خبر ہوئی شائع کچھ اس طرح
آتش زنوں کے تیل کا نقصان ہوگیا
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں