اتوار، 29 جون، 2014

دائرہ

جب پہلی بار سنا میں نے ۔۔۔
!!میں اب مر جانا چاہتا ہوں
میں چونک پڑا ۔۔۔


کچھ ذیادہ پرانی بات نہیں
تب موت بھیانک شے تھی ایک
مایوسی کفر تھی تب شاید
جب میں نے پہلی بار سنا ۔۔
!!اب میں مر جانا چاہتا ہوں

اور جب یہ پہلی بار سنا ۔۔۔
میں خوب ہنسا ۔۔۔
ہنستا ہی گیا ۔۔۔
ہنستا ہی گیا ۔۔۔
یہ بات ہی ایسی تھی جس پر
اب خیر ۔۔  بھلا تم خود سوچو
کیا کوئی پیاری دنیا سے
اتنا بھی خفا ہوسکتا ہے؟


یہ جیون کی دلکش گھڑیاں
ہم جن کو گزارا کرتے ہیں
کیا ان سے کنارہ ممکن ہے؟؟


الفت سے بھرے سب لوگ یہاں
جو جلتی دھوپ کے لمحوں میں ۔۔
رشتوں کی گھنیری چھائوں ہیں جو
کیا ان سے جدائی ممکن ہے؟؟

ہم پہروں اس دن بیٹھے رہے
اور گھنٹوں تک یہ بحث رہی
کہ جینا غیر ضروری ہے ۔۔۔

وہ جون کے مصرعے پڑھتا گیا
میں رومی کو دہراتا گیا

وہ مجھ کو یہ سمجھاتا تھا
دنیا اک کوڑا دان ہے بس
اور ہم سب اس کے کیڑے ہیں

اور میں اس سے یہ کہتا تھا
دنیا تو سوچ کا پرتو ہے
جیسا برتو گے دنیا کو
دنیا کو ویسا پائو گے
۔۔۔۔
دنیا پر جون نے خوں تھوکا
دنیا نے جون پہ تھوک دیا
یہ تو اک سادہ منطق ہے

وہ مجھ سے پھر یہ کہتا تھا
کہ جون نے خون یہ کیوں تھوکا؟
دنیا کے ستم تھے تب ہی تو
وہ خون کی کلی کرتا تھا؟

میں اس کو پھر سمجھاتا تھا
کہ جون تو خود یہ کہتا تھا
"میں بزدل ہوں
تنہائی کا مارہ، آزردہ،
ایک اونچے باپ کا بیٹا جو
چاہ کر بھی کبھی
علامہ ایلیاٰء بن نہ سکا"
 اور اس قضیے میں دیکھو تو 
!!دنیا کا کوئی دوش نہیں

ہم دونوں گھنٹوں لڑتے رہے
!!!اور آخر میں، میں جیت گیا


اس شخص نے یہ تسلیم کیا
یہ دنیا بےحد پیاری ہے
یہ جیون بےحد دلکش ہے
مایوسی بالکل کفر ہے اور
یہ موت بہت گھٹیا شے ہے

لیکن اس بحث کے بعد سے اب
ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے
اب میں اکثر یہ سوچتا ہوں
کہ جون نے خون یہ کیوں تھوکا؟

میں گھنٹوں بیٹھ کے سوچتا ہوں
اور تنگ آکر چلاتا ہوں
!!!بکواس ہے سب
!!میں اب مر جانا چاہتا ہوں

اور لطف یہ ہے کہ یہ سن کر
کچھ لوگ ہیں جو ہنس پڑتے ہیں
اور چاہتے ہیں کہ بحث کریں
!!!کہ دنیا کتنی دلکش ہے ۔۔۔۔

سید عاطف علی
29 - 06 - 2014 

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت