بدھ، 16 جولائی، 2014

تلاش نگر

آج پھر ساحل پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ تلاش نگر کے باسی دن بھر سر کھپانے کے بعد چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں شام گئے تلاش نگر واپس پہنچ جاتے تھے۔ کہنے کو تلاش نگر ایک چھوٹا سا شہر تھا، اتنا چھوٹا کہ دنیا کے کسی جغرافیہ دان نے اس شہر کو کسی نقشے پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر یہ چھوٹا سا شہر، دنیا کے ہر قصبے، ہر گائوں، ہر شہر اور ہر ملک سے زیادہ آبادی رکھتا تھا۔ جتنی عجیب بات اس شہر کا دنیا کے نقشے پر نہ ہونا تھی، اتنی ہی عجیب بات اس شہر کا اپنا نقشہ تھا۔ اس شہر میں نہ کوئی مکان تھا اور نہ کوئی سڑک۔ آپ چلتے چلے جائیے، سڑک اپنے آپ بنتی چلی جائے گی۔


تلاش نگر میں صرف تین چیزیں مستقل تھیں، ساحل، متلاشی انسان، اور ہر وہ چیز جس کی آپ کو تلاش نہ ہو۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا کہ جو چیز ابھی ابھی آپ نے بلاوجہ اٹھا کر جیب میں رکھی ہے، اس چیز کی تلاش میں آپ کے پیچھے آنا والا شخص پچھلے بیس سال سے تلاش نگر کے چکر کاٹ رہا ہے! اور جس چیز کی تلاش میں آپ دیوانہ وار گھوم رہے ہوں وہ عین اس وقت جب آپ جھک کر کسی اور کی چیز اٹھا رہے تھے، آپ  کے آگے والے شخص نے اٹھا کر جیب میں رکھ لی ہے۔ تاش کی رمی کا ایک گیم تھا جو مسلسل رواں تھا۔ کوئی بھی شخص غیر ضروری پتے محض اس ڈر سے نہیں پھینکتا تھا کہ وہ کسی اور کے کام نہ آجائیں۔ جواریوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان غیر متعلقہ پتوں کو سینت کر رکھنے کی وجہ سے وہ خود بھی اپنا ہاتھ مکمل نہیں کر پارہے مگر ۔۔۔۔ (اس مگر کا علاج ڈھونڈنے بھی بہت سے لوگ تلاش نگر آئے مگر ۔۔۔) ایک عجیب سا کولہو کا چکر تھا جو مسلسل رواں تھا۔


سیانے کہتے تھے کہ دنیا میں جب کبھی کہیں کوئی شخص کسی چیز کی تلاش میں نکلتا ہے تو وہ چیز خودبخود تلاش نگر بھیج دی جاتی ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہونگے کہ اس حساب سے تو تلاش نگر مسلسل وسعت پذیر ہوگا؟ جی نہیں! انسانوں کی منہ مانگی ہر چیز اب یہاں پہنچ چکی تھی۔ وسعت تو تب ہوتی جب کسی نئی چیز کی خواہش ہوتی۔ بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ ان کے بڑے بوڑھوں نے بتایا تھا کہ ان کے بڑے بوڑھوں نے بھی کبھی کوئی نئی چیز اس تلاش نگر میں آتی نہیں دیکھی تھی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو لگتا تھا کہ اس کی خواہشات بڑھ رہی ہیں مگر وہ آج بھی ان ہی تمام چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا جن کے پیچھے بھاگتے ہوئے اس کے باپ دادا بھی منہ کے بل گرے تھے۔یہاں صحرا بھی تھا اور سمندر بھی، عزت وشہرت بھی تھی اور دولت بھی، عشق بھی تھا ہوس بھی، یزداں بھی تھا اور اہرمن بھی ۔۔۔  تصور تو کیجیئے کہ ایک صحرا کے کنارے پر ایک سمندر آباد۔ مگر ٹھہریئے، صرف تصور، اگر دیکھنے کی خواہش کرلی تو آپ بھی تلاش نگر پہنچ جائیں گے اور اللہ بہتر جانتا ہے مگر تلاش نگر سے آج تک کوئی واپس آتا نہیں دیکھا گیا۔ ایسا نہیں کہ یہاں لوگوں کی ان کی منزل نہیں ملتی، مگر کم ہی ایسا ہوا تھا کہ یہاں آیا ہوا شخص اپنی خواہشات کو سمیٹ کر بغیر کسی نئی چیز کی تلاش میں پڑے یہاں سے زندہ نکل پایا ہو۔


اس نے بھی یہ ساری کہانیاں بچپن سے سنی ہوئی تھیں۔ گذشتہ پچیس سال سے وہ اس شہر میں روز آتی تھی۔ پہلی مرتبہ وہ شاید کسی کھلونے کی تلاش میں یہاں آئی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی ایک مستقل مہمان بن گئی تھی۔ سکون، محبت، شہرت، عزت، دولت غرض کوئی ایسا بہانہ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ تلاش نگر نہ آئی ہو اور انتہا یہ کہ اب وہ اس بات کی تلاش میں یہاں آتی تھی کہ جان سکے کہ اسے دراصل کس چیز کی تلاش ہے۔


ہر انسان کی طرح اسے بھی زندگی سے بےحد شکایات تھیں۔ اسے لگتا تھا کہ زندگی میں کسی نے اسے اس طرح نہیں سمجھا جس طرح وہ دراصل تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں لوگ نہیں تھے۔ مگر آپ میں سے ہر ایک کی طرح جس ایک کی اسے تلاش تھی وہ ایک نہیں تھا۔ اس کی زندگی میں لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ ہر نئے آنے والے کی آمد پر اسے لگتا تھا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی اسے مدتوں سے تلاش تھے۔ اور کچھ عرصے کے سفر کے بعد اسے لگنے لگتا کہ وہ اس شخص کے بغیر زندگی نہیں گذار سکتی، مگر پھر کچھ عرصے بعد وہ شدید یاسیت میں اس شخص کو اپنے ہاتھ سے الوداع کہہ رہی ہوتی کہ وہ ویسا نہیں ثابت ہو پاتا تھا جیسا اس نے سوچا تھا۔ پھر کچھ عرصے کیلئے وہ سوگ میں ڈوب جاتی اور پھر اس سوگ کے دوران اس کی ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوجاتی جسے دیکھ کر اسے لگتا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی اسے مدتوں سے تلاش تھی۔ تلاش نگر کے دائروں ہی کی طرح اس کی زندگی کا یہ دائرہ وار سفر بھی نجانے کتنی مدت سے جاری تھا۔ اس کی زندگی عملی طور پر


چلتا ہوں دو قدم کو ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں


کی تصویر تھی۔ مگر وہ مسلسل تلاش کے اس سفر سے اکتا چکی تھی۔ وہ اب کچھ دیر سکون کرنا چاہتی تھی۔ زندگی کے خسارے گننا چاہتی تھی۔ اور شاید اس ہی تلاش کے خاتمے کی تلاش میں وہ آج پھر تلاش نگر آنکلی تھی۔ آج پھر ساحل پر لوگوں کا ایک بےپناہ ہجوم تھا۔ سامنے خواہشات کے سمندر میں بہت سے لوگ ڈوب رہے تھے۔ کچھ مزید لوگ اندر جاکر ڈوبنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کچھ ساحل کی ریت کھود کر خزانہ تلاش کر رہے تھے۔ کہیں کوئی شخص، لیڈر کی تلاش میں آئے ہوئے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی عزت نفس کو تلاش کر رہا تھا۔ کہیں کوئی مداری مذہب کی پٹاری کھول کر اس میں سے رنگ برنگی گولیاں نکال نکال کر سکون کے متلاشی لوگوں کو بیچ رہا تھا۔ ہر شخص ہی کسی نہ کسی چیز میں مگن تھا۔


اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور ایک نسبتا خالی کونا دیکھ کر اُدھر جا کر بیٹھ گئی۔ وہ خالی نظروں سے سمندر کو تک رہی تھی۔ آج پہلی بار اسے اس سمندر پر ترس آرہا تھا۔ ساحل پر موجود تمام لوگوں سے زیادہ پرانی تلاش تو اس سمندر کی تھی، جو کڑوروں انسانوں کو نگلنے کے باوجود بھی اپنی تلاش مکمل نہیں کر پایا تھا اور آج بھی ہر نئے آنے والے کو اتنی ہی لالچ سے اپنے پاس بلاتا تھا۔ لہریں آ آکر ساحل پر نووارد کے قدموں میں لوٹ جاتیں تھیں کہ ہم تمہاری غلام ہیں ہمارے پاس آجائو اور جب وہ غریب اس لالچ میں ان کے ساتھ سمندر میں اتر جاتا تھا تو وہ اسے ڈوبنے کیلئے چھوڑ کر کسی نئے آنے والے کے قدموں میں سر پٹخنے لگتی تھیں۔ کبھی کوئی خوش قسمت اگر اس جال میں پھنسنے سے بچ جاتا اور پلٹ جاتا تو یہی لہریں دیوانہ وار اس کا پیچھا کرتیں، ساحل پر آکر سر پٹختیں کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائے۔ اب اگر وہ بیچارہ اس فریب میں دوبارہ آجاتا تو اس التفات اور بے مہری کا کھیل دوبارہ جاری ہوجاتا۔ لہروں کے اس فریب سے اس کی بہت پرانی شناسائی تھی۔ شروع شروع میں وہ روز اس فریب کا نشانہ بنتی تھی، روز سمندر میں اترنے سے پہلے پلٹتی اور پھر روز ایک مختلف نتیجے کی امید لیکر سمندر کی سمت چل پڑتی۔ اس روزانہ کے کھیل نے اسے سکھا دیا تھا کہ فطرت چاہے جس چیز کی بھی ہو، کبھی نہیں بدلتی۔ انسان ہی احمق ہے جو ایک ہی چیز سے ہر مرتبہ ایک مختلف نتیجے کی امید لگاتا ہے اور ہر مرتبہ خود کو یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ اس بار نتیجہ مختلف ہوگا۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ انسان خود بھی اپنی فطرت سے باز نہیں آتا اور فطرتاٗ خود کو یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ آئندہ ایسا نہ کرے گا۔ ایک مسلسل دائرہ ہے جس کے سفر میں یہ چلتا ہے۔ اور کتنے ہی دائرے ہیں جن میں انسان سفر کرتا چلا جارہا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دائرے کے سفر کا حاصل سوائے تھکن کے کچھ نہیں ہوتا۔


شام سے رات ہوگئی تھی، ڈوبنے والے ڈوب چکے تھے، دکاندار اپنی دکانیں سمیٹ چکے تھے، اور خریدار بھی کل نہ آنے کا عہد کرکے واپسی کی راہ لے رہے تھے۔ وہ بھی اب اٹھنا ہی چاہتی تھی کہ ایک شخص آ کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ اس نے چونک کر نئے آنے والے کو دیکھا کیونکہ یہ چیز تلاش نگر کے اصولوں کے خلاف تھی۔ یہاں ہر شخص اپنی خواہش اور اپنی تلاش کے پیچھے بھاگتا تھا۔ یہاں دوسرے سے بات کرنے کا مطلب صرف یہی تھا کہ مخاطب کو آپ سے کچھ چاہیئے۔ برابر میں آکر بیٹھنے والا شخص اس کیلئے بالکل انجان تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں اس نووارد کو دیکھا۔ تلاش نگر میں یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ کوئی شخص اس کے پاس آیا ہو۔ کسی کو اس کے جسم کی خواہش تھی تو کسی کو اس کے ساتھ کی، کوئی ہمدردی کی تلاش میں اس تک آتا تھا تو کوئی کسی دوسری امداد کی تلاش میں۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس شخص کو ان میں سے کس چیز کی تلاش ہے۔


نو وارد گویا اس کے خیالات بھانپ چکا تھا۔ اس نے خود ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں کچھ مانگنے یا لینے نہیں آیا ہوں۔ وہ یہ سوچ کر جھنجھلا گئی کہ شاید یہ کوئی نیا طریقہ واردات ہو۔ تو پھر آپ یہاں کیاں کر رہے ہیں؟؟ کیا آپ تلاش نگر کے بنیادی اصول نہیں جانتے؟؟؟ اس نے بےصبری سے سوالات داغنا شروع کردیئے۔ آنے والے نے مسکرا کر دھیمے لہجے میں کہا، بالکل جانتا ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہیں کس چیز کی تلاش ہے اور وہ چیز کہاں مل سکتی ہے۔ وہ یہ سن کر چونک گئی مگر خود پر قابو پاتے ہوئے بولی، اول تو یہ ایک بالکل ٖفضول بات ہے کہ آپ میری خواہشات جانتے ہوں جبکہ میں خود بھی نہیں جانتی کہ مجھے دراصل کس چیز کی تلاش ہے۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بالفرض محال اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ جانتے ہیں مجھے کس چیز کی خواہش ہے تو آپ میری مدد کیوں کریں گے؟؟ بدلے میں آپ کو مجھ سے کیا چاہیئے؟؟؟ یہ تلاش نگر ہے! یہاں ہر شخص کسی نہ کسی چیز کی تلاش میں ہے، نہ کہ دوسروں کو تلاش میں مدد کرنے کیلئے۔ اپنی راہ لیجئے میں آپ ایسوں کو بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ نو وارد تحمل سے اس کی بات سنتا رہا اور زیادہ تر وقت مسکراتا رہا۔ اس کی بات مکمل ہونے پر وہ بولا، اگر آپ برا نا مانیں تو ہم کچھ دیر ساحل پر چہل قدمی کرلیں؟؟ راستے میں ہو سکتا ہے آپکے سوالات کے جواب بھی مل جائیں؟؟ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ عجیب قبطی انسان تھا۔ کسی بات، کسی غصے، کسی طنز کا اس پر اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔ پھر خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اٹھ کر اس کے ساتھ ساحل پر چلنا شروع ہوگئی۔


کافی دیر تک وہ دونوں خاموشی سے ساحل پر چلتے رہے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑا مگر آنسوئوں کا ایک سیلاب تھا جو مسلسل بہنا شروع ہوگیا۔ اسے خود پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس طرح اپنے کمرے سے باہر بھی رو سکتی ہے؟ وہ بھی ایک اجنبی کے سامنے؟ اجنبی اس دوران مسلسل مسکرا رہا تھا اور اسے یہ مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔ کیا جانتا تھا وہ اس کے بارے میں؟؟ اسے کیا پتہ تکلیف کیا ہوتی ہے؟؟ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کے عزیز ترین لوگوں کو دور کرنے کا دکھ کیا ہوتا ہے؟؟ دوستوں اور غمخواروں کو سب کچھ بتا کر بھی کچھ نہ بتانے اور اندر ہی اندر طوفان پالنے کا کرب کیا ہوتا ہے؟؟ ضبط کیا ہوتا ہے؟ تکلیف کسے کہتے ہیں؟ آزمائش کس چیز کا نام ہے؟؟ وہ کیا جانتا ہے؟؟ کس نے اسے حق دیا کہ یوں مجھ پر ہنس سکے؟؟ اسے اجنبی کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، وہ پوچھ رہا تھا کہ اگر وہ ایک کہانی سننا چاہے؟؟ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی، اجنبی نے کہانی شروع کر دی۔


کسی ملک میں ایک پریشر کوکر رہتا تھا۔ ہر پریشر کوکر کی طرح اس کو بھی اسکے خالق نے یہ صلاحیت دی تھی کہ وہ اپنے اندر بننے والے بھاپ کے دبائو کو محفوظ رکھ سکے تاکہ اس میں موجود اشیاء کو گلنے میں آسانی رہے۔ پریشر کوکر اپنی اس شاندار قوت برداشت سے بہت خوش تھا۔ وقت کے ساتھ وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ اسکے خالق نے اس میں ایک سیٹی بھی لگائی ہے کہ جب اندرونی دبائو برداشت سے باہر ہوجائے تو وہ کچھ دبائو کو باہر بھی نکال سکے۔ وہ کوکر اس سیٹی کو استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ وقت گذرتا رہا اور کوکر اس اندرونی دبائو کو سہتے ہوئے دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ کہانی کے اس موڑ پر آکر اجنبی خاموش ہوگیا۔ وہ جو تھوڑی دیر پہلے تک اس کوکر، اس کوکر سے اپنے تعلق؟ اس اجنبی کے اس کہانی سنانے کے مقصد؟؟ جیسے سوالات کے اندر گم تھی، بےساختہ پوچھ بیٹھی، پھر کیا ہوا؟ اجنبی نے کھوئی ہوئی آواز میں جواب دیا، ہونا کیا تھا، ایک دن وہ کوکر اتنا کمزور ہوگیا کہ معمولی سے دبائو پر ہی پھٹ گیا۔ پھٹ گیا؟؟؟ مگر کیوں؟؟ وہ تو دوسروں کو تکلیف سے بچانے کیلئے اس دبائو کو اپنے اندر دبا کر رکھتا تھا؟؟ وہ ایسے کیسے پھٹ سکتا ہے؟؟؟ اسے اس طرح نہیں پھٹنا چاہیئے تھا؟؟ وہ تو معاشرے کا محسن تھا، محسن کا یہ انجام نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ جذبات کی شدت میں بولے چلی جارہی تھی اور ہر جملے کے ساتھ اس کے دماغ  میں ایک تصویر آرہی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ پریشر کوکر کون تھا۔ وہ چلتے چلتے رک گئی اور رحم طلب نظروں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگی۔ اجنبی ایک بار پھر اس کو دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ اس نے پوچھنا چاہا کہ وہ یہ سب کیسے جانتا ہے مگر چاہ کر بھی وہ صرف یہ پوچھ پائی کہ پریشر کوکر اگر پھٹنے سے بچنا چاہے تو کیا کرے؟؟ کیا محض ایک سیٹی کا استعمال اس کی زندگی کو کھوکھلے کردینے والے روگ ختم کرسکتا ہے؟؟؟ اجنبی نے کہا، سیٹی کا استعمال تو محض ایک علامت ہے، اس بات کی کہ کوکر کو خود اپنی بھی فکر ہے۔ کوکر کو یہ بات یاد رکھنے چاہیئے کہ اگر اسے دنیا سے محبت کرنی ہے تو اسے سب سے پہلے خود سے محبت کرنی ہوگی۔ وہ بیچارہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ سب کو خوش رکھے گا تو سب اسے سے خوش ہوجائیں گے۔ اول تو وہ سب کو خوش رکھ نہیں سکتا، اور دوسرا یہ کہ اگر وہ سب کو خوش کرنے کا خیال ترک کرکے صرف چند لوگوں کو خوش کرنے کا بھی سوچے تو بھی یہ کارِ محال ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ صرف تب ہی خوش ہوتا ہے جب وہ خوش ہونا چاہتا ہے۔ ایک ہی جملہ دو مختلف اشخاص کیلئے دو مختلف ردعمل رکھتا ہے۔ اگر میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ مجھے آپ اچھے نہیں لگتے تو آپ کی کی ہوئی تعریف بھی میرے لیئے گالی ہے جبکہ اگر میں نے تیہہ کرلیا کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں تو آپ کی دی ہویئ گالی بھی مجھے اپنائیت کا ایک انداز لگے گی۔ معاشرے کو خوش کرنے کی کوشش ہمیشہ وقت کا زیاں ہے۔ خود کو خوش کرو! جب تم اندر سے خوش ہوگے تو تمہیں پورا معاشرہ ویسے ہی خوش لگنے لگے گا۔ گویا کہ پچاس ڈگری درجہ حرارت میں تم ایک ائیر کنڈیشن گاڑی میں جارہی ہو۔ باہر کتنی ہی جھلسا دینے والی دھوپ ہو، تمہیں باہر کے سب مناظر دلکش لگیں گے۔ کیوںکہ اس وقت تمہارے گرد کا موسم اچھا ہے۔ اجنبی کا ایک ایک جملہ اس کے سامنے ماضی کی سچائیاں کھول کھول کر رکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے آگے پڑے ہوئے پردے تیزی کے ساتھ اٹھ رہے تھے۔ اس نے ساحل سے منہ پھیر کر اجنبی کی سمت مسکرا کر دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ اجنبی اب تیز قدموں کے ساتھ آگے نکل رہا ہے۔ وہ بھاگ کر دوبارہ اس کے پاس پہنچ گئی۔ شکریہ، آپ نے ایک بالکل سامنے کی بات کا احساس دلا کر میری زندگی آسان کر دی! اس نے ہانپتے ہوئے اجنبی کا شکریہ ادا کیا۔ اجنبی حسب عادت ایک بار پھر مسکرایا اور دوبارہ تیز قدموں سے چل پڑا۔ اس نے ایک بار پھر اجنبی کو آواز دی۔ مگر آپ ہیں کون؟ اور آپ نے یہ سب کچھ مجھے کیوں بتایا؟؟ تلاش نگر میں تو ہر شخص کسی نہ کسی چیز کی تلاش میں ہے، آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟  آپ کس چیز کی تلاش میں ہیں؟ دیکھیں آپ مجھے بتائے بغیر اس طرح یہاں سے نہیں جا سکتے ۔۔۔ اس نے اس مرتبہ اجنبی تک پہنچ کر اس کو بازو سے پکڑ کر گھما دیا ۔۔۔۔ اجنبی ایک بار  پھر مسکرایا مگر اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ میں بے پناہ کرب تھا ۔۔۔۔ اجنبی نے اپنا سر نیچے کیا، اور دھیمے لہجے میں بولا، میں وہ پریشر کوکر ہوں جو بہت پہلے پھٹ گیا تھا۔ اور تلاش نگر میں ایسے کوکر کی تلاش میں آتا ہوں جو پھٹنے کے قریب ہو، اس امید پر ۔۔۔ کہ شاید اسے بچا سکوں!!! اجنبی نے یہ کہتے ہوئے نرمی سے بازو چھڑایااور ایک انجان منزل کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔ اگلے پریشر کوکر کی تلاش میں۔


ختم شد۔


مصنف: سید عاطف علی

4 تبصرے :

  1. عموماً تحاریر پہ جا کر تبصرہ نہیں کیا کرتا۔ شاید یہ پہلی ہو گی یا کوئ ایک آدھ اور ہو بھی تو یاد نہیں۔ خیر اہم یہ نہیں کہ عادت چھوٹی، یقیناً اہم یہ ہے کہ کیوں چھُوٹی۔

    وجہ صاف ظاہر ہے، تحریر کی گہرائ اتنی ہے کہ آپ اسکے اسلوب پر توجہ نہیں دے پاتے اور جب آپ اُس دوران کہیں ایک لمحے کیلئیے سانس لینے کو اُبھرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روانی ہر چیز پر غالب تھی۔

    مبارک قبول کیجئیے اور اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. امتنان بھائی یہ تعریف کہ زمرے میں آئے گا یا حوصلہ افزائی کے؟؟؟ تحریر کے اسلوب میں کوئی کمی رہ گئی؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. مکمل تعریف۔ کمی اسلوب میں نہیں نہ ہی اظہار میں۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت