رمضان آئے بھی اور تقریباُ چلے بھی گئے، عبادت اور اصلاح تک کرنے کا وقت نہیں ملا تو ڈائری لکھنے کا وقت کہاں سے لاتے؟؟ اور وہ قید ہونے والی بات نری افواہ ہے جو کسی حاسد نے اڑائی ہے سو پیاری ڈائری اِس غیر حاضری کو اس قید والی بات سے نہ جوڑا جائے۔ ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ قید ہوں اور بعد میں کسی منصبِ جلیلہ کے حقدار ٹھہریں؟ ان ساری چیزوں کے لیئے قید کے ساتھ ساتھ کسی بڑے لیڈر کا داماد ہونا بھی ضروری ہے، مگر خیر یہ تو ایک سیاسی بات ہوگئی اور ہم جانتے ہیں کہ ڈائری غیر سیاسی ہوتی ہے سو ہم اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
رمضان بھی کیا خوبصورت مہینہ ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی ایمان پانچ دن کیلئے تازہ ہوجاتاہے۔ چھٹے دن البتہ ہماری تراویح اور جذبہ دونوں ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اس چھ دن میں جذبہ ختم ہونے میں ہمارا دوش نہیں ہے، دراصل یہ جو رمضان میں شیطان بند ہوجاتا ہے نا اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر کا انسان آزاد ہوجاتا ہے۔ اور اس انسانی آزادی کا مظاہرہ دفتر سے واپسی، پارکنگ کی جگہ، کاروباری لین دین وغیرہ جیسی ہر چیز کے اندر سامنے آتا ہے کیونکہ ان تمام مواقع پر ہم وہ تمام کام کرتے ہیں جو شیطان کے سان گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قید کی میعاد میں توسیع کی باقاعدہ درخواست بھیج دی ہے۔ اللہ کرے کہ درخواست رد ہوجائے ورنہ انسانوں کا لڑ لڑ کر بہت برا حال ہوجائے گا۔
شیطان پر ایک ماہ کی پابندی والی بات مجھے پتہ نہیں کیوں عجیب سی لگ رہی تھی۔ میں نے بھائی رفیق سے اس بات کا پوچھا کہ کیا واقعی شیطان اس پورا مہینہ بند رہے گا؟ کہنے لگے کہ مجھے کیا پتہ؟ میں اب پیمرا میں کام نہیں کرتا!!! اور یہی سوال جب میں نے چوہدری صاحب سے کیا تو خوب زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ بھائی رمضان میں شیطان قید اور چندہ لینے والے صاحب آزاد ہوجاتے ہیں؟ مجھے پتہ تھا کہ چوہدری صاحب کی نظر میری طارق روڈ والی دکان پر ہے اور وہ مجھ پر توہینِ مذہب وغیرہ جیسی کوئی چیز لگوانے کیلئے ایسی فتنہ پرور باتیں کر رہے ہیں سو میں نے فورآ وہاں سے روانگی اختیار کی اور مسجد میں جاکر دو رکعت صلوٰت التوبہ ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوا تو مولوی صاحب سے ملاقات ہوگئی، ان سے پوچھا کہ روزے میں کن چیزوں کی اجازت ہے اور کن چیزوں کی ممانعت؟ تو ایک آنکھ دبا کر بولے، شراب اور شباب سے تو ویسے بھی پرہیز لازم ہے، کباب کی البتہ اجازت ہے۔ میں نے جلدی سے ان سے ہاتھ ملایا اور یہ کہہ کر نکل آیا کہ قبلہ، شراب کو میں منہ نہیں لگاتا اور شباب مجھے منہ نہیں لگاتا ۔۔۔۔ لے دے کر ایک کباب بچا ہے سو اس کیلئے بس افطار کا انتظار ہے، انشاءاللہ کسی بچے کے ہاتھ آپ کیلئے بھی بھجوا دوں گا۔
تو پیاری ڈائری! میں بتا رہا تھا کہ رمضان بھی کیا خوبصورت مہینہ ہے، مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد اس مبارک مہینے کے اختتام پر عید مناتی ہے جبکہ مسلمانوں کی باقی کثیر تعداد جس میں اجناس سے لیکر انٹرٹینمنٹ تک کے تمام تاجر شامل ہیں، اپنی عید اس ہی ماہ میں منا لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو بازار کا ایک چکر یا ابھی ٹیلی ویژن لگا کر دیکھ لیں۔ نہ صرف پتہ لگ جائے گا بلکہ قوی امکان ہے کہ لگ پتہ جائے گا۔ بازار میں قیمتیں سن کر لگتا ہے کہ ہم کسی زرعی ملک میں نہیں بلکہ براعظم افریقہ کے کسی قحط زدہ معاشرے میں جی رہے ہیں اور ٹیلیویژن پر عوام جس طرح تحفوں پہ لڑ مر رہی ہوتی ہے اس سے لگتا ہے کہ بہت جلد ہماری بھوک سے متاثر ہوکر افغانستان اور ایتھوپیا بھی ہمیں امداد بھجوا رہے ہونگے۔ اور ایسے میں اگر ایک میزبان اپنے پروگرام میں آئے ہوئے قحط زدہ انسانوں کو کچھ کھلانے کی کوشش کرلے تو یہ سوشل میڈیا والے الٹا اس ٖغریب کو نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ جیب پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، ان بیچاروں میں سے کسی ایک کی شکل بھی اس قابل تھی کہ وہ بازار سے خود خرید کر آم کھا سکتا؟ مجھے کامل یقین ہے کہ یہ جتنے لوگ لیاقت بھائی کے بیٹے پر فقرے کس رہے ہیں، یہ سب وہ ہیں جن کو اس پروگرام کے پاس نہیں مل سکے اور اب وہ اس بات کی بھڑاس انٹرنیٹ پر نکال رہے ہیں۔ خیر ہمیں کیا، ہم تو کل ٹیلیویژن پر بھی آئے اور الٹا لٹک کر بندر کی آواز نکالنے کا مقابلہ جیت کر ایک موبائل سیٹ اور ایک موٹر سائکل بھی جیت لائے۔ موبائل تو خیر ہم نے استعمال کیلئے رکھ لیا ہے البتہ موٹر سائکل کی ہمیں ضرورت نہیں تھی سو ہم نے رمضان میں نیکی کمانے کا موقع حاصل کیا اور سود کے ساتھ قسطوں پر اپنے ملازم کو بیچ دی۔ اگلے تین سال تک اب اس کمبخت کی تنخواہ کی کھٹ پٹ سے تو جان چھوٹی۔
خیر، اب مجھے اجازت دو، افطار کا وقت ہوگیا ہے اور میں کل کی طرح افطار سے محروم نہیں رہنا چاہتا، بندہ روزہ رکھے نہ رکھے کم سے کم افطار کے ثواب سے تو محروم نہ ہو۔ کل تھوڑی دیر سے دستر خوان پر پہنچا تو سب کچھ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے پوچھا افطاری کا جو اہتمام ہوتا تھا وہ کیا ہوا؟ بابا نے جواب دیا وہ تو افطار ٹرانسمیشن کھاگئی!!! بات کچھ سمجھ تو نہیں آئی مگر شائد پوری قوم میں سے کسی کی بھی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی ہے سو میں اکیلا سمجھ کر کیا کرلوں گا؟؟
والسلام،
حاجی زبان دراز رنمازی و روضوی!!!
ماشا اللہ۔ زورِ بیان کی ترقی نصیب رہے۔ عُمدہ بُنت اور پیرایہ۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت مزے کالکھا ہے آپ نے میٹھی چھری سے قوم کے زخموں کو کریدا ہے
جواب دیںحذف کریں