اتوار، 31 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 14

پیاری ڈائری!

تمہیں تو معلوم ہے کہ کل سے گھر میں دادی آئی ہوئی ہیں سو تمام تر مصروفیات موقوف ہیں۔ انسان کتنا بھی بڑا ہوجائے بزرگوں کے نزدیک ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔ دادی کے نزدیک بھی ہم بہن بھائی اب تک بچے ہی ہیں۔ ان کی یہ ہر وقت کی بزرگی بچپن میں کھَلتی تھی مگر نوجوانی میں آکر اس ہی بزرگی کی قدر ہوگئی ہے کہ کچھ ہی تو رشتے ہیں جو بدلے کی پرواہ کیئے بغیر سراسر خلوص ہوتے ہیں۔ وہی ڈانٹ ڈپٹ جو بچپن میں ایک بوجھ لگتی تھی اب اس احساس میں بدل چکی ہے کہ صحیح غلط برطرف، یہ بزرگ اپنے تئیں ہماری بہتری کیلئے ہی ہمیں ٹوکتے ہیں ورنہ باقی دنیا نے تو گویا نپولین کے اس قول کو حدیث ہی سمجھ لیا ہے کہ دشمن کو غلطی کرتے دیکھو تو ٹوکو مت!!

کل سے دادی گھر میں ہیں اور موبائل اور انٹرنیٹ گھر سے باہر۔ شاید اس ہی وجہ سے کل بہت مدت بعد کھانے کی میز پر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی۔ کھانے کی میز پر اکٹھا ہونے والی یہ کہانی بھی خوب رہی کہ کل جب کھانا لگا اور حسب معمول امی کا واٹس ایپ پر میسج آیا کہ کھانا کھا لو تو میں اسے نظر انداز کرکے دوبارہ ٹوئیٹر پر مشغول ہوگیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل پر ایک نہایت دلچسپ مکالمہ جاری تھا۔ میں ابھی اپنی جوابی ٹوئیٹ بھیجنے ہی لگا تھا کہ اچانک وائے فائے بند ہوگیا۔ میں وائے فائے رائوٹر کو کوستا ہوا نیچے اترا تو دیکھا کہ وائے فائے کا تار نکلا ہوا ہے اور دادی صاحبہ بہت اطمینان سے اسے ہاتھ میں پکڑے کھڑی ہیں۔ میں نے التجائیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر کاندھے اچکا دیئے۔ پانچ منٹ میں گھر کے تمام افراد کھانے کے کمرے میں جمع تھے کیونکہ بدقسمتی سے وائے فائے رائوٹر بھی اس ہی کمرے میں موجود تھا۔ دادی اماں نے فیصلہ سنا دیا کہ بہو نے مجھے سب بتا دیا ہے! کھانے کے اوقات میں یہ نگوڑ مارا بند ہی رہے گا، غضب خدا کا! ایک گھر میں رہتے ہوئے تم لوگ کھانے کی میز تک پر اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ کچھ ان سیاستدانوں سے ہی سبق سیکھ لو جو کھانے کے وقت تمام چیزیں بھلا کر ایک میز پر جمع ہوجاتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ

 دادی اس مرتبہ کئی سال بعد آئی ہیں اور ان کے آنے کے بعد سے ہم گھر والوں پر حیران کن انکشافات کا ایک حسین سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کل سے اب تک مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر موبائل فون ایک طرف رکھ کر کھانا کھایا جائے تو امی نہایت لذید کھانا بناتی ہیں۔ نیز زندگی ٹوئیٹر اور فیس بک کے بغیر بھی گزاری جاسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اگر گھر میں گھر والوں کو وقت دیا جائے تو انسان کو انٹرنیٹ پر منہ بولے رشتے بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ خدا کے بنائے ہوئے رشتے اپنے آپ میں خود ہی بہت حسین ہیں۔

کل تو دادی بہت تھکی ہوئی تھیں سو جلدی ہی سوگئیں مگر آج ہم بہن بھائیوں نے دادی کو گھیر لیا اور کہانی کی فرمائش کردی۔ بچپن میں ہم دادی سے روز کہانی سنا کرتے تھے اور اس وقت کی حسین یادیں ہم سب ہی دہرانا چاہتے تھے۔ پہلے تو دادی نے ٹال مٹول سے کام لیا کہ، اے نوج! اتنے بڑے گھوڑے ہو رہے ہو سب کے سب۔ اب اس عمر میں جن، پریوں اور شیر، بندر کی کہانیاں سنتے ہوئے  اچھے لگو گے؟ مگر ہماری مسلسل ضد کے آگے بالآخر دادی نے ہتھیار ڈال ہی دیئے اور بندر اور بلیوں کی وہی کہانی سنادی جسے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ کہانی کے مطابق تین بھوکی اور ندیدی بلیوں کے ہاتھ کہیں سے تین روٹیاں لگ گئیں۔ اصولی طور پر تو ان بلیوں کو ایک ایک روٹی بانٹ کر کھالینی چاہیئے تھی مگر چونکے وہ بھوکی کے ساتھ ساتھ ندیدی بھی تھیں تو تینوں ہی ان روٹیوں پر لڑ پڑیں کہ کس کو کتنا حصہ ملنا چاہیئے۔ قریب بیٹھا ایک بندر جو پچھلے پانچ سال سے بھوکا تھا یہ سب کاروائی دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تینوں بلیاں بلا کی جذباتی اور پرلے درجے کی احمق ہیں۔ ویسے بھی شیر ہو، چیتا ہو یا بلی، عقل تو تینوں میں جانور والی ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک بندر کا تعلق ہے تو بقول ڈارون یہ وہ انسان ہیں جو ارتقاء کے عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں اور انشاءاللہ کچھ عرصے بعد یہ بھی انسان بن ہی جائیں گے۔ سو بندر نے اپنی تقریباؔ انسانی عقل کا استعمال کرتے ہوئے ان تینوں بلیوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ان کے بیچ ثالثی کروا سکتا ہے۔ بلیاں ہنسی خوشی راضی ہوگئیں۔

بندر نے روٹیاں ایک کے اوپر ایک رکھیں اور ان کے تین ٹکڑے کر  دیئے۔ ٹکڑے کرنے کے بعد بندر نے افسوس سے سر ہلایا کہ ایک ٹکڑا تھوڑا بڑا رہ گیا تھا۔ انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے بندر نے اس بڑے ٹکڑے میں سے ایک ٹکڑا توڑا اور بلیوں سے اجازت چاہی کہ چونکہ یہ ٹکڑا اضافی ہے اور ان کے درمیان فساد کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا یہ ٹکڑا اسے کھانے دیا جائے۔ بلیوں کی نظریں بڑے ٹکڑوں پر تھیں اور اتنا سا ٹکڑا لینا تو بہرحال بندر کا بھی حق تھا کہ وہ ثالثی جیسا کارِخیر انجام دے رہا تھا سو بلیوں نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ بندر نے روٹی کا ٹکڑا کھایا اور اب باقی روٹیوں کی طرف متوجہ ہوا جہاں اب دو بڑے ٹکڑے اور ایک چھوٹا ٹکڑا اس کا منتظر تھا۔ اس مرتبہ دونوں بڑے ٹکڑوں سے انصاف کیا گیا اور اضافی ٹکڑے ایک مرتبہ پھر بندر کے ہی حصے میں آئے۔ روٹیوں میں سے یہ چھوٹی چھوٹی کٹوتی کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ تینوں روٹیاں بندر کے پیٹ میں چلی گئیں اور بلیاں آخر میں ایک دوسرے کی شکل دیکھتی رہ گئیں۔

دادی تو کہانی سنا کر سو گئیں اور اب میں ان کے برابر میں بیٹھا یہ ڈائری لکھتا ہوا سوچ رہا ہوں کہ کاش ان بلیوں کی بھی کوئی دادی ہوتیں جو یہ ہزار مرتبہ سنی ہوئی کہانی انہیں بھی سنا دیتی کہ بلیوں کی آپس کی لڑائی میں بندر کو الجھانے سے فائدہ صرف بندر کا ہوتا ہے۔

والسلام

زبان دراز

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت