منگل، 21 اکتوبر، 2014
بےربط نظم
میرے مضمون بیاں کرتے تهے سربستہ راز
ان پہاڑوں کے، نظاروں کے، کہن سالہ راز
زیست کے، موت کے، افلاک کے، پیچیدہ راز
صبح کے، شام کے، ہر رات کے، خوابیدہ راز
میں وہ شاعر تها کہ الفاظ میری باندی تهے
میں نے چاہا جو لکها، لکهتا گیا، لکهتا گیا
ہاں مگر ایک خلش، ایک خلش، ایک خلش
وہ جو اک بات کبهی تم سے بیاں کرنی تهی...
- عاطف علی
ہفتہ، 11 اکتوبر، 2014
نفسیاتی
"عجیب نفسیاتی عورت ہیں آپ۔ نجانے کون لوگ ہیں جو ممتا کے قصیدے اور مائوں کی بےپناہ محبت کے فسانے ہر وقت الاپتے رہتے ہیں۔ مجھے تو آپ سے کبھی بھی سوائے سرد مہری کے کچھ نہیں ملا۔ یا تو وہ تمام لوگ جھوٹے ہیں یا آپ میں ہی کچھ کھوٹ ہے۔ یا پھر میں آپ کا خون نہیں بلکہ لےپالک بیٹا ہوں جو کبھی بھی آپ کی الفت کا حق دار نہیں بن سکتا۔" میں آج پھر دن بھر کا غصہ امی پر چنگھاڑ کر نکال رہا تھا اور وہ روز ہی کی طرح خاموش لیٹی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سن اور بول نہیں سکتی تھیں؛ مگر مجھے یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہوتی تھی۔ جس سفاکی کے ساتھ وہ میری باتوں پر مسکراتی تھیں، مجھے لگتا تھا کہ وہ سن اور بول دونوں سکتی ہیں مگر صرف مجھے زچ کرنے کیلئے اس طرح خاموشی سے لیٹی رہتی ہیں۔
کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ ایک کھیل سمجھ کرکرتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں غصہ کروں، چلائوں، اور آخر میں زچ ہوکر روپڑوں اور اس طرح وہ مجھے احساس دلائیں کہ میں اب بھی وہی چھوٹا سا بچہ ہوں جو بات بات پر ضبط کھو بیٹھتا تھا۔ جو ان کی زرا سی ناراضگی پر اس وقت تک رویا کرتا تھا جب تک وہ خود اسے اپنی ممتا کی آغوش میں نہ چھپا لیتیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں اتنا بڑا ہونے کے بعد بھی ان کے ساتھ بچوں ہی کی طرح برتائو کروں۔ ان کے آگے پیچھے گھوموں۔ اپنی ہر ضرورت کو ان سے جوڑ کر رکھوں۔ ان کے گلے میں جھولتا رہوں۔ ان سے فرمائشیں کروں۔ ناز دکھائوں اور لاڈ اٹھوائوں۔ ان کو دیکھتے ہی پہلے جیسا بچہ بن جائوں۔ مگر امی کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اب میں بچہ نہیں رہا ہوں! اب میں انتیس سال کا جوان ہوں۔
اور یہ چیزیں تو میں نے اس وقت بھی نہیں کی تھیں جب میں واقعتاّ بچہ تھا۔ یہ نہیں کہ مجھے ان سب چیزوں کا شوق نہیں تھا، بات صرف اتنی تھی کہ امی بہت سفاک عورت تھیں۔ ایک تو میرے بچپن میں ہی مرگئیں اور دوسرا جاتے ہوئے میرا بچپن بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔ اوراب، پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی میں ان کی قبر پر بیٹھا انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ ان کی یہ خواہشات فضول ہیں اور چونکہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے چلی گئی تھیں لہٰذا میں چاہ کر بھی ایسے انسان سے محبت نہیں کرسکتا جس کو میں نے اپنے مکمل عقل و ہوش کی حالت میں نہ دیکھا ہو یا جس کے ساتھ میں نے وقت نہ گزارا ہو۔ اور پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی امی قبر میں لیٹی میری باتیں سن کر ایسے مسکرا رہی ہیں جیسے انہیں میری باتوں کا یقین ہی نہ ہو۔ عجیب نفسیاتی عورت ہیں۔
جمعرات، 9 اکتوبر، 2014
زبان دراز کی ڈائری - 20
پیاری ڈائری!
کیا لکھوں اور کس طرح لکھوں؟ لکھنے بیٹھتا ہوں تو یادوں کے بےشمار جھروکے ایک ساتھ کھل جاتے ہیں اور پھر میں چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ پاتا۔ بیٹے کی تدفین کو بھی آج تین دن ہونے کو آرہے ہیں اور اتنے ہی دن مجھے جاگتے ہوئے بھی گزر چکے ہیں۔ جوان بیٹے کی لاش اٹھانا کوئی معمولی بات ہے؟ میں نے کب سوچا تھا کہ جس بیٹے کو میں بڑھاپے کا سہارا سمجھتا رہا ہوں ایک دن خود مجھے ہی اس کو سہارا دیکر آخری آرام گاہ تک لے جانا پڑے گا؟ گزشتہ تین دن میں مجھ پر تین صدیاں گزر گئی ہیں۔ درد، دکھ اور آنسوئوں سے بھری تین صدیاں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے میری بے بسی نے بوڑھا کردیا ہے۔
آج سے تین دن پہلے سب کچھ کتنا پرسکون تھا! عید الاضحیٰ تھی اور ہم دونوں باپ بیٹے نے مل کر سنتِ ابراہیمی ادا کی تھا۔ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد میری تھکن کا خیال کرتے ہوئے میرے بیٹے نے گوشت بانٹنے کیلئے خود جانے کا اعلان کردیا۔ کچھ ہی دن پہلے میں نے اسے نئی موٹر سائیکل دلائی تھی اور آج کل وہ اسے چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ گوشت لیکر گھر سے نکلا اور پھر ایک گھنٹے بعد بیٹے کے موبائل سے فون آگیا جس پر کوئی انجان شخص ہوم کے نام سے محفوظ اس نمبر پر کال کرکے گھر کے کسی بڑے فرد کو شہر کے ایک مشہور ہسپتال بلوا رہا تھا۔
پہلے تو میں اسے ایک بھونڈا مذاق سمجھا مگر پھر یاد آیا کہ آج یکم اپریل نہیں ہے اور بیٹے کے تمام دوست یہ بات جانتے ہیں کہ میں ایک سابقہ وزیر اعظم کے پروٹوکول پر متعین پولیس والا ہوں اور اس قسم کے مذاق کے نتائج بہت سنگین بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا اس بھونڈے مذاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ میں نے گاڑی نکالی اور اڑاتا ہوا ہسپتال پہنچ گیا جہاں گوشت بانٹنے کے لیئے نکلنے والے میرے معصوم بیٹے کی لاش میری منتظر تھی۔
لوگوں نے بتایا کہ راستے میں اس کی مڈ بھیڑ کسی پولیس والے سے ہوگئی تھی جہاں معمولی سی تلخ کلامی کے بعد اس پولیس والے نے میرے بیٹے پر فائر کھول دیا تھا اور اس کے نتیجے میں میرا جوان بیٹا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس وقت تو سب سے اہم چیز بیٹے کی تجہیز و تکفین تھی سو میں نے اس پولیس والے کا معاملہ ایک دو دن کیلئے موخر کر دیا اور بیٹے کا جسدِ خاکی لیکر گھر آگیا۔ ویسے بھی میں فوری طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا کیونکہ اس پولیس والے کو ڈپارٹمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور میں حوالات کے اندر اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
تجہیز و تکفین اور پھر سوئم سے فارغ ہوکر میں متعلقہ تھانے پہنچ گیا اور انسپکٹر کے کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔ تھانے کا انسپکٹر میرا پرانا اور جگری دوست تھا لہٰذا مجھے امید تھی کہ مجھے کام کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ہم دونوں نے اس سے پہلے بھی افسرانِ بالا کے کہنے پر کئی جعلی پولیس مقابلے بھگتائے تھے، پھر یہ تو میرے اپنے بچے کے خون کا معاملہ تھا۔ قاتل ہمارا پیٹی بھائی سہی مگر تھا تو بہرحال میرے بیٹے کا قاتل؟ وہ کسی قسم کی رعائت کا مستحق نہیں تھا۔
انسپکٹر کہیں رائونڈ پر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر مجھے اپنے کمرے میں دیکھ کر پہلے تو وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکا مگر پھر زبردستی مسکراتے ہوئے میرے گلے لگ گیا۔ میں اس کی گھبراہٹ نما سردمہری کو نظر انداز کرتے ہوئے ابھی تمہید باندھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے دبی ہوئی آواز میں مجھے بتادیا کہ میرا مطلوبہ آدمی اس وقت تھانے میں موجود نہیں ہے۔ میں نے بےساختہ مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ تالی مارنے کیلئے آگے کردیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کا شکریہ ادا کروں کے اس نے میری راہ ہموار کردی تھی مگر اس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اپنی جانب گھسیٹا اور اس ہی دبی ہوئی آواز میں بولا کہ جو ہوا سو ہوا، اب مجھے اس معاملے کو بھول جانا چاہیئے۔
میں حیران ہوکر اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں ایک سابقہ وزیرِ اعظم کی پروٹوکول ٹیم کا حصہ ہوں اور اگر چاہوں تو صاحب سے کہہ کر آج ہی اس کی وردی بھی اتروا سکتا ہوں۔ میرے بیٹے کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ اتنے آرام سے معاف کردیا جاتا۔ میں، جو اپنے صاحب کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی شخص تک کی جان لینے کیلئے مشہور تھا، خود اپنے بیٹے کے قاتل کو زندہ گھومنے دوں؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انسپکٹر نے رحم آمیر نظروں سے میری طرف دیکھا اور کرسی کی پشت پر ٹیک لگاتے ہوئے بولا، دوست! تم کسی سابقہ وزیرِ اعظم کے پروٹوکول پر ہو یا سابقہ صدرِ مملکت کے؛ جس بندے پر تم ہاتھ ڈالنا چاہ رہے ہو وہ ایک موجودہ وزیر اعظم کے پروٹوکول اسٹاف کا حصہ ہے! کر لو جو کرسکتے ہو!!!
پیاری ڈائری! تم خود ہی بتائو کہ میں کیا کرتا اور کیسے کرتا؟ کل سے اب تک ماضی کے تمام کارنامے آنکھوں کے آگے گھوم رہے ہیں اور میں چاہ کر بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پارہا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے میری بے بسی نے بوڑھا کردیا ہے۔
تمہارا
زبان دراز
مریض - 2
نوٹ: یہ مصنف کی ذاتی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔ کسی بھی فرد سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی اور مصنف اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوگا۔
میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔
میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ جیسا ہی ایک عام سا انسان تھا۔ عام سی زندگی بسر کرتا تھا اور عام آدمیوں ہی کی طرح گمنام تھا۔ پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ اتنی بڑی اس دنیا میں میری اپنی کوئی شناخت نہیں تھی! میری زندگی میں کوئی قابل ستائش یا قابلِ ذکر چیز موجود نہیں تھی۔ لوگ اگر میرے بارے میں بات کرتے بھی تو کیوں؟ اور بات کرتے بھی تو کیا؟
ذات کے اس ادراک کے بعد میری زندگی اجیرن ہوگئی۔ اب اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی غم کھاتا رہتا تھا کہ میرے ہونے نہ ہونے سے دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر میں آج ہی مر گیا تو کتنے لوگوں کو پتہ ہوگا کہ عاطف علی نام کا کوئی شخص بھی تھا؟ جس کی واحد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ یہ سوچیں بہت تیزی سے مجھے قنوطیت کی طرف لے جا رہی تھیں۔ میرے گنے چنے دوست بھی اب مجھ سے کترانے لگے تھے۔ میں اگر کسی محفل میں جا نکلتا تو مجھے دیکھتے ہی لوگ سراسیمہ ہوجاتے۔ گفتگو ختم ہوجاتی۔ سب لوگ میری طرف دیکھنے لگتے کہ کب میں جائوں اور وہ دوبارہ اپنی گفتگو شروع کرسکیں۔ میں پاگلوں کی طرح ان کی شکلیں دیکھتا اور انتظار کرتا کہ وہ کوئی بات کریں مگر میرا انتظار ہمیشہ ہی بےکار جاتا۔ ہوتے ہوتے میں نے احباب کی محافل میں جانا بھی چھوڑ دیا۔
دوستوں سے مایوس ہوکر میں نے عشق کے کارزار میں اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک خیالی محبوبہ چنی اور اپنے خیالات میں ہی اسے شادی کا پیغام بھی بھیج دیا۔ اس نے بھی میرے خیالات میں ہی چپل اتاری اور میرے سر پر برسانا شروع کردی۔ میں گھنٹوں اس سے پٹتا رہا اور اس دن کے بعد سے اس تصوراتی عشق کی یاد میں پچھاڑیں کھانا شروع کردیں۔ اٹھتے بیٹھتے، صبح شام اب میں اس تصوراتی حسینہ کے فراق میں ٹھنڈی آہیں بھرتا اور پنکج اداس کے گانے سنا کرتا تھا۔ زندگی اب میرے لیئے ایک بوجھ بن چکی تھی اور اب میں موت کو اس زندگی سے بہتر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
میں گھر سے زہر خریدنے کیلئے نکلا تو راستے میں چند دوست دکھ گئے۔ خلاف معمول جب میں بغیر کچھ کہے سنے ان کے برابر سے گزرا تو انہیں بھی تشویش ہوئی اور انہوں نے مجھے روک کر خیریت دریافت کرلی۔ آنسوئوں کے بیچ میں میں نے انہیں اپنی زندگی کے آلام و مصائب اور تازہ ترین محبت میں ناکامی اور اس کے لازمی نتیجے میں خودکشی کا قصہ سنا ڈالا۔ پہلے تو وہ سب خاموشی سے میری بات سنتے رہے مگر جیسے ہی میں خاموش ہوا انہوں نے ہنسی کے فوارے اڑا دیئے۔ ہنس ہنس کر ان کمینوں کا برا حال ہوگیا تھا۔ کوئی کہیں لوٹ رہا تھا اور کوئی اپنا پیٹ پکڑ کر دوہرا ہو رہا تھا۔ میں نے ان سب کمینوں پر لعنت بھیجی اور زہر لینے کیلئے بازار آگیا۔
میں دکھے دل کے ساتھ مارکیٹ سے کتا مار دوائی خرید کر گھر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ میرے کمینے دوستوں نے میری داستان بازار میں سب کو سنادی تھی اور اب بازار کے تمام دکان دار اپنا کام کاج چھوڑ کر میرے اوپر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان سب کی نظروں میں میرے لیئے حقارت تھی۔ وہ میری زندگی اور میرے ہر وقت کے رونے پر ہنس رہے تھے۔
دل تو کیا کہ آگے بڑھ کر ان کا منہ نوچ لوں مگر پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا اور میں من اندر ہی ان تمام لوگوں پر ہنسنا شروع ہوگیا۔ ان بیچاروں کو احساس نہیں تھا کہ مجھ پر ہنس کر وہ میری اس ناکام جوانی کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ مجھے ایک خاص آدمی بنا رہے ہیں۔ وہ خاص آدمی، جو ان جیسا ہی عام تھا مگر اب اتنا عام نہیں رہا تھا کہ اس کے بارے میں بات نہ کی جائے!! میں دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنستا ہوا گھر آگیا۔ اب مجھے خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں سوشل میڈیا پر دن رات روتا پیٹتا رہتا ہوں، اپنے خود ساختہ مصائب پر گریہ کرتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں، پھر ہنستے ہنستے زچ ہوجاتے ہیں اور گالیوں پر اتر آتے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کا برا نہیں مانتا۔ برا کیوں مانوں؟ کسی بھی بہانے سے سہی، اب جو بھی بات ہوتی ہے، ہوتی تو میرے متعلق ہی ہے نا؟
جمعرات، 2 اکتوبر، 2014
19 - زبان دراز کی ڈائری
پیاری ڈائری!
زندگی عجیب مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔ میرے دفتر کے احباب صحیح کہتے تھے کہ یہ مطالعے کی عادت ہی مجھے مروائے گی۔ پچھلے چار دن سے چھپتا پھر رہا ہوں کہ اگر کسی کو میرے محل وقوع کا پتہ چل گیا تو بڑی عید سے پہلے ہی میری بوٹیاں کردی جائیں گی۔
معاملہ بظاہر اتنا بڑا تھا نہیں جتنا اب بن چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم نے بدقسمتی سے کہیں حضرت عبداللہ بن مبارک کے حج کی داستان پڑھ لی تھی جس کے مطابق حضرت عبداللہ ابن مبارک ایک دن حرم کعبہ میں سو رہے تھے کہ خواب میں دو فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا۔ حرم میں پہنچ کر وہ دونوں فرشتے آپس میں بات چیت کرنے لگے۔ پہلے فرشتے نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنے لوگ حج کرنے آئے تھے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ کم و بیش چھ لاکھ ۔ پہلے نے پھر پوچھا، ان میں سے کتنے افراد کا حج مقبول ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا، مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حج قبول ہونے والا تھا۔
فرشوں کی یہ گفتگو سن کر عبداللہ ابن مبارک سوچ میں پڑگئے کہ اے اللہ! حج تو اس سال میں نے بھی کیا تھا۔ میرے علاوہ اور بھی نجانے کتنے لوگ تھے جو کتنے پہاڑ اور سمندر اور موسم کی سختیاں و دیگر مصائب عبور کرکے تیری رضا اور تیرے گھر کی زیارت کیلئے حج کرنے آئے تھے۔ مالک! تو کبھی کسی کی محنت کو اس طرح رائگاں نہیں کرتا۔ کیا واقعی ہم تمام لوگ نامراد ٹھہرائے جائیں گے؟
عبداللہ ابن مبارک ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پہلے فرشتے کی آواز دوبارہ ابھری جو دوسرے فرشتے سے کہہ رہا تھا کہ دمشق شہر میں علی بن المَفِق نامی ایک موچی رہتا ہے۔ وہ اس سال حج پر تو نہیں آسکا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کی حج کی نیت قبول کرلی ہے بلکہ اس کی نیت کے صدقے ان تمام چھ لاکھ حجاج کی عبادت کو بھی منظور کرلیا ہے۔ عبداللہ ابن مبارک کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے صبح ہوتے ہی دمشق کا قصد کیا کہ جاکر خدا کی اس برگزیدہ ہستی سے ملیں جس کی صرف نیت میں اتنا خلوص تھا کہ وہ چھ لاکھ افراد کے عمل کو مقبول کرواگئی۔
عبداللہ ابن مبارک دمشق پہنچے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے علی بن المفِق کے گھر پہنچ گئے۔ عبداللہ ابن مبارک اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالم اور مشہور فقیہہ تھے۔ علی بن مفق آپ کا نام سنتے ہی حیران ہوگیا کہ وقت کا اتنا بڑا فقیہہ میرے دروازے پر کیا کررہا ہے؟ آپ نے اسے تسلی دی اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ حج پر جانے کی نیت رکھتے تھے؟ علی بن مفِق نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ وہ پچھلے تیس سال سے اپنی محنت کی حلال کمائی سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر حج پر جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس سال اس کے پاس اتنا اسباب جمع ہوگیا تھا کہ وہ حج پر جاسکے مگر چونکہ خدا کو منظور نہیں تھا سو میں چاہ کر بھی اپنی نیت کو عملی جامہ نہیں پہنا پایا۔
عبداللہ ابن مبارک نے اس کی باتوں سے اس کی دل کی سچائی بھانپ لی تھی مگر اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس موچی میں ایسی کیا بات تھی جس کی بنیاد پر اس سال کے تمام حجاج کا حج محض اس کی وجہ سے قبول ہوا؟
عبداللہ ابن مبارک نے علی بن مفق سے سوال کیا کہ وہ حج پر کیوں نہ جا سکا؟ علی بن مفق اپنے جانے کی وجہ نہیں بیان کرنا چاہتا تھا۔ اس نے عبداللہ ابن مبارک کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی اور کہا، چونکہ مرضی خدا نہیں تھی۔ عبداللہ ابن مبارک اس کا جواب سن کر مسکرائے اور اپنا سوال پھر دہرا دیا۔ عبداللہ ابن مبارک کے پیہم اصرار پر علی بن مفق نے بتایا کہ حج پر جانے سے پہلے وہ اپنے ایک پڑوسی سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس کے گھر دسترخوان بچھا ہوا تھا اور تمام گھر والے کھانے کیلئے بیٹھے تھے۔ علی بن مفق نے سوچا کہ آدابِ میزبانی کے تحت وہ پڑوسی انہیں کھانے کی دعوت دے گا مگر اس شخص نے علی بن مفق کو دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدوہ گویا ہوا کہ اے علی میں آپ کو کھانے پر ضرور دعوت دیتا مگر میں مجبور ہوں۔ پچھلے تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے اور آج جب مجھ سے بچوں کی بھوک دیکھی نہ گئی تو میں کچرے کے ڈھیر میں پڑی ایک گدھے کی لاش سے گوشت لیکر آگیا کہ اپنے بچوں کی بھوک مٹائوں۔ میں تو انتہائی بھوک سے مجبور ہوں لہٰذا یہ مردار گوشت مجھ پر حلال ہے مگر یہ گوشت اور یہ کھانا چونکہ آپ کیلئے حرام ہے لہٰذا میں آپ کو اسے کھانے کی دعوت نہیں دے سکتا۔
علی بن مفق نے کہا کہ یہ سن کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں گھر گیا اور جمع پونجی کے تمام تین ہزار درہم لاکر اس پڑوسی کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ وہ اس سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرلے۔ میں نے وہ تین ہزار درہم بھوک برداشت کرکے حج کیلئے جمع کیئے تھے مگر مجھے لگا کہ اس بندہ خدا کو اس وقت ان پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حج کرنے کی میری بےپناہ خواہش آج بھی زندہ اور اگر اللہ کریم نے چاہا تو وہ مجھے ضرور حج پر بلالے گا۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مبارک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے علی بن مفق کو اپنے خواب کا مکمل احوال سنا دیا۔
کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم نے یہ داستان پڑھی تو سوشل میڈیا پر یہ مہم شروع کردی کہ قربانی بالکل ایک فریضہ ہے مگر اسراف فرض نہیں بلکہ حرام ہے۔ خدا نے اگر استطاعت دی ہے تو ضرور قربانی کریں، مگر پچاس بیل اور دو سو بکرے خریدنے کے بجائے اگر ایک بیل یا ایک بکرا اللہ کے راستے میں قربان کرکے فریضہ ادا ہوسکتا ہے تو باقی پیسے ان محتاجوں پر خرچ کردیں جو سفید پوش ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے؟
ہماری یہ مہم ملک بھر میں ہر سطح پر بےحد مقبول ہوئی۔ عوام کی سطح پر اسے بطور اسلامی عبادات پر تنقید کے پذیرائی ملی۔ کاروباری طبقے کی سطح پر اسے بطور پیٹ پر لات اور چمڑے کی صنعت سے دشمنی کے پذیرائی ملی۔ سیاست دانوں کی سطح پر اسے کھال کا مال چھیننے کی ترکیب کے طور پر سراہا گیا۔ اور آخر میں پولیس کی سطح پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور دفعہ 295 اور اس کی چند ذیلی دفعات کی خلاف ورزی کے طور پر پہچانا گیا۔ اور ان سب پذیرائیوں کا حاصل حصول یہ نکلا کہ ہم پچھلے چار دن سے چھپتے اور احباب کے ذریعے معافی نامے جمع کراتے پھر رہے ہیں۔
آج صبح کاشف بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا ان کی نصیحت سن رہا تھا کہ مجھے یہ کام سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ میں نے کاشف بھائی کو سمجھایا کہ میں نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ صرف اسلامی تاریخ کے مشہور فقیہہ کی حکایت بیان کی ہے۔ کاشف بھائی نے رحم آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ، اے احمق انسان! عبداللہ ابن مبارک کے نام میں اصل گن چھپا ہے۔ اگر تیرا نام بھی زبان دراز بن منہ پھٹ قسم کا ہوتا تو آج تیری بیان کردہ حکایت پر تجھے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔
کاشف بھائی کی اس نصیحت کو میں نے گرہ سے باندھ لیا ہے اور کل سے ٹوئیٹر پر "ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کے فضائل" پر درس دے رہا ہوں۔ امید ہے کچھ بہتری کی صورتحال نکل آئے گی۔ تب تک کیلئے اجازت دو۔
والسلام
زبان دراز ابن منہ پھٹ
بدھ، 1 اکتوبر، 2014
زبان دراز کی ڈائری - 18
نوٹ: ذیل کی تحریر بچوں کی ایک مشہور لوک کہانی سے ماخوذ ہے اور کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔
!پیاری ڈائری
تمہیں پچھلی بار ہی بتادیا تھا کہ دادی گھر آئی ہوئی ہیں اور مصروفیات بے تحاشہ ہیں لہٰذا اس بار غیر حاضری کی معافی نہیں مانگوں گا۔ دادی پندرہ دن رہ کر گئیں اور یہ پندرہ دن کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اچھے وقت کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ یا شاید وقت کی رفتار ہمیشہ یکساں رہتی ہے مگر حالات کے اعتبار سے ہمارے لیئے کبھی لمحے بھی صدیاں بن جاتے ہیں اور کبھی صدیاں بھی لمحوں کی طرح گزر جاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک فلسفیانہ گفتگو ہے اور تم جانتی ہو کہ اس ملک میں ہم فلسفیوں کو پاگلوں کی ہی ایک قسم گردانتے ہیں لہٰذا مزید فلسفے سے گریز کرتا ہوا میں دن بھر کی روداد پر آجاتا ہوں۔
دادی نے آج صبح جانا تھا مگر ہم سب کل سے ہی اداس ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دادی کی محبت بھری جھڑکیاں، ہمارا بےتحاشہ خیال رکھنا، اور سب سے بڑھ کر روزانہ ایک نئی کہانی سنانا، یہ سب چیزیں دادی کے اگلی مرتبہ گھر آنے تک ہم سے چھن جانی ہیں اور یہ خیال ہم سب بہن بھائیوں کو بری طرح بےچین کر رہا تھا۔ کافی دیر ضبط کرنے کی کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں نے دادی کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ بہا۔ دادی نے مسکراتے ہوئے میرے آنسو پونچھے اور یاد دلایا کہ خاندان کے باقی بچوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا، لہٰذا ہمیں اپنے حصے کو غنیمت جانتے ہوئے ایثار سے کام لینا چاہیئے ورنہ ہمارا حال بھی ان بندروں جیسا ہی ہونا ہے جنہوں نے شدید بھوک کے عالم میں بھی زیادہ کے لالچ میں چنے ٹھکرا دیئے تھے۔ میں نے بندروں کی یہ کہانی پہلے نہیں سنی تھی تو دادی نے مجھے سمجھانے اور خوش کرنے کیلئے بندروں کی وہ کہانی سنا دی۔
دادی کا کہنا تھا کہ کسی جنگل میں دو بندر بھوکے گھوم رہے تھے۔ بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جنگل میں موجود تیسرے بندر نے جب ان بندروں اور ان کی مجبوری کو دیکھا تو اسے بڑا ترس آیا۔ ترس سے زیادہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بندر یہاں رزق کی تلاش میں روز آنے لگے تو جنگل میں اس کی یکطرفہ حکومت ختم ہوجائے گی اور اسے ان بندروں کو بھی اپنے کھانے میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے گھر میں موجود بھنے ہوئے چنے اٹھائے اور ان بندروں کے پاس جاپہنچا۔ اس نے اپنے پاس موجود چنوں کی چھ میں سے پانچ ڈھیریاں ان دونوں بندروں کو پیش کردیں کہ وہ چاہیں تو ان سے اپنی بھوک مٹا لیں۔ بندر بھوکے تو بہت تھے مگر دونوں ہی بلا کے خوش فہم اور بےوقوف بھی تھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ جب یہ پانچ ڈھیریاں دینے پر تیار ہوگیا ہے تو ذرا سا رعب اور جذبانی دبائو ڈال کر چھٹی ڈھیری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان دونوں نے اس تیسرے بندر کو غصے دیکھا اور چنے اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے بولے، ہم بھوکے ہیں مگر ہماری رگوں میں بادشاہ بندر کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم تمہارا احسان لیں اور یہ بھنے ہوئے چنے کھائیں! بادشاہ زادے اب یہ چنے کھائیں گے؟ ویسے بھی اگر دینے ہی ہیں تو ہمیں چنے کی تمام چھ ڈھیریاں دو تاکہ ہم برابری کی بنیاد پر آپس میں بانٹ سکیں! ورنہ ہم تھوکتے ہیں ان چنوں پر۔
بندر نے حیرت سے ان کی شکل دیکھی اور انہیں سمجھایا کہ اس وقت چنوں کی ضرورت اس سے زیادہ ان دونوں کو ہے۔ اور اگر اس نے چھٹی ڈھیری بھی ان کو دے دی تو وہ خود کیا کھائے گا؟ اب اس بات پر بندروں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں نے بیچ بچائو کرانے کی کوشش بھی کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بندروں کے مابین یہ بحث پچاس منٹ تک جاری رہی اور آخر میں وہ دونوں بندر ان چنوں پر تھوک کر، کچھ اور کھانے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔
خدا تعالٰی کو ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی پسند نہیں رہی، چاہے وہ کوئی بھی مخلوق کرے۔ ان ضدی بندروں کو ان کے کیئے کی سزا یہ ملی کہ پورا دن کھانے کی تلاش میں گھومنے کے باوجود انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ جنگل کے جس درخت پر پھل دکھتا اس پر پہلے سے کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوتا اور اگر اتفاق سے کوئی درخت خالی مل بھی جاتا تو اس کا پھل اتنا کسیلا اور زہریلا ہوتا کے وہ ایک لقمہ بھی نہیں لے پاتے۔ پورا دن جنگل میں گھومنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال یہ دونوں بندر بالآخر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ روتے روتے ان کی نظر کچھ ہی فاصلے پر پڑے ان چنوں پر گئی جنہیں ٹھکرا کر وہ صبح یہاں سے آگے چلے گئے تھے۔ بھوک کے عالم میں یہ چنے جنت کے کسی میوے سے کم نہیں تھے۔ بندروں نے چاہا کہ بڑھ کر ان چنوں کو اٹھا لیں مگر پھر یاد آگیا کہ صبح وہ ان ہی چنوں پر تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ اب اگر کوئی ان دونوں کو یہ چنے کھاتا دیکھ لیتا تو وہ دونوں شرم کے مارے دوبارہ اس جنگل میں قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔
دونوں بندر حسرت سے ان چنوں کو دیکھنے اور اس وقت کو کوسنے لگے جب جذبات اور مزید پانے کے لالچ میں انہوں نے ان چنوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ شدید بھوک کے عالم میں کھانا سامنے دیکھ کر ان بندروں کی وہی حالت تھی جو کسی ترقی پذیر ملک میں کئی سال اپوزیشن کرنے کے بعد حکومت میں آنے والی جماعت کی ملکی خزانے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔
جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو ان میں سے ایک بندر اٹھا اور ان چنوں کے پاس پہنچ گیا جو زمین پر اب تک بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی دوسرا بندر بھی خاموشی سے اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بندر بھوکے تھے اور چنے سامنے موجود تھے، مگر دونوں میں سے کوئی ایک بندر بھی پہلا چنا کھانے کی خفت اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ کافی دیر اس ہی طرح گزر گئی تو بڑا بندر چنے کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے بولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس والی ڈھیری پر نہیں تھوکا تھا۔ دوسرے بندر نے بھی فورا ایک ڈھیری اٹھائی اور بولا، یہ والی تو ویسے بھی دور جاکر گری تھی سو اس پر تو تھوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے بندر نے اب کی بار ایک ساتھ دو ڈھیریاں اٹھائیں اور انہیں منہ میں رکھتے ہوئے بولا، اور یہ تو بالکل خشک ہیں جیسے ان پر کبھی کوئی گیلی چیز پڑی ہی نہ ہو۔
ایک ایک کرکے تاویلات آتی گئیں اور ڈھیریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی لمحوں میں بندروں نے وہ پانچوں ڈھیریاں چٹ کرڈالیں جن پر کچھ وقت پہلے وہ خود تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ بھوک تو مٹ گئی مگر بندروں نے اس دن یہ سبق سیکھ لیا کہ عزت اس ہی بات میں ہے کہ اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ اگر چھ میں سے پانچ ڈھیریاں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں اور پھر بھی بندر ضد پر اڑے رہیں تو چھٹی ڈھیری کے چکر میں یا تو بندر پہلی پانچ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا بالآخر اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دادی نے یہ کہہ کر کہانی ختم کی اور میرا ماتھا چوم کر سونے چلی گئیں۔
صبح سو کر اٹھا تو پتہ چلا کہ دادی تایا ابو کے گھر کیلئے نکل گئی ہیں۔ دادی کے جانے کے بعد گھر میں اب کرنے کو کچھ ہے نہیں سو صبح سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بندر والی کہانی میں نے چند ہی دن پہلے ٹیلیویژن کے کسی ڈرامے میں بھی دیکھی ہوئی ہے۔ ڈرامے کا نام یاد نہیں آرہا مگر جیسے ہی یاد آیا تو ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔
،تمہارا
زبان دراز