پیر، 5 جنوری، 2015

مکالمہ (مکمل)


تم پر میرے علاوہ کسی کا حق نہیں۔ تم سن رہے ہو نا؟ میں یہ نہیں کہتی کہ تم لوگوں سے بات چیت بند کر دو۔ مگر مجھے یہ بھی برداشت نہیں کہ تم سرِ عام کسی سے اپنائیت و خلوص کا اظہار کرو۔ پہروں کسی سے باتیں کرو۔ تم تک رسائی اتنی آسان ہو کہ جس کا جب دل کرے فون اٹھا کر تم سے بات کرنا شروع کردے۔ تم اتنے عام نہیں ہو۔ تم سن رہے ہو نا؟

دیکھو! میں جانتی ہوں کہ انسان فطرتاٗ آزاد ہے۔ اسے پابندی بالکل پسند نہیں ۔ وہ ہر اس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ بلکہ شاید وہ اس چیز کے پیچھے زیادہ بھاگتا ہےجس چیز سے اسے روک دیا جائے۔ شاید اس ہی ڈر سے میں آج تک یہ بات تم سے کہہ نہیں پائی۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے تمہیں روکا تو تم محض فطرت سے مجبور ہو کر مزید پختہ ہوجائو گے اور میں یہ برداشت نہیں کرپائوں گی۔
تمہیں پتہ ہے نہ کہ میں اب بہت تھک چکی ہوں؟ اس مختصر عمر میں بہت بڑے بڑے نقصانات اٹھا چکی ہوں۔ اتنا کچھ کھو چکی ہوں کہ اب مزید کھونے کی تاب نہیں رکھتی۔ تم جانتے ہو نا کہ مجھ سے ساجھے داری نہیں ہوتی۔ جب بھی مجھے کسی رشتے  یا چیز کو کسی سے  بانٹنا پڑجائے تو میں وہ چیز ہو یا رشتہ، مکمل ہی چھوڑ دیتی ہوں!تم یہ بات جانتے ہو نا؟

اور تم یہ بھی  جانتے ہو کہ تم میرے لیئے کتنے قیمتی ہو! دیکھو میں تمہیں سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ اس بار  کسی اور کیلئے اپنے کسی تعلق کو چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔ میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس بار یہ قربانی میں نہیں دوں گی۔

سنو! میرا حق بنتا ہے کہ میں تمہیں کسی بھی ایسے کام سے روک سکوں جو ہم دونوں کے بیچ میں ایک خلیج قائم کردے۔ اس تعلق کو کمزور کردے۔  میں کہہ رہی ہوں کہ اس بار قربانی میں نہیں دوں گی۔  تم نے سنا ؟ تم آج کے بعد کسی عورت سے نہ بےوجہ بات کرو گے نہ ہی ملوگے!! سنا تم نے؟؟

ہیلو؟ تم چپ کیوں ہو؟ ہیلو؟ ہیلو؟ میں کب سے بولے جارہا ہوں اور تم ہو کہ جواب ہی نہیں دے رہیں۔

ہاں ۔۔۔ کچھ نہیں! تم بتائو؟

کیا بتائوں؟

کچھ بھی؟

ہیلو؟ ہیلو؟ مجھے کہہ رہے تھے اب خود کہاں کھو گئے؟

ہاں ہیلو؟   ۔۔۔ اچھا سنو! میں دفتر کی کچھ ساتھیوں کو لیکر کھانے پر جا رہا ہوں۔ پروموشن کے بعد سے انہوں نے دعوت کا شور مچایا ہوا ہے۔  آکر فون کرتا ہوں۔

اچھا ٹھیک ہے۔(پلیز کہہ دو کہ تم کہیں نہیں جا رہے)

اچھا  ۔۔۔ سنو، شاید رات دیر ہوجائے۔ کل بات کرتے ہیں۔ اوکے!

چلو ٹھیک ہے! خدا حافظ (جہنم میں جائو)

خدا حافظ


کیا بتائوں؟ کیوں بتائوں؟ تمہیں خود معلوم ہونا چاہیئے۔ میں کیوں تمہیں بتائوں کہ مجھے کتنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر اپنا حق جتائو۔ اور ایک تم ہو کہ سپردگی کا پھسپھسا ڈھیر بن کر بیٹھی رہتی ہو۔ گویا میرے کچھ بھی کرنے سے تمہارے اوپر کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ میں محبت کے بارے میں  زیادہ تو نہیں جانتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ محبت اپنی ذات میں بلا کی خودغرض ہوتی ہے۔ یہ کبھی بھی ساجھے داری برداشت نہیں کرتی۔ خدا بھی مخلوق سے محبت کرتا ہے لہٰذا سب گناہ معاف کربھی دے تو بھی شرک کو معاف نہیں کرتا۔ محبت کی سرشت میں برداشت کرنا ہے ہی نہیں۔ جہاں سمجھوتہ ہو وہاں کچھ بھی اور ممکن ہے مگر محبت نہیں ہوسکتی۔  کاش کہ تم کبھی یہ بات جان سکتیں۔

ہیلو؟ ہیلو؟ مجھے کہہ رہے تھے اب خود کہاں کھو گئے؟

ہاں ہیلو! ۔۔۔ ( آج پھر رات کڑھتے اور سڑتے گزرنی ہے۔ مگر تمہاری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہیں تو بہت اچھا لگتا ہے نا جب میں لڑکیوں سے بات کرتا ہوں۔ فخر سے دوستوں کو بھی بتاتی ہوگی کہ میں کتنا ہنس مکھ اور  روشن خیال ہوں۔ کاش کہ کبھی تم میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ یہ سب میں تمہارے اندر کی عورت کو بیدار کرنے کیلئے کرتا ہوں۔ تاکہ تم اس بات کا کبھی تو برا مانو۔  کبھی تو مجھے یہ احساس دلائو کہ تم بھی مجھ سے خدائوں کی طرح محبت کرتی ہو اور اپنے ساتھ کسی بھی نوعیت کا شرک تمہیں بھی برا لگتا ہے۔ مگر شاید کچھ خواب صرف خواب ہی رہنے کیلئے ہوتے ہیں)۔ ۔۔۔ اچھا سنو! میں دفتر کی کچھ ساتھیوں کو لیکر کھانے پر جا رہا ہوں۔ پروموشن کے بعد سے انہوں نے دعوت کا شور مچایا ہوا ہے۔  آکر فون کرتا ہوں۔ ۔۔(  پلیز کہہ دو کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے)

اچھا ٹھیک ہے۔

اچھا ۔۔۔ (کیا تھا اگر تم بول دیتیں؟) سنو، شاید رات دیر ہوجائے۔ کل بات کرتے ہیں۔ اوکے!

چلو ٹھیک ہے! خدا حافظ


خدا حافظ (جہنم میں جائو) 

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت