جمعرات، 22 جنوری، 2015

فرار

چار فروری 2010:
آج میری کوٹھڑی کی ساتھی زہرا باجی کی رہائی ہوگئی۔ کوٹھڑی میں اب صرف میں اور شگفتہ باجی رہ گئے ہیں۔ زہرا باجی آج بے تحاشہ خوش تھیں۔ رہائی کا نشہ کیا ہوتا ہے یہ ان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا۔ خدا انہیں ایسے ہی ہنستا بستا رکھے۔ کچھ ہی دنوں کی بات ہے، انشاءاللہ ایک دن مٰیں بھی یہاں سے رہا ہوجائوں گی۔

اٹھارہ مئی 2011:
زہرا باجی کو یہاں سے گئے ہوئے سال سے اوپر ہوگیا ہے مگر انہوں نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں جھانکا۔ پیغام مل جاتے ہیں اور ملاقات کے گھنٹے میں کبھی کوئی ٹیلیفون پر ان کی آواز بھی سنا دیتا ہے مگر دل کو سیری نہیں ہوتی۔ میں اور شگفتہ باجی اکثر بیٹھ کر ان کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر شاید ان کو کبھی ہماری اس طرح یاد نہیں آتی۔ یاد آتی تو ایک دفعہ تو ملنے آجاتیں؟ شاید وہ اپنے ماضی کے اس تاریک پہلو کو بھلا دینا چاہتی ہیں۔ خدا انہیں خوش رکھے۔

سات مارچ 2013:
کل شگفتہ باجی بھی یہاں سے رہا ہوجائیں گی اور میں اس کوٹھڑی میں اکیلی رہ جائوں گی۔ شگفتہ باجی اکثر مجھے سمجھاتی ہیں کہ باہر کی زندگی اس جیل کی زندگی سے کہیں زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہے مگر میں جانتی ہوں کہ وہ یہ سب صرف میرا دل رکھنے کیلئے کہتی ہیں۔ اگر باہر کی دنیا واقعی اتنی ہی بری ہوتی تو اس جیل میں موجود ہر شخص اس تکلیف کیلئے اس طرح مشتاق نہیں ہوتا۔ خیر، خدا ان کے نصیب اچھے رکھے، کبھی میرا بھی دن آئے گا۔ انشاءاللہ۔

پانچ دسمبر 2013:
مجھے اس قید خانے میں کتنا وقت ہوچکا ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید صدیاں بیت چکی ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے زندگی میں کب آزاد فضاء میں سانس لیا تھا۔ میں اب اس قید کی زندگی سے تنگ آچکی ہوں۔ رہائی شاید میرے لیئے اتنی آسانی سے نہیں آئے گی۔ مجھے خود ہی کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔

اکتیس دسمبر 2013:
باہر سے آنے والی پٹاخوں اور فائرنگ کی آواز سے لگتا ہے کہ نیا سال شروع ہوگیا ہے۔ جب تک شگفتہ اور زہرا باجی تھیں تو ہم تینوں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے کر دل بہلا لیا کرتی تھیں۔ اس مرتبہ مگر میرے پاس کوئی نہیں ہے کہ میں جس کے گلے لگ کر اپنے اندر اٹھنے والے حسرتوں اور آنسوئوں کے اس سیلاب کو نکال سکوں۔ اے خدا مجھے ہمت دے! مجھ پر وہ بوجھ مت ڈال جسے اٹھانے کی مجھ میں تاب نہیں ہے۔ ہر نئے سال کی طرح میرے نئے سال کے ارادوں اور خوابوں میں صرف ایک  ہی چیز ہے، رہائی۔

نو جنوری 2014:
مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ میرے گھر والے اب میری جلد از جلد رہائی کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ جیلر کا رویہ اب میرے ساتھ حیران کن طور پر بہت میٹھا ہوگیا ہے۔ جیل کی وہ تمام سہولیات جن کے پہلے میں صرف خواب دیکھا کرتی تھی اب میرے لیئے مہیا کردی گئی ہیں۔ مگر ان ساری سہولیات نے آنے میں شاید بہت دیر کر دی ہے۔ میں چاہ کر  بھی ان چیزوں سے وہ لطف نہیں کشید کرپارہی ہوں جو مجھے  کرنا چاہیئے تھا۔ مجھے یہ سب اب محض دل بہلانے کے نسخے لگتے ہیں اور میں اس مرتبہ رہائی سے کم کسی چیز سے کم پر ٹلنے والی نہیں ہوں۔

ستائیس جنوری 2014:
پچھلے ایک ماہ کے مسلسل غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ گھر والوں کی کوششوں کے انتظار میں رہی تو بہت دیر ہوجائے گی۔ میں نے فرار کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ جیل کے کھانے کا انتظام میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر کہیں سے بےہوش کرنے والی دوائی مل جائے تو میرا کام بہت آسان ہوجائے گا۔ مگر اس منصوبے میں سب سے بڑا سقم بےہوش کرنے والی دوائی کی فراہمی ہے۔ جیل سے باہر میں کسی کو جانتی نہیں ہوں جو میرے لیئے یہ کام کرے اور جیل سے باہر خود نکلنا ناممکن ہے۔ اے اللہ! مجھے کوئی بہتر راستہ دکھا۔

دس فروری 2014:
اللہ پاک کی مہربانی سے ایک راستہ دکھا ہے۔ کل زہرا باجی اپنے گھر میں کھانا بناتے ہوئے چولہا پھٹنے سے جل کر ہلاک ہوگئیں تھیں اور ان کی موت کے صدقے مجھے بھی ایک دن کیلئے پیرول پر رہائی مل گئی کے ان کے جنازے میں شریک ہوسکوں۔ جیل کی زندگی میں رہ کر جذبات عرصہ پہلے ہی اپنے عروج پر پہنچ کر دم  توڑ چکے تھے سو مجھے زہرا باجی کے مرنے کا کوئی خاص غم نہیں ہوا۔ وہ خود ہی تو سمجھایا کرتی تھیں کہ جو ہوتا ہے بہتری کیلئے ہی ہوتا ہے۔

زہرا باجی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ شاید وہ پیدائشی بانجھ تھیں یا پھر شاید جیل کی زندگی نے ان کے اندر موجود تمام تخلیقی صلاحیتیں ختم کردی تھیں۔ ان کے محلے کی خواتین دبے لفظوں میں کہہ رہی تھیں کہ چولہا خود نہیں پھٹا تھا بلکہ زہرا باجی کے شوہر اور ان کی ساسنے پھاڑا تھا۔ مگر جب زہرا باجی کے گھر والوں کو اس بات کی فکر نہیں تھی تو میں کون ہوتی ہوں اس بات کا غم کرنے والی؟ میں بھی وہاں چپ چاپ خواتین کے ہجوم میں بیٹھی رہی۔ تدفین کے بعد پولیس والے مجھے واپس اپنے ساتھ لینے آگئے۔ زہرا باجی کے گھر سے نکلی تو میری نظر ان کے شوہر پر پڑی جو بہت عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان نظروں میں کیا تھا مگر غیر اضطراری طور پر میرا ہاتھ اپنے دوپٹے پر چلا گیا اور میں نے اپنے حت الامکان اپنے جسم کو اور زیادہ ڈھکنے کی کوشش کی۔ زہرا باجی کا شوہر میری یہ حرکت دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ عجیب انسان ہے! ابھی بیوی کو دفنا کر آرہا ہے اور ابھی لڑکیوں کو مسکرا کر دیکھ رہا ہے؟ پھر مگر دماغ میں ایک خیال آیا اور میں ایک جوابی مسکراہٹ اس کی سمت اچھال کر پولیس والوں کے ساتھ واپس جیل آگئی۔ مجھے یقین ہے کہ زہرا باجی کا شوہر مجھ سے ملنے جیل ضرور آئے گا۔ ایک دفعہ مجھے جیل سے باہر کوئی ساتھی مل گیا تو مجھے یقین ہے کہ میں رہائی کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈھ نکالوں گی۔

پانچ مئی 2014:
کل میں انشاء اللہ اس جیل سے رہا ہوجائوں گی۔

گیارہ اگست 2014:
شگفتہ باجی واقعی ٹھیک کہتی تھیں۔ جیل میں لاکھ پابندیاں صحیح مگر باہر کی دنیا واقعی بےحد تکلیف دہ ہے۔ جیل میں میں نہ اپنی مرضی سے کھا سکتی تھی اور نہ اپنی مرضی سے پہن سکتی تھی۔ نہ کہیں جا سکتی تھی اور نہ کسی کو مجھ سے ملنے آنے کی اجازت تھی۔ جیل میں سب کچھ جیلر کی مرضی سے ہوتا تھا اور میں عورت ہونے کے جرم میں کسی بات پر آواز تک نہیں اٹھا سکتی تھی۔ بہت پرانی بات ہے مگر مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب شگفتہ باجی نے جیلر کے سامنے آواز اٹھانے کی گستاخی کی تھی۔ اگلے تین دن تک میں اور زہرا باجی ان کے چہرے پر پڑنے والے نیل، برف سے سینکتے رہے تھے۔ لیکن ان سب مصائب کے باجود وہ جیل اپنی تھی۔ اپنی کوٹھڑی کی حد تک ہی سہی، مگر  ہم وہاں بادشاہ تھے۔ جیل سے باہر آکر پتہ چلا کہ اس جیل سے بڑی اور بھیانک ایک اور جیل سسرال کی شکل میں بھی موجود ہوتی ہے۔ جہاں جہیز کم لانے اور گھر والوں سے پیسے نہ لاکر دینے کے جرم میں روزانہ لائن حاظر اور پھر جسمانی اذیت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ دن بھر کی تھکن کے باجود، مذہب کی تاویلات کے طفیل، شوہر کو راضی نہ رکھو تو رات بھر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ اور ان سب چیزوں پر شکایت کرو تو جسم پر ایک اور نیل کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

جیل واپس جاکر جیلر سے کس منہ سے شکایت کرتی کہ جب زہرا باجی کے شوہر نے میرے لیئے رشتہ بھجوایا تو میں نے خود زبردستی سب سے کہہ کر ہاں کہلوائی تھی۔ جیلر کتنا بھی سفاک سہی، مگر میرا باپ تھا۔ ایک بیٹی کو کھونے کے بعد وہ اس ہی گڑھے میں دوسری بیٹی کو دھکیلنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر میرے مسلسل اصرار اور زہرا باجی کے شوہر کی جہیز نہ لینے کی پرکشش پیشکش پر وہ بھی انکار نہیں کرسکا۔ بیٹیاں ویسے بھی باپ کے سینے کا بوجھ ہوتی ہیں اور جیب جتنی ہلکی ہو یہ بوجھ اتنا ہی بھاری ہوتا ہے۔ میرا باپ جانتا تھا کہ اگر اس رشتے کو منع کردیا تو اگلا رشتہ جو خدا جانے کب آتا، اپنے ساتھ جہیز کی ایک نئی فہرست لاتا۔ سو مجھ پر احسان جتاتے ہوئے اس رشتے کو قبول کرلیا گیا اور ساتھ میں مجھے یہ بھی جتا دیا گیا کہ چونکہ یہ رشتہ میری مرضی سے ہورہا ہے لہٰذا اس رشتے کو سنبھالنا بھی اب میرا ہی فرض ہے۔ اس شادی کا جو بھی نتیجہ نکلے میں ان کے پاس شکایت لیکر نہیں جاسکتی تھی۔

میں اس قید خانے سے رہائی کے نشے میں اتنی دھت تھی کہ مجھے اس وقت ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں تو یہ سب آج بھی نہ کہتی مگر سونے سے پہلے انہوں نے میرے انکار پر اپنی سگریٹ میرے بازو پر بجھادی ہے۔ جلن کی وجہ سے سویا نہیں جارہا تھا سو یہ ڈائری لکھنے بیٹھ گئی۔

پندرہ ستمبر 2014:
آج زندگی کا بہت ہی عجیب دن ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہنسوں یا روئوں؟ خوشی اور دکھ دونوں کی انتہائیں ایک ساتھ جمع ہوگئی ہیں اور سمجھ سے باہر ہے کے دونوں میں سے کس چیز کی شدت کی وجہ سے آج آنکھوں کے کنارے بھیگ رہے ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ خدا نے مجھے آج مکمل کردیا ہے۔ ڈاکٹرنی بتا رہی تھی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ اور دکھ اس بات کا ہے کہ اس نئے آنے والے بیچارے کا کیا قصور کے یہ میرے گھر پیدا ہورہا ہے؟

ساس نے آج صبح ہی فیصلہ سنا دیا ہے کہ چونکہ میں خالی ہاتھ آئی ہوں اور چونکہ میرے گھر والے نہایت کمینے اور کنجوس ہیں اور داماد کو خرچے کے پیسے نہیں دیتے لہٰذا وہ بیٹے کی تیسری شادی کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔ میں نے اپنے شوہر کو اس بچے اور ساس کے بیان دونوں کے بارے میں بتایا تو وہ صبح بات کرنے کا کہہ کر منہ پھیر کر سو گئے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ گھر واپس جانہیں سکتی! اس بچے کو اس دنیا میں لانا نہیں چاہتی! ساس مجھے اس گھر میں رکھے گی نہیں ۔۔۔ جائوں تو کہاں جائوں؟ فرار  میری زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ اب مگر اس خواب کو حقیقت بنانا ہی ہوگا۔ مجھے اس بچے کیلئے جینا ہوگا۔ اے خدا مجھے ہمت دے! میری مشکلوں کو آسان فرما۔ میں نے اپنی حصے کی صعوبتیں جھیل لیں، اے میرے مالک مگر میری اس کوکھ کے معصوم کو اس عذاب سے بچا لے۔ اے اللہ ۔۔۔۔

میں نے اس خستہ حال کاپی کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا جو تفتیشی ٹیم اس لڑکی کے کمرے سے برآمد کر کے لائی تھی۔ کمبخت کی تحریر میں بلا کی کاٹ تھی۔ مجھ جیسے سفاک پولیس آفیسر کو بھی اس کرم جلی نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میں نے اپنے ماتحت کو بلایا اور رپورٹ لکھنے کو کہا۔ ماتحت میرے سامنے آکر کرسی پر بیٹھ گیا اور نوٹوں کی ایک گڈی خاموشی سے میرے آگے رکھتے ہوئے بولا، صاحب! یہ لڑکے کی ماں نے دی ہے۔ وہ چاہتی ہے رپورٹ میں یہی آئے کہ چولہا حادثاتی طور پر پھٹا تھا اور وہ جو کوئی کاپی وغیرہ ہمیں ملی ہے جس میں ثبوت وغیرہ ہوسکتا ہے وہ انہیں واپس کردی جائے۔


میں نے ایک نظر ان نوٹوں کو دیکھا اور محرر پر چنگھاڑ پڑا، الو کے پٹھے! جب پیسے لے ہی لیئے ہیں تو انتظار کس بات کا کر رہا ہے؟ رپورٹ لکھ کہ چولہا حادثاتی طور پر پھٹا تھا۔ محرر میری آواز سن کر کانپ گیا تھا مگر میری بات سن کر مسکرا اٹھا۔ اس نے جلدی جلدی کاغذ پر رپورٹ لکھی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا گویا ہوا کہ، سر! وہ ڈائری؟ میں نے اس ہی کے انداز میں مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا، کونسی ڈائری؟ ابے احمق! کمال کی جذباتی تحریر ہے وہ! ادرد و گداز سے بھرپور یہ کہانی کردار اور مقام بدل کر اگلے مہینے کسی بڑے ماہنامے میں چھپوائوں گا تاکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا نام روشن ہو۔ بلاوجہ سب نے مشہور کررکھا ہے کہ کہ ہم بڑے سفاک ہوتے ہیں اور ہمارے اندر جذبات نہیں ہوتے!!! خود بتائو؟

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت