جمعہ، 3 جون، 2016

زبان دراز کی ڈائری - سوختہ

پیاری ڈائری!
ایک زخم ابھی بھر نہیں پاتا کہ دوسرا گھاؤ رسنا شروع ہوجاتا ہے۔  آج کے خبار میں چھوٹی سی سرخی لگی ہے کہ کل پھر ، زمانہ جاہلیت میں بھی عورتوں کے حقوق کے لئے کھڑے ہونے والے نبیﷺ کے ماننے والوں کے ملک میں ایک لڑکی کو  لڑکی ہونے کے جرم میں زندہ جلا دیا گیا۔
میں جانتا ہوں کہ میں مسلسل لکھی جانے والی اپنی حزنیہ داستانوں کی وجہ سے بدنام ہوچکا ہوں مگر میں کیا کروں؟ جب لوگ کرنے سے باز نہیں آتے تو میں لکھنے سے کیسے باز آجاؤں؟ میں معاشرے کے سڑے ہوئے وجود میں سے مسلسل بہتی اس متعفن پیپ کو دیکھ کر بھی کیسے ان دیکھا کر دوں؟  میں کیسے ان حالات میں عیش و نشاط وعشق و سرود کے قصے بیان کروں کہ جب میرے معاشرے میں انسان ہونا جرم ٹھہرا دیا جائے؟ میں کیا کروں کہ معاشرہ اپنی کمینگی سے باز آنے پر تیار نہیں ہے اور مجھ ایسے نام نہاد شریف قلمکار ان واقعات کو جانتے ہوئے بھی ان پر لکھنے سے گریز کرتے رہتے ہیں کہ یہ معاشرے کی وہ دکھتی رگیں ہیں جن پر ہاتھ رکھتے سب کی جان جاتی ہے۔ خدا کی قسم ایسے مواقع پر منٹو ایسا اوسط درجے کا قلمکار بھی مجھے مہان لگتا ہے کہ جو اس زمانے میں بھی ان موضوعات پر قلم اٹھاتا تھا جن پر آج ساٹھ ستر سال گزرنے کے بعد بھی بات کرتے ہوئے ہم گھبراتے ہیں۔  لعنت ہے ایسے قلم پر جو معاشرے کے گند کو سامنے نہ لاسکے اور اس کی اصلاح کیلئے قلمکار کی سمجھ کے مطابق کوئی حل تجویز نہ کرسکے۔
پیاری ڈائری! میں نہیں چاہتا کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ٹوٹا پھوٹا ہی سہی مگر لکھ سکتے تھے مگر خاموش بیٹھے رہے۔ سو اب سن سکو تو سنو کہ آج میں ماحول سے ماخوذ تمام تر غلاضت تمہارے اوپر انڈیلنے لگا ہوں۔ تمہاری مجبوری ہے کہ تم اٹھ کر نہیں بھاگ سکتیں سو برداشت کرو کہ پرہیز گاری کا بہروپ اوڑھے اور رحمتہ اللہ علیہہ کے جعلی  القابات سجائے اس کوڑھ زدہ  اور دراصل لعنت اللہ علیہہ  معاشرے کی سچائی بیان کرنے کیلئے تم سے بہتر سامع کوئی نہیں  ۔  ویسے بھی یہ باتیں تم سے نہ کروں تو کس سے کروں کہ ان باتوں کی تاب کوئی بھی باحیا و  باغیرت انسان نہیں لاسکتا۔ یہ تو مجھ ایسے بےغیرتوں کا ہی کلیجہ ہے کہ اتنے  شرمناک داغوں کے بعدبھی  زندہ ہیں اوربے شرمی کی انتہاہے کہ ان حالات میں بھی مسکراتے ہیں، زندگی جیتے ہیں، اور انسانوں کو زندہ جلائے جانے ایسے واقعات میں بھی طنز و مزاح  اور ملک کو بدنام کرنے کی سازش ایسی توجیحات کے پہلو ڈھونڈ لاتے ہیں۔مجھ اور مجھ ایسے  سب پر لعنت!
پیاری ڈائری! میں جو یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں اس کا قطعا یہ  مطلب نہیں کہ میں بہت اچھا انسان ہوں۔ ان سطور کو تحریر کرتے وقت سے آدھے گھنٹے پہلے  تک اور اس تحریر کو مکمل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد میں بھی کسی بھی دوسرے انسان کی طرح مکمل بےحس ہوجاؤں گا۔ پھر جب تک آگ کے شعلے میرے کسی اپنے کو نہیں چاٹیں گے میں ایسے ہی بےحسی کی زندگی جیتا رہوں گا۔ جیسے سب جیتے ہیں۔ شاید میں یہ  تحریر بھی کبھی نہ لکھتا اگر یہ مختصر سا خط میرے پاس نہ پہنچتا۔  زرا یہ خط ملاحظہ کرو
پیارے انکل،
سنا ہے آپ سب کے خطوط چھاپ دیتے ہیں سو میں نے سوچا کہ میں بھی آپ کے ذریعے اپنی بات سب کو پہنچا دوں۔ مجھے امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔
انکل! میری باجی بہت اچھی تھیں۔ گاؤں والے کہتے  ہیں کہ باجی گاؤں کی سب سے قابل اور خوبصورت لڑکی تھیں۔ میں جب چھوٹی ہوتی تھی تو باجی ایک سکول میں پڑھانے جاتی تھی تاکہ وہاں سے پیسے کما کر میرے لئے کھلونے لا سکے۔ باجی مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔ پھر باجی نے وہ اسکول چھوڑ دیا اور دوسرے اسکول میں پڑھانے لگی۔ آج صبح پڑوس والے انکل میرے ابو کو بتا رہے تھے کہ اخبار میں آیا ہے کہ اسکول کے مالک کے بیٹے نے باجی کا رشتہ بھی بھیجا تھا مگر ایسا کچھ ہوتا تو باجی مجھے ضرور بتاتی ۔ میں نے بتایا نا کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔ یا شاید خود باجی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا کوئی رشتہ آیا ہوا تھا۔ خیر باجی کو تو کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ پتہ ہوتا تو دروازہ کیوں کھولتی؟  میں اور باجی گھر میں اکیلے تھے ۔ امی ابا فوتگی میں گئے ہوئے تھے۔ باجی مجھے تو سکھاتی تھی کہ جب گھر میں امی ابا نہ ہوں تو دروازہ نہیں کھولنا چاہئے مگر اس دن جب دروازے پر دستک ہوئی تو خود دروازہ کھول دیا۔  بے وقوف کہیں کی! دروازہ جیسے ہی  کھلا پانچ لوگ اندر گھس گئے اور باجی کو گالیاں دیتے ہوئے مارنا شروع ہوگئے۔ میں بھی باجی سے بہت پیار کرتی تھی۔ میں نے دوڑ کر باجی کو بچانا چاہا تو ان لوگوں نے مجھے بھی بہت زور زور سے مارا۔ میں ڈر کر پیچھے ہٹی اور چیخنا شروع ہوگئی مگر پڑوس والے انکل بھی فوتگی میں گئے ہوئے تھے تو کوئی بھی ہمیں بچانے نہیں آیا۔ انکل! انہوں نے باجی کو بہت مارا۔ میں باجی کو بچا نہیں سکتی تھی مگر میں چیخ چیخ کر روتی رہی۔ پھر انہوں نے باجی کو آگ لگا دی۔ جیسے سردی کی رات میں برف پڑتی ہے تو ہم گھر میں گوبر جلاتے ہیں،  ویسے۔ باجی جل رہی تھی اور مدد کے لئے بلا رہی تھی مگر میں کیسے جاتی؟ مجھے تو خود ایک گندے انکل نے پکڑا ہوا تھا۔ پھر جب ان گندے انکل کو یقین ہوگیا کہ باجی پوری جل گئی ہے تو وہ باجی کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان کے جانے کے بعد بڑی مشکل سے ہم نے آگ  بجھائی اور چند ہی لمحے بعد باہر قدموں کی آہٹ ہوئی تو باجی نے اپنے آپ کو بستر کے نیچے چھپا لیا۔ اس کے کپڑے جل گئے تھے اس لئے اس کی شیم شیم ہورہی تھی۔پھر ابا باجی کو چادر میں لپیٹ کر ہسپتال دوڑ گیا۔ وہاں ڈاکٹر انکل نے اس کا بہت خیال رکھا اور کل جب وہ واپس آئی تو اس کو سفید رنگ کا نیا جوڑا بھی پہنا کر بھیجا تھا۔ باجی مگر نیا جوڑا پہن کر بھی بہت اداس لگ رہی تھی۔ مجھ سے بات بھی نہیں کر رہی تھی۔ بس خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو گاؤں والوں نے مجھے اس کے پاس سے ہٹا دیا۔ شام میں ابا اور چاچا وغیرہ مل کر اسے قبرستان لے گئے۔ امی بتا رہی تھی کہ باجی مر گئی ہے!
کل سے بہت سارے لوگ ہمارے گھر ملنے آرہے ہیں ۔ سب کہتے ہیں کہ وہ ہمارا درد سمجھ سکتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہورہا ہے۔ درد تو صرف  وہ سمجھ سکتا ہے جس کو ہو رہا ہو۔ باجی میرے سامنے جل گئی مگر جس طرح وہ تڑپی میں تو ویسے نہیں تڑپ رہی تھی۔اور اگر وہ میرے درد کی بات کر رہے ہیں تو  کیا ان سارے لوگوں کی باجیوں کو بھی ایسے ہی گندے انکلوں نے ان کے سامنے جلا دیا تھا؟ اور اگر ہاں،  تو پیارے انکل! میں تو چھوٹی تھی۔ اپنی  باجی کو نہیں بچا سکتی تھی۔ ان بڑے لوگوں نے ان جلانے والے گندے انکلوں کے ہاتھ کیوں نہیں پکڑے تھے؟  شاید کسی نے ان گندے انکلوں کے ہاتھ پہلے پکڑ لئے ہوتے تو میری باجی نہیں جلتی!
پیارے انکل! کیا آپ پلیز ایسا کچھ کر سکتے ہیں کہ جس کے بعد کسی اور کو میرا درد محسوس نہیں کرنا پڑے؟
والسلام
ایک بہن

پیاری ڈائری! تم خود بتاؤ  کہ میں چیخ چیخ کر گلا کیوں نہ پھاڑ لوں؟ 

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت