تو جب تین سو سڑسٹھویں رات آئی تو شہرزاد نے بدستور کہانی
کہنا شروع کی،
قصہ رمضان ٹرانسمیشن اور بیمار کھسرے کا
تو ہوا کچھ یوں کے کسی ملک میں نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں
کا ایک ہجوم رہتا تھا جو یوم آزادی، یوم دفاع، پڑوسی ملک کے ساتھ کھیل کے مقابلے
وغیرہ جیسے سال کے چار پانچ مخصوص ایام میں اپنے آپ کو قوم کہلوایا کرتا تھا۔ ایسی بات نہیں کہ ان لوگوں
میں اتفاق و اتحاد نام کو بھی نہ ہو۔ جب کبھی اپنے عقیدے یا سیاسی مفاد کی بات آتی
تو یہ لوگ ایک جٹھ ہوجاتے تھے۔
سیدھے سادھے لوگ
تھے اس لئے کسی بھی بات کی تحقیق کے جھمیلے میں نہیں پڑتے تھے اور بحث و تکرار کو
گناہ جانتے ہوئے مخالف کو سیدھا زمین میں گاڑ دینے کی کوشش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ملک کی سرکار نے اس ہی لئے خاندانی منصوبہ بندی
کی وزارت مستقل طور پر بند کرکے اس کے حصے کے فنڈز بھی سوشل میڈیا پر خرچ کرنا
شروع کردئے تھے۔
قتل و غارت کا یہ کھیل اپنے عروج پر جاری تھا مگر اکثریت
میں موجود عوام کچھ اس کھیل میں حصہ نہ لے پانے کی وجہ سے بھی اور چند دیگر وجوہات
کی بنا پر بھی شدید احساس کمتری کا شکار تھی۔
محرومیوں کی وجہ سے ملک میں حسِ مزاح تیزی سے مرتی جارہی تھی اور ایک وقت ایسا
بھی آگیا کہ لوگوں نے ایکسکیوز می آپ بھی
اور عینجھل تک پر ہنسنا چھوڑ دیا اور کپل جانی کے شو کو کامیڈی شو کہنا شروع کردیا۔
حالات جب اس حد تک خراب ہوگئے تو ہوتے ہوتے یہ خبر بادشاہِ
وقت تک بھی پہنچ گئی۔ بادشاہ ، تمام بادشاہوں کی طرح بادشاہ آدمی تھا سو اس نے
اپنے ذہنِ رسا کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والے ماہِ مقدس میں ایک نئے گیم شو کا
اعلان کردیا۔ ملک بھر میں منادی کی گئی اور چن کر ایک ذہنی بیمار کھسرے کو اس گیم
شو کی میزبانی کے لئے منتخب کرلیا گیا۔
وہ بیمار کھسرا اپنے وقت کا مشہور فنکار تھا اور مشہوری میں
رہنے کا ہنر جانتا تھا۔ اس نے لوگوں کی
نفسیات کو دیکھتے ہوئے اپنے گیم شو میں روزانہ شام کو پگڑی اچھالنے کا مقابلہ
رکھنے کا اعلان کردیا۔ اعلان ہونے کی دیر
تھی کہ ملک بھر سے لوگ لائنیں اور پرچیاں لگوا کر اس مقابلے میں شامل ہونے پہنچ
گئے۔ مقابلے میں شریک یہ تمام لوگ خدمت
انسانی کے جذبے سے سرشار تھے سو رضاکارانہ طور پر اپنی پگڑیاں اچھلواتے تھے تاکہ
مقابلہ دیکھنے والے لوگوں کو احساس رہے کہ ان کی زندگی میں کتنے ہی مصائب سہی، مگر
وہ اس قسم کی ذلت سے محفوظ ہیں۔ بیمار کھسرا
چونکہ ایک نہایت رحم دل آدمی تھا اس لئے وہ آنے والوں کی قربانیوں کے عوض
انہیں اعتراف خدمت کے طور پر چھوٹی موٹی یادگاریں بھی عطا کردیا کرتا تھا۔
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ وہ نفسیاتی لوگوں کا گروہ تھا
اس لئے یہ عظیم انسانی خدمت انہین راس نہیں آئی اور جتنے لوگ گیم شو کا پاس نہ
حاصل کرسکے وہ اس گیم شو کو ہی گالیاں دینا شروع ہوگئے۔ چند ایک نے جذبات میں آکر گیم شو کو دیکھنا ہی
بند کردیا اور باقی جو اب بھی دیکھ رہے تھے انہوں نے اسے کتوں والا شو کہنا شروع
کردیا۔ بیمار کھسرا بڑے دل کا آدمی تھا۔ اسے جب اس سب کی خبر ہوئی تو اس نے شو
دیکھنا بند کرنے والوں کے لئے پگڑی اچھال شو میں ہر کچھ دن بعد ایک سپیشل آئٹم
نمبر کا تڑکا لگانا شروع کردیا جس میں بنیادی انسانی ضرورت یعنی ٹھرک کے مختلف
پہلو لوگوں کے سامنے رکھے جاتے تھے۔ جہاں تک اس شو کو کتا شو کہنے والوں کا تعلق
تھا تو ان کی خوشنودی کے لئے اس نے پروگرام میں کتوں کی طرح زبان نکالنے، کتوں کی
طرح بھونکنے اور کتوں کی ہی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے کے مقابلے بھی رکھوانے
شروع کردیا۔ کہتے ہیں کہ خلوص کبھی رائگاں نہیں جاتا سو اب جو لوگ گیم شو نہیں بھی
دیکھنا چاہتے تھے وہ محض آئٹم نمبر اور کتوں والی پرفارمنس کے انتظار میں وہ شو
دیکھنا شروع ہوگئے۔
کہتے ہیں کہ جہاں انسان کے چار دوست ہوتے ہیں وہیں چالیس
دشمن بھی! بعض حاسدین نے "جو غلط ہے
سو غلط ہے میں تو شکایت ہی لگاؤں گا" کا نعرہ لگا کر بیمار کھسرے کے خلاف
بادشاہ کے کان بھرنا شروع کردیئے۔ بادشاہ کے بارے میں پہلے ہی بیان ہوچکا ہے کہ وہ
بادشاہ آدمی تھا سو اس نے اعلان کردیا کہ اگر لوگ اس گیم شو کو واقعی گھٹیا سمجھتے
ہیں تو اسے دیکھنا چھوڑ دیں۔ جس دن ریٹنگ آنا بند ہوگئی اس ہی دن یہ شو بند کردیا
جائے گا۔
یہاں پہنچ کر شہرزاد خاموش ہوئی تو دنیا زاد نے دریافت کیا
کہ آیا پھر وہ شو بند ہوا؟ شہرزاد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پچھلے ڈیڑھ سو سال
سے وہ بیمار کھسرا ریٹنگ کے نت نئے ریکارڈ بنا رہا ہے اور اگلے ڈیڑھ سو سال تک بھی
اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے! اتنے مفید گیم شو کا آئیڈیا دینے اور اس کہانی
کو بیان کرنے پر بادشاہ نے شہرزاد کی جان ایک دن کے لئے مزید بخش دی اور اسے چ
موبائل کی گاڑی دینے کا بھی اعلان کردیا۔اب دیکھتے ہیں شہرزاد اگلے دن کیا کہانی
سناتی ہے!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں