جمعرات، 30 جون، 2016

ہمزاد

تم نے کبھی خودکشی کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟
اس کے اس سوال پر میں سوچ میں پڑ گیا۔ہم دونوں اس وقت ساحل پر موجود تھے۔ ہم دونوں یہاں شام گئے پہنچے تھے اور اب رات اپنی تمام تر ظلمتوں کے ساتھ ہم پر چھائی ہوئی تھی۔ اگر تم اس وقت مجھے دیکھتے تو تمہیں لگتا کہ میں خودکلامی میں مصروف ہوں مگر یہ خود کلامی نہیں تھی۔ میرا ہمزاد، میرا عکس، میرا عاطف، مجھ سے باتیں کرنے اکثر آجایا کرتا تھا۔ ہم دونوں دوست مل کر یونہی کبھی کسی باغ میں ٹہلنے نکل جاتے۔ کبھی ساحل پر آنکلتے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں اپنی اسٹڈی کا دروازہ بند کرلیتا اور ہم دونوں وہیں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ آج جب وہ آیا تو میں اسے لیکر ساحل پر آگیا۔ سمندر مجھے ہمیشہ سے اپنا اپنا محسوس ہوتا ہے۔ جس مساوات  کا مظاہرہ یہ سمندر کرتا ہے میں خود بھی ویسا ہی بننا چاہتا ہوں۔ بغیر حفاظتی اقدامات کیئے سمندر کے اندر اترنے کی کوشش کرو تو یہ شیطان اور فرشتے، انسان اور درندے، کالے اور گورے  میں فرق کیئے بغیر سب کو ایک جیسی موت دیتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی مساوات پسند ہونا چاہتا ہوں۔ شاید اس ہی لیئے سمندر سے سیکھنے گاہے بگاہے سمندر کے چکر لگاتا رہتا ہوں۔
 اُس کے خودکشی کے بارے میں سوال پر میں سوچ میں پڑگیا۔ پھر کچھ دیر نیم تاریک سمندر کو بے دھیانی میں تکتے ہوئے میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔  اس کے چہرے پر  چھائی دلچسپی اچانک ناگواری میں بدل گئی۔ گویا  کوئی بچہ دور سے اپنے مرغوب کھلونے کو دیکھ کر دوڑتا ہوا آیا ہو اور جب قریب پہنچے تو اسے معلوم ہو کہ یہ وہ چیز نہیں جو وہ سمجھا تھا۔ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ناگواری  سے کہا، تم کب سے مجھ سے، یعنی اپنے آپ سے جھوٹ بولنے لگے؟ یہ کام تو محض انسانوں کو زیب دیتا ہے! تو میں بھی تو ایک انسان ہی ہوں! میں نے  اس کی جانب دیکھے بغیر جواب دیا۔ اس نے ایک بڑا سا قہقہہ لگایا اور میرا چہرا اپنی جانب موڑ کر بولا، تم کب سے انسان ہوگئے؟تم تو محض احساس کمتری کی بدترین کیفیت یعنی خود ترسی اور خود ترحمی کا شکار ایک وجود ہو جو انسانی خد و خال رکھتا ہے۔ تم یہ رکیک بات میرے بارے میں کیسے کہہ سکتے ہو؟ میں نے تنک کر اس سے پوچھا۔  اس نے ایک کمینی مسکراہٹ چہرے پر پھیلا کر جواب دیا کیوں کہ تمہیں جاننے کے لئے مجھے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہارا ہی عکس ہوں۔ جو تم ہو سو میں ہوں اور جو میں ہوں سو تم ہو! اور میں جانتا ہوں کہ ہم دونوں احساس کمتری کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم لوگوں کی اغلاط کو بھی صرف اس وجہ سے معاف کردیتے ہیں کہ ساری عمر خود کو سنا سکیں کہ دیکھو میں نے انتقام کی طاقت رکھتے ہوئے بھی بدلہ نہیں لیا۔ ہم یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس کا بدلہ نہیں دے سکتے، لوگوں کے پیچھے مسلسل خرچ ہوئے چلے جاتے ہیں  تاکہ انہیں احساس شرمندگی میں مبتلا کرکے اپنی انا کی تسکین کر سکیں۔   ہم جان بوجھ کر روح پر آزار پالتے ہیں تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم نے کانٹوں کی فصل کاٹ کر بھی بدلے میں سوائے پھولوں کے کچھ نہیں دیا۔ ہم انسان کیسے ہوسکتے ہیں؟ تم انسان کیسے ہوسکتے ہو؟ انسان تو بے ضرر ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خود کو نقصان پہنچاتا ہے۔  ہماری تمہاری طرح اپنے پیاروں کی زندگی میں آہستگی سے وہ زہر نہیں گھولتا کہ جس کا تریاق سوائے ہمارے وجود کے کچھ بھی نہ ہو اور ایک وقت ایسا  نہ آجائے کہ ان کی زندگیوں میں ہمارے سوا کچھ نہ بچے اور ہمارے وجود کے بغیر ان کی زندگیوں کا تصور ہی مٹ جائے۔ اور ستم ظریفی یہ کہ جب تک وہ اس مرحلے تک نہ پہنچ جائیں ہم ان سے اس بات کا شکوہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں اب تک وہ مقام کیوں نہیں آیا ہے۔ انسان اتنا سفاک نہیں ہوسکتا ۔ہم انسان نہیں ہوسکتے! تم انسان نہیں ہوسکتے!  جذبات کی رو میں وہ مسلسل بولتا چلا گیا اور اپنا جملہ مکمل کرنے کے بعد ایک طرف حقارت سے تھوک کر بیٹھ گیا اور ہانپنے لگا۔
تھوڑی دیر تک ہم دونوں یونہی خاموشی سے ساحل پر بیٹھے رہے اور پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا دیا اور اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے ساحل پر چلنے لگا۔  سمندر کی لہریں ہمارے پیروں کو بھگو رہی تھیں اور نرم ریت میں پیر دھنسے جاتے تھے۔ لہر جب واپس سمندر کی سمت لوٹتی تو اپنے ساتھ ہمارے پیروں کے نیچے کی مٹی کو بھی سرکاتی جاتی تھی۔ گویا ہمارے وجود کی نجاست کو صاف کرنے اسے اپنے ساتھ سمندر میں لے جانا چاہتی ہو۔ فضا میں سوائے سمندر کی لہروں کی موسیقی کے، مکمل خاموشی تھی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد جب میں نے محسوس کیا کہ اس نے مدافعت ترک کردی ہے اور اب مجھے اسے کھینچنا نہیں پڑ رہا تو میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور گویا ہوا، یہ ساری باتیں جو تم نے کہیں، شاید تمام کی تمام سچ تھیں۔ مگر تم نے کبھی سوچا کہ یہ ساری خصوصیات جو تم نے مجھ سے منسوب کی ہیں یہ پہلے بھی کسی اور سے منسوب رہی ہیں۔ ایک اور بھی ہے جو اس نقشے پر پورا اترتا ہے؟ میری بات سن کر اس نے پہلے مجھے حیرت سے دیکھا اور پھر ہنستے ہنستے دوہرا ہوگیا۔ وہ مجھے میری کمینگی پر صلواتیں سناتا جاتا تھا اور ہنستا جاتا تھا۔ جب ہنستے ہنتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تو وہ رکا  اور اپنی آنکھوں سے پانی صاف کرتے ہوئے بولا، میں نے غلط سوال تو نہیں کیا تھا،  تم نے  واقعی کبھی خودکشی کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟۔

اس رات ساحل پر دیر تک ہمارے قہقہے گونجتے رہے تھے!

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت