اتوار، 1 نومبر، 2015

طلاق

معاملہ سادہ سا تھا مگر معاشرے نے  اسے پیچیدہ کر دیا تھا۔ میری شادی کو تین سال ہو گئے تھے مگر بسیار کوشش کے باوجود ہم دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت پیدا نہیں ہوپائی تھی۔  شروع شروع میں ہم دونوں اس اختلاف رائے کو رشتے کا حسن سمجھتے تھے مگر وقت کے ساتھ ہم دونوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہمارا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ میری بیوی میں خدا نخواستہ کوئی اخلاقی برائی نہیں تھی۔ وہ پڑھی لکھی اور خوش شکل بھی  تھی۔  دنیا والوں کی نگاہ میں اس طلاق کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر ہم دونوں جانتے تھے کہ چیزیں اس ہی طرح چلتی رہیں تو ہماری روز کی تلخ کلامیاں بہت جلد جھگڑوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔ ایک دن ہم دونوں اس مدعے پر سر جوڑ کر بیٹھے اور تین سال میں پہلی مرتبہ ہم دونوں کسی بات پر متفق ہوگئے۔ ایک ہفتے تک معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے طلاق لے لی تھی۔

ہمارا ماننا تھا کہ کوئی کام دنیا کو دکھانے کے لیئے نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں تو ہمیں یہ حق ملنا چاہئے کہ ہم اس بات کا اظہار کر سکیں۔ ہمیں اس بات سے نفرت تھی کہ محض لوگوں کو دکھانے کے لیئے مسکراتے رہیں جبکہ درپردہ ہم خون کے آنسو رو رہے ہوں۔  دنیا مگر نہ اس طرح سوچتی ہے اور نہ اس طرح سوچنے کی اجازت دیتی ہے۔

جیسے ہی طلاق کی خبر احباب میں پھیلی، انہوں نے ہم دونوں کا گھیراؤ کر لیا۔اٹھتے بیٹھتے ہم دونوں کو سمجھایا جاتا کہ طلاق خدا کی ناپسندیدہ ترین چیز ہے۔ میں کہتا کہ منافقت شاید خدا کو طلاق سے زیادہ ناپسند ہے تبھی منافق کے بارے میں ہزاروں وعید موجود ہیں مگر مطلقہ کے جہنم میں جانے کے بارے میں کوئی بیان نہیں ملتا۔ جواب ملتا وہ منافقت ایمان لانے کا دکھاوا کرنے کے بارے میں تھی۔ میں عرض کرتا مگر رسول خداؐ نے تو اس بارے میں صراحت نہیں کی کہ صرف وہ منافق ہی جہنم میں جائیں گے؟ اور اگر کی بھی ہے تو میرے علم میں نہیں ہے! پھر کہا جاتا،  تم میاں بیوی تو پڑھے لکھے ہو! شعور رکھتے ہو! پھر ایسی جاہلانہ حرکت؟ میں پوچھتا کہ آپ نے کتنے جہلاء میں طلاق کا رجحان دیکھا؟ پڑھے لکھے ہیں تبھی جانتے ہیں کہ خدا نے کسی وجہ سے اس ناپسندیدہ چیز کو حلال رکھا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان شادی بیاہ کے معاملات میں غلطی کرسکتے ہیں اس لیئے اس نے باہر نکلنے کا ایک راستہ چھوڑ رکھا ہے۔ وہ کہتے کہ دیکھو میاں غلطی ہو ہی گئی تھی تو مرد بن کر نباہنی چاہیئے تھی! میں جواب دیتا کہ غلطی کرنا غلطی نہیں ہوتی، غلطی کر کے اس پر ڈٹے رہنا غلطی ہوتی ہے! وہ زچ ہوکر اٹھ جاتے اور  ان کے جانے کے بعد کسی اور صاحب سے دوبارہ ان جیسے ہی مکالموں پر مبنی مباحثہ شروع ہوجاتا۔

میری سابقہ بیوی بیچاری مجھ سے زیادہ مصیبت میں تھی۔ مجھے تو محض سمجھایا جاتا تھا مگر چونکہ وہ بدقسمتی سے عورت واقع ہوئی تھی سو اس کے حصے میں محض نصائح نہیں آتے تھے۔ اس غریب کو باقاعدہ ڈرایا جاتا تھا۔ بیٹا تم جانتی نہیں ہو کہ مطلقہ عورت کا اس معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے! وہ جواب میں کہتی، معاشرے میں ویسے بھی عورت کا مقام کسی کی بیٹی سے شروع ہو کر کسی کی بہن اور پھر کسی بیوی اور بالآخر کسی کی ماں ہی ہوتا ہے۔ سو اب اگر میں کسی کی بیوی والے مرحلے سے نکل گئی ہوں تو کیا ہوا؟ کسی کی مطلقہ تو ہوں نا؟ تو مرد کا نام تو الحمدللہ اب بھی موجود  ہے! میرے مقام پر کیا فرق پڑ گیا؟ فرق تو تب پڑتا جب خدانخواستہ لوگ مجھے میری ذاتی حیثیت میں جاننے لگتے۔  پھر کہا جاتا، لوگ تمہارے کردار پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ طلاق کے معاملے میں قصور وار ہمیشہ عورت ہی ہوتی ہے۔ خدا نے عورت کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات سے مطابقت اختیار کرلے۔ وہ جواب میں کہتی، مگر رسول خدا نے تو کہا تھا کہ عورت پسلی سے نکلی ہے! اسے اپنی مرضی کے مطابق  سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی۔ گویا رسول خداؐ تو کہتے ہیں کہ جس طرح اپنی پسلی کو ٹیڑھا پا کر بھی تم اسے سیدھا کرنے کے بجائے خود اس کے حساب سے مطابقت پیدا کرلیتے ہو ویسے اگر مرضی کی عورت نہ بھی ملے تو بھی اس کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرو! جواب ملتا، ہمیں اپنی مرضی کے مذہب کی تاویلات نہ سناؤ، سڑتی رہو! ہمارا کام بتانا تھا سو ہم نے بتا دیا۔ یہ کہہ کر لوگ باقی کے تازیانے اگلے آنے والے کے لیئے چھوڑ کر اگلے دن تک کے لیئے چلے جاتے۔

ہم دونوں اس صورتحال سے بہت عاجز تھے۔ میرے دوستوں کا مجھ پر بہت شدید دباؤ تھا کہ میں اپنی سابقہ بیوی سے رجوع کر لوں۔  ادھر ہم دونوں کا یہ حال تھا کہ  ہم دونوں ایک دوسرے کی عزت کرنے کے باوجود، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے یا ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا کہ وہ کس حال میں ہے۔ ہوائی جہاز کے سفر میں زندگی کا یہ زریں اصول میں نے بہت پہلے سیکھ لیا تھا کہ ہنگامی حالات میں پہلے اپنا آکسیجن ماسک لگائیں اور پھر دوسروں کی مدد کریں۔ان حالات میں میں اپنے لیئے آکسیجن ماسک نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا تو اس کی مدد کیسے کرتا؟

لوگوں کی باتوں سے میں بری طرح عاجز ہوچکا تھا۔ عاطف مجھ سے ملنے کے لیئے آیا تو میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ عاطف میرا سب سے مخلص دوست تھا۔ وہ روز مجھے سمجھانے آتا تھا اور گھنٹوں مجھے میری سابقہ بیوی کے فضائل گنوایا کرتا تھا اور ساتھ میں مجھے احساس دلانے کی کوشش بھی کرتا تھا کہ میری زندگی اس عورت کے بغیر کتنی نامکمل ہے۔ آج جب وہ دوبارہ مجھے سمجھانا شروع ہوا تو جیسے میں نے عرض کیا کہ میری ہمت جواب دے چکی تھی سو میں نے بحث سے بچنے کے لیئے اس کی زانو پر ہاتھ رکھا اور تھکے ہوئے لہجے میں کہہ دیا کہ یار! تو واقعی صحیح کہہ رہا ہے۔ مجھ سے بڑی بھول ہوگئی! بس اب دعا کرکہ کسی بھی طرح حالات صحیح ہوجائیں۔ میری یہ بات سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے مسرت بھرے لہجے میں میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا، جانی! اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے! وہ سب کی سنتا ہے! تو بس دعا کر، اللہ تعالیٰ سب صحیح کر دے گا! کسی چیز سے گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیرا بھائی تیرے ساتھ کھڑا ہے! بس تو بھابھی سے ایک بار بات کر لے۔ مجھے یقین ہے وہ بھی تجھ سے الگ ہوکر اچھی زندگی نہیں گزار رہی ہوں گی۔ تم دونوں کو اب دوبارہ ایک ہوجانا چاہیئے۔ اور ہاں، میں نے کہا ناں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں! گھر کی بات گھر میں رہے گی! میں حلالے کے لیئے تیار ہوں۔


3 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت