پیر، 22 اگست، 2016

ورثہ

کتنی بار سمجھایا ہے تم لوگوں کو کہ یہ کھیلنے کی چیزیں نہیں ہیں! ابا کی دھاڑ صحن میں گونجی اور ہم سب بچے سراسیمہ ہوکر اماں کے کمرے کی طرف دوڑ گئے۔ ابا ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہی تھے اور باقیوں کے ابو کے مقابلے میں کم ہی ٖغصہ کرتے تھے مگر اپنی اماں کے جہیز کے ان پیتل کے برتنوں میں تو مانو ان کی جان چھپی ہوئی تھی۔  یہ برتنوں کا پورا سیٹ  ہماری دادی کے خاندان میں خدا جانے کب سے چلا آرہا تھا اور ان کو ان کی اماں نے رخصتی پر دیا تھا ۔ پہلے دادی نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور اب ان کے گزرنے کے بعد سے ابا نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لی تھی۔ 

نئے زمانے تھے اور پیتل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں سو پیتل کے برتن مکمل متروک ہوچکے تھے۔ ان برتنوں کے متروک ہونے کی وجہ سے ان کے قلعی کرنے والے بھی ناپید ہوچکے تھے اور ہمارے اسٹور روم میں سجے ہوئے وہ ظروف بھی سال خوردگی کے کارن نوادرات لگتے  تھے۔ فطر ی طور پر ہر وہ چیز جس سے روکا جائے وہ بچوں کی محبوب ہوتی ہے سو یہی معاملہ ان برتنوں کا بھی تھا۔  ہمیں جب کبھی موقع ملتا ہم ان برتنوں کو سٹور سے نکال لاتے اور صحن میں سجا کر میوزیم میوزیم کھیلا کرتے تھے۔ عام طور پر یہ وقت دوپہر کا ہی ہوتا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد اماں اپنی کمر سیدھی کر رہی ہوتی تھیں اور ہم بچوں کی عیاشی ہوجاتی تھی۔ البتہ کسی دن  قسمت خراب  بھی ہوتی اور ابا جلدی گھر آجاتے  اور پھر ایک آدھ گھنٹے تک وہ بڑبڑاتے اور اماں کو صلواتیں سناتے رہتے تھے کہ جن سے تین بچے نہیں سنبھلتے تھے۔
آج برسوں بعد وہ مناظر پھر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے کیونکہ آج برسوں بعد وہی ظروف ایک بار پھر ہمارے دالان میں سجے ہوئے تھے اور اس بار انہیں سٹور سے نکالنے کی گستاخی کرنے والا کوئی اور نہیں خود ابا تھے۔

معاملہ کچھ یوں تھا  کہ میں یونیورسٹی سے فارغ ہوچکی تھی اور آنے والے رشتوں میں سے ایک امی ابو کو پسند
 بھی آگیا تھا اور وہاں میری بات پکی کر دی گئی تھی۔ لڑکا پڑھا لکھا تھا۔ اچھی نوکری تھی اور خاندانی لوگ تھے۔ بقول ابا کے، میرے لئے اس سے بہتر کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔  خیر اس جملے کا کیا کہ یہ جملہ تو میرے ملک کی تقریبا ہر مطلقہ نے بھی اپنی شادی کے وقت ضرور سن رکھا ہوتا ہے کیونکہ یہ جملہ والدین اولاد سے زیادہ خود کو تسلی دینے کے لئے  کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اس تسلی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بچپن سے جب لڑکی کو محض لڑکی بنا کر پالا جائے تو بڑے ہوکر اسے یہ یقین دلانا کہ وہ محض لڑکی نہیں بلکہ انسان بھی ہے بہت دشوار ہوتا ہے۔پھر وہ ساری عمر کے لئے محض ایک لڑکی ہی ہوتی ہے۔ اور پھر  جس معاشرے میں لڑکی کو سراہنے کا مطلب اسے "بلاوجہ سر چڑاھنا " قرار دے دیا جائے تو پھر اس غریب کی زندگی میں آنے والا ارذل ترین مرد بھی جب اسے مصنوعی ہی سہی، اگر عزت دیتا ہے، اسے سراہتا ہے ، تو وہ غریب اسے دنیا کا سب سے مخلص انسان سمجھ بیٹھتی ہے۔ سب کچھ اسے سونپنے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گویا کہ وہ دکاندار جو اپنے مال سے اس قدر مایوس ہوچکا ہو کہ جب رات گئے کوئی بھولا بھٹکا نشئی بھی بھٹکتا ہوا اس کی دکان پر آ نکلے تو وہ دکاندار محض اپنا نقصان کم کرنے کے لئے اپنا قیمتی ترین سامان، قیمت خرید سے بھی کم داموں میں بیچ دینے کو تیار ہوجائے۔اور لاکھ تعلیم یافتہ سہی مگر بہرحال  میں بھی اس ہی معاشرے میں رہنے والی  ایک لڑکی تھی سو اگر ایک لڑکا عمر بھر کے لئے  میری ذمہ داری اٹھانے پر راضی تھا تو اس اسے بہتر کوئی انسان میرے لئے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

 میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی مگر دونوں بھائی ابھی چھوٹے تھے اور کما نہیں رہے تھے۔ شادی کے تمام اخراجات کا بار ابا کے کاندھوں پر تھا  اور وہ اپنے حساب سے جس حد تک ہوسکتا تھا تیاریوں میں مصروف تھے۔ اکلوتی لڑکی ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم تھا کہ یہ خرچہ دوبارہ پلٹ کر نہیں آنا سو انہوں نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر ساری جمع پونجی میری شادی کی تیاریوں پر لگا دی تھی۔ متوسط طبقے کا گھرانہ تھا سو اماں کا زیور بکنے کے بعد اور دیگر جمع پونجی ملا کر بھی ناکافی ثابت ہوئی تھی اور ابا کو چند دوستوں سے ادھاربھی  لینا پڑ گیا تھا مگر وہ پھر بھی مطمئن تھے کہ میں رخصت ہوکر اچھے گھر میں جارہی ہوں۔

ان کا یہ اطمینان مگر عارضی ثابت ہوا تھا کیونکہ جس دن جہیز کا سامان پہنچا کر وہ وواپس آئے تو ان کا منہ تفکرات کی دکان بنا ہوا تھا۔ میرے ہونے والے سسر نے انہیں بہت رسان سے سمجھادیا تھا کہ ان کا زمانہ اور تھا مگر اب نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں۔ وہ مانگ تو نہیں رہے مگر آنے والی بہو رکشہ ٹیکسیوں میں گھومتی اچھی نہیں لگے گی اور ویسے بھی لڑکا انجینئر ہے سو بعد میں تو اپنی گاڑی خرید ہی لے گا مگر تب تک بیچاری بہو کہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتی پھرے گی؟ آپ نے اتنا تام جھام بلا وجہ کرلیا حالانکہ ہم لوگ تو جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں اس لئے ہم نے آپ سے کوئی مانگ بھی نہیں کی تھی۔ گاڑی کا معاملہ بھی اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ یہ آپ کی اپنی بیٹی کی خوشی اور آرام کا معاملہ ہے۔ بھئی ہم نے تو پورے خاندان کو بتا دیا ہے کہ خیر سے بہو اونچے گھرانے سے ہے اور اس نے نہایت محبت کرنے والے والدین پائے ہیں سو اب تو یہ عزت کا معاملہ ہوگیا ہے۔ تین دن بعد نکاح ہے۔ کوئی اچھی سی گاڑی دیکھ لیں۔ اور آپ کو تو ہماری فطرت کا پتہ ہے۔ کم پہ راضی ہوجانے والے لوگ ہیں۔ چھوٹی گاڑی بھی چلے گی! وہ تو یہ کہہ کر ابا سے ہاتھ ملا اور گھر کے اندر چلے گئے مگر ابا پر پریشانیوں کے پہاڑ توڑ گئے۔

جمع پونجی پہلے ہی لگ چکی تھی۔ اماں کا زیور بک چکا تھا۔  ادھار دینے والوں کی بھی ایک سکت ہوتی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی  گاڑی بھی کم از کم چھ لاکھ روپے کی آتی۔ اتنے پیسے مزید ادھار کس سے لیتے؟ ابا پہلے تو گھر آکر کمرا بند کرکے بیٹھ رہے پھر ان کے دماغ میں ان برتنوں کا خیال آگیا۔ ابا کے ایک خالہ زاد بھائی نوادرات کا کام کرتے تھے اور مدت سے ابا کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ ظروف انہیں بیچ دیئے جائیں مگر ابا اس بارے میں ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں تھے۔ مجبوری کا نام شکریہ سو آج ابا نے انہیں فون کرکے گھر بلا لیا تھا۔ تین لاکھ روپے نقد بطور ان برتنوں کی قیمت اور گاڑی کے لئے درکار باقی تین لاکھ روپے بطور ادھار دینے کے عوض ان برتنوں کا سودا ہوگیا تھا۔

میں صحن سے گزری تو دیکھا ابا اپنے رومال سے رگڑ کر ایک ایک برتن کو صاف کر رہے تھے۔ خدا جانے کب
 سے ضبط کئے بیٹھے تھے مگر مجھے دیکھ کر ان کا ضبط ٹوٹ گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ انہوں نے فورا منہ پھیر لیا۔ وہ میرے سامنے کمزور نہیں دکھنا چاہتے تھے۔ خود میں بھی وہاں انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی تھی لہذا دوڑتی ہوئی کمرے میں گھس کر اماں کی گود میں منہ دے دیا اور پھوٹ بہی۔ اماں سب ماجرا جانتی تھیں سو انہوں نے خاموشی سے میرے بالوں کو سہلانا شروع کردیا۔

جب تھوڑی دیر رو چکنے کے بعد میرا دل ہلکا ہوگیا تو میں نے گود سے سر اٹھا کر اماں سے پوچھا کہ وہ ابا کو روکتی کیوں نہیں ہیں؟ وہ تو جانتی ہیں کہ ان برتنوں میں ابا کی جان چھپی ہے! ان کے بغیر وہ آدھے ہوجائیں گے! یہ ان کی ماں کی نشانی ہیں! میرے جہیز میں اتنا کچھ تو جا ہی چکا ہے سو اب مزید دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ابا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں کہ وہ لڑکے والوں سے بات کریں؟ ہم بیٹی دے رہے ہیں یا بیٹا خرید رہے ہیں؟ اور اگر آج ہم یہ سب کچھ دے کر ان کا بیٹا خرید بھی رہے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں مزید قیمت نہیں چکانی پڑے گی؟ آج تو یہ برتن بک رہے ہیں کل تو بیچنے کو بھی کچھ نہیں بچے گا ماں! آپ ابا کو کچھ سمجھاتی کیوں نہیں ہیں آخر؟ آپ تو خود ایک عورت ہیں؟ آپ جہیز جیسی اس لعنت پر خاموش کیسے ہیں؟ بولیں امی؟

اماں نے اپنی آنکھ میں آنے والے آنسو کو انگلی سے جھٹکا اور سفاکی سے گویا ہوئیں، بیٹا! میں آج تک اپنی شادی پر ہونے والی اپنے باپ کی حالت نہیں بھولی! تمہارے باپ کو  کیسے سمجھاؤں؟ کیا سمجھاؤں؟ خود بتاؤ!


2 تبصرے :

  1. بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ میں تین بیٹیوں کا باپ ہوں اس لیے شاید۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. معاشرے کی عکاسی کرتی ہوئی ایک نہایت عمدہ تحریر

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت