جمعرات، 25 اگست، 2016

جنت مکانی اقبال جانی کی ڈائری - سوشل میڈیا

پیاری ڈائری،

پیکاچو کی تلاش کا احوال تو تم پچھلے ہفتے سن ہی چکی ہو تو آج جب تھوڑی فرصت میسر ہوئی تو سوچا باقی کی کہانی بھی مکتوب کر ہی دوں۔

بھئی ماجرہ کچھ یوں ہے کہ جب سے یہ انٹرنیٹ آٰیا ہے یہاں کا ماحول بھی عجیب ہوگیا ہے۔ پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایلیا بھائی کے محل سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کی بہتّر میں سے ایک نے غلطی سے فیس بک پرکسی  فراق کی کوئی غزل شیئر کر دی تھی۔ یہ خبر جب ایلیا کی نیوز فیڈ میں آئی تو یہ لگے اس حور کو لتاڑنے۔ اب وہ غریب لاکھ یقین دلائے کہ معاملہ یوں نہیں اور یوں ہے اور وہ فراق کو دو کوڑی کا شاعر نہیں مانتی مگر ایلیا بھائی کا اصرار تھا کہ اگر تو واقعی اپنے دعوے اور میری محبت میں سچی ہے تو ابھی اپنی رگ کاٹ کر دکھا تو میں مانوں! اُدھر وہ بھی تیش کھا کر چلارہی تھی کہ اول تو رگوں کا تصور نہیں اور جو ہوتی بھی تو کیا سچ میں کاٹ لیتی؟ آپ نے خود فرمائش کرکے فارحہ مانگی تھی۔ اب بھگتیں! بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ ہوا مگر شام گئے تک ایلیا نے اس پر بھی ایک بے وزنی غزل کہہ ڈالی اور گلی گلی دروازے بجا کر لوگوں کو سناتے پھرے۔ خیر یہ بھی خوب تماشہ رہا!

یہ تو ہوا فیس بک کا احوال، دوسری طرف کوئی موا انسٹا گرام کرکے بھی آگیا ہے۔  اپنی بیگم تو خیر ملکہ حسن بھی ہو تو بھی خوش شکل  نہیں لگ سکتی بلکہ جنوب کے ایک شاعر کے بقول، عورت کے خوبصورت ہونے کے لئے اس کا پرایا ہونا ضروری ہے تو ان کا کیا رونا مگر اچھی خاصی حورین اس انسٹا گرام کے چکر میں عجیب ہوگئی ہیں۔ کل پائیں باغ میں داخل ہوا تو ایک ٹیڑھے منہ والی عورت کو دیکھ کر ڈر ہی تو گیا۔چہرے کے بگڑے ہوئے نقوش دیکھ کر لگا کہ شاید بیگم صاحب ہیں مگر جب ان خاتون نے منہ سیدھا کیا تو پہچانا کہ یہ تو چونسٹھویں ہیں۔ پوچھا کہ خدا نخواستہ یہاں بھی مرگی کا مرض موجود ہے تو شرم سے دوہری ہوتے ہوئے گویا ہوئیں کہ انسٹا پر سیلفی ڈالنی تھی۔ یا للعجب!

خیر یہ سب گفتگو تو برسبیل تذکرہ تھی۔ اصل ماجرہ تو اس ٹوئیٹر کا تھا۔ بھئی یہ ٹوئیٹر بھی کوئی کمال کی چیز ہے۔ گھنٹوں مجمعے کو مسحور کرکے تقاریر کرنے والے اب بیٹھ کر شکل دیکھتے ہیں اور گھرمیں اپنے کمرے سے باہر بھی پہچانے نہ جانے والے احباب اب سلیبرٹی کہلاتے ہیں۔ ابھی کل  ہی کی بات ہے کہ مغرب کے بعد مغربی محلے میں وہ تیسری والی مشہور مغربی چیز کی محفل جمی  ہوئی تھی کہ محمد علی صاحب بیٹھے بیٹھے آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ کل میں نے چودہ نکات ٹوئیٹ کئے تھے۔ چودہ ریٹوئیٹ بھی نہیں ملیں۔ بعد میں وہی ٹوئیٹ فاطمہ نے اپنے اکاؤنٹ سے کریں تو تین گھنٹے میں تین سو ریٹوئیٹ اور چار سو فیورٹ مل گئے۔ بات واقعی افسوس کی تھی سو سب نے مل کر تسلی دینے کی کوشش کی۔ رحمت علی البتہ بیٹھے ہوئے منہ دبا کر ہنستے رہے۔ محمد علی کی نظر پڑی تو چڑ کر اس ہنسی کی پوچھ بیٹھے۔ رحمت علی پہلے تو پہلو دیتے رہے مگر بالآخر بول پڑے کہ دوسروں کا کیا شکوہ؟ خود آپ نے جس بڑے گلے والی رتی کی آئی ڈی پرسوں فالو کی تھی اور اس کے بعد سے ہی مسلسل ڈائریکٹ میسج کی ریکویسٹ بھیج رہے ہیں وہ خاکسار کی ہی ہے! اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سمجھ داروں کے لئے نشانِ عبرت ہے۔

بس اس واقعے کے بعد سے سمجھوسوشل میڈیا سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ جن حوروں کو ہم غزلیں سناتے رہے اگر کبھی وہ بھی غلماں نکلے تو  ۔۔۔  رہے نام اللہ کا!


محمد اقبال 

2 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت