جمعہ، 5 اگست، 2016

ڈیڑھ عشقیہ

شیشے کے سامنے کھڑی وہ اپنی خوبصورت اور دراز زلفوں کو سنوارتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنے سراپے کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔ خود کو اوپر سے نیچے تک دیکھ کر ایک  عجیب سی مسکان اس کے ہونٹوں پر دوڑ گئی۔ فخریہ مسکان، مگر وہ فخر جو بے پناہ تھکن کے بعد آیا ہو۔
کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو آج سے تین سال پہلے تک اپنے شدید موٹاپے کی وجہ سے محض بطورِ لطیفہ یاد کی جاتی تھی۔ مگر پھر ایک دن وہ بیمار پڑی اور ایسی پڑی کہ پھر اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ بیماری کہنے کو جان لیوا تھی مگر اسے ایک نئی زندگی عطا کرگئی تھی۔ علاج کے دوران وہ مانو گھلنا شروع ہوگئی اور جب دو سال کے تھکا دینے والے علاج کے بعد بیماری رخصت ہوئی تو جاتے ہوئے اس کے جسم پر موجود فاضل گوشت اور چکنائی سب ساتھ لے گئی۔ گئے زمانے میں اس حالت کو کو ہڈیوں کا ڈھانچہ  ہونا کہا جاتا تھا  مگر  اب سائز زیرو کی اصطلاح آنے کے بعد وہ اب جہاں بھی جاتی مرکز نگاہ بن جاتی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ خدا نے اسے شاندار نین نقش سے بھی نواز رکھا تھا اور اس توجہی کی وجہ محض اس کی نزاکت  نہیں تھی مگر یہی نین نقش جب موٹاپے کی چربی کے پیچھے موجود تھے تو کوئی انہیں سراہنا تو درکنار دیکھنے تک کا روادار نہیں تھا۔
بیماری سے فراغت کے بعد کچھ ماہ تو وہ گھر پر ہی آرام کرتی رہی مگر وہ سالوں سے  گھر پر بیٹھے بیٹھے زچ ہوچکی تھی۔ وہ ابھی جوان تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہی ہے۔ اب جب ڈاکٹر نے بھی اسے کام کرنے کی اجازت دے دی تھی تو وہ مزید گھر میں رہ کر بستر توڑ نا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے گھر والوں کو قائل کرکے ایک دفتر جوائن کرلیا تھا۔ باپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی اسے مزید آرام کرنا چاہئے تو اس نے انہیں یہ کہہ کر قائل کرلیا تھا کہ وہ کون سا پتھر توڑنے کی نوکری کرنے جارہی ہے؟ دن بھر دفتر میں ایئر کنڈیشنر میں بیٹھ کر ہی تو کام کرنا ہے! باپ اس کے کام کرنے پر خورسند تو نہیں تھا مگر اس کی خوشی کے لئے مجبورا راضی ہوگیا اور اللہ کے حکم سے جلد ہی اسے نوکری بھی مل گئی سو اس نے دفتر جانا شروع کردیا۔
اس کے دفتر کے کنوارے ساتھیوں کے نزدیک وہ کمپنی کے قیام کے بعد سے اب تک کمپنی کی جانب سے کیا گیا سب سے اچھا فیصلہ تھی۔  اس کے آنے کے بعد سے دفتر کے مردوں کو اچانک سے خیال آگیا تھا کہ ان کے دفتری ملبوسات کتنے پرانے فیشن کے ہیں۔ پرفیوم کا کون سا برانڈ سب سے بہتر ہے اس کے اوپر باقاعدہ بحث ہونے لگی۔ کھانے کے وقفے میں شاید سب ہی گھر کے لائے ٹفن کو لعنت بھیج کر باہر کھانا شروع کردیتے مگر غنیمت تھا کہ بیماری نے  اس کی بھوک اڑا دی تھی سو وہ لنچ بریک میں اپنی نشست پر ہی رہتی یا خواتین کے لئے مخصوص کمرے میں جاکر دو کرسیاں جوڑتی اور دراز ہوجاتی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ دفتر کے مردوں کی ان سب حرکات سے ناواقف تھی۔ چوبیس سال بھگتنے والی بے اعتنائی نے اسے التفات کا مطلب بہت اچھی طرح سکھا دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ یہ سب اس کی توجہ پانے کے لئے کر رہے ہیں مگر وہ کسی بھی پیش قدمی سے ڈرتی تھی۔  اسے لگتا تھا کہ جس دن وہ لوگ اس کی اصلیت اور اس کی بیماری کے بارے میں جانیں گے تو یہ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ وہ اس ٹھکرائے جانے کی تکلیف سے بچنا چاہتی تھی۔  وہ سب سے مسکرا کر بات کرتی مگر کسی کو اپنی مسکراہٹ سے رضامندی کا مطلب نکالنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
کہتے ہیں کہ ایک ہی چوکھٹ پر مسلسل سجدہ کرنے سے پتھر ٹوٹے نہ ٹوٹے، سر میں درد ضرور ہوجاتا ہے۔ اس کے دفتر کے ساتھیوں نے جب اس دردِ سر کو محسوس کیا تو وہ ایک ایک کرکے پیچھے ہونا شروع ہوگئے۔ اور ان کے اس طرح پیچھے ہٹنے پر اسے نہ کوئی شکایت تھی نہ گلہ۔ وہ مطمئن تھی کہ اس نے کسی کو کوئی امید نہیں دلائی تھی اورنہ  خود کسی کے دیے گئے محبت کے فریب میں گرفتار ہوئی تھی۔ ایک بات اسے البتہ اب بھی پریشان کرتی تھی کہ سب کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد بھی ان میں سے ایک ابھی تک اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا تھا۔  اور وہ اپنے ارادے میں اتنا اٹل تھا کہ باقیوں کے برعکس ، نتائج سے بے پرواہ ہو کر باقاعدہ محبت کا اظہار بھی کر چکا تھا۔  اس کے اس اظہار پر اس نے اسے نرمی سے ٹال دیا تھا مگر وہ باز نہیں آیا تھا۔
جب مہینے گزرنے کے بعد بھی اس کی روش میں تبدیلی نہیں آئی تو آج اس نے اسے بٹھا کر سمجھانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ مدت سے مصر تھا کہ یہ اس کے ساتھ کھانے پر باہر چلے تو اس نے آج رات کھانے پر ملنے کی حامی بھر لی۔ اس وقت وہ اس سے ملاقات کے لئے ہی تیار ہونے شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔ لباس پر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کے بعد اس نے جلدی جلدی کاجل سے بھنووں کو ایک فائنل ٹچ دیا اور پرس اٹھا کر باہر نکل گئی۔ جہاں وہ اپنی گاڑی میں اس کا منتظر تھا۔
شہر کے مشہور ریستوران میں اس نے ان دونوں کے لئے ایک کونا مخصوص کروا لیا تھا تاکہ وہ اس حسینہ کے ساتھ سکون اور تنہائی میں وقت گزار سکے۔ راستے بھر اور پھر کھانا کھانے تک وہ دونوں ادھر ادھر کی خوش گپیاں کرتے رہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد جب اس نے دوبارہ ان دونوں کی شادی کا موضوع چھیڑا تو اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر اسے اپنی بیماری اور اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اس کی بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں رہا مگر پھر گویا ہوا کہ وہ جانتا ہے کہ اس نے یہ بھنویں کاجل سے بنا رکھی ہیں اور اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  اس کا موٹاپا، دنیا کا اس کو ٹھکرانا وغیرہ سب ماضی کی باتیں ہیں اور اس ماضی کی وجہ سے وہ حال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔  اس نے ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی زلفوں کو سہلاتے ہوئے گویا ہوا، جسم ویسے بھی عمر کے ساتھ ڈھل جاتا ہے۔ سچ کہوں تو میں تمہاری زلفوں کی وجہ سے ہی تمہارا دیوانہ ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ جب یہ بال اپنی چمک کھو دیں گے اور سفید ہوجائیں گے تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ خود تمہاری زلفوں  ہی کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کی یہ بات سن کر اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ جذبات کی شدت میں اس نے اپنے بالوں کے سہلاتے اس ہاتھ کو چوم لیا اور اپنے سر پر سے وہ شاندار وگ اتار کر برابر میں موجود خالی کرسی پر رکھی اور آنکھیں بند کر کے کر کرسی  کی پشت پر گردن ٹکا دی۔ اس کا بدترین خوف غلط ثابت ہوگیا تھا۔

یہاں تک پہنچ کر میں نے بہت کوشش کی مگر ابلنے والے قہقہوں کا طوفان روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔ میں نے قلم اٹھا کر دیوار پر مارا اور ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ گیا۔دنیا سچ کہتی تھی، میں واقعی محبت کے موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت