جمعرات، 11 اگست، 2016

جنت مکانی؛ اقبال جانی کی ڈائری سے اقتباسات

ارے میاں ڈائری! تم بھی کیا سوچتی ہوگی کہ آج میں خود قلم اٹھا کر کیسے آگیا تو بھائی بات دراصل  یہ ہے کہ مجھے خود لکھنے کی عادت نہیں ہے۔ ہمیشہ کوئی خدمت گزار موجود ہوتا تھا کہ ہم کہتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے۔ اب یہاں کے خدمت گار یا تو عربی بولتے   ہیں یا فارسی! ہم نے  ایک بار سمجھانے کی کوشش کی کہ میاں اردو بولا کرو کہ تمہاری اپنی زبان ہے تو عربی والوں نے فارسی والوں کے ساتھ مل کر ہمیں پاگل خانے بھجوانے کا منصوبہ بنا لیا کہ اپنی زبان کا استعمال نہ کرنا وہ واحد چیز ہے جس پر دونوں ازل سے متحد ہیں۔

کل  بہرحال ایک مجبوری آن پڑی تھی سو دل کڑا کر کے ایک بھائی صاحب سے درخواست کردی کہ ہمارے ایک عزیز کے نام مبارک بادی رقعہ لکھ دیں کہ جن کے ہاں ایک سگڑ پوتا پیدا ہوا تھا۔  الفاظ ہمارے تھے مگر تحریر ان کی۔ جن صاحب کے نام یہ رقعہ تھا وہ زرا جنگ و ہتھیار وغیرہم کے شوقین تھے  اور ہم علامہ بلاوجہ تو مشہور نہیں سو ہم نے بھی شاعرانہ تشبیہ استعمال کی اور لکھوا بھیجا کہ خدا کرے آپ کے ہاں آنے والا یہ نیا آبدار خنجر آپ کے دشمنوں کے سینوں میں ہمیشہ پیوست رہے۔ ملاحظہ تو کیجئے کہ کیا شاندار جملہ تراشا تھا۔ بنا پیئے محض اس جملے کے نشے میں گھنٹوں جھومتے رہے۔  اتفاق سے بیگم بھی خلد مکانی ہیں سو ان کے سیر سے واپس آنے کا وقت ہوا تو حواس بحال ہوئے اور فورا ہوش میں آگئے کہ اتفاق سے ایک حور بھی کہیں سے دو جرے پی کر آگئی تھی اور ہم دونوں کا بیگم صاحب کی غیر موجودگی  میں بیک وقت مدہوش ہونا ، رہے نام اللہ کا! سوچ کر روح کانپ جاتی ہے! خیرخدا  خدا کر کے دوپہر کو وہ رقعہ ان صاحب کو پہنچایا اور اس خط کے پڑھتے ہی وہ  الٹا برس پڑے اور لگے کوسنے دینے کہ میرے سگڑ پوتے نے آپ کا کیا بگاڑا ہے جو آپ نے اسے یوں گالی دی؟َ تحقیق پر معلوم ہوا کہ کاتب صاحب چونکہ پاکستان سے تھے اور نووارد تھے سو اردو لکھنا تو جانتے تھے مگر انگریزی میں! خنجر لکھتے ہوئے ایک ایچ لگانا بھول گئے اور ہمارا گریبان پکڑا گیا۔ پکڑے جاتے ہیں گدھوں کے لکھے پر ناحق!
خیر یہ تو غیر ضروری تفصیلات تھیں مگر لکھنے بیٹھا تو بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ میرے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے۔ کل محمد علی بھی اسی  بات پر 
جھنجھلا کر بولے کہ علامہ صاحب آپ واپس فیس بک پر کیوں نہیں چلے جاتے؟  یہ ٹوئیٹر آپ کے بس کا روگ نہیں ہے! افوہ! میں تو بتانا ہی بھول گیا کہ ایدھی صاحب کے آنے پر یہاں ایک ہیش ٹیگ آئی ایم ایدھی کا بڑا چرچا رہا تھا اور تین چار احباب کی فرمائش پر دنیاوی سوشل میڈیا  اور موبائل فون وغیرہ یہاں بھی فراہم کردیئے گئے ہیں۔ یقین جانو ان چیزوں کے آنے کے بعد سے یہاں کا نقشہ ہی بدل گیا۔ کل پاکستان کے حالات کے اوپر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا  جس میں صرف چند خاص احباب  مدعو تھے۔ ابھی میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ کمرے میں ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ کالے گورے بھورے ہر طرح کے لوگ۔ امریکی،  چینی، سعودی اور ایرانیوں کی تو خیر تھی مگر  ماتھا اس وقت ٹھنکا جب مشہور ہندوستانی بھی کمرے میں داخل ہوئے ۔ لیاقت علی نے مکے لہرا لہرا کر سب کو یاد دلایا کہ یہاں پاکستان کے حوالے سے اجلاس جاری ہے اور تمام غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ عبدالرب نے اپنے اوپر اوندھے ہوتے ہندوستانی کو سیدھا کیا اور اس سے پوچھ بیٹھے کہ یہاں کیا کر رہا ہے تو اس نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا پیکاچو ڈھونڈ رہا ہوں۔ خود بتاؤ؟

کہنے کو بہت سی باتیں موجود ہیں مگر فی الوقت زرا جلدی میں ہوں۔ زیادہ دیر کمرے کا دروازہ بند رہے تو بیگم صاحب کو شک ہونے لگتا ہے۔ کل اس ٹوئیٹر کی کہانی بھی بیان کروں گا۔ تب تک کے لئے اجازت!

والسلام


محمد اقبال

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت