اتوار، 30 اگست، 2015

تصاویر

تم نے آج پھر جاناں ۔۔۔
بھیج دی ہیں تصویریں

اور آج پھر میں نے
صد ہزار کوشش سے
خود کو پھر بچایا ہے

ان حسین آنکھوں میں
ڈوب ڈوب جانے سے
ان گھنیری زلفوں کے
سحر میں نہ آنے سے
دل میں گھر بنانے سے

جب کہ جانتا ہوں میں
کل صبح دوبارہ پھر
تم نے بھیج دینی ہیں
چند مزید تصویریں

اور کل دوبارہ پھر 
ہر صبح کی مانند میں
تم سے کہہ رہا ہوں گا

ہاں ملیں تھیں، دیکھیں تھیں
خاص کچھ نہیں تھیں بس
واجبی ہیں تصویریں
لازمی ہیں تصویریں؟

#عاطفیت

ہفتہ، 22 اگست، 2015

مسبب الاسباب

بچے ہل ہل کر سیپارہ پڑھنے میں مصروف تھے اور اس کا سر سوچوں کا اژدھام سے پھٹا جا رہا تھا۔ مرتبان سے بمشکل مٹھی بھر چاول ہی نکلے تھے جن سے اس وقت صرف بچوں کا ہی پیٹ بھرا جا سکتا تھا۔ میاں کی تنخواہ میں ابھی بھی تین دن باقی تھے اور قرض ادھار کی لعنت پالنے کیلئے درکار ہمت ان دونوں میاں بیوی میں نہیں تھی۔  رات کے کھانے کا کیا انتظام ہوگا یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوئی جارہی تھی۔ اپنی بھوک تو انسان ایک وقت کو برداشت کر لے مگر ان بچوں کا کیا قصور؟ یا خدا! اب تو ہی کوئی معجزہ  دکھادے۔  تو تو مسبب الاسباب ہے۔ ایک غریب کو دینے سے تیرے خزانے میں کون سی کمی ہوجائے گی؟ بڑبڑاتے ہوئے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے اور بچوں کی طرف متوجہ ہوگئی جو اپنی پڑھائی چھوڑ کر اس ہی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
اس نے بچوں کو جھڑکا اور دوبارہ سے قرآن پڑھانے لگی۔ ابھی اسے دوبارہ پڑھائی شروع کیئے چند لمحے ہی ہوئے تھےکہ دروازے پر بہت زور سے دستک ہوئی۔ وہ جھلا کر اٹھی آنے والے کی بدتہذیبی کو کوستے ہوئے دروازہ کھولا تو پڑوسن کی بیٹی جمیلہ کو حواس باختہ کھڑے ہوئے پایا۔ وہ شاید ابھی ابھی کالج سے آئ تھی اور ابھی تک کالج  کے یونیفارم میں ہی تھی۔ اسکے دروازہ کھولتے ہی وہ پھوٹ بہی، آنٹی! امی دروازہ نہیں کھول رہیں۔ گھر کا فون بھی نہیں اٹھا رہیں اور گھر کا دروازہ بھی اندر سے بند ہے۔ آنٹی میرا دل گھبرا رہا ہے۔ گڈو کو بولیں کہ وہ اندر کود کر دروازہ کھول دے۔ پلیز آنٹی؟
اس نے بڑھ کر جمیلہ کو سینے سے لگایا اور دروازے سے ہی گڈو کو آواز لگادی۔ اگلے پانچ منٹ کے بعد گیارہ سالہ گڈو دیوار پھاند کر دروازہ کھول چکا تھا۔ جمیلہ کے خدشات درست تھے۔ اندر ساجدہ خاتون خدا معلوم کب سے بیہوش پڑی تھیں۔ منہ سے جھاگ نکل کر جم چکا تھاالبتہ نبضیں چل رہی تھیں۔ جمیلہ نے پھولے ہاتھ پاؤں سے باپ بھائی کو فون کرکے بتایااور خود ماں کو ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال دوڑ گئی۔

ماں بیٹی کو رخصت کرکے وہ واپس گھر آگئی اور مصلہ بچھا کر بیٹھ گئی ۔وہ روتی جاتی تھی اور دعائیں کرتی جاتی تھی۔ اس ہی عالم میں ایک گھنٹہ گزر گیا۔ بچے جنہوں نے اب تک دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، بےچین ہورہے تھے لہٰذا وہ مصلہ چھوڑ کر بچوں کو کھانا دینے اٹھ گئی۔ بچوں کو کھانا دیکر وہ خود بھوک نہ ہونے کا بہانہ کرکے واپس مصلے کی طرف مڑی ہی تھی کہ باہر گلی میں شور برپا ہوگیا۔ اس نے دوڑ کر باہر جاکر دیکھا تو ایک تباہ حال جمیلہ ایمبولینس میں سے نکلنے والی ساجدہ کی میت پر بین کر رہی تھی۔ وہ دروازے پر ہی ڈھ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح رواں تھے۔ کچھ دیر تو وہ یونہی دروازے پر کھڑی آنسو بہاتی رہی پھر دوڑ تی ہوئی اندر گئی اور مصلے پر سجدہ ریز ہوگئی۔ خدا نے اس کی سن لی تھی۔ اگلے تین دن کے کھانے کا انتظام ہوگیا تھا۔

جمعرات، 20 اگست، 2015

زبان دراز کی ڈائری - جنس زدہ معاشرہ

پیاری ڈائری!

قصور کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں کہ آج بھکر سے بھی وہی خبریں آرہی ہیں۔  وہی معصوم اور کمسن بچے اور وہی جنسی درندوں کی سفاکیاں! وہ تو قصور کے بچوں کو دیکھ کر بھکر کے بھی ایک بچے نے ہمت پکڑ لی اور معاملہ پولیس اور پھر خبر رساں اداروں تک پہنچ گیا ورنہ نجانے کتنے واقعات کی طرح یہ سانحہ بھی دبا رہتا اور ملزم ازار کھولے گھومتے پھرتے! مجھ ایسے نام نہاد شریف قلمکار ان واقعات کو جانتے ہوئے بھی ان پر لکھنے سے گریز کرتے رہتے کہ یہ معاشرے کی وہ دکھتی رگیں ہیں جن پر ہاتھ رکھتے سب کی جان جاتی ہے۔ خدا کی قسم ایسے مواقع پر منٹو ایسا اوسط درجے کا قلمکار بھی جھے مہان لگتا ہے کہ جو اس زمانے میں بھی ان موضوعات پر قلم اٹھاتا تھا جن پر آج ساٹھ ستر سال گزرنے کے بعد بھی بات کرتے ہوئے ہم گھبراتے ہیں۔  لعنت ہے ایسے قلم پر جو معاشرے کے گند کو سامنے نہ لاسکے اور اس کی اصلاح کیلئے قلمکار کی سمجھ کے مطابق کوئی حل تجویز نہ کرسکے۔

سو پیاری ڈائری! میں نہیں چاہتا کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ٹوٹا پھوٹا ہی سہی مگر لکھ سکتے تھے مگر خاموش بیٹھے رہے۔ سو اب سن سکو تو سنو کہ آج میں ماحول سے ماخوذ تمام تر غلاضت تمہارے اوپر انڈیلنے لگا ہوں۔ تمہاری مجبوری ہے کہ تم اٹھ کر نہیں بھاگ سکتیں سو برداشت کرو کہ پرہیز گاری کا بہروپ اوڑھے اور رحمتہ اللہ علیہہ کے جعلی  القابات سجائے اس کوڑھ زدہ  اور دراصل لعنت اللہ علیہہ  معاشرے کی سچائی بیان کرنے کیلئے تم سے بہتر سامع کوئی نہیں  ۔  ویسے بھی یہ باتیں تم سے نہ کروں تو کس سے کروں کہ ان باتوں کی تاب کوئی بھی باحیا و  باغیرت انسان نہیں لاسکتا۔ یہ تو مجھ ایسے بےغیرتوں کا ہی کلیجہ ہے کہ اتنے  شرمناک داغوں کے بعدبھی  زندہ ہیں اوربے شرمی کی انتہاہے کہ ان حالات میں بھی مسکراتے ہیں، زندگی جیتے ہیں، اور قصور اور بھکر ایسے واقعات پر بھی طنز و مزاح کے پہلو ڈھونڈ لاتے ہیں۔مجھ اور مجھ ایسے  سب پر لعنت!


پیاری ڈائری! کیا تم تصور کرسکتی ہو کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جس میں لونڈے باز ہونا کوئی بری بات نہیں البتہ گانڈو ایک گالی سمجھی جاتی ہے؟  جس معاشرے میں رنڈی باز ہونا کوئی بڑی بات نہیں البتہ رنڈی ہونا ایک شدید معیوب بات سمجھی جاتی ہے؟ جس معاشرے میں ہم  جانوروں اور زنخوں تک کو اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال کرتے ہوں مگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی اگر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم بھی رہے ہوں تو ہم ان کی جان کے درپے ہوجائیں؟ سننے میں شاید یہ تمام باتیں انتہائی نا معقول اور ناممکن لگتی ہیں مگر کیا یہی ہمارے معاشرے کے حقائق نہیں ہیں؟ ہم دن رات مغرب کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر بقول رضا بھائی، "ہما رے معاشرے نے مغربی معاشرے کو محض اتنا ہی دیکھا ہے جتنا ان کی ڈائون لوڈ  کی ہوئی پورن کلپ میں دکھایا جاتا ہے"۔پیاری ڈائری!  ہم نے مغرب سے یہ تو سیکھ لیا کہ شادی سے پہلے لڑکوں کو معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہئے مگر ہم نے انہیں یورپ کی طرح بغیر شادی کے جنسی ضروریات پوری کرنے کی آزادی نہیں دی۔ ایک طرف ہم اپنے معاشرے سے اسلامی طرز زندگی کی امید رکھتے ہیں دوسری طرف ہم اسلام کے سکھائے ہوئے اصولوں کے برخلاف، شادی کو دن بدن مشکل تر بنائے جارہے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم یورپ میں نہیں بلکہ ایک گرم خطہ زمین کے باسی ہیں جہاں سنِ بلوغت یورپ کے مقابلے میں جلدی آجاتا ہے۔ جہاں کی جنسی ضروریات سرد خطہ زمین کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیکس عین انسانی فطرت اور جبلت ہے کہ اگر یہ چیز فطرت میں نہ ہوتی تو بنی نوع انسان خدا جانے کب کی مٹ چکی ہوتی! ضرورت کی تکرار میں فرق ہوسکتا ہے مگر جنسی ضروریات انسان کیلئے ویسی ہی ہیں جیسے غذا اور پانی۔ تربیت اور وسائل کی بنیاد پر شاید میں اور آپ کم از کم ابلے ہوئے پانی کو جب تک صاف ستھرے گلاس میں نہ حاصل کرلیں تب تک ہم پانی نہ پیئیں مگر تھر کے صحرا میں جب تین دن کی پیاس کے بعد آپ کو کیچڑ بھی دکھے تو آپ اس پر منہ رکھ دیتے ہیں کہ پیاس مٹانا اس وقت آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔ سو ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ جب تک شادی آسان نہیں بنا دی جاتی یا جب تک ہم ایک فری سیکس معاشرہ نہیں بن جاتے، تب تک لوگ اس ہی طرح کیچڑ سے پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ اس آگ کے شعلے ہمارے گھروں کو پہنچے اور ہمارے کسی پیارے کو چاٹ جائیں، ہمیں سوچنا ہوگا! ہمیں ضرور سوچنا ہوگا۔

جمعہ، 14 اگست، 2015

مطالعہ پاکستان - جدید

غیر ضروری اعلان!
 تاریخ پاکستان - جدید کی شاندار کامیابی کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کینٹ کی حکومت نے مطالعہ پاکستان کے باب میں پائے جانے والے بہت سے ابہامات اور افواہوں کی تصحیح کی ضرورت کو محسوس کیا اور چودہ اگست  سن دو ہزار پندرہ سے آپ کے زیر نظر کتاب (مطالعہ پاکستان – جدید) بطور ایک لازمی مضمون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب انٹرمیڈیٹ کا ہر طالبعلم ، مطالعہ پاکستان کے اس انٹرکورس کو پڑھنے کا پابند ہوگا۔ 

مطالعہ پاکستان – جدید
پیارے بچوں! جیسا کہ آپ تاریخِ پاکستان کی کتاب میں پڑھ چکے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد تو اس ہیدن پڑ گئی تھی  جس دن برصغیر میں کسی مسلمان نے پہلا قدم رکھا تھا مگر چونکہ مسلمان ہر کام کو سوچ سمجھ کر کرنے کے عادی ہیں لہٰذا بنیاد سے تکمیل کے عرصے کا دورانیہ تقریبا بارہ سو سال پر محیط تھا۔ اب انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جس ملک کو بنانے میں بارہ سو سال لگ گئے ہوں اسے سنوارنے کیلئے کم از کم چھ سو سال کا وقت تو دیا ہی جائے مگر چند جلد باز اس بات پر مُصِر ہیں کہ صرف پانچ سال کے عرصے میں ہی کارکردگی دکھائے جائے۔ خدا ان احمقوں کے حال پر رحم کرے۔

قیام پاکستان کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم ان افواہوں پر  چند ضروری وضاحتیں بیان کرنا چاہیں گے جو ایک منظم اور ناپاک یہودی سازش کے تحت معصوم  اذہان میں بھری جاتی رہی ہیں۔ پیارے بچوں! پاکستان بنانے والی جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں  یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ اس کی بنیاد جناب آغا خان سوئم  (جو اسماعیلی جماعت کے امام تھے) نے نہیں رکھی تھی   اور نہ ہی وہ اس کے پہلے سربراہ تھے اور نہ ہی انہوں نے اس جماعت کا نام مسلم لیگ تجویز کیا  تھا۔ دراصل یہ نیک کام کرنے والا تاریخ کا ایک گمنام مجاہد تھا جو شہرت سے پرہیز کرتا تھا اور چونکہ منشی فاضل کی ڈگری رکھتا تھا اس لیئے اسے پیار سے آغا جان بلایا جاتا تھا کہ فارسی میں آغا احتراما کہا جاتا ہے۔ بعد میں کاتبین کی غلطی سے یہ آغا جان، آغا خان لکھا جانے لگا اور لوگ اس عظیم مجاہد کو آغا خان اسماعیلی  محمول کر بیٹھے۔ اس سلسلے میں محض یہ دلیل ہی کافی ہے کہ ایک غیرمسلم آغاخان صاحب، "مسلم "لیگ کی بنیاد کیونکر رکھ سکتے ہیں؟  اور اگر رکھ بھی دیں تو انہیں ایک "مسلم" لیگ کا سربراہ کیونکر بنایا جاسکتا ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ  آپ آغا جان کو آغا خان پڑھنے کی غلطی نہ خود کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔

آغا جان کی ہی طرح ایک اور مشہو ر مغالطہ لفظ پاکستان کے خالق کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نام کے ایک قادیانی نے تجویز کیا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ رحمت علی کوئی نام نہیں ہوتا کیونکہ رحمت منجانب اللہ ہوتی ہے اس لیئے یہ نام رحمت اللہ ہونا چاہیئے (اس نام سے ہی ان صاحب  کے مشرکانہ عقائد کا اندازہ ہوجاتا ہے)۔ اور دوسری بات یہ کہ ایک غیر مسلم کا پاکستان سے کیا لینا دینا جو وہ اس کی محبت میں " اب یا کبھی نہیں" جیسا پمفلٹ چھاپے جو نظریہ پاکستان کی اساس ثابت ہو؟  اور ویسے بھی آپ جیسے کل کے لونڈوں سے زیادہ عقل نوابزادہ خان لیاقت علی خان میں تھی، اس ہی لیئے جب یہ رحمت علی قادیانی صاحب سن اڑتالیس میں انگلستان سے پاکستان تشریف لائے تو وزیراعظم صاحب نے ان کا کل اسباب بحق سرکار ضبط کرکے انہیں واپس انگلستان بھجوادیا جہاں وہ قریب تین سال کے بعد فوت ہوگئے اور وہیں دفنا دیئے گئے۔خود انصاف کریں کہ کیا نظریہ پاکستان کے اصل خالق کے ساتھ اس طرح کا سلوگ کیا جاسکتا ہے؟ بالیقین یہ صاحب کوئی ڈھونگی تھے اور ہمارے ملک کے قادیانی ٹکڑوں پر پلنے والے میڈیا نے انہیں ہیرو بنا دیا ورنہ خالقِ نظریہ پاکستان اور نقاشِ پاکستان کے خطابات رکھنے والے انسان کو اس ہی کے خوابوں کی سرزمین پر چھ فٹ کی قبر بھی نہیں دی جاتی؟

پیارے بچوں! اب ذکر چل ہی پڑا ہے تو یہ بات بھی سنتے چلیں کہ اس ملک کے قیام کے فورا بعد سے ہی دشمنوں نے اس ملک کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کردیئے۔  ان سازشوں میں دشمنوں کا سب سے بڑا ہتھیار میڈیا تھا۔ نئی مملکت وسائل کی کمی کا شکار تھی اور منہ کا شیر لقمان، بوٹ پیرزادہ، اوریا نامعقول خان،  وغیرہ ایسے قوم کے بیٹےبھی  ابھی قوم کے نطفوں میں ہی موجود تھے اور دنیا میں وجود نہیں رکھتے تھے کہ ملک کو ان سازشوں سے باہر نکالتے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ اب وہ زمانے نہیں رہے اور اب ہمارے فوجی جوان ہر محاذ کی طرح میڈیا پر بھی ہر قسم کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے موجود ہیں۔سو پیارے بچوں! میڈیا کے اس زمانہ جاہلیت میں چند اور افواہیں پاکستان بنانے والے والے عظیم انسانوں سے منسوب کردی گئیں جن کی تصحیح آپکے لیئے از حد ضروری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ یہ بات پہلے ہی جانتے ہوں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک صحیح العقیدہ ، تقلیدی، سنی، حنفی، مماتی، مسلمان تھے اور اس کے علاوہ ان کے عقائد سے منسوب باتیں محض افواہیں ہیں، اس لیئے ہم اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ نیز وہ راجہ صاحب محمودآباد اور آغا خان کے  کافر پیسوں سے ریاست کو اسکے پیروں پر کھڑا کرنے والی بات بھی محض افواہ ہے۔وہ سارے پیسے ایک برادر اسلامی ملک نے اپنی تیل کی حق حلال کی کمائی سے بھجوائے تھے مگر آنے والے وقتوں میں مجوسی ایجنٹوں نے جنگ قادسیہ کا انتقام لینے کیلئے ان برادر اسلامی ممالک کی خدمات پر پردہ ڈال دیا اور سارے نیک کام ان کفار سے منسوب کردیئے۔ یہ مجوسی ایجنٹ اس بغض میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ تاریخ کے صفحات کو مسخ کرکے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے کا کریڈٹ بھی ایک کافر ملک کو دے دیا جبکہ پاکستان کو سب سے  پہلے تسلیم کرنے والا  بھی ایک برادر اسلامی ملک  ہی تھا۔   

مضمون کے اختتام میں ہم یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کوئی پندرہ اگست وغیرہ کو آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ ہندوستانی ایجنٹ فاطمہ جناح کی سازش تھی جنہوں نے گھر کا کیلنڈر تبدیل کردیا تھا اور بیچارے قائد نے غلط فہمی میں پہلا یوم آزادی سرکاری طور پر  پندرہ اگست کو منا لیا تھا۔ وہ تو قائد اللہ کو پیارے ہوگئے وگرنہ اگلے سال ان کا پورا ارادہ تھا کہ پاکستان کا یوم آزادی چودہ اگست سے ہی منانا شروع کردیں کیونکہ پندرہ اگست تو ہندوستان کا یوم آزادی ہے اور مسلمان ہندوؤں سے مشابہت اختیار نہیں کرتے۔ وما علینا علی البلاغ


پاکستان کے حوالے سے مفروضات کا باب یہاں ختم ہوتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کا باقاعدہ مضمون انشاءاللہ اگلی قسط میں نذر کیا جائے گا۔

اتوار، 9 اگست، 2015

ایڈیٹر کے نام چند خطوط

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

مکرمی جناب،

فدوی آپ کی توجہ ایک اہم نکتے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے ۔ آپ کے موقر جریدے میں آج  ایک خبر چھپی ہے جس کے مطابق قصور شہر میں دو سو چھیاسی بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس زیادتی کی ویڈیو فوٹیج بنا کر بعد میں ان بچوں کے والدین کو ہراساں کیا گیا اور ان سے بھاری رقومات وصول کی گئیں۔

جنابِ والا! اگر اس خبر کو سچ مان لیا جائے تو بتائیں اتنے عرصے وہ والدین خاموش کیوں رہے؟ اور اب اچانک کیوں بول پڑے؟  دراصل پڑوسی ملک میں زنا بالجبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں بے حد بدنامی ہورہی تھی اس لیئے  بھائی خلیل کے  اخبار (جو پہلے ہی را کی ایجنٹی کیلئے مشہور ہے) کے زریعے یہ جھوٹا افسانہ گھڑا گیا اور ہمارے ملک کو اس سازش میں بدنام کیا جا رہا ہے۔امید ہے آپ کا اخبار  اس معاملے کی نزاکت کو سمجھے گا اور اگلے دس بارہ سال تک کہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوجاتا، اس بارے میں کوئی خبر نہیں چھاپے گا۔ ویسے تو آپ خود  ہی کافی سمجھدار ہیں مگر پھر بھی فدوی آ پکو یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں ہندوستانی ایجنٹوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

والسلام
مخلص،
ٹوئیٹری غیرت بریگیڈ

---------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

جناب عالی ،

آج آپ کے اخبار میں ایک خبر چھپی ہے  جو ابھی میرے منشی کے بیٹے کے نے مجھے پڑھ کر سنائی ہے جس کے مطابق  ہمارے بیٹے نے  دو سو چھیاسی بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا  اور اس زیادتی کی ویڈیو فوٹیج بنا کر بعد میں ان بچوں کے والدین کو ہراساں کیا اور ان سے بھاری رقومات وصول کیں۔

دیکھیں جی میں آپ کو بتادوں کہ میرا بیٹا کوئی ایسی ویسی نیچ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ میں اس کا باپ ہوں اور اسے آپ سب سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں قرآن اٹھانے کیلئے تیار ہوں کہ میرے بیٹے نے یہ نیچ کام نہیں کیا ہوگا۔ ویسے بھی ہم کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہیں اور ہمارے لڑکوں کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ اگر کہیں انجوائے کریں بھی تو پیسے دے کر آئیں نہ کے الٹا پیسے مانگیں۔ زیادتی والی بات ہمیں ایک وقت کو برداشت ہے مگر ان کمی کمینوں سے پیسے مانگنے والی بات ہمارے خاندان کی ناک کٹوانے کا باعث ہے لہٰذا میں آپ کے موقر جریدے کی وساطت سے تمام میڈیا ہائوسز سے یہ  پرزور اپیل کرتا ہوں کہ پیسے مانگنے والے نیچ کام کا الزام واپس لیا جائے۔

شکریہ
سات میں سے ایک کا باپ

---------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

محترم جناب!

زندگی میں پہلی  بار کسی کو خط لکھ رہا ہوں اس لیئے املا اور مضمون کی اغلاط کو درگزر کر دیجئے گا۔  آپ کے اخبار میں چھپنے والی آج کی خبر نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا ہے اور اب ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ اتنے سارے بچوں کی عصمت دری کے اس الزام و واقعے کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔ کوئی اسے ملک کو بدنام کرنے کی سازش گردانتا ہے اور کوئی اسے زمین کا تنازعہ بتاتا ہے۔ ایک چیز جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ پولیس نے چار سو سے زائد ویڈیو ٹیپس پکڑنے کا اعلان کیا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسے اعلانات بے وجہ نہیں کیئے جاتے ۔ سو جب ویڈیوز موجود ہیں اور ان ویڈیوز میں انسانی بچے اور انسانی شکل میں موجود درندے دونوں موجود ہیں تو محرکات کے اوپر بے شک دو رائے ہوں تو ہوں مگر اس سانحے کے ہونے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیئیں۔

جناب ایڈیٹر! میں آپکے صفحات کی قدر سے بخوبی واقف ہوں لہٰذا خط کو طویل نہیں کروں گا۔ مجھے آج آپ کے موقر جریدے کی وساطت سے قوم سے چند باتیں کرنی ہیں۔ زیادتی ، یہ وہ لفظ ہے جو پڑھنے میں بے انتہا آسان اور گزرنے میں دنیا کا دشوار ترین کام ہے۔ کتنی روانی سے ہم یہ جملہ پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ فلاں شہر میں فلاں دوشیزہ کے ساتھ زیادتی۔ جناب ایڈیٹر! میں آپ کے روزنامے کے وساطت سے تمام اردودان طبقے سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس زیادتی کا کوئی متبادل لفظ ایجاد کیا جائے جو قارئین کو احساس دلا سکے کہ کس طرح ایک معصوم  روح کو کچلا جا رہا تھا۔ کوئی ایسا لفظ جو قارئین کو سمجھا سکے کہ اگر درندوں کا شکار نہ کیا گیا تو کل کو ان کی اپنی بیٹی یا ان کی اپنی بہن یا وہ خود لباس کے ساتھ ساتھ عزت نفس کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس کر رہے ہوں گے۔ کوئی ایسا لفظ جناب والا جو ہم بےحس و نیم مردہ لوگوں کو زندہ کرسکے۔

مجھے امید ہے کہ آپ کی قابل ٹیم کوئی ایسا لفظ ڈھونڈ سکے گی اور اگلی بار جب آپ کا قاری ایسی کوئی خبر پڑھے گا تو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک  زمہ داروں کو قرار واقعی سزا نہ دلوا دے۔

والسلام
احقر
عام پاکستانی

-----------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

پیارے انکل!
مجھے پتہ ہے کہ چونکہ میں "سویلین پبلک اسکول" کا طالبعلم تھا اور چونکہ میرے ابو بغیر بندوق والی نوکری کرتے ہیں اور چونکہ میرا نام بلاول، بختاور، قاسم، سلمان، مریم، حمزہ، حسن وغیرہ نہیں ہے اس لیئے آپ میرے لیئے کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا اس بارے میں بات کرنا ہی 
فضول ہے۔


والسلام،
دو سو چھیاسی میں سے ایک

ہفتہ، 8 اگست، 2015

ادراک - 2

تمہاری آنکھیں 
تمہارا چہرا
تمہاری زلفیں
تمہاری پلکیں
چہار جانب سے مجھ کو گھیرے

اگر جو چاہوں 
تو چاہ کر بھی
میں ان سے آگے نہ دیکھ پائوں

چہار جانب حصار میں ہوں
مگر عجب اک حصار ہے کہ
میں جس میں محصور ہو کے خوش ہوں
کہ جانتا ہوں
کہ کچھ دنوں میں
حصار و محصور نہ رہیں گے

یہ ہم یہاں پر نہیں رہے گا

جو کچھ رہے گا
وہ تم ہی تم ہو
وہ میں ہی میں ہوں

جو تم ہی تم ہو
جو میں ہی میں ہوں
وہ تم ہے ، میں ہے، 
وہ ہم نہیں ہے

صد ہائے افسوس 
 ہم نہیں ہے!

بلاگ فالوورز

آمدورفت