جمعرات، 20 اگست، 2015

زبان دراز کی ڈائری - جنس زدہ معاشرہ

پیاری ڈائری!

قصور کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں کہ آج بھکر سے بھی وہی خبریں آرہی ہیں۔  وہی معصوم اور کمسن بچے اور وہی جنسی درندوں کی سفاکیاں! وہ تو قصور کے بچوں کو دیکھ کر بھکر کے بھی ایک بچے نے ہمت پکڑ لی اور معاملہ پولیس اور پھر خبر رساں اداروں تک پہنچ گیا ورنہ نجانے کتنے واقعات کی طرح یہ سانحہ بھی دبا رہتا اور ملزم ازار کھولے گھومتے پھرتے! مجھ ایسے نام نہاد شریف قلمکار ان واقعات کو جانتے ہوئے بھی ان پر لکھنے سے گریز کرتے رہتے کہ یہ معاشرے کی وہ دکھتی رگیں ہیں جن پر ہاتھ رکھتے سب کی جان جاتی ہے۔ خدا کی قسم ایسے مواقع پر منٹو ایسا اوسط درجے کا قلمکار بھی جھے مہان لگتا ہے کہ جو اس زمانے میں بھی ان موضوعات پر قلم اٹھاتا تھا جن پر آج ساٹھ ستر سال گزرنے کے بعد بھی بات کرتے ہوئے ہم گھبراتے ہیں۔  لعنت ہے ایسے قلم پر جو معاشرے کے گند کو سامنے نہ لاسکے اور اس کی اصلاح کیلئے قلمکار کی سمجھ کے مطابق کوئی حل تجویز نہ کرسکے۔

سو پیاری ڈائری! میں نہیں چاہتا کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ٹوٹا پھوٹا ہی سہی مگر لکھ سکتے تھے مگر خاموش بیٹھے رہے۔ سو اب سن سکو تو سنو کہ آج میں ماحول سے ماخوذ تمام تر غلاضت تمہارے اوپر انڈیلنے لگا ہوں۔ تمہاری مجبوری ہے کہ تم اٹھ کر نہیں بھاگ سکتیں سو برداشت کرو کہ پرہیز گاری کا بہروپ اوڑھے اور رحمتہ اللہ علیہہ کے جعلی  القابات سجائے اس کوڑھ زدہ  اور دراصل لعنت اللہ علیہہ  معاشرے کی سچائی بیان کرنے کیلئے تم سے بہتر سامع کوئی نہیں  ۔  ویسے بھی یہ باتیں تم سے نہ کروں تو کس سے کروں کہ ان باتوں کی تاب کوئی بھی باحیا و  باغیرت انسان نہیں لاسکتا۔ یہ تو مجھ ایسے بےغیرتوں کا ہی کلیجہ ہے کہ اتنے  شرمناک داغوں کے بعدبھی  زندہ ہیں اوربے شرمی کی انتہاہے کہ ان حالات میں بھی مسکراتے ہیں، زندگی جیتے ہیں، اور قصور اور بھکر ایسے واقعات پر بھی طنز و مزاح کے پہلو ڈھونڈ لاتے ہیں۔مجھ اور مجھ ایسے  سب پر لعنت!


پیاری ڈائری! کیا تم تصور کرسکتی ہو کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جس میں لونڈے باز ہونا کوئی بری بات نہیں البتہ گانڈو ایک گالی سمجھی جاتی ہے؟  جس معاشرے میں رنڈی باز ہونا کوئی بڑی بات نہیں البتہ رنڈی ہونا ایک شدید معیوب بات سمجھی جاتی ہے؟ جس معاشرے میں ہم  جانوروں اور زنخوں تک کو اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال کرتے ہوں مگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی اگر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم بھی رہے ہوں تو ہم ان کی جان کے درپے ہوجائیں؟ سننے میں شاید یہ تمام باتیں انتہائی نا معقول اور ناممکن لگتی ہیں مگر کیا یہی ہمارے معاشرے کے حقائق نہیں ہیں؟ ہم دن رات مغرب کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر بقول رضا بھائی، "ہما رے معاشرے نے مغربی معاشرے کو محض اتنا ہی دیکھا ہے جتنا ان کی ڈائون لوڈ  کی ہوئی پورن کلپ میں دکھایا جاتا ہے"۔پیاری ڈائری!  ہم نے مغرب سے یہ تو سیکھ لیا کہ شادی سے پہلے لڑکوں کو معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہئے مگر ہم نے انہیں یورپ کی طرح بغیر شادی کے جنسی ضروریات پوری کرنے کی آزادی نہیں دی۔ ایک طرف ہم اپنے معاشرے سے اسلامی طرز زندگی کی امید رکھتے ہیں دوسری طرف ہم اسلام کے سکھائے ہوئے اصولوں کے برخلاف، شادی کو دن بدن مشکل تر بنائے جارہے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم یورپ میں نہیں بلکہ ایک گرم خطہ زمین کے باسی ہیں جہاں سنِ بلوغت یورپ کے مقابلے میں جلدی آجاتا ہے۔ جہاں کی جنسی ضروریات سرد خطہ زمین کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیکس عین انسانی فطرت اور جبلت ہے کہ اگر یہ چیز فطرت میں نہ ہوتی تو بنی نوع انسان خدا جانے کب کی مٹ چکی ہوتی! ضرورت کی تکرار میں فرق ہوسکتا ہے مگر جنسی ضروریات انسان کیلئے ویسی ہی ہیں جیسے غذا اور پانی۔ تربیت اور وسائل کی بنیاد پر شاید میں اور آپ کم از کم ابلے ہوئے پانی کو جب تک صاف ستھرے گلاس میں نہ حاصل کرلیں تب تک ہم پانی نہ پیئیں مگر تھر کے صحرا میں جب تین دن کی پیاس کے بعد آپ کو کیچڑ بھی دکھے تو آپ اس پر منہ رکھ دیتے ہیں کہ پیاس مٹانا اس وقت آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔ سو ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ جب تک شادی آسان نہیں بنا دی جاتی یا جب تک ہم ایک فری سیکس معاشرہ نہیں بن جاتے، تب تک لوگ اس ہی طرح کیچڑ سے پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ اس آگ کے شعلے ہمارے گھروں کو پہنچے اور ہمارے کسی پیارے کو چاٹ جائیں، ہمیں سوچنا ہوگا! ہمیں ضرور سوچنا ہوگا۔

5 تبصرے :

  1. عاطف بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیتے رہیے۔۔۔۔ جب تک ہر معاملے کو "شجرِ ممنوعہ" بنا کر گفتگو کا حصہ بنانے سے گریزکیاجاتا رہے گا۔۔گھٹن بڑھتی ہی رہے گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایک اہم مسئلے کا ایک حل بتانے کی بجائے دونوں عملی لیکن متضاد حل بتا کر حرف کی حرمت کا حق ادا کر دیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک اہم مسئلے کا ایک حل بتانے کی بجائے دونوں عملی لیکن متضاد حل بتا کر حرف کی حرمت کا حق ادا کر دیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب آپ یقین کریں اس معاشرے میں ہر خوبصورت لڑکا لوگوں کی حوس کا نشانہ بنتا ہے..
    لوگ اس کو ایسے استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کو استعمال ہونے کےلے چھوڈ دیتے ہیں..
    گاؤں میں تو کوئ بھی نہیں بچتا.
    ایسا کرنے والے یا تو اس کے کزن رشتہ دار استاد یا کلاس فیلوز یا معاشرے میں دوسرے لوگ یا بڑے لڑکے جن کا وہ آسان ٹارگٹ ہوتا ہے
    یا نوکر..
    اور ایسا یا تو اس کے ساتھ دوستی کر کے کر دیا جاتا ہے یا اس کو نشہ دے کر یا جشباتی کر کے یا تصاویر دکھا کر یا مل کر زیادتی کی جاتی ہے اور چیر پھاڑ دیا جاتا ہے اس پھول کو..
    یا اس کے ساتھ اوور پیار کر کے
    اور ایسا عام آٹھ سال سیلیکر 19 سال کے اشرفالمخلوقات انسانوں کیساتھ ہوتا ہے
    ایسا ہونے میں ان کی بعض تو اپنی غلطی بھی ہوتی ہے..
    اور ایسا کر لیا جانے کے بعد اس کو وہ جب چاہے بلیک میل کرتا ہے اور کام ٹھوکتا ہے..
    اور وہ انسان بعد میں یا تو گے بن جاتا ہے ساری عمر کےلے یا دوسروں کو وہ اپنا نشانہ بناتا ہے.
    اور یا وہ کئ قسم کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے اور کئ تو خود کشی بھی کر لیتے ہیں..
    اور ہرگھر کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنے معصوموں کی حفاظت کیسے کریں..
    دلیبس میں بھی

    جواب دیںحذف کریں
  5. اور شادی شدہ مرد بھی بچوں کو خراب کر دیتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت