ہفتہ، 22 اگست، 2015

مسبب الاسباب

بچے ہل ہل کر سیپارہ پڑھنے میں مصروف تھے اور اس کا سر سوچوں کا اژدھام سے پھٹا جا رہا تھا۔ مرتبان سے بمشکل مٹھی بھر چاول ہی نکلے تھے جن سے اس وقت صرف بچوں کا ہی پیٹ بھرا جا سکتا تھا۔ میاں کی تنخواہ میں ابھی بھی تین دن باقی تھے اور قرض ادھار کی لعنت پالنے کیلئے درکار ہمت ان دونوں میاں بیوی میں نہیں تھی۔  رات کے کھانے کا کیا انتظام ہوگا یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوئی جارہی تھی۔ اپنی بھوک تو انسان ایک وقت کو برداشت کر لے مگر ان بچوں کا کیا قصور؟ یا خدا! اب تو ہی کوئی معجزہ  دکھادے۔  تو تو مسبب الاسباب ہے۔ ایک غریب کو دینے سے تیرے خزانے میں کون سی کمی ہوجائے گی؟ بڑبڑاتے ہوئے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے اور بچوں کی طرف متوجہ ہوگئی جو اپنی پڑھائی چھوڑ کر اس ہی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
اس نے بچوں کو جھڑکا اور دوبارہ سے قرآن پڑھانے لگی۔ ابھی اسے دوبارہ پڑھائی شروع کیئے چند لمحے ہی ہوئے تھےکہ دروازے پر بہت زور سے دستک ہوئی۔ وہ جھلا کر اٹھی آنے والے کی بدتہذیبی کو کوستے ہوئے دروازہ کھولا تو پڑوسن کی بیٹی جمیلہ کو حواس باختہ کھڑے ہوئے پایا۔ وہ شاید ابھی ابھی کالج سے آئ تھی اور ابھی تک کالج  کے یونیفارم میں ہی تھی۔ اسکے دروازہ کھولتے ہی وہ پھوٹ بہی، آنٹی! امی دروازہ نہیں کھول رہیں۔ گھر کا فون بھی نہیں اٹھا رہیں اور گھر کا دروازہ بھی اندر سے بند ہے۔ آنٹی میرا دل گھبرا رہا ہے۔ گڈو کو بولیں کہ وہ اندر کود کر دروازہ کھول دے۔ پلیز آنٹی؟
اس نے بڑھ کر جمیلہ کو سینے سے لگایا اور دروازے سے ہی گڈو کو آواز لگادی۔ اگلے پانچ منٹ کے بعد گیارہ سالہ گڈو دیوار پھاند کر دروازہ کھول چکا تھا۔ جمیلہ کے خدشات درست تھے۔ اندر ساجدہ خاتون خدا معلوم کب سے بیہوش پڑی تھیں۔ منہ سے جھاگ نکل کر جم چکا تھاالبتہ نبضیں چل رہی تھیں۔ جمیلہ نے پھولے ہاتھ پاؤں سے باپ بھائی کو فون کرکے بتایااور خود ماں کو ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال دوڑ گئی۔

ماں بیٹی کو رخصت کرکے وہ واپس گھر آگئی اور مصلہ بچھا کر بیٹھ گئی ۔وہ روتی جاتی تھی اور دعائیں کرتی جاتی تھی۔ اس ہی عالم میں ایک گھنٹہ گزر گیا۔ بچے جنہوں نے اب تک دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، بےچین ہورہے تھے لہٰذا وہ مصلہ چھوڑ کر بچوں کو کھانا دینے اٹھ گئی۔ بچوں کو کھانا دیکر وہ خود بھوک نہ ہونے کا بہانہ کرکے واپس مصلے کی طرف مڑی ہی تھی کہ باہر گلی میں شور برپا ہوگیا۔ اس نے دوڑ کر باہر جاکر دیکھا تو ایک تباہ حال جمیلہ ایمبولینس میں سے نکلنے والی ساجدہ کی میت پر بین کر رہی تھی۔ وہ دروازے پر ہی ڈھ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح رواں تھے۔ کچھ دیر تو وہ یونہی دروازے پر کھڑی آنسو بہاتی رہی پھر دوڑ تی ہوئی اندر گئی اور مصلے پر سجدہ ریز ہوگئی۔ خدا نے اس کی سن لی تھی۔ اگلے تین دن کے کھانے کا انتظام ہوگیا تھا۔

3 تبصرے :

  1. آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بےبسی

    جواب دیںحذف کریں
  2. ap na tou shaiyad tamseel likhi hy,,,but i realy know a family same story ...school,sipara, ...or pher darbar

    جواب دیںحذف کریں
  3. آہیں اور سسکیاں٫ غربت بہت ہی ظالم ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت