مرزا زبان دان بیگ سوشل میڈیائی حلقہ جات میں کسی تعارف کے
محتاج نہیں ہیں۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت مرجع خلائق اور دو چار مزید مشکل الفاظ ہے۔
گو سوشل میڈیا پر آپ کی پیدائش محض دو تین سال قبل ہی ہوئی ہے مگر اس کم عمری میں
بھی آپ سوشل میڈیائی کارگاہ کے پرانے پاپیوں کے بھی پر کترتے ہیں۔ان کی اس پر
کترنے کی صلاحیت سے جل کر بعض احباب ان پر
خاندانی حجام ہونے کا بھی الزام لگاتے ہیں مگر خود مرزا کے بقول، میرے علاوہ، دنیا
میں ہر وہ شخص جو کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ اس قسم کی باتیں ہی کرتا ہے ۔ باتیں بنانے
اور سہنے کے باب میں مرزا مشہور سپن باؤلر
مشتاق احمد کے ایک جملے سے اخذ کردہ اس
زریں اصول کے بھی پابند ہیں کہ کراچی والے
کی جگت پر برا ماننے اور لائلپور والے کی جگت پر برا نہ ماننے والا اور کچھ بھی
ہوسکتا ہے مگر اسے انسان نہیں ماننا چاہئے۔
ٹوئیٹر کے پرانے بابوں کے مطابق جب یہ ٹوئیٹر پر پہنچے تو
ان کا اصل نام کچھ اور تھا مگر مختلف زبانوں پر ان کی دسترس دیکھتے ہوئے انہیں
مرزا زبان دان بیگ کا خطاب دیا گیا اور مرزا چونکہ ددھیال کی طرف سے شیخ اور
ننھیال کی طرف سے میمن واقع ہوئے تھے اس لئے مفت میں ملنے والی گالی کو بھی قبول
کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور یہ تو پھر ایک عزت دار خطاب تھا۔ خطاب
کے ملنے پر مرزا نے مسکراتے ہوئے، "ہم نے مانا کہ کچھ نہیں ہے فراز، مفت ہاتھ
آئے تو برا کیا ہے بے" والا شعر ٹوئیٹ کیا اور اپنا ٹوئیٹر ہینڈل بدل کر مرزا
زبان دان بیگ رکھ لیا۔ تب سے آپ اس ہی بابرکت نام سے جانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے باب میں مرزا کا عقیدہ تھا کہ انسانوں کو
فطرت سے سیکھنا چاہئے اور فطری طور پر تمام جانور جھنڈ بنا کر رہتے ہیں اور اس
ہی لئے محفوظ رہتے ہیں۔ اس بات کی دلالت
میں مرزا کا فرمان تھا کہ مشہور مذہبی
ہستی کا یہ فرمان ہے کہ کتوں کے جھنڈ پر
حملہ کرنے سے پہلے شیر بھی سو بار سوچتا ہے۔ گفتگو میں مذہبی حوالہ یا مشہور اشخا ص کے اقوال آنے کے بعد ویسے ہی
مخالف کی بحث کے غبارے سے ہوا نکل جاتی تھی اور مرزا تو پھر یہ دونوں حوالے ایک
ساتھ استعمال کرنے اور بنظر التفات اسے اپنا کناک آؤٹ پنچ کہنے کے عادی تھے۔ مرزا
کی پر اثر شخصیت اور اس مدلل گفتگو کے نتیجے میں جلد ہی بے خیال و ہم خیال لوگ جوق
در جوق اس گروہ میں شامل ہوتے چلے گئے اور ایک ہفتے میں ہی آپ ایک شاندار سوشل
میڈیائی غول تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے
جسے متفقہ طور پر انجمن ستائش باہمی کا
نام دیا گیا تھا۔ یہ بیان اضافی ہے کہ پہلے ہی اجلاس میں مرزا اس غول کے تاحیات
چیئرمین منتخب کر لئے گئے تھے۔
مرزا کی سوشل میڈیائی زندگی پر لکھنے بیٹھا جائے تو کئی
دیوان مرتب کئے جاسکتے ہیں مگر تھوڑے لکھے کو بہت جانئے۔ مرزا زندگی میں بہت آگے
جانا چاہتے تھے اور جا بھی سکتے تھے مگر سچ کہتے ہیں کہ بھلائی کا زمانہ اب لد چکا
ہے۔ مرزا کی انسانی ہمدردی کی عادت نے انہیں بھری جوانی میں ہی اس دار ٹوئیٹر کو
داغِ مفارقت دینے پر مجبور کردیا۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ غول میں مرزا کی جانشین ،
انیوسینٹ پرنسز، جو کافی عرصے سے مرزا کی کرسی پر نظر لگائے بیٹھی تھیں اور جنہیں
اس کام میں مرزا کے علاوہ غول کے تمام مردوں کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں، ایک دن
زندگی کے مصائب سے تنگ آکر دن چڑھے ہی شاعری کاپی پیسٹ کرنے لگیں۔ مرزا کی نظر جب
ان ٹوئیٹس پر پڑھی تو انسانی ہمدردی سے مجبور ہوکر مرزا نے اس پرنسز کو ڈی ایم میں
طلب کرنے کا سوچا مگر پھر سکرین شاٹ نامی اس حسینہ کے بھائی کا خیال کرکے یہ ارادہ
ترک کردیا۔ ابھی مرزا کسی متبادل کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ پرنسز نے علامہ
اقبال کا وہ مشہور شعر ٹوئیٹ دیا کہ، دل ناداں واٹس رونگ ود یو؟ آخر اس درد کی پین
کلر کیا ہے؟تس پر مرزا کا ضبط کا یارا نہ رہا اور اور آپ نے انیوسینٹ پرنسز کو
ٹائم لائن پر ہی اداسی کا سبب پوچھ لیا۔ جواب میں انیوسنٹ پرنسز نے زندگی میں
درپیش مصائب کی ایک طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی جس کا حاصل مدعا یہ تھا کہ اب
وہ ٹوئیٹر پر مزید رکنا نہیں چاہتیں۔ انیوسنٹ پرنسز کے باب میں یہ امر قابل ذکر ہے
کہ وہ مرزا کی جانشین ہونے کے علاوہ واحد بڑے گلے والی خاتون بھی تھیں جو مرزا کو
فالو بیک کر رہی تھیں سو ان کی جدائی کا تصور بھی مرزا کے لئے گراں تھا۔ مرزا نے انہیں
سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی میں بڑی بڑی مشکلات آتی رہتی ہیں مگر انسان کو ان
مشکلات کا ہنس کر سامنا کرنا چاہئے۔ کون جانتا تھا کہ " لائف میں بڑے بڑے
ٹیسٹیکل آتے رہتے ہیں۔ انسان کو مسکراتے ہوئے ان ٹیسٹیکللز کو ہینڈل کرنا
چاہئے" ان کی سوشل میڈیائی زندگی کی آخری ٹوئیٹ ثابت ہوگی۔مرحوم کے لئے
فاتحہ!