پیر، 30 مئی، 2016

مرزا زبان دان بیگ - شخصی خاکہ

مرزا زبان دان بیگ سوشل میڈیائی حلقہ جات میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت مرجع خلائق اور دو چار مزید مشکل الفاظ ہے۔ گو سوشل میڈیا پر آپ کی پیدائش محض دو تین سال قبل ہی ہوئی ہے مگر اس کم عمری میں بھی آپ سوشل میڈیائی کارگاہ کے پرانے پاپیوں کے بھی پر کترتے ہیں۔ان کی اس پر کترنے کی صلاحیت سے جل کر بعض احباب  ان پر خاندانی حجام ہونے کا بھی الزام لگاتے ہیں مگر خود مرزا کے بقول، میرے علاوہ، دنیا میں ہر وہ شخص جو کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ اس قسم کی باتیں ہی کرتا ہے ۔ باتیں بنانے اور سہنے کے باب میں مرزا  مشہور سپن باؤلر مشتاق احمد کے ایک جملے  سے اخذ کردہ اس زریں اصول کے  بھی پابند ہیں کہ کراچی والے کی جگت پر برا ماننے اور لائلپور والے کی جگت پر برا نہ ماننے والا اور کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر اسے انسان نہیں ماننا چاہئے۔
ٹوئیٹر کے پرانے بابوں کے مطابق جب یہ ٹوئیٹر پر پہنچے تو ان کا اصل نام کچھ اور تھا مگر مختلف زبانوں پر ان کی دسترس دیکھتے ہوئے انہیں مرزا زبان دان بیگ کا خطاب دیا گیا اور مرزا چونکہ ددھیال کی طرف سے شیخ اور ننھیال کی طرف سے میمن واقع ہوئے تھے اس لئے مفت میں ملنے والی گالی کو بھی قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور یہ تو پھر ایک عزت دار خطاب تھا۔ خطاب کے ملنے پر مرزا نے مسکراتے ہوئے، "ہم نے مانا کہ کچھ نہیں ہے فراز، مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے بے" والا شعر ٹوئیٹ کیا اور اپنا ٹوئیٹر ہینڈل بدل کر مرزا زبان دان بیگ رکھ لیا۔ تب سے آپ اس ہی بابرکت نام سے جانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے باب میں مرزا کا عقیدہ تھا کہ انسانوں کو فطرت سے سیکھنا چاہئے اور فطری طور پر تمام جانور جھنڈ بنا کر رہتے ہیں  اور  اس ہی لئے محفوظ رہتے ہیں۔ اس  بات کی دلالت میں مرزا کا فرمان تھا  کہ مشہور مذہبی ہستی کا یہ فرمان ہے کہ کتوں  کے جھنڈ پر حملہ کرنے سے پہلے شیر بھی سو بار سوچتا ہے۔ گفتگو میں مذہبی حوالہ  یا مشہور اشخا ص کے اقوال آنے کے بعد ویسے ہی مخالف کی بحث کے غبارے سے ہوا نکل جاتی تھی اور مرزا تو پھر یہ دونوں حوالے ایک ساتھ استعمال کرنے اور بنظر التفات اسے اپنا کناک آؤٹ پنچ کہنے کے عادی تھے۔ مرزا کی پر اثر شخصیت اور اس مدلل گفتگو کے نتیجے میں جلد ہی بے خیال و ہم خیال لوگ جوق در جوق اس گروہ میں شامل ہوتے چلے گئے اور ایک ہفتے میں ہی آپ ایک شاندار سوشل میڈیائی  غول تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جسے  متفقہ طور پر انجمن ستائش باہمی کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بیان اضافی ہے کہ پہلے ہی اجلاس میں مرزا اس غول کے تاحیات چیئرمین  منتخب کر لئے گئے تھے۔

مرزا کی سوشل میڈیائی زندگی پر لکھنے بیٹھا جائے تو کئی دیوان مرتب کئے جاسکتے ہیں مگر تھوڑے لکھے کو بہت جانئے۔ مرزا زندگی میں بہت آگے جانا چاہتے تھے اور جا بھی سکتے تھے مگر سچ کہتے ہیں کہ بھلائی کا زمانہ اب لد چکا ہے۔ مرزا کی انسانی ہمدردی کی عادت نے انہیں بھری جوانی میں ہی اس دار ٹوئیٹر کو داغِ مفارقت دینے پر مجبور کردیا۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ غول میں مرزا کی جانشین ، انیوسینٹ پرنسز، جو کافی عرصے سے مرزا کی کرسی پر نظر لگائے بیٹھی تھیں اور جنہیں اس کام میں مرزا کے علاوہ غول کے تمام مردوں کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں، ایک دن زندگی کے مصائب سے تنگ آکر دن چڑھے ہی شاعری کاپی پیسٹ کرنے لگیں۔ مرزا کی نظر جب ان ٹوئیٹس پر پڑھی تو انسانی ہمدردی سے مجبور ہوکر مرزا نے اس پرنسز کو ڈی ایم میں طلب کرنے کا سوچا مگر پھر سکرین شاٹ نامی اس حسینہ کے بھائی کا خیال کرکے یہ ارادہ ترک کردیا۔ ابھی مرزا کسی متبادل کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ پرنسز نے علامہ اقبال کا وہ مشہور شعر ٹوئیٹ دیا کہ، دل ناداں واٹس رونگ ود یو؟ آخر اس درد کی پین کلر کیا ہے؟تس پر مرزا کا ضبط کا یارا نہ رہا اور اور آپ نے انیوسینٹ پرنسز کو ٹائم لائن پر ہی اداسی کا سبب پوچھ لیا۔ جواب میں انیوسنٹ پرنسز نے زندگی میں درپیش مصائب کی ایک طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی جس کا حاصل مدعا یہ تھا کہ اب وہ ٹوئیٹر پر مزید رکنا نہیں چاہتیں۔ انیوسنٹ پرنسز کے باب میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہ مرزا کی جانشین ہونے کے علاوہ واحد بڑے گلے والی خاتون بھی تھیں جو مرزا کو فالو بیک کر رہی تھیں سو ان کی جدائی کا تصور بھی مرزا کے لئے گراں تھا۔ مرزا نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی میں بڑی بڑی مشکلات آتی رہتی ہیں مگر انسان کو ان مشکلات کا ہنس کر سامنا کرنا چاہئے۔ کون جانتا تھا کہ " لائف میں بڑے بڑے ٹیسٹیکل آتے رہتے ہیں۔ انسان کو مسکراتے ہوئے ان ٹیسٹیکللز کو ہینڈل کرنا چاہئے" ان کی سوشل میڈیائی زندگی کی آخری ٹوئیٹ ثابت ہوگی۔مرحوم کے لئے فاتحہ!

جمعہ، 27 مئی، 2016

حساس


صحیح کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی آزمائش اولاد ہوتی ہے۔ مسلسل مشقت کے بعد اب گھر  آیا ہوں اور عادت سے مجبور ہوکر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ کیا کروں؟ ہم ادیب ہوتے ہی اتنے حساس ہیں کہ معمولی واقعات بھی ہماری طبیعت پر بہت گراں بوجھ ڈال دیتے ہیں اور یہ تو پھر اتنا بڑا سانحہ تھا کہ شاید مجھے اس سے نکلنے میں صدیاں بیت جائیں۔
میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مشہور و معروف ادیب ہوں۔ خدا نے مجھے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے اور اپنے تئیں میں نے بھی اس کا احسان ماننے اور شکرگزاری میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ادیب کی زندگی کی روایتی عسرت میرے ساتھ بھی تھی مگر صبر کا دامن تھامے ہوئے تنکا تنکا جوڑ کر میں نے اپنا مختصر سا آشیانہ بنایا تھا۔  شادی کے آٹھ سال بعد تک خدا نے مجھے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا مگر میں نے اس کی شکرگزاری میں کمی نہیں آنے دی۔ آٹھ سال بعد جب خدا نے علیشہ کو میری زندگی میں بیٹی بنا کر بھیجا تو میں نے ہزارہا نفل شکرانے کے پڑھ ڈالے۔ غرضیکہ زندگی کے کسی موڑ پر میں نے شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا مگر آج تو انتہا ہی ہوگئی۔ خدا میرے ساتھ یہ کیسے کرسکتا ہے ؟   سوچ سوچ کر میرا دل پھٹا جا رہا  ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ آج چند اتفاقات ایک ساتھ ہوگئے۔ پہلا اتفاق یہ ہوا کہ سر میں درد کی وجہ سے میں اپنے رسالے کے دفتر سے جلدی اٹھ کر آگیا۔ دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ جب میں گھر پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور بیگم صاحب پڑوس میں موجود جواد صاحب کی بیگم کو سلائی کے لئے کپڑے دینے گئی ہوئی تھیں۔ میں گھر کے اندر داخل ہوا تو میری چار سالہ بیٹی جو اپنے پلاسٹک کے سوئمنگ پول میں نہانے میں مصروف تھی  مجھے دیکھتے ہی فرطِ جذبات میں اپنا کھیل چھوڑ کر لپک کر میری سمت دوڑ آئی ۔ میں نے اس کا ماتھا چوم کر تولیے سے اس کا بدن پونچھا اور جب میں نے الماری سے نئے کپڑے نکال کر اسے پہنانے چاہے تو مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ علیشہ ، میری بیٹی، میری بیٹی نہیں تھی۔ وہ تو کچھ عجیب سی مخلوق تھی۔  مرد اور عورت کے درمیان۔ نہ مکمل مرد نہ مکمل عورت۔ زنخی! اور تب مجھے احساس ہوا کہ آج تک میری بیوی نے علیشہ کے تمام کام اپنے ذمے کیوں لے رکھے تھے۔ اس کی پیدائش کے فورا بعد میری بیوی کو وہ محلہ کیوں تنگ لگنے لگا تھا اور ہم اٹھ کر کراچی کے دوسرے کونے پر کیوں آباد ہوگئے تھے۔ چار سال میں ایک مرتبہ بھی یہ اتفاق کیوں نہیں ہوا تھا کہ اس کا ڈائپر میرے سامنے بدلا گیا ہو۔ کیوں اس کو نہلاتے وقت وہ خود بھی ساتھ نہانے کا عذر دے کر غسل خانے کا دروازہ بند کرلیا کرتی تھی۔  مگر وہ احمق عورت کب تک اس حقیقت کو مجھ سے چھپا سکتی تھی؟  میرے دماغ میں سوچوں کے جھکڑ چل ہی رہے تھے کہ میری بیوی نے آکر چیل کی طرح علیشہ کو مجھ سے جھپٹ لیا اور میں جھٹکے سے اپنی سوچوں سے باہر آگیا۔
اگلے تین چار گھنٹے ہم دونوں میاں بیوی اس بچی کے مستقبل پر بحث کرتے رہے اور بالآخر میں نے  بیوی کی بات مانتے ہوئے اس بچی کو قتل کرنے کے بجائے ہیجڑوں کے کسی گروہ کے حوالے کرکے یہ علاقہ بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ خاندان والوں کے سوالات کی ہمیں پرواہ نہیں تھی کہ ویسے بھی میری زبان کی وجہ سے اب خاندان میں کسی سے میل ملاپ باقی رہا نہیں تھا۔ بچی کو لے کر جانے میں البتہ ایک دشواری تھی کہ دن کی روشنی میں ہیجڑوں کے  محلے میں جانے کا کام میرے لئے ممکن نہیں تھا اس لئے رات ہونے کا انتظار کیا گیا اور جب یقین ہوگیا کہ اب دیکھنے والی خدا کے علاوہ کوئی ذات نہیں بچی تو میں علیشہ کو لے کر نکل پڑا۔
تھوڑی ہی دیر میں میں کالونی گیٹ کے قبرستان  پر موجود تھا کہ جس کے پیچھے زنخوں کا محلہ آباد تھا۔ گاڑی سے اتر کر میں نے علیشہ کا ہاتھ تھاما اور قبرستان سے گزر کر اس محلے کی جانب روانہ ہوگیا۔ علیشہ جو اب تک خاموشی سے میرے ساتھ آئی تھی اب اپنے روایتی موڈ میں آچکی تھی اور پے در پے سوالات داغ رہی تھی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ بابا ! ہم کہاں جارے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہم ایک اچھی جگہ جارہے ہیں جہاں اسے کھانے کی مزے مزے کی چیزیں ملیں گی۔ بہت سارے کھلونے ہوں گے۔ کھلونوں کا سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی ۔ وہ خوش ہوکر بولی، بابا! ممی کیلئے بھی کھلونے؟ میں نے کہا ہاں بیٹا ممی کے لئے بھی کھلونے لیں گے۔ اس نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور میری طرف دیکھ کر بولی، بابا اچھے! بابا لو یو! بابا کیلئے بھی کھلونے ! اس وقت میرا دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے اپنے آپ سے شدید گھن محسوس ہورہی تھی کہ ایک زنخے نے میرا ہاتھ تھام رکھا ہے اور آگے چل کر زندگی میں کبھی اسے یہ خیال آگیا تو یہ مجھے ڈھونڈ کر خوب نام روشن کرے گا۔
ہم ہیجڑوں کے محلے کے قریب ہی پہنچ چکے تھے اور قبرستان ختم ہونے والا تھا۔ میں نے اپنے قدم وہیں روک دیئے اور اپنا ہاتھ اس ہیجڑے کے ہاتھ سے چھڑا کر اس کی گردن پر رکھ دیا اور مسلسل دباؤ دیتا چلا گیا۔ اگلے دو گھنٹے کی محنت اور گورکن کو دیئے گئے بیس ہزار روپیوں کی بدولت لاش ایک قبر میں تبدیل ہوچکی تھی۔

صحیح کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی آزمائش اولاد ہوتی ہے۔ مسلسل مشقت کے بعد اب گھر  آیا ہوں اور عادت سے مجبور ہوکر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ کیا کروں؟ ہم ادیب ہوتے ہی اتنے حساس ہیں کہ معمولی واقعات بھی ہماری طبیعت پر بہت گراں بوجھ ڈال دیتے ہیں اور یہ تو پھر اتنا بڑا سانحہ تھا کہ شاید مجھے اس سے نکلنے میں صدیاں بیت جائیں۔ خدا میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے؟

جمعرات، 19 مئی، 2016

مس ٹاک شاک

قارئینِ کرام آج ہم آپ کا تعارف جس عظیم ہستی سے کرانے جا رہے ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔ جی ہاں قارئین آپ نے درست پہچانا! ہم آج جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کرا رہے ہیں وہ سوشل میڈیا کے حلقوں میں مس ٹاک شاک کے نام سے جانی جاتی ہیں۔  آپ فیس بک کے اعتبار سے سن انیس سو پچانوے، ٹوئیٹری روایات کے اعتبار سے انیس سو ترانوے، اور شناختی کارڈ کے اعتبار سے سن انیس سو باسٹھ میں پیدا ہوئیں۔  بچپن میں اپنی بھوکی طبیعت (جسے آگے چل کر ہم غلطی لکھیں گے) کی وجہ سے آپ نے ایک مقناطیس کا ٹکڑا سالم نگل لیا تھا جس کی وجہ سے آپ کی ذات میں ایک مقناطیسی کشش پیدا ہوگئی جو الحمدللہ آج بھی موجود ہے اور ٹوئیٹر اور فیس بک پر آپ کے مداحوں کی تعداد اس کی سب سے بڑی گواہ ہے۔  اگر یہی بات سپائڈر مین فلم میں دکھائی جاتی تو آپ مان لیتے مگر چونکہ ایک دیسی لکھیک یہ بات کر رہا ہے سو شوق سے شک کرتے رہیں ۔

کہتے ہیں کہ خدا جسے نوازنے پر آتا ہے اسے میاں  شریف سے بھی زیادہ نواز دیتا ہے۔ آپ کی شخصیت  اس بات کی مجسم دلیل ہے۔ خدا نے آپ کو بدصورتی سے نوازنے کا فیصلہ کیا اور اس حد تک نوازا کہ بچپن سے آج تک  جاننے والی تمام خواتین ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے پر مرتی ہیں۔  بعض روایات کے مطابق جن لڑکیوں کے رشتے نہیں ہوتے ان کے والدین، مس ٹاک شاک کو پیسے دے کر اپنی بیٹیوں کی تصاویر ان کے ساتھ کھنچواتے اور رشتوں کے لئے بھجواتے تھے کہ لڑکے کو عبرت ہو اور وہ جو مل رہا ہے اس پر خوشی سے راضی ہوجائے۔

ہر لڑکی کی طرح مس ٹاک شاک کے بھی شادی اور خاندان کو لے کر کچھ خواب تھے اور خدا چونکہ انسانوں کے علاوہ باقی تمام مخلوقات کا بھی رب ہے سو ان کی بھی مناجات مقبول ہوئی اور شناختی کارڈ کے اعتبار سے تیس سال کی عمر میں سن انیس سو بانوے میں مس ٹاک شاک بیاہ کر اپنے گھر سدھار گئیں۔ چونکہ یہ معاملہ فیس بک پر ان کی پیدائش سے پہلے کا تھا اس لئے خاتون نے اس شادی زدہ زندگی کو پیدائش سے پہلے کے معاملات سمجھ کر قابلِ ذکر نہیں سمجھا۔  نادانی کے دنوں میں جمع کردہ چند پرانی دوستوں نے جب اس بات پر استفسار کیا تو خاتون نے انہیں یہی دلیل سنائی تھی۔  چار بچوں والی بات پر البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ آپ میری شکل اور میرے میاں کی پینے پلانے کی عادت دونوں سے واقف ہیں سو غلطی سے کئے گئے کاموں کا سب کے سامنے کیا ڈھنڈوارا پیٹنا؟  یہ مناسب جواب انہیں تھما کر مس ٹاک شاک چیٹ ونڈو سے نکل آئیں مگر جاتے جاتے ان کرم جلیوں کو فیس بک پر بلاک کرنا نہیں بھولیں تھیں۔

مس ٹاک شاک کی ذات پر اگر روشنی ڈالے جائے تو سورج کی روشنی بھی ناکافی ہوگی۔ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کی مالک خاتون ہیں۔ کھیل سے لے کر سیاست اور معیشت سے لے کر معاشرت تک آپ تمام موضوعات پر گوگل کر سکتی ہیں۔  آپ کے عقیدے کے مطابق اچھی بات پر سب کا حق ہوتا ہے لہٰذا آپ کسی کی بھی کہی ہوئی بات جو آپ کو اچھی لگ جائے اسے اپنی ہی بات سمجھتی ہیں۔ رہی سہی کسر آپ کے فالوورز پوری کردیتے ہیں کہ تین سو ریٹوئیٹ  دیکھنے کےبعد بیچارے جملے کے خالق کو اپنی پانچ ریٹوئیٹ یاد آجاتی ہین اور اسے خود بھی یقین ہوجاتا ہے کہ دراصل چور وہ خود تھا۔
مروجہ فیشن کے اعتبار سے آج کل مس ٹاک شاک کا پسندیدہ موضوع سیاست ہے۔ آپ روزانہ صبح اپنی کام والی بائی کو گالیاں دیتے ہوئے ٹوئیٹر پر براجمان ہوجاتی ہیں اور گزشتہ رات کے گالیوں کے ٹرینڈز کے اعتبار سے طے کرتی ہیں کہ آج کے دن وہ کس سیاسی جماعت کی نمائندگی کریں گی۔ حق پرستی کی اس سے بڑھ کر دلیل اور کیا ہوگی؟


آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے آپ کو کن باتوں میں الجھا لیا مگر مس ٹاک شاک کا یہ بیان بہت ضروری تھا کہ خیر سے مس ٹاک شاک  کے فالوورز میں سے ایک، مشہور سیاسی رہنما نے کل بطور خاص ہمیں فون کرکے اس خاکے کی فرمائش کی تھی اور ہم جانتے ہیں کہ آج نہیں تو کل، ان صاحب نے ہمارے بہت کام آنا ہے۔ خاکے کے لئے چند بنیادی معلومات سوشل میڈیا پر موجود ہونے کے ناطے ہمارے پاس پہلے سے موجود تھیں، باقی معلومات ان مشہور صاحب کے طفیل دستیاب ہوگئین۔ ان کا فون رکھ کے ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا لکھیں کہ ان کی کال دوبارہ آگئی۔ ہم نے فون اٹھا کر خیریت پوچھی تو شرما کر کہنے لگے، عاطف بھائی! مجھے یقین ہے مضمون تو آپ اچھا ہی لکھیں گے مگر ایک جملہ میری طرف سے بھی لکھ دیجئے گا اور انہیں بتا بھی دیجئے گا کہ "بول میں رہا ہوں مگر شبدھ ان کے ہیں" میں نے کہا جی ضرور! حکم کیجئے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ جملہ کہتے ہوئے وہ شرم سے بل ہی کھاگئے ہوں گے کہ آپ لکھئے گا کہ لتا منگیشکر اتنا سریلا گاتی نہیں ہے جتنا سریلا مس ٹاک شاک پاد دیتی ہیں۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ آپ کی خارج کردہ ریاح میں سے گوچی گلٹی کی سی خوشبو آتی ہے۔  اب آپ خود بتائیں میں کیسے نہ لکھتا؟

بدھ، 18 مئی، 2016

ایماندار قاری


آج کیوں اس قدر اداس ہو تم؟
آج اٹھارہ مئی ہے شاید
ہاں تو اس دن میں خاص کیا ہے کچھ؟
آج برسی ہے ایک شاعر کی
کون؟ غالب؟ یا اپنے علامہ؟
یار عبیداللہ کرکے تھے کوئی
بڑا اچھا کلام کہتے تھے
اور دیکھو زرا کہ یہ میڈیا
اک بلیٹن نہ دے سکا ان کو!

سچ کہا تم نے میرے پیارے دوست
نام کیا تھا تمہارے شاعر کا؟
میں نے بتلایا نا عبیداللہ!
ہاں مگر وہ تو قادیانی تھے؟
کیا کہا؟ سچ میں قادیانی تھے؟
ماں قسم ٹھیک کہہ رہا ہوں میں
یا خدا! مجھ کو تو خبر ہی نہ تھی!
اتنا کچھ خاص بھی نہیں تھا وہ
واجبی سا کلام کہتا تھا
اس سے بہتر تو اپنے شاہ جی ہیں
کم سے کم ڈھنگ سے مسلماں ہیں
آ تجھے اک غزل سناتا ہوں
کاش میں تیرے حسیں ۔۔۔۔۔

بیٹی

لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اکلوتی ہے اس لئے نک چڑھی ہے۔ مگر شاید لوگ بابو بھائی کو نہیں جانتے تھے اس لئے انہیں پتہ نہیں تھا کہ بیٹی تھی اس لئے اتنے نخرے اٹھائے جاتے تھے۔  وہ بابو بھائی کی اکلوتی اور منتوں مرادوں سے مانی ہوئی بیٹی تھی۔ بابوبھائی بھی عجیب کردار تھے۔ رشتے میں ہمارے پھوپھا لگتے تھے مگر بہت شوق سے ہم بچوں سے بھی خود کو بابو بھائی کہلانا پسند کرتے تھے۔ اصل نام عباس تھا مگر  کہلوانا بابو بھائی پسند کرتے تھے۔  ہم نے ایک مرتبہ اس کی وجہ پوچھی تو  اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ مار کر بولے کہ میاں! عباس نام میری شخصیت سے بلند ہے مجھے  بس بابوبھائی کہا کرو۔ جاؤ اب یہ پیسے پکڑو اور دوڑ کے آئس کریم پکڑ لاؤ، دونوں مل کر کھائیں گے۔یہ تو خیر ایک چھوٹا سا سوال تھا، بابو بھائی تو زندگی کے بڑے مسائل کو بھی ایسے ہی ہنسی میں اڑا  دیا کرتے تھے۔ ہمارے بچپن میں پھپھو کی شادی ان سے ہوئی اور ہماری نوجوانی تک پھپھو اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔ بابو بھائی کے اوپر اس محرومی نے بھی کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ہم نے پھپھو کو اکثر یہ کہتے سنا کہ، یہ تو عجیب انسان ہیں! دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگر لڑکا ہی دینا ہے تو اولاد ہی نہ دے۔ مجھے تیری نعمت کا حساب نہیں دینا۔ مجھے بس اپنی بے حساب رحمت سے نواز دے۔  مجھے لڑکی دے دے! خاندان کی بوڑھیاں یہ بات سن کر ردِ بلا کے لئے پھپھو کے سامنے نصیحتوں اور وظائف کا پنڈار کھول کر بیٹھ جاتیں اور پھپھو بھی پوری دلجمعی سے ان کی باتیں سنتی تھیں۔ خدا جانے بعد میں وہ ان باتوں پر عمل نہیں کرتی تھیں یا بابوبھائی کی دعاؤں میں ان وظائف سے زیادہ خلوص شامل تھا، بہرحال شادی کے پندرہ سال بعد پھپھو نے پہلی اور آخری بار جس بچے کو جنم دیا وہ ایک لڑکی تھی۔ ابیہہ زہرا! بابو بھائی نے بہت شوق سے اسے یہ نام دیا تھا۔ باپ کی کلی! آنے والے وقت نے یہ ثابت کردیا تھا کہ بابو بھائی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے ایک نازک کلی کی طرح ہی تو رکھتے تھے! اپنے محدود وسائل میں ہر طرح سے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔ سال سال بھر نیا جوڑا نہیں بناتے مگر اس کے لئےعمدہ سے عمدہ پوشاک لے کر آتے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے لئے کھلونے لے کر آتے جن کی عمر دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ چیزوں کی فراوانی کی وجہ سے صاحبزادی کا دل ایک ہی چیز پر اس سے زیادہ عرصہ نہیں ٹکتا تھا۔

مسلسل لاڈ کے نتیجے میں ابیہہ ویسی ہی ہوگئی تھی جیسا اسے ہوجانا چاہئے تھا۔ بلا کی نازک مزاج۔ کوئی چیز جناب کے مزاج کے خلاف ہوئی نہیں اور خاتون نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لینا ہوتا تھا۔ اس کے رونے سے پھپھو کی بہت جان جاتی تھی۔ وہ ہم سے کہتی تھیں کہ تمہارے بابو بھائی کو اگر اس کے رونے کا پتہ چل گیا تو ان کی آنکھوں میں مانو خون اتر آتا ہے۔ نہ بابا، اس کی زیادتی برداشت کرلو مگر اس کو رلاؤ نہیں۔  دیکھو میں تمہیں پیسے دوں گی جا کر کچھ کھا پی لینا مگر جو یہ کہہ رہی ہے اس کی بات مان لو۔ ہم لوگ اس وقت تو پھپھو کی رشوت پکڑ کر خاموش ہو رہتے مگر پھپھو کے ادھر ادھر ہوتے ہی اپنے معمول پر لوٹ آتے اور اس کے دوبارہ رونے پر پھپھو ہئے ہئے کرتی ہوئی دوڑی چلی آتیں۔

وقت کے ساتھ سب کی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں اور ہماری ملاقاتیں خوشی غمی اور تہوار تک محدود رہ گئیں۔ پھر جب بابا انگلستان چلے گئے تو یہ رہی سہی ملاقاتوں کا تکلف بھی تمام ہوگیا۔ مجھے پھپھو سے ملے ہوئے چار برس ہونے کو آرہے تھے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا بالکل چھوٹا ہوا تھا اور تہوار بالعموم سوتے ہوئے یا دوستوں کے ساتھ گزارے جاتے تھے اس لئے ملاقات کا کوئی سلسلہ رہا ہی نہیں تھا۔ بابا اکثر بولتے تھے ان کے ہاں چکر لگانے کو مگر میں نہیں جاتا تھا۔ جب میری دلچسپی کی کوئی چیز تھی ہی نہیں تو میں وہاں جا کر کیا کرتا؟ سال چھ مہینے میں پھپھو یا بابو بھائی سے فون پر بات ہوجاتی تھی سو بہت تھا۔ پھر ایک دن بابو بھائی کا فون آیا کہ وہ پھپھو اور ابیہہ کو ساتھ لے کر عمرہ کرنے جا رہے ہیں۔ میں نے مبارکباد دے کر ملنے آنے کا وعدہ کیا مگر حسب معمول میں اس بات کو بھول گیا اور بابو بھائی ملے بغیر ہی عمرے پر روانہ ہوگئے۔اور پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد رات کو میرے موبائل پر سعودیہ کے نمبر سے ایک کال آئی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف بارہ سالہ ابیہہ نے بمشکل ہچکیوں کے بیچ بتایا کہ بھائی ابو کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر میں اس معصوم کے لئے تسلی کے الفاظ ڈھونڈ نہیں پایا۔ خدا جانے کتنی دیر اور ایسے ہی میں خاموشی سے فون پکڑے کھڑا رہتا مگر اس بچی نے میری مشکل آسان کرتے ہوئے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ بھائی مجھے اور بھی لوگوں کو مطلع کرنا ہے۔

بابا نے بھی عمرے کی تیاری کر رکھی تھی اور بہن کے یہاں سے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے کہ بیت اللہ کی زیارت کے ساتھ بہن سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ پھپھو کے پہنچنے سے ایک دن پہلے ہی بابا انگلستان سے سعودیہ پہنچ چکے تھے۔ شاید خدا بھی پھپھو کو اس مصیبت کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ عمرہ تو خیر پہنچتے ہی ادا کرچکی تھیں سو تجہیز و تکفین کے بعد پھپھو نے زیارت مختصر کرتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں انہیں لینے ایئر پورٹ جاؤں گا مگر میں ابیہہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹا پایا سو میں نہیں گیا۔ چاچا نے انہیں ایئر پورٹ سے لے کر ان کے گھر اتار دیا کہ پھپھو اپنے گھر میں ہی عدت پوری کرنا چاہتی تھیں۔ اگلے دن اتوار تھا اور چھٹی تھی مگر میں پورا دن ہمت کرنے کے باوجود پھپھو کے پاس نہ جا سکا۔ کیسے جاتا؟  کیسے اس بارہ سالہ کا سامنا کرتا؟

پیر والے دن طبیعت شدید بوجھل تھی اس لئے میں نے دفتر سے رخصت لے لی اور گھر پہ بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا۔ شام میں بابا کی کال آگئی۔ یہ سننے کے بعد کہ میں اب تک پھپھو سے تعزیت کے لئے نہیں گیا ہوں، بابا ناراض ہونے کے بجائے خاموش ہوگئے۔تھوڑی دیر تک وہ جاں گسل خاموشی ہمارے درمیان رہی پھر بابا نے کہا کہ دیکھو! بابو خاندان کے بچوں میں سب  سے زیادہ تم سے محبت کرتا تھا۔ اس وجہ سے نہین کہ وہ تمہارے رشتہ دار تھے۔ اس وجہ سے کہ وہ تم سے محبت کرتے تھے، ان کا تم پر حق ہے کہ تم ان کے لئے دعائے خیر کرو اور ان کے لواحقین کو یہ احساس دلاؤ کہ جیسے وہ تمہارا خیال رکھتے تھے ویسے ہی تمہیں بھی ان سے جڑے ہوئے لوگوں کا خیال ہے! آگے تمہاری مرضی۔

فون رکھنے کے بعد میں کافی دیر خود کو کوستا رہا اور پھر شرمندگی کے مارے ہمت کرکے پھپھو کے گھر کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ دروازہ بجاتے ہوئے میں خود کو آنے والے جذباتی طوفان کے لئے تیار کر چکا تھا۔ دروازہ ابیہہ نے کھولا تھا۔ میں اسے دیکھ کر نہیں پہچانا کہ میں اسے چار پانچ سال کے بعد دیکھ رہا تھا مگر وہ مجھے پہچان گئی اور خاموشی سے راستہ دے دیا۔ میں اندر پہنچا تو پھپھو مجھے دیکھتے ہی جذباتی ہوگئیں اور اپنی روح کی تمام کراہیں مجھے سنانے لگیں۔ پھپھو میرے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں روتی رہیں۔ گھر میں پرسہ داروں کی آمد کا سلسلہ مسلسل لگا رہا مگر پھپھو میرے پاس ہی بیٹھی رہیں۔ نئے آنے والے مہمان سے بس کھڑے ہوکر ملتیں اور پھر میرا  ہاتھ تھام کر بیٹھ جاتیں۔ رات ڈھلنے لگی تو مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔پھپھو بھی اب رو رو کر تھک چکیں تھیں سو انہیں بھی وقتی قرار آگیا تھا۔
ایک چیز بہرحال بہت عجیب ہورہی تھی ۔ ابیہہ جو اب تک میزبانی میں مصروف تھی وہ بھی مہمانوں سے فرصت پا کر اب یہیں آکر بیٹھ گئی
 تھی۔ مجھ سے دفتر اور دیگر چیزوں کے بارے میں استفسار کر رہی تھی۔  مسکرا رہی تھی۔ پھپھو نے ایک دو مرتبہ بابو بھائی کا ذکر چھیڑا بھی مگر وہ بات کو گول کر کے دوسری چیزوں کی طرف لے گئی۔ مجھے بیت اللہ اور مسجد نبوی کی کہانیاں سنانے لگی۔ جیسے اس سفر میں کوئی اور بات کوئی سانحہ ہوا ہی نہ ہو۔ مجھے یہ سب عجیب تو لگا مگر شاید میں خود اس کے سامنے اس ذکر سے گریز کرنا چاہتا تھا لہٰذا بخوشی اس کی کہانیاں سنتا رہا۔ باتوں باتوں میں وقت مزید نکل گیا اور جب گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں نے پھپھو سے اجازت لی اور انہیں سونے کی تاکید کرکے دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل آیا۔


گاڑی تک جاتے وقت تک میں مسلسل ابیہہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح  خاندان کی بڑی بوڑھیاں صحیح کہتی تھیں کہ بابو بھائی نے ابیہہ کو بگاڑ دیا تھا اور جن بابو بھائی نے اس لڑکی کے  لئےزمین آسمان ایک کردیا انہیں دینے کے لئے اس کے پاس ایک آنسو تک نہیں تھا۔  گاڑی پر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں جلدبازی مین چابی پھپھو کے گھر ہی چھوڑ آیا ہوں۔ میں الٹے قدموں پلٹ کر پھپھو کے گھر پر پہنچا اور دروازہ بجانے کے لئے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ جلدبازی میں میں دروازہ ٹھیک سے بند نہیں کرپایا تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اطلاع دے کر اندر جاؤں مگر پھر سوچا کہ کہیں پھپھو سونے نہ لیٹ گئی ہوں اور انہیں میری وجہ سے اٹھنا پڑے اس لئے سوچا کہ چابی اٹھا کر خاموشی سے نکل جاؤں۔ میں چابی اٹھانے کے لئے کمرے میں داخل ہوا تو ایک بارہ سالہ لڑکی دیوار پر ٹنگی ایک تصویر کے نیچے اپنا سر مارتے ہوئے ہچکیوں کے بیچ میں ایک ہی بات کہے جا رہی تھی کہ بابا! اب تو سب مہمان چلے گئے اب تو مجھ کو رونے دو نا!

جمعہ، 6 مئی، 2016

بھڑاس

وقت  بڑی کنجر شے ہے استاد! میں جب چھوٹا ہوتا تھا تو محلے میں گھومنے والا وہ پاگل اکثر با آواز بلند یہ جملہ بڑبڑایا کرتا تھا۔ بات کی تو سمجھ کچھ نہیں آتی تھی مگر یہ کنجر لفظ کانوں کو بہت بھلا لگتا تھا۔ اکثر سوچتا تھا کہ پاگلوں کے کتنے مزے ہوتے ہیں کہ جو جی چاہے کہتے پھریں کوئی انہیں یہ کہہ کر نہیں ٹوکتا کہ یہ تو ہے ہی پاگل۔ اگر یہی لفظ میں استعمال کرتا پکڑا جاتا تو وہ پٹائی ہوتی کہ رہے نام اللہ کا! ایسا نہیں کہ  میں ماضی میں نہ پیٹا گیا ہوں مگر کسی بھی  قسم کے دشنام کے بکتے پائے جانے پر پٹے جانے کے الزام ہم پر ہمارے بدترین دشمن بھی نہیں لگا سکتے۔ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت وغیرہ۔

اب  ماضی کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ میں بڑا ہو کر پاگل بننا چاہتا تھا اور شاید یہ زندگی کا واحد خواب تھا جسے پورا کرنے میں زمانے  نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔یہ نری حماقت بھی تو اس پاگل پن ہی  کا  شاخسانہ ہے کہ میں اپنی ماضی کی تلخ یاد داشتیں چن چن کر ان لوگوں کو سنانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جو مجھ سے کچھ پوچھتے تک نہیں، مجھے جانتے تک نہیں۔ اور یہ بھی تو پاگل پن ہی ہے کہ آپ ایک انجان شخص کے زخموں سے نکلی پیپ کو ان تحاریر کے ذریعے چاٹتے ہیں اور داد بھی دیتے ہیں کہ واہ صاحب ! کیا عمدہ مضمون باندھا ہے۔کیا عمدہ روانی ہے۔ کیا منظر  نگاری ہے۔ واہ وا!

 شاید یہ بستی پاگلوں ہی کی بستی ہے اور شاید ہم سب بھی پاگل ہی ہیں۔ مگر ہم سب اچھے وقتوں کے پاگل ہیں، سو سوانگ رچانا جانتے ہیں۔ بہروپ بھرلیتے ہیں۔ اپنے پاگل پن کو فلسفے کا نام دیتے ہیں۔ اپنے زخموں کو دکھانے کے لئے شاعری و نثر کا سہارا لیتے ہیں اور کسی کے پوچھنے پر صاف مکر جاتے ہیں کہ صاحب لازمی نہیں سخن میں بیان کردہ دکھ خود ہم پر ہی بیتا ہو۔ اپنی تکالیف دوسروں پر رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ ہمارا پردہ رہ جائے۔ اور جو تھوڑے کم پاگل ہیں وہ دوسروں کے بیان کردہ دکھوں میں اپنے دکھ ڈھونڈ کر ہی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کی بھڑاس کے پردے میں دراصل خود ان کی بھڑاس نکل گئی۔ ان کم عقلوں کو خدا جانے یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ اگر بھڑاس نکل جائے تو اس کے بعد دوبارہ اس موضوع پر کچھ بھی پڑھنے سے انسان کو کوفت ہوجائے۔ تحریر پسند ہی تب آتی ہے جب انسان اس سے مطابقت ڈھونڈ لیتا ہے۔ جب سے لکھا جا رہا ہے اور پڑھا جارہا ہے، انسان کے موضوعات کم و بیش وہی ہیں۔ کہانی کب بدلتی ہے؟ سو اگر ہر بار آپ کو کہانی پسند آ رہی ہے تو یقین جانیں آپ احمق ہیں اور آپ کی بھڑاس جوں کی توں موجود ہے! حماقت کے باب میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ اب تک اس مضمون کو یہ سوچ کر پڑھ رہے ہیں کہ یہ آگے چل کر کسی داستان میں تبدیل ہوجائے گا جبکہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ اندر موجود کڑواہٹ کی وجہ سے میں نے حلق میں انگلی ڈال کر ایک قے کرنی تھی سو کر دی ہے ۔ اب آپ بیٹھ کر اس قے کا جائزہ لیتے رہیں اور پاگلوں کی طرح اس کو سراہیں یا اپنی عقلمندی کی لاج رکھنے کے لئے پڑھنے کے بعد خاموش رہیں یہ آپ کے اوپر ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔


مضمون کے اختتام پر البتہ اس بات کا اعادہ  ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ پاگل دراصل پاگل نہیں گل پا تھا جو پنجابی زبان کے مطابق گل پا گیا تھا ۔ بات کو سمجھ گیا تھا۔ یہ وقت انسان کو کبھی بھی زیادہ عرصہ خوش نہیں دیکھ سکتا۔ چند لمحات مسرت کے بہم کر بھی دے تو ان کی قیمت کے طور پر کئی صدیوں کا حزن اور مصائب انسان پر مسلط کرچھوڑتا ہے۔ یہ وقت بڑی کنجر شے ہے استاد!

بلاگ فالوورز

آمدورفت