جمعہ، 6 مئی، 2016

بھڑاس

وقت  بڑی کنجر شے ہے استاد! میں جب چھوٹا ہوتا تھا تو محلے میں گھومنے والا وہ پاگل اکثر با آواز بلند یہ جملہ بڑبڑایا کرتا تھا۔ بات کی تو سمجھ کچھ نہیں آتی تھی مگر یہ کنجر لفظ کانوں کو بہت بھلا لگتا تھا۔ اکثر سوچتا تھا کہ پاگلوں کے کتنے مزے ہوتے ہیں کہ جو جی چاہے کہتے پھریں کوئی انہیں یہ کہہ کر نہیں ٹوکتا کہ یہ تو ہے ہی پاگل۔ اگر یہی لفظ میں استعمال کرتا پکڑا جاتا تو وہ پٹائی ہوتی کہ رہے نام اللہ کا! ایسا نہیں کہ  میں ماضی میں نہ پیٹا گیا ہوں مگر کسی بھی  قسم کے دشنام کے بکتے پائے جانے پر پٹے جانے کے الزام ہم پر ہمارے بدترین دشمن بھی نہیں لگا سکتے۔ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت وغیرہ۔

اب  ماضی کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے کہ میں بڑا ہو کر پاگل بننا چاہتا تھا اور شاید یہ زندگی کا واحد خواب تھا جسے پورا کرنے میں زمانے  نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔یہ نری حماقت بھی تو اس پاگل پن ہی  کا  شاخسانہ ہے کہ میں اپنی ماضی کی تلخ یاد داشتیں چن چن کر ان لوگوں کو سنانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جو مجھ سے کچھ پوچھتے تک نہیں، مجھے جانتے تک نہیں۔ اور یہ بھی تو پاگل پن ہی ہے کہ آپ ایک انجان شخص کے زخموں سے نکلی پیپ کو ان تحاریر کے ذریعے چاٹتے ہیں اور داد بھی دیتے ہیں کہ واہ صاحب ! کیا عمدہ مضمون باندھا ہے۔کیا عمدہ روانی ہے۔ کیا منظر  نگاری ہے۔ واہ وا!

 شاید یہ بستی پاگلوں ہی کی بستی ہے اور شاید ہم سب بھی پاگل ہی ہیں۔ مگر ہم سب اچھے وقتوں کے پاگل ہیں، سو سوانگ رچانا جانتے ہیں۔ بہروپ بھرلیتے ہیں۔ اپنے پاگل پن کو فلسفے کا نام دیتے ہیں۔ اپنے زخموں کو دکھانے کے لئے شاعری و نثر کا سہارا لیتے ہیں اور کسی کے پوچھنے پر صاف مکر جاتے ہیں کہ صاحب لازمی نہیں سخن میں بیان کردہ دکھ خود ہم پر ہی بیتا ہو۔ اپنی تکالیف دوسروں پر رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ ہمارا پردہ رہ جائے۔ اور جو تھوڑے کم پاگل ہیں وہ دوسروں کے بیان کردہ دکھوں میں اپنے دکھ ڈھونڈ کر ہی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کی بھڑاس کے پردے میں دراصل خود ان کی بھڑاس نکل گئی۔ ان کم عقلوں کو خدا جانے یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ اگر بھڑاس نکل جائے تو اس کے بعد دوبارہ اس موضوع پر کچھ بھی پڑھنے سے انسان کو کوفت ہوجائے۔ تحریر پسند ہی تب آتی ہے جب انسان اس سے مطابقت ڈھونڈ لیتا ہے۔ جب سے لکھا جا رہا ہے اور پڑھا جارہا ہے، انسان کے موضوعات کم و بیش وہی ہیں۔ کہانی کب بدلتی ہے؟ سو اگر ہر بار آپ کو کہانی پسند آ رہی ہے تو یقین جانیں آپ احمق ہیں اور آپ کی بھڑاس جوں کی توں موجود ہے! حماقت کے باب میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ اب تک اس مضمون کو یہ سوچ کر پڑھ رہے ہیں کہ یہ آگے چل کر کسی داستان میں تبدیل ہوجائے گا جبکہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ اندر موجود کڑواہٹ کی وجہ سے میں نے حلق میں انگلی ڈال کر ایک قے کرنی تھی سو کر دی ہے ۔ اب آپ بیٹھ کر اس قے کا جائزہ لیتے رہیں اور پاگلوں کی طرح اس کو سراہیں یا اپنی عقلمندی کی لاج رکھنے کے لئے پڑھنے کے بعد خاموش رہیں یہ آپ کے اوپر ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔


مضمون کے اختتام پر البتہ اس بات کا اعادہ  ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ پاگل دراصل پاگل نہیں گل پا تھا جو پنجابی زبان کے مطابق گل پا گیا تھا ۔ بات کو سمجھ گیا تھا۔ یہ وقت انسان کو کبھی بھی زیادہ عرصہ خوش نہیں دیکھ سکتا۔ چند لمحات مسرت کے بہم کر بھی دے تو ان کی قیمت کے طور پر کئی صدیوں کا حزن اور مصائب انسان پر مسلط کرچھوڑتا ہے۔ یہ وقت بڑی کنجر شے ہے استاد!

2 تبصرے :

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. وقت واقعی ایک سا نہیں رہتا اور خوش وہی رہتا جو وقت کا راز جان لیتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت