بدھ، 18 مئی، 2016

بیٹی

لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اکلوتی ہے اس لئے نک چڑھی ہے۔ مگر شاید لوگ بابو بھائی کو نہیں جانتے تھے اس لئے انہیں پتہ نہیں تھا کہ بیٹی تھی اس لئے اتنے نخرے اٹھائے جاتے تھے۔  وہ بابو بھائی کی اکلوتی اور منتوں مرادوں سے مانی ہوئی بیٹی تھی۔ بابوبھائی بھی عجیب کردار تھے۔ رشتے میں ہمارے پھوپھا لگتے تھے مگر بہت شوق سے ہم بچوں سے بھی خود کو بابو بھائی کہلانا پسند کرتے تھے۔ اصل نام عباس تھا مگر  کہلوانا بابو بھائی پسند کرتے تھے۔  ہم نے ایک مرتبہ اس کی وجہ پوچھی تو  اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ مار کر بولے کہ میاں! عباس نام میری شخصیت سے بلند ہے مجھے  بس بابوبھائی کہا کرو۔ جاؤ اب یہ پیسے پکڑو اور دوڑ کے آئس کریم پکڑ لاؤ، دونوں مل کر کھائیں گے۔یہ تو خیر ایک چھوٹا سا سوال تھا، بابو بھائی تو زندگی کے بڑے مسائل کو بھی ایسے ہی ہنسی میں اڑا  دیا کرتے تھے۔ ہمارے بچپن میں پھپھو کی شادی ان سے ہوئی اور ہماری نوجوانی تک پھپھو اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔ بابو بھائی کے اوپر اس محرومی نے بھی کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ہم نے پھپھو کو اکثر یہ کہتے سنا کہ، یہ تو عجیب انسان ہیں! دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگر لڑکا ہی دینا ہے تو اولاد ہی نہ دے۔ مجھے تیری نعمت کا حساب نہیں دینا۔ مجھے بس اپنی بے حساب رحمت سے نواز دے۔  مجھے لڑکی دے دے! خاندان کی بوڑھیاں یہ بات سن کر ردِ بلا کے لئے پھپھو کے سامنے نصیحتوں اور وظائف کا پنڈار کھول کر بیٹھ جاتیں اور پھپھو بھی پوری دلجمعی سے ان کی باتیں سنتی تھیں۔ خدا جانے بعد میں وہ ان باتوں پر عمل نہیں کرتی تھیں یا بابوبھائی کی دعاؤں میں ان وظائف سے زیادہ خلوص شامل تھا، بہرحال شادی کے پندرہ سال بعد پھپھو نے پہلی اور آخری بار جس بچے کو جنم دیا وہ ایک لڑکی تھی۔ ابیہہ زہرا! بابو بھائی نے بہت شوق سے اسے یہ نام دیا تھا۔ باپ کی کلی! آنے والے وقت نے یہ ثابت کردیا تھا کہ بابو بھائی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اسے ایک نازک کلی کی طرح ہی تو رکھتے تھے! اپنے محدود وسائل میں ہر طرح سے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔ سال سال بھر نیا جوڑا نہیں بناتے مگر اس کے لئےعمدہ سے عمدہ پوشاک لے کر آتے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے لئے کھلونے لے کر آتے جن کی عمر دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ چیزوں کی فراوانی کی وجہ سے صاحبزادی کا دل ایک ہی چیز پر اس سے زیادہ عرصہ نہیں ٹکتا تھا۔

مسلسل لاڈ کے نتیجے میں ابیہہ ویسی ہی ہوگئی تھی جیسا اسے ہوجانا چاہئے تھا۔ بلا کی نازک مزاج۔ کوئی چیز جناب کے مزاج کے خلاف ہوئی نہیں اور خاتون نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لینا ہوتا تھا۔ اس کے رونے سے پھپھو کی بہت جان جاتی تھی۔ وہ ہم سے کہتی تھیں کہ تمہارے بابو بھائی کو اگر اس کے رونے کا پتہ چل گیا تو ان کی آنکھوں میں مانو خون اتر آتا ہے۔ نہ بابا، اس کی زیادتی برداشت کرلو مگر اس کو رلاؤ نہیں۔  دیکھو میں تمہیں پیسے دوں گی جا کر کچھ کھا پی لینا مگر جو یہ کہہ رہی ہے اس کی بات مان لو۔ ہم لوگ اس وقت تو پھپھو کی رشوت پکڑ کر خاموش ہو رہتے مگر پھپھو کے ادھر ادھر ہوتے ہی اپنے معمول پر لوٹ آتے اور اس کے دوبارہ رونے پر پھپھو ہئے ہئے کرتی ہوئی دوڑی چلی آتیں۔

وقت کے ساتھ سب کی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں اور ہماری ملاقاتیں خوشی غمی اور تہوار تک محدود رہ گئیں۔ پھر جب بابا انگلستان چلے گئے تو یہ رہی سہی ملاقاتوں کا تکلف بھی تمام ہوگیا۔ مجھے پھپھو سے ملے ہوئے چار برس ہونے کو آرہے تھے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا بالکل چھوٹا ہوا تھا اور تہوار بالعموم سوتے ہوئے یا دوستوں کے ساتھ گزارے جاتے تھے اس لئے ملاقات کا کوئی سلسلہ رہا ہی نہیں تھا۔ بابا اکثر بولتے تھے ان کے ہاں چکر لگانے کو مگر میں نہیں جاتا تھا۔ جب میری دلچسپی کی کوئی چیز تھی ہی نہیں تو میں وہاں جا کر کیا کرتا؟ سال چھ مہینے میں پھپھو یا بابو بھائی سے فون پر بات ہوجاتی تھی سو بہت تھا۔ پھر ایک دن بابو بھائی کا فون آیا کہ وہ پھپھو اور ابیہہ کو ساتھ لے کر عمرہ کرنے جا رہے ہیں۔ میں نے مبارکباد دے کر ملنے آنے کا وعدہ کیا مگر حسب معمول میں اس بات کو بھول گیا اور بابو بھائی ملے بغیر ہی عمرے پر روانہ ہوگئے۔اور پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد رات کو میرے موبائل پر سعودیہ کے نمبر سے ایک کال آئی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف بارہ سالہ ابیہہ نے بمشکل ہچکیوں کے بیچ بتایا کہ بھائی ابو کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر میں اس معصوم کے لئے تسلی کے الفاظ ڈھونڈ نہیں پایا۔ خدا جانے کتنی دیر اور ایسے ہی میں خاموشی سے فون پکڑے کھڑا رہتا مگر اس بچی نے میری مشکل آسان کرتے ہوئے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ بھائی مجھے اور بھی لوگوں کو مطلع کرنا ہے۔

بابا نے بھی عمرے کی تیاری کر رکھی تھی اور بہن کے یہاں سے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے کہ بیت اللہ کی زیارت کے ساتھ بہن سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ پھپھو کے پہنچنے سے ایک دن پہلے ہی بابا انگلستان سے سعودیہ پہنچ چکے تھے۔ شاید خدا بھی پھپھو کو اس مصیبت کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ عمرہ تو خیر پہنچتے ہی ادا کرچکی تھیں سو تجہیز و تکفین کے بعد پھپھو نے زیارت مختصر کرتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں انہیں لینے ایئر پورٹ جاؤں گا مگر میں ابیہہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹا پایا سو میں نہیں گیا۔ چاچا نے انہیں ایئر پورٹ سے لے کر ان کے گھر اتار دیا کہ پھپھو اپنے گھر میں ہی عدت پوری کرنا چاہتی تھیں۔ اگلے دن اتوار تھا اور چھٹی تھی مگر میں پورا دن ہمت کرنے کے باوجود پھپھو کے پاس نہ جا سکا۔ کیسے جاتا؟  کیسے اس بارہ سالہ کا سامنا کرتا؟

پیر والے دن طبیعت شدید بوجھل تھی اس لئے میں نے دفتر سے رخصت لے لی اور گھر پہ بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا۔ شام میں بابا کی کال آگئی۔ یہ سننے کے بعد کہ میں اب تک پھپھو سے تعزیت کے لئے نہیں گیا ہوں، بابا ناراض ہونے کے بجائے خاموش ہوگئے۔تھوڑی دیر تک وہ جاں گسل خاموشی ہمارے درمیان رہی پھر بابا نے کہا کہ دیکھو! بابو خاندان کے بچوں میں سب  سے زیادہ تم سے محبت کرتا تھا۔ اس وجہ سے نہین کہ وہ تمہارے رشتہ دار تھے۔ اس وجہ سے کہ وہ تم سے محبت کرتے تھے، ان کا تم پر حق ہے کہ تم ان کے لئے دعائے خیر کرو اور ان کے لواحقین کو یہ احساس دلاؤ کہ جیسے وہ تمہارا خیال رکھتے تھے ویسے ہی تمہیں بھی ان سے جڑے ہوئے لوگوں کا خیال ہے! آگے تمہاری مرضی۔

فون رکھنے کے بعد میں کافی دیر خود کو کوستا رہا اور پھر شرمندگی کے مارے ہمت کرکے پھپھو کے گھر کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ دروازہ بجاتے ہوئے میں خود کو آنے والے جذباتی طوفان کے لئے تیار کر چکا تھا۔ دروازہ ابیہہ نے کھولا تھا۔ میں اسے دیکھ کر نہیں پہچانا کہ میں اسے چار پانچ سال کے بعد دیکھ رہا تھا مگر وہ مجھے پہچان گئی اور خاموشی سے راستہ دے دیا۔ میں اندر پہنچا تو پھپھو مجھے دیکھتے ہی جذباتی ہوگئیں اور اپنی روح کی تمام کراہیں مجھے سنانے لگیں۔ پھپھو میرے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں روتی رہیں۔ گھر میں پرسہ داروں کی آمد کا سلسلہ مسلسل لگا رہا مگر پھپھو میرے پاس ہی بیٹھی رہیں۔ نئے آنے والے مہمان سے بس کھڑے ہوکر ملتیں اور پھر میرا  ہاتھ تھام کر بیٹھ جاتیں۔ رات ڈھلنے لگی تو مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔پھپھو بھی اب رو رو کر تھک چکیں تھیں سو انہیں بھی وقتی قرار آگیا تھا۔
ایک چیز بہرحال بہت عجیب ہورہی تھی ۔ ابیہہ جو اب تک میزبانی میں مصروف تھی وہ بھی مہمانوں سے فرصت پا کر اب یہیں آکر بیٹھ گئی
 تھی۔ مجھ سے دفتر اور دیگر چیزوں کے بارے میں استفسار کر رہی تھی۔  مسکرا رہی تھی۔ پھپھو نے ایک دو مرتبہ بابو بھائی کا ذکر چھیڑا بھی مگر وہ بات کو گول کر کے دوسری چیزوں کی طرف لے گئی۔ مجھے بیت اللہ اور مسجد نبوی کی کہانیاں سنانے لگی۔ جیسے اس سفر میں کوئی اور بات کوئی سانحہ ہوا ہی نہ ہو۔ مجھے یہ سب عجیب تو لگا مگر شاید میں خود اس کے سامنے اس ذکر سے گریز کرنا چاہتا تھا لہٰذا بخوشی اس کی کہانیاں سنتا رہا۔ باتوں باتوں میں وقت مزید نکل گیا اور جب گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں نے پھپھو سے اجازت لی اور انہیں سونے کی تاکید کرکے دروازہ بند کرتا ہوا باہر نکل آیا۔


گاڑی تک جاتے وقت تک میں مسلسل ابیہہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح  خاندان کی بڑی بوڑھیاں صحیح کہتی تھیں کہ بابو بھائی نے ابیہہ کو بگاڑ دیا تھا اور جن بابو بھائی نے اس لڑکی کے  لئےزمین آسمان ایک کردیا انہیں دینے کے لئے اس کے پاس ایک آنسو تک نہیں تھا۔  گاڑی پر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں جلدبازی مین چابی پھپھو کے گھر ہی چھوڑ آیا ہوں۔ میں الٹے قدموں پلٹ کر پھپھو کے گھر پر پہنچا اور دروازہ بجانے کے لئے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ جلدبازی میں میں دروازہ ٹھیک سے بند نہیں کرپایا تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اطلاع دے کر اندر جاؤں مگر پھر سوچا کہ کہیں پھپھو سونے نہ لیٹ گئی ہوں اور انہیں میری وجہ سے اٹھنا پڑے اس لئے سوچا کہ چابی اٹھا کر خاموشی سے نکل جاؤں۔ میں چابی اٹھانے کے لئے کمرے میں داخل ہوا تو ایک بارہ سالہ لڑکی دیوار پر ٹنگی ایک تصویر کے نیچے اپنا سر مارتے ہوئے ہچکیوں کے بیچ میں ایک ہی بات کہے جا رہی تھی کہ بابا! اب تو سب مہمان چلے گئے اب تو مجھ کو رونے دو نا!

5 تبصرے :

  1. تبصرے کے لیے کوئی الفاظ نہیں اور ہو بھی نہیں سکتے۔
    سلامت رہیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. آج کھل کے رونے کو دل کر رہا ہے.....مجھے صرف رونا ہے بس ....صرف رونا.
    شکریہ عاطف صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  3. میں سمجھتا تھا میرے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے .... لیکن یہ تحریر پڑھ کر ایسے لگا جیسے کوئی چیز پھٹ سی گئی ہے ....یقینا یہ میرا دل ہے...مجھے اب رونے دیں کہ کہ شائید دل ہلکا ہو جائے....شکریہ جناب عاطف صاحب

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت