ہفتہ، 9 جولائی، 2016

ایدھی


آپ کو پتہ چلا ؟ عبدالستار ایدھی مر گئے!
کیا بکواس ہے؟ ایدھی صاحب کبھی نہیں مر سکتے! جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تب بھی خلق خدا انہیں مرنے نہیں دے گی! میں نے اس کے منہ پر کہتے ہوئے فون تو مار دیا مگر دل بیٹھتا چلا گیا۔ ایدھی صاحب میرے سوالات کا جواب دئے بغیر کیسے جاسکتے تھے؟ سوچا کہ ٹیلیویژن کھول کر خبر کی تصدیق کروں مگر پھر یہ سوچ کر ہمت نہیں ہوئی کہ اگر خبر سچ نکلی تو کیا ہوگا؟ ایدھی صاحب ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ ساری عمر لوگوں کے آنسو پونچھنے والا، لوگوں  کی آنکھوں کو کیسے نم کر سکتا ہے؟ ابھی ایدھی صاحب کی عمر ہی کیا تھی؟ محض اٹھاسی برس؟  اتنی جلدی کیا تھی؟   یہ سب سوچیں دماغ میں چل ہی رہیں تھیں کہ میرے سوالات ایک بار پھر اٹھ کر سامنے آکھڑے ہوئے۔
ایدھی صاحب! آپ لوگوں کے نزدیک فرشتہ ہوں گے مگر آپ سے مجھے کچھ شکوے ہیں اور شدید ہیں!
میرا آپ سے سب سے پہلا شکوہ یہ ہے کہ آپ نے سن ستاون میں پہلے ایدھی سینٹر کے قیام سے لے کر آج تک اس قوم کو محض انسٹھ سال کا وقت دیا ۔ خود انصاف کریں کہ اس ایک کم ساٹھ سال کے عرصے میں تب سے اب تک تقریباتیس کروڑ انسانوں سے دوسرا ایدھی کیسے نکالتے؟ میں نے آپ کے بارے میں پڑھا تھا  کہ آپ جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے تو آپ چالیس اکتالیس سال  کے لئے اس قوم کو کس کے آسرے پر چھوڑ گئے ہیں؟ جہاں آپ نے تمام زندگی سادگی اور برداشت کے ساتھ گزار دی تھی وہاں آپ کا کیا بگڑ جاتا اگر آپ گزشتہ کئی سالوں کی طرح، مزید چالیس بیالیس برس  ڈائلیسس جیسا تکلیف دہ عمل ہفتے میں تین مرتبہ مزید  برداشت کرلیتے؟  
میری دوسری شکایت آپ سے یہ ہے کہ آپ  منافق تھے۔ جب لوگوں نے آپ پر چندے کی رقم خوردبرد کرنے کے الزام لگائے، جب آپ پر آنے والی لاوارث لاشوں میں سے اعضا چوری ہونے ایسے رکیک الزام لگے تو ان سب پر کسی بھی عام آدمی کی طرح آپ نے یہ فلاحی ادارہ بند کیوں نہیں کیا؟ آپ بد دل کیوں نہیں ہوئے؟  جب ان ہی الزام لگانے والوں کے لاشے آپ کے سرد خانے میں لائے گئے تو آپ نے ان کے لئے دروازے کیوں بند نہیں کئے؟  آپ دراصل منافق تھے ورنہ میں یہ کیسے مان لوں کہ ہم میں سے ایک اور ہمارے درمیان موجود ایک انسان کا ظرف اتنا بلند ہوسکتا ہے؟
ایدھی صاحب! بات یہیں ختم نہیں ہوتی! شکایات ہیں اور شدید ہیں۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں محض اٹھارہ سو ایمبولینسز چلانا کہاں کی انسانیت ہے؟ محض کراچی شہر میں آٹھ ہسپتال بنانا  اور ایک مختصر سا ہی سہی مگر کینسر ہسپتال بنانا اور پھر اس کی مارکیٹنگ بھی نہ کرنا کون سا طریقہ ہے؟  اپنا گھر کے نام سے پندرہ ایسی چھتیں میسر کرنا جہاں بے سہارا، نفسیاتی، ذہنی معذور ،  ناجائز غرض معاشرے کے ناپسندیدہ تمام لوگوں کو باعزت چھت فراہم کرنے کے پیچھے کون سا ایجنڈا تھا؟  کیا وجہ تھی کہ جیلوں میں قید جن لوگوں کو ان کے اپنے چھوڑ چکے تھے انہیں آپ کی لیگل ایڈ کمیٹی  ہر قسم کی مدد فراہم کرتی تھی؟ بلا مبالغہ ہزاروں افراد آپ کے وکیلوں کی وجہ سے باعزت بری ہوگئے! کیوں آپ کے ڈاکٹرز جاکر جیلوں میں ان کے طبی معائنے کرتے تھے؟ تاکہ وہ بیمار زہن معاشرے میں واپس آکر دوبارہ فساد کرسکیں؟  اور جواب میں بچکانہ منطق کہ وہ مجرم ضرور ہے مگر انسان ہے؟ جب ان کے گھر والے ان پر لعنت بھیج چکے تو آپ کو ان کے لئے کیوں درد اٹھتے تھے؟مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے آپ کے کوئی مقاصد تھے ایدھی صاحب!
ایدھی صاحب! باقی سارے جرائم تو پھر بھلائے جا سکتے تھے مگر یہ بچوں کو پڑھا لکھا کر بگاڑنے، ہنر سکھا کر روزگار پر لگانے، وغیرہ جیسے کام کرنے کا جرم میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔  جس ملک کا قومی کھیل ہی سر پھٹول ہو اس قوم کے نوجوانوں کو کام دھندے پر لگا کر آپ اس نرسری کو اجاڑ رہے تھے جہاں اس کھیل کے مایہ ناز کھلاڑی پیدا ہوتے تھے۔ یہ کہاں کی شرافت تھی جناب؟

ایدھی صاحب! جو لوگ  آپ کو محض اخبارات اور ٹیلیویژن سے جانتے تھے وہ سارے آج رو رہے ہیں۔ اس بات پر نہیں کہ آپ چلے گئے۔ اس بات پر کہ اب کوئی ایدھی نہیں رہا۔ مگر میں حقیقت جانتا ہوں سو میں مطمئن ہوں کیونکہ یہ سارے بھی منافق ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان آج یتیم ہوگیا ۔ یتیم تو وہ ہوتا ہے جو باپ کو باپ مانتا ہو! ان میں سے کون ہے جو کھڑا ہو اور اپنے دفتر عمل سے ثابت کرسکے کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔ آپ کا جانشین ہے۔ خدا فیصل اور سعد اور بلقیس ایدھی  کو سلامت رکھے کہ ان سے کچھ امیدیں ہیں باقی لوگوں کی باتوں کا آپ نے زندگی میں برا نہیں منایا تو اب بھی نہیں مانئے گا۔ دو تین دن کا جوش ہے اس کے بعد جب سڑک سے گزریں اور کسی زخمی کو پڑا دیکھیں گے تو حسب معمول ویسے ہی گاڑی کو سائیڈ سے کرکے نکل جائیں گے جیسے آپ کی زندگی میں گزر جاتے تھے۔ وعدہ رہا!

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت