جمعہ، 22 جولائی، 2016

کٹھ پتلی

شہر میں اس  پتلی تماشے کی دھوم تھی۔  خدا معلوم یہ تماشہ گر کون تھا اور کہاں سے آیا تھا ۔ کسی نے اس کو دیکھا نہیں تھا مگر اس نے اپنے تماشے سے شہر بھر کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔  الگ الگ پتلیوں کو وہ بیک وقت اس طرح نچاتا تھا کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے تھے۔  تماشہ بظاہر بہت سادہ سا تھا۔ ایک گڈے کی ملکیت کی جنگ تھی جو کئی گڈیاں بیک وقت لڑ رہی تھیں۔ ایک گڈی اسے اپنی دی گئی خدمات کا واسطہ دے کر اپنی جانب کھینچتی تھی تو دوسری اپنے تعلق کا واسطہ دے کر اسے  رحم کرنے کا کہتی اور ایک وہ بھی تھی جو ان سب سے پرے خاموشی سے کھڑی ہوکر تماشہ دیکھتی تھی۔

گڈا بیچارہ ان کے بیچ میں پھنسا کھڑا رہتا۔ ہاتھ جوڑتا، اوندھے منہ گر جاتا، ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ وہ بیک وقت سب کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے کہ ان سب سے اس کے تعلق کی نوعیت بالکل الگ تھی مگر گڈیوں کے کان کہاں ہوتے ہیں۔ وہ اسے پکڑ کر اپنی جانب کھینچتیں اور تماشے کے اختتام پر روزانہ وہ کھینچ تان کر گڈے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتیں اورگڈا اپنے ہاتھ پاؤں لٹُا کر ہوا میں معلق رہ جاتا جس کے بعدپردہ گرا دیا جاتا تھا۔ 

ان گڈیوں میں سے ایک وہ بھی تھی۔ ویسے ہی ہاتھ اور پاؤں اور نقوش جیسے کہ تمام گڈیوں کے ہوتے ہیں۔ مگر خدا جانے تماشہ گر نے اس کی تخلیق میں کیا فسوں رکھا تھا کہ جو اسے ایک بار دیکھ لیتا پھر اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتا تھا۔ وہ صرف تماشائیوں کی ہی نہیں، پتلیوں کی بھی محبوب تھی۔ شاید وہ بنائی ہی اس لئے گئی تھی کہ اس سے محبت کی جائے۔

بکسے میں جب پہلی مرتبہ اسے اتارا گیا تو اسے ساتھ کے سارے کردار اچھے لگے تھے۔ خیال کرنے والے اور خیال رکھنے والے۔ وہ بہت جلد ہی ان میں گھل مل گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ البتہ باقی تمام کردار پیچھے ہوتے چلے گئے اور وہ اس گڈے کے قریب ترین ہوتی چلی گئی۔  وہ چاہتی تھی کہ وہ جتنا زیادہ وقت اس گڈے کے ساتھ گزار سکتی ہے گزارے ۔ وہ اس سے سیکھنا چاہتی تھی۔ زندگی کے بارے میں۔ تماشہ گر کے بارے میں۔ خود اپنے بارے میں۔ اسے لگتا تھا کہ تماشہ گر کے بعد اس بکسے میں اگر کوئی اسے سمجھتا تھا تو وہ گڈا تھا۔اس کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے جتنے مسائل تھے ان سب کا حل اسے لگتا تھا کہ اس گڈے کے پاس موجود تھا۔  وہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی اور ان میں سے وہ موتی نکالنے کی کوشش کرتی جن کا علم شاید خود گڈے کو بھی نہیں تھا۔

کٹھ پتلیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے  کہ ان کی جسامت بہت محدود ہوتی ہے اور حصہ بقدر جثہ کے تحت دماغ اس سے بھی چھوٹا۔پتلیاں جب اس سے گڈے سے محبت کے بارے پوچھتیں تو وہ خوشی اور فخر سے ناچ کر اقرار کرتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ اسے بتایا جانے لگا کہ محبت کی تعریف وہ نہیں ہے جو یہ سمجھی تھی! دو کٹھ پتلیاں ایک دوجے سے محض اس وجہ سے محبت نہیں کرسکتیں کہ وہ کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہئے۔ شاید دوسری طرف گڈا بھی یہی سب کچھ سن  اور سہہ رہا تھا مگر ہزار بار سوچنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کے خیالات اپنے اندر نہ ڈھونڈ پائے جسے بکسے والے ان سے منسوب کرتے تھے۔
اب بکسے کے حالات کشیدہ ہونے لگے تھے۔ باقی کٹھ پتلیوں کو لگتا تھا کہ یہ دونوں جھوٹے ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو چیز وہ خود محسوس نہیں کرسکتے وہ کوئی اور محسوس کرلے؟ جیسا گڈا یا گڈی خود ان کی زندگی میں نہیں ہے وہ کسی اور کی زندگی میں آجائے؟  تعلقات کشیدہ تر ہوتے چلے گئے اور جب گڈی پر بس نہ چلا  کہ وہ ان کی توقعات سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی تھی تو گڈے پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی۔ دن رات پکڑ کر اس کے ہاتھ پاؤں کھینچے جاتے اور دن کے اختتام پر اس کو مکمل توڑ کر اپنے اپنے حصے کا گڈا لے کر سب سکون سے گھروں کو لوٹ جاتے۔ گڈی اس لڑائی میں شامل نہیں تھی۔ نہ ہونا چاہتی تھی۔ مگر اس کی ڈور بھی تماشہ گر کے ہاتھ میں ہی تھی۔ وہ جان بوجھ کر اسے گڈے کے حصے بخرے کرنے والوں کے درمیان کھڑا کردیتا۔اور جب رات گئے سب اپنے حصے کے اعضا لے جاتے تو وہ آخر میں بچ جانے والا واحد حصہ جو کسی کو درکار نہیں تھا اٹھا کر ساتھ لے آتی۔ گڈے کا دل!

تماش بین اس کھیل  سے خوب محظوظ ہوتے اور روزانہ اس گڈے کی بنتی درگت پر خوب خوب تالیاں پیٹتے کہ دنیا  کے خوبصورت ترین احساسات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ تکلیف سہنے والے اکیلے نہیں ہیں۔

آج بھی حسب معمول ہجوم جمع تھا اور تماشہ شروع ہونے کا منتظر تھا مگر آج جب پردہ اٹھا تو منظر کچھ مختلف تھا۔ آج گڈے کے تیور کچھ بدلے ہوئے تھے۔تماشہ گر جب جب ان گڈیوں کا دائرہ اس گڈے کے گرد تنگ کرتا وہ ان کے بیچ کھنچنے کے بجائے پہلو دے کر نکل جاتا۔ پہلے تو لوگ اسے تماشہ گر کا کوئی نیا پینترا سمجھے مگر معاملہ اس وقت عجیب ہوگیا جب لوگوں نے پہلی مرتبہ ایک کٹھ پتلی کوبولتے بلکہ چنگھاڑتے ہوئے سنا۔ وہ چیخ چیخ کر تماشہ گر کو للکار رہا تھا کہ اب وہ کٹھ پتلی بن کر مزید اس تماشے کا حصہ نہیں بن سکتا اور تماشہ گر کو اسے اس ناٹک سے رہائی دینی ہوگی۔  معاملہ اس وقت زیادہ دلچسپ ہوگیا جب لوگوں نے پہلی مرتبہ تماشہ گر کی آواز سنی۔ وہ تماشہ گر جو کبھی کسی کے سامنے نہیں آیا تھا اس وقت کٹھ پتلی کو یاد دلا رہا تھا کہ اس کی زندگی  اس بکسے سے جڑٰی ہوئی ہے۔ اس کی زندگی محض تب تک ہے جب تک اس کے جسم سے جڑی یہ ڈوریاں تماشہ گر کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر اس نے اس ڈوری کو چھوڑ دیا تو گڈا کوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ گڈا جواب میں چلا رہا تھا کہ وہ ایسی زندگی پر لعنت بھیجتا ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ وہ اب مزید ناچنے پر تیار نہیں تھا خواہ اس کی قیمت اس کی زندگی ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں نے تماشہ گر کے ہنسنے کی آواز سنی جو اپنے اس غلام کی خواہشات کا جواب  محض قہقہوں سے دے رہا تھا۔

تماشائی معاملہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ یہ لفظی جنگ ایک حقیقی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ گڈے نے تماشہ گر کی مرضی کے خلاف ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئے۔ تماشہ گر اگر اس کے ہاتھ کو دائیں گھماتا تو گڈا اپنی ننھی سی جان بروئے کار لاتے ہوئے اسے بائیں ہاتھ کی طرف کھینچتا اور نتیجتا ہاتھ ایک پینڈولم کی طرح جھولنے لگتا۔ تماشائ اس کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے ایک بار پھر محظوظ ہونے لگے تھے مگر سٹیج پر ایک وحشت زدہ ماحول بن چکا تھا۔ گڈیاں نیچے گری پڑی تھیں اور محض گردن اٹھا کر  یہ مناظر دیکھ رہی تھیں۔  گڈا بکسے کے کونے پر کھڑا کبھی ہاتھوں کا پنڈولم جھلاتا تھا اور کبھی ٹانگوں کا۔ تماشائیوں کے قہقے اب آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ یہ احساس  کہ ایک کٹھ پتلی بھی اپنے آقا کے آگے کھڑی ہوسکتی ہے ان کے لئے بہت پر تفنن تھا۔ تماشہ گر نے جب  حاضرین کی اس دلچسپی کو دیکھا تو اب یہ پنڈولم کی حرکت افقی سے عمودی ہوگئی۔ وہ گڈے کے ہاتھ کو اوپر لے کر جاتا اور گڈا اسے ایک جھٹکے سے نیچے لے آتا۔ یہ بات البتہ اب واضح تھی کہ گڈا تھکتا جا رہا تھا۔ ہوتے ہوتے ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب تماشہ گر نے اس کا ہاتھ اوپر کیا تو وہ ہاتھ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ گڈیوں نے معاملہ جب سنبھلتا ہو ا دیکھا تو وہ بھی کھڑی ہوئیں اور ناچتی ہوئی اس گڈے کے گرد جمع ہوگئیں۔ مجمع کو آج نیا کھیل دیکھنے کو ملا تھا جسے انہوں نے دل سے پسند بھی کیا تھا سو لوگوں نے تالیاں پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ تالیوں کا شور جب تھما تو پردہ آہستگی سے گرنے لگا۔ پردے کے گرنے سے پہلے لوگوں نے آخری منظر جو دیکھا وہ یہ تھا کہ گڈے نے ہاتھ کو ایک آخری جنبش دی اور اپنی گردن سے جڑے دھاگے کو توڑ دیا۔ گڈے کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ تماشا تمام ہوا۔ 


دوسری طرف روز کی طرح آج بھی وہ بکسے میں موجود تھی جب اس نے گڈے کو پھٹتے دیکھا۔ چیختے اور چنگھاڑتے دیکھا۔ تماشہ گر سے لڑتے دیکھا۔ لڑکر گرتے دیکھا ۔ اور آخر میں جب سب گڈے کی ڈھلکی ہوئی گردن دیکھ رہے تھے تب یہ منظر نہ کسی تماش بین نے دیکھا نہ کسی لیکھک نے اسے بیان کیا کہ ایک اور ہاتھ اپنے گردن سے بندھی ڈور توڑنے میں مصروف تھا۔  تماشا واقعی تمام ہو چکا تھا۔

3 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت