بدھ، 22 مارچ، 2017

منڈی

بازار کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص مدت کے بعد نیچے آجاتا ہے۔ وہ تمام چیزیں جو دن میں بھاؤ دکھا رہی ہوتی ہیں وہ شام گئے بہت سے ان غربا کے ہاتھ بھی لگ جاتی ہیں جو دن  میں  ان اشیاء کے دام سن کر سوائے دل جلانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ کچھ غربا مگر اتنے شدید غریب ہوتے ہیں کہ عام غریب بھی انہیں غریب سمجھتا ہے۔ یہ حرماں نصیب ان اشیاء کو شام گئے، دام گرنے کے بعد بھی اپنی دسترس سے باہر ہی پاتے ہیں۔ میرا شمار بھی ان ہی شدید غربا میں ہوتا ہے۔مگر مجھ میں اور دیگر شدید غربا میں ایک فرق موجود ہے کہ میں نے کبھی اپنی غربت کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا ہے۔ میں اپنا کام نکالنا اور نکلوانا خوب جانتا ہوں۔
آج جب میں اس ہفتہ وار بازار میں داخل ہوا تو میری جیب میں فقط ڈیڑھ سو روپے تھے اور بیگم صاحب کی خواہش تھی کہ میں دس کلو پیاز لے کر لوٹوں۔ میری بیوی مجھے دیوتا سمّان سمجھتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جو میں نہ کر سکتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرے سو اب مجھے ہر حال میں ان ہی پیسوں میں وہ پیاز لے کر لوٹنا تھا۔
جب میں بازار پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ بہت سے تاجراپنے ٹھیے سمیٹ چکے تھے جب کہ کچھ ابھی بھی اپنا مال لئے گاہکوں کے منتظر تھے۔ یہ اس ہفتہ وار بازار کی شام کا معمول کا منظر تھا ۔ دن چڑھے جو لوگ گاہکوں کومنہ لگانے کو تیار نہ تھے آج وہ خود آوازیں دے کر انہیں اپنے اپنے ٹھیوں کی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ تاجر دیسی والدین کی طرح جوانی میں نخرے دکھانے کے بعد ادھیڑ عمر میں پہنچی اولاد کو جو ملے جیسا ملے غنیمت ہے سمجھ کر اپنا مال خرید کے دام پر بیچنے کو بھی راضی تھے۔  اور وہ تو شکر ہے کہ ان اشیا کی زبان نہ تھی ورنہ وہ بھی گھریلو ماحول سے تنگ لڑکیوں کی طرح اپنی اصل قیمت سے کم پر بھی گاہک کے ساتھ جانے کا اعلان کر دیتیں کہ صبح سے شام گئے تک وہ پہلا تھا جس نے ان پر توجہ کی نظر ڈالی تھی۔
یہ ماجرا سن کر آپ کو شاید یہ گمان ہوا ہوگا کہ اب پندرہ روپے کلو کے حساب سے پیاز خریدنا کوئی مسئلہ ہی نہ رہا ہوگا مگر واللہ آپ اس شام میرے ساتھ ہوتے تو دیکھتے کہ پیاز دن بھر پچاس روپے کلو بکنے کے بعد شام گئے بمشکل پینتیس روپے پر آئی تھی اور تاجر قسمیں اٹھا رہے تھے کہ بتیس روپے کی خرید شدہ پیاز وہ اس سے ایک روپیہ کم میں نہیں دیں گے۔
میری جگہ کوئ  بھی اور شدید غریب ہوتا تو شاید ہمت ہار دیتا یا پھر دس کی جگہ ساڑھے چار کلو پیاز لے کر لوٹ جاتا مگر میں دس کلو سے کم پیاز لے کر کیسے جا سکتا تھا؟ میں نے بتایا نا کہ پیچھے میری بیوی یہ امید لگا کر بیٹھی ہوئی تھی کہ میں دس کلو پیاز لے کر لوٹوں گا اور وہ بیوی مجھے دیوتا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے بازار کا جائزہ لیا اور ایک نسبتا اونگھتے ہوئے تاجر کو تاڑا کہ جس کے پاس کم و بیش دس بارہ کلو  ہی پیاز بچی ہوگی ۔ وہ پورے دن کی مشقت کے بعد اب تھک کر بیٹھ چکا تھا اور منتظر تھا کہ کوئی آئے اور اس سے یہ بچی ہوئی پیاز کی چھوٹی سی ڈھیری بھی مول لے جائے۔
میں جب اس کے پاس پہنچا تو اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور اپنے تجربہ کار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بولا، پینتیس سے ایک روپیہ کم نہیں ہوگا۔ اور یہ کہہ کر دوبارہ اونگھنے میں مشغول ہوگیا۔ وہ مجھے بتانا چاہتا تھا کہ وہ جانتا ہے میری اوقات پینتیس روپے کلو ملنے والی پیاز خریدنے کی نہیں تھی۔
میں نے اس کے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس  کے ٹھیلے پر موجود پیاز کو ٹٹولنا شروع کردیا اور چند ہی لمحوں میں میرے ہاتھ میں چھپی ہوئی برف کی ڈلیاں اس پیاز کے اندر منتقل ہوچکی تھیں۔
برف کو پیاز میں منتقل کرنے کے بعد میں وہاں سے آگے بڑھ آیا اور ایک کونے میں کھڑا ہوکر بیڑی پینے لگا۔ انتظار کے لمحات خواہ پیاز کے لئے ہی کیوں نہ ہوں، بہر حال تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ بیڑی ختم کرکے میں دوبارہ اس کے پاس پہنچا اور نہایت سنجیدگی سےاس سے پوچھا کہ وہ اس پوری ڈھیری کے کتنے پیسےلے گا؟  اس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر بولا، ویسے تو پینتیس روپے مانگ رہا ہوں مگر تم ساری خریدو گے تو تینتیس کے حساب سے ساری تول دوں گا۔ ایک نمبر پیاز ہے! میں جانتا تھا کہ برف اتنی دیر میں اپنا کام کر چکی ہوگی سو میں نے کہا کہ اگر ایک نمبر ہوئی تو تینتیس کی جگہ پینتیس پورے دے دوں گا۔ یہ کہہ کر میں نے پیاز کی ڈھیری میں ہاتھ مارا تو اندر سے ساری گیلی پیاز باہر آگئی! ادھر اس غریب کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ بوکھلاہٹ میں بڑبڑانے لگا، یہ پیاز گیلی کیسے ہوسکتی ہے؟ میں تو سوکھی پیاز بیچ رہا تھا! ایک نمبر پیاز!  یہ کیسے ہوا؟
میں نے اس کی بڑبڑاہٹ کو کاٹتے ہوئے اسےیاد دلایا کہ یہ گیلی پیاز کسی کام کی نہیں رہی ہے۔ اب کوئی اس پیاز کو نہیں خریدے گا۔ وہ ہکلایا، مممم مگر میرا کیا قصور؟ میں نے جواب دیا، میرا کیا قصور کہ میں پینتیس روپے دے کر وہ گیلی پیاز خریدوں جو میرے کسی کام کی نہیں ہے؟ وہ بولا، صاحب! یہ تازی گیلی پیاز ہے۔ صبح سے سوکھی تھی۔ ابھی کہیں سے پانی آیا ہے۔ گھر لے جا کر پونچھ لیں، نہیں خراب ہوگی۔ میں نے کہا تو تم پونچھ کر گھر کیوں نہیں لے جاتے؟اگلے ہفتے  جب دوبارہ بازار لگے اور یہ پیاز سلامت رہے تو بیچنے لے آنا۔ وہ بولا، صاحب آپ تو جانتے ہو! پیاز میں نمی آگئی ہے۔ ہفتے بھر میں خراب ہو ہی جائے گی۔ آپ گھر لے جاؤ۔ گھر میں کام آ ہی جائے گی۔ دیکھو ساری گیلی نہیں ہوئی ہے۔ جو گیلی ہے وہ فوراُٗ تل لیجئے گا باقی سکون سے استعمال کر تے رہئے گا۔ میں نے کچھ دیر سوچنے کی اداکاری کی اور پھر کہا مگر میرے پاس فقط ڈیڑھ سو روپے ہیں۔ اس نے کہا مگر ابھی تو آپ ساری پیاز پینتیس روپے کے حساب سے خریدنے والے تھے؟ اس کی مجبوری نے مجھے تم سے آپ بنا دیا تھا اور میں اس ترقی پر بے حد خوش تھا۔ میں نے بے نیازی سے کہا، وہ پینتیس روپے ایک نمبر پیاز کے لئے تھے۔ اس گیلی پیاز کے لئے یہی ڈیڑھ سو ہیں۔ دینا ہے تو دو ورنہ میں کہیں اور جاؤں۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر خاموشی سے پیاز کو تھیلوں میں منتقل کرنے میں مصروف ہوگیا۔

میں بازار سے نکل کر آیا تو ایک فاتحانہ مسکراہٹ بے ساختہ میرے لبوں پر آگئی۔ برف لے جانے والا میرا آئیڈیا کمال کا نکلا تھا۔  میں آج ایک بار پھر اپنی بیوی کی امیدوں پر پورا اترا تھا۔ اور میں نے بتایا نا کہ میری بیوی مجھے دیوتا سمان سمجھتی ہے۔ اور کیوں نہ سمجھے؟ آج سے پندرہ سال پہلے جب دنیا نے اس کے کردار پر جھوٹی کیچڑ اچھالی تھی اور اس کی تمام تر خوبصورتی اور تعلیم اور سیرت کے باوجود کوئی اسے اپنانے کو تیار نہیں تھا تو یہ میں ہی تو تھا  جس نے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ چاہے بھی تو ساری عمر میرے اس عظیم احسان کا بدلہ کیسے اتار سکتی ہے؟

اتوار، 12 مارچ، 2017

استاد

وہ پیدائشی بہرا نہیں تھا۔ اپنی عمر کے پہلے انیس سال اس نے محض سننے میں ہی صرف کیے تھے۔ ایسا نہیں کہ اسے بولنا نہیں آتا تھا۔ بات محض اتنی تھی کہ اس وقت اسے کوئی سننا نہیں چاہتا تھا۔ سننا تو شاید انیس سال کے بعد بھی کوئی نہیں چاہتا مگر عمر کے انیسویں سال میں ایک ہجوم کے درمیان کھڑے، یکے بعد دیگرے زوردار دھماکوں کی زد میں آنے کے بعدکچھ ایسا ہوگیا کہ اس کی سماعت جواب دے گئی۔ سو لوگوں نے سنانا تو انیسویں سال کے بعد بھی بند نہیں کیا مگر اس حادثے  کے بعد سے اس نے سننا بند کردیا۔ اور جب سننا بند ہوا تو بولنا شروع ہوگیا۔ اب وہ جہاں کہیں جاتا اور جو کچھ دیکھتا اس پر بولنا شروع ہوجاتا۔ بولتے بولتے جب محسوس کرتا کہ وہ اپنی آواز خود بھی نہیں سن پا رہا تو اسے لگتا کہ اس کی آواز کوئی بھی نہیں سن پا رہا سو وہ لوگوں کو سنانے یا شاید خود کو سنانے کے لئے با آواز بلند بولنا بلکہ چلانا شروع ہوجاتا۔ وہ جو کچھ دیکھتا اس پر اس وقت تک  چیختا رہتا جب تک یامجمع بالکل چھٹ جاتا یا اسے چیخنے کے لئے کوئی نئی چیز میسر آجاتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اسے پہچاننے لگے تھے۔ اول تو کوئی خود سے اس کے نزدیک آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا اور اگر یہ زبردستی کسی کو گھسیٹ لانے کی کوشش کرتا بھی تو وہ اس بات کا خیال کر کے ہی قریب آتا کہ جب وہ اس کی چیخوں اور کراہوں کی بےوجہ کوفت سہنے کی سکت رکھ سکتا ہوتا۔ عام آدمی بہرحال اب بھی اسے دیکھتے ہی کونا پکڑ لیتا تھا۔
وہ لوگوں کے یہ رویے دیکھ  بھی سکتا تھاور محسوس بھی کر سکتا تھا مگر ظاہر یہ کرتا تھا گویا اس کی صحت پر ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہ ہوتا ہو۔ لوگوں نے اس کے پاس آنا بند کردیا۔ یہ اب بھی مسکرا کر خود سے ان کے پاس چلا جاتا۔ اس کی سسکیوں اور نالوں سے تنگ آ کر خود اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔یہ پھر بھی ڈھٹائی سے زندہ رہا۔ لوگوں نے اسے پاگل قرار دے کر اس پر پتھر برسانے شروع کر دئے، یہ تب بھی چوک میں کھڑا ہوکر چلانے سے باز نہ آیا۔
خیرجیسا بھی تھا ، وقت ہی تھا سو بہر طور گزر ہی گیا۔ گزرتے وقت نے سیلابی ریلے کی طرح اس  کی روح کو بھی خوب زرخیز  بنا دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جو بھی انسان اس کے قریب ہوتا وہ رویوں کی کدال لے کر اس کی روح میں کھدائی کرنے لگ جاتا کہ اس کے اندر اپنی ذات کی تلخی اور اپنی زیست کی محرومیوں کو دبا سکے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اسے اس بات پر بھی اعتراض نہیں تھا۔   اس نے اپنے آپ کو بقلم خود استادی کے منصب جلیلہ پر فائز کر دیا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اپنی مجروح انا کے پچکے ہوئے غبارے میں اس بات کی ہوا بھرتا رہتا تھا کہ دیکھو دنیا کے دئے گئے مصائب کے باوجود میں کیسا مہان ہوں کہ میں پلٹ کر انہیں جواب نہیں دیتا!  کبھی وہ خود کو یہ کہہ کر سمجھاتا کہ  شاید ان لوگوں کی ان ہی نادانیوں کی وجہ سے خدا نے انہیں شاگرد اور مجھے استاد بنایا ہے اور انہیں میرے زیر نگیں کیا ہے کہ میں ان کی زندگیوں کو بدل سکوں؟ خیر یہ سب تو پرانی باتیں ہوئیں کیونکہ وقت کے ساتھ اب وہ کافی معتدل ہوگیا تھا۔ انسانوں کے بارے میں اس کی رائے بھی پہلے سے زیادہ اچھی ہوگئی تھی۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے شاگردوں سے خوش تھا۔ وہ اس سے محبت کرتے تھے اور یہ بھی بدلے میں ان پر جان چھڑکتا تھا۔ وہ روز، ہر روز! ان کے لئے کوئی نہ کوئی نئی چیز نکال کر لاتا کہ جس سے ان کے علم میں، ان کے حلم میں، ان کی معاملہ شناسی، ان کی معاشرت، ان کی معیشت میں بہتری لا سکے۔  اور جب اس کے بدلے میں وہ اسے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے تعریف کے ڈونگرے برساتے کہ جنہیں وہ سن تو نہیں سکتا تھا البتہ اپنی روح کے اندر اترتا ہوا محسوس ہر بار کر لیتا تھا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی زندگی کا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔
ماضی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ اپنے وقت پر کیسا ہی جاں سوز کیوں نہ رہا ہو، گزرنے کے بعد بہرحال خوبصورت ہو ہی جاتا ہے۔  وہ یوں تو اپنی زندگی میں مگن تھا مگرجب بھی ان دنوں کو یاد کرتا کہ جب وہ سن سکتا تھا تو ایک عجیب سی یاسیت اسے گھیر لیتی تھی۔  وہ پھر پہروں بیٹھا ان دنوں کو یاد کرتا اور تصور کرتا کہ آج  کے اپنے علم و تجربات کی روشنی میں اگر وہ انسانوں کو سن پاتا تواور بھی اچھے طریقے سے ان کی اصلاح کر پاتا۔ اورجیسا  کہ آپ جان چکے ہیں کہ وہ عام آدمیوں سے مختلف تھا سو وہ اپنے خوابوں کو محض خواب بنا کر رکھنے کا عادی نہیں تھا لہٰذا اس نے ایک اچھے طبیب سے مشورہ کیا اور جب اسے پتہ چلا کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے وہ دوبارہ سننے کے قابل ہو سکتا ہے تو وہ پیسے جمع کرنے میں جٹ گیا۔ اب اس نے ایسا کوئی بھی کام کرنے سے انکار کر دیا کہ جس سے وہ چار پیسے منافع نہ کما سکتا ہو۔سڑک پر سے گزرتا تو آنکھیں بند کر لیتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی چیز پر نظر پڑ جائے اور پھر اسے کام دھندے چھوڑ کر اس چیز پر چلانا پڑ جائے۔ گیان بانٹنے کے چونکہ پیسے نہیں ملتے تھے لہٰذا مفت کا روزانہ کا گیان بنٹنا فی الفور بند کردیا گیا۔ غرضیکہ اس نے اپنے تئیں لگ کر پیسے کمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر وہ چیز جو اسے اس کام سے غافل کر سکتی تھی اسے اس نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
اچھا ہو یا برا، محنت بہرطور رنگ ضرور لاتی ہے سو اس کی محنت بھی رنگ لے آئی اور جمع شدہ پیسے، کہ جن سے محبت تک لوٹ آتی ہے، اس کی سماعت بھی واپس لے آئے۔
ایک چھوٹا سا ہیئرنگ ایڈ کا آلہ اس کے کان میں لگا دیا گیا  تھا اور اب وہ دوبارہ سننے کے قابل ہوگیا تھا۔ خوشی کے مارے اس نے گھر جانے سے پہلے ہی اپنے تمام شاگردوں کو جمع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔  وہ ان سب کو اس خوشی میں شریک کرنا چاہتا تھا۔
آج جب اس نے کلاس میں چیخنا شروع کیا تو اسے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ وہ کتنا بلند اور کتنا کڑوا بولنے کا عادی  ہوچکا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے شاگردوں کے ظرف کی داد دی جو اسے اس کڑواہٹ کے ساتھ بھی نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ اس کی چیخم پکار کے اختتام پر اسے سراہتے بھی تھے۔ ہمت بڑھاتے تھے۔ چاہتے تھے کہ وہ اس ہی طرح چیختا رہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انہیں اس میں ہونے والی تبدیلی کا علم ہو سو وہ روز کی طرح چیختا رہا اور جب چیخ چیخ کر تھک چکا تو حسب معمول نڈھال ہو کر اپنے اسٹول پر ڈھے گیا۔
جب اس کے شاگردوں کو یقین ہوگیا کہ اب وہ مزید نہیں چیخے گا تو وہ ایک ایک کر کے اسے سراہنا شروع ہوگئے۔ پہلا اس کی سمت مسکراہٹ اچھال کر بولا، ابے او منہ کے حیض کے مریض! کب تک ایسے ہی چلاتا رہےگا؟ دوسرا والا بھی نہایت گرمجوشی سے گویا ہوا، خون تھوکنے کے لئے تجھے ہم لوگ ہی کیوں ملتے ہیں؟ تیسری کی باری آئی تو بولی، آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہر کہانی بیان کرنے کے لئے نہیں ہوتی؟ چوتھا بولا، بھائی! یہ مسائل تیرے ہیں! معاشرے کا ان سب سے کیا لینا دینا؟ مفت میں ملنے والی تو ہم نے آسمانی آیات کی قدر نہیں کی پھر تیری بکواس کس گنتی میں ہے؟ پیسے لے کر چیخا کر ورنہ یہ مفت کی بکواس سننے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
ننھے میاں نے کاغذات کا پلندہ غصے میں میری میز پر مارا اور بولے یہ کیا بکواس ہے؟ کہانی کا اختتام کہاں ہے؟ آپ ہر کہانی ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟  میں نے ننھے کو مسکرا کر دیکھا اور کہا، آپ کے لئے! وہ چڑ کر بولے، میرے لئے کیسے؟ میں نے کہا، آپ کے لئے ایسے کہ اب اس استاد کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو اپنی ہیئرنگ ایڈ نوچ کر پھینک دے یا پھر آگہی کے عذاب سے تنگ آکر خودکشی  کر لے۔ اب آپ نے معلوم کر کے بتانا ہے کہ میں نے کیا انجام پسند کیا ہوگا۔ ننھے میاں نے منہ بسورتے ہوئے کہا، اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ سب کو پتہ ہے آپ نے اس استاد کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔ میں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور دراز میں سے تمباکو نکال کر پائپ بنانے میں مصروف ہوگیا۔ ننھے میاں پہلے تو اپنی کمر پر ہاتھ رکھے مجھے گھورتے رہے پھر جب انہیں یقین ہوگیا کہ میں اس موضوع پر مزید بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں تو پیر پٹختے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
ننھے کے کمرے سے جانے کے بعد میں نے پائپ سلگا لیا مگر ابھی پہلا کش ہی لیا ہوگا کہ وہ دروازہ کھول کر دوبارہ کمرے میں آ دھمکے اور غصے سے گویا ہوئے، اگر آپ نے اسے مارنا ہی تھا تو یہ کہانی لکھی ہی کیوں ؟ میں نے کہا، احساس دلانے کے لئے! ننھے میاں مزید تنک کر بولے، اگراحساس  ہو سکتا تھا تو احساس دلا دیتے ! استاد کو مارنے کی کیا ضرور تھی؟  میں نے ننھے میاں کی آنکھوں میں جھانک کر کہا، میں نے توفقط یہ احساس دلانے کے لئے کہانی لکھی ہے کہ جب وہ سب لوگ وہ سب باتیں یہ سوچ کر کرتے تھے کہ وہ نہیں جان سکتا تو انہیں احساس ہو جائے کہ استاد  جانتا تھا!   استاد جانتا ہے!


جمعہ، 10 مارچ، 2017

گدگدی

نوٹ: اس کہانی کے تمام واقعات و کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی قسم کی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں!

اشارے پر گاڑی رکی تو میں نے   وقت گزاری کے لئے اطراف کا جائزہ لینا شروع کردیا۔  سب کچھ معمول کے مطابق ہی تو تھا۔ گاڑیوں کے
 درمیان وہی کم سن بچوں کے غول گھوم رہے تھے  جو صاف کرنے کے نام پر گاڑیوں کےشیشے گندے کرتے اور پھر اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے آپ سے پیسےبھی اینٹھتے تھے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا  کہ اگر یہی چلن رہےتو یہ بچے بڑے ہوکر ملک کے کسی با اختیار ادارے میں پائے جائیں گے۔  گداگروں کے پاس پچھلے رمضان کی کمائی اب تک چل رہی تھی لہٰذا وہ ٖفٹ پاتھ پر بیٹھے سستا رہے تھے ۔ کسی بھی راہگیر سے نظر ملنے پر وہ وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ اٹھا کر سوال کر دیتے اور اگر مثبت جواب کی امید دکھتی تو اپنے ساتھ موجود چھوٹے کو دوڑا دیتے کہ جائے اور وصولی کر آئے ۔ اگر امید افزا جواب نہ ملتا تو وہ گداگر آپ کو ایک گہری نظر سے نوازتے کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ پیشے کی مجبوری ہے وگرنہ تمہارے جیسوں کو تو میں ویسے بھی خاطر میں نہ لاؤں، اور پھر کسی نئی گاڑی پر نگاہیں مرکوز کر لیتے۔
بیٹے کے اسکول سے پانچ منٹ کی مسافت قبل پڑنے والا یہ اشارہ عام طور پر کھلنے میں وقت لیتا تھا اور میں روز روز کے مشاہدے کی بنا پر چونکہ ان تمام بچوں اور گداگروں  اور ان کے معمولات کو حفظ کر چکی تھی لہٰذا میں نے سڑک کے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔   گاڑی اتفاق سے سڑک کے انتہائی دائیں جانب ہی تھی لہٰذا مجھے سڑک کے دوسری طرف دیکھنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔
عمارات پر لگے بورڈز پر میرے مطلب کی کوئی چیز موجود نہیں تھی سو میں نے سڑک کی طرف توجہ مبذول کردی۔ دوسری طرف بھی اشارہ بند تھا سو سڑک پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔  فٹ پاتھ کے ساتھ البتہ ایک چمچماتی نئی  گاڑی کھڑی تھی  اور جب میں نے اس گاڑی کو غور سے دیکھا تو میں لرز کر رہ گئی۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک پینتیس چھتیس سالہ نوجوان بیٹھا ہوا تھا جس کی گود میں ایک چھ سالہ لڑکی یونیفارم پہنے بیٹھی تھی۔ میں ان دونوں کے چہرے تو نہیں دیکھ سکتی تھی مگر میں نے محسوس کرلیا تھا کہ بچی اس ڈرائیور کی گود میں بیٹھی بری طرح کسمسا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور کو کہا کہ اشارہ کھلتے ہی گاڑی واپس گھما لے اور اس گاڑی کے آگے لگائے۔ بیٹے کے اسکول کی چھٹی کا وقت ہوچکا تھا مگر میں جانتی تھی کہ وہ اسکول میں محفوظ ہے اور میرا انتظار کر سکتا ہے جبکہ یہاں اس وقت ایک معصوم کلی کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
میرا جملہ مکمل ہونے  تک اشارہ کھل چکا  تھا سو ڈرائیور نے گاڑی واپس گھما لی اور جیسے ہی میری گاڑی اس گاڑی کے آگے جا کر رکی تو میں 
ایک لحظے کا توقف کئے بغیر گاڑی سے اتری اور تیزی سے اس گاڑی پر پہنچ گئی۔
میرے شیشہ بجانے پر وہ ڈرائیور بری طرح اچھل پڑا تھا جس سے میرا شک یقین میں بدل گیا۔ اس مردود ڈرائیور نے جب میرے تیور دیکھے تو دروازہ کھولے یا شیشہ نیچے کئے بغیر ہی گاڑٰ ی کے اندر سے ہاتھ کا اشارہ کیا گویا پوچھنا چاہتا ہو کہ میں کیوں اس کی اس غلیظ مصروفیت میں مخل ہو رہی ہوں۔ میں نے چاہا تو تھا کہ میرا لہجہ نارمل رہے مگر جب میں بولی تو مجھے خود اپنی آواز سن کر اندازہ ہوا کہ میں باقاعدہ چیخ پڑی تھی۔  میں نے چیخ کر اس ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکلنے کو کہا مگر وہ تھوڑا اور دبک کر نشست پیچھے کر کے بیٹھ گیا۔ اس کی گود میں موجود بچی موقع دیکھ کر اس کی گود سے نکل کر پیسنجر سیٹ پر جاچکی تھی اور اب بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ میں نے جب اس بچی کو روتے ہوئے دیکھا توخدا جانے مجھے کیا ہوگیا۔ میں نے چیخ چیخ کر اس ڈرائیور کو مغلظات سنانی شروع کردیں اور ساتھ میں گاڑی کے شیشے  پر دو ہتڑ برسانے شروع کردئے۔وہ کمینہ ڈرائیور اب اپنی نشست میں مسلسل دھنسا چلا جا رہا تھا مگر باہر اب میں اکیلی نہیں رہی تھی۔ میرا اپنا ڈرائیور تو گاڑی پارک کر کے آ ہی چکا تھا مگر ایک عورت کو اس طرح گاڑی کو پیٹتے  اور چلاتے ہوئے دیکھ کر بہت سےو ہ بھائی بھی متوجہ ہوچکے تھے جن کی توجہ کی حسرت لئے ان کی سگی بہنیں مدت سے ان کی راہ تک رہی تھیں۔
مجمعے کو دیکھ کر پہلے تو وہ اور سراسیمہ ہوا مگر جب فرار کی کوئی راہ نہ دکھی کہ گاڑی کے پیچھے میرے آنے سے پہلے ہی ایک اور گاڑی کھڑی تھی جس نے اس شیطان کے ریورس کا راستہ روک رکھا تھا، تو  بالآخر وہ گاڑی سے اتر آیا۔
اس کے گاڑی سے اترتے ہی میں نے  اسے گریبان سے پکڑ کر اسے تھپڑوں کی زد پر لے لیا۔ شروع میں تو وہ بیچارگی کا ناٹک کرتے ہوئے اپنا قصور دریافت کرتا رہا اور مجمع بھی مجھے ہی روکنے کی کوشش کرتا رہا مگر جب میں نے لوگوں کو  اس کے کرتوت کے بارے میں بتایا اور گاڑی میں موجود بچی نے میرے بیان کی تصدیق کر دی کہ ڈرائیور انکل روز اسکول سے واپسی میں کہیں نہ کہیں گاڑی روک کر اسے گاڑی چلانے کے بہانے اپنی گود میں بٹھاتے ہیں اور اس کی فراک کے اندر ہاتھ ڈال کر اسے گدگدی کرتے ہیں اور آج انکل اسے اپنی گود میں بٹھا کر تکلیف دے رہے تھے، تو مجمع نے بھی اسے لاتوں گھونسوں پر لے لیا۔
ڈرائیور کے موبائل سے ہی اس بچی کے والدین کا نمبر نکال کر میں نے انہیں اس جگہ پر بلوایا اور اگلے پندرہ منٹ کہ جب تک وہ وہاں پہنچ نہیں گئیں  میں وہیں کھڑی ان کا انتظار کرتی رہی۔ بیٹا اسکول میں انتظار کر رہا تھا سو میں نے اپنے دیور کو بھیج کر اس کو اسکول سے اٹھوا لیا اور بچی کو ساتھ خیریت کے اس کی والدہ کے حوالے کرنے کے بعد جا کر میں کہیں گھر لوٹی۔ لڑکی کو ان کے حوالے کروقت میں نے انہیں دبے الفاظ میں باتیں بھی سنادیں کہ وہ آج کل کے حالات میں اس طرح بیٹی کو ایک جوان ڈرائیور کے ساتھ اکیلا کس طرح چھوڑ سکتی ہیں؟ ہمارے بھوکے سماج میں یہ معصوم کلیاں کب ان بھیڑیوں کی نظر ہوجائیں کون جانتا ہے؟ اور کون یہ خطرہ مول لے سکتا ہے؟
واپسی کے راستے میں بھی میں اس معاشرتی گھٹن اور بچوں کے استحصال کے بارے میں سوچتی رہی مگر مجھے آج یہ اطمینان تھا کہ اس برائی کے خلاف جو کچھ میرے بس میں تھا سو میں نے کر دیا تھا۔ بچوں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے اپنے بیٹے کا بھی خیال آیا جو بیچارہ آج میری وجہ سے اسکول میں انتظار کی کوفت سہتا رہا تھا مگر جب میں گھر پہنچی تو وہ کار پورچ میں ہی گاڑی میں موجود تھا۔

گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہ اپنے سگے چاچو کی گود میں بیٹھا کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ شاید اسے بہت زور سے گدگدی ہورہی تھی! 

بلاگ فالوورز

آمدورفت