پیارے قائد! مجھے یقین ہے کہ آپ رب تعالٰی کی جنتوں میں کسی بہت بلند مقام پر ہوں گے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی 25 دسمبر کا شور ہے۔ 14 اگست اور 23 مارچ وغیرہ کی طرح یہ دن بھی ان گنے چنے دنوں میں سے ایک ہے جب یہ قوم کرنسی نوٹوں کےعلاوہ بھی آپ کی تصویر دیکھتی ہے۔ ہر کوئی آپ کے بارے میں بات کرکے آپ سے اپنی انسیت اور عقیدت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک پاکستانی ہوں۔
آج صبح سے ہی ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چل رہا ہے اور ہر شخص آپ سے معذرت کے نام پر آپ کو احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہے کے آپ کا وطن کس حد تک بگڑ چکا ہے اور شاید ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھی کہ یہ ملک بنانا آپ کی کتنی بڑی غلطی تھی۔ ٹوئیٹر پر چھوٹی موٹی سیلیبریٹی تو قائد اب میں بھی ہوں۔ ہزار سے زائد فالوورز ہیں (اگر آپ کہیں تو اگلے جمعے آپکے لیئے سپیشل فرائڈے فالو مہم بھی چلوا سکتا ہوں) سو میں نے سوچا کے میں کیوں پیچھے رہوں؟ لہٰذا میرے حصے کا معذرت نامہ بھی حاظر ہے۔
قائد آپ بڑے انسان تھے اور اس بات کے ثبوت کیئے خود پاکستان کا وجود کافی ہے مگر آپکے بڑے ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آج بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ آپ کا تعلق ہمارے مسلک اور تنظیم سے تھا۔ آجکے پاکستان میں اگر گاندھی جی اور کانگریس بھی جلسہ کریں تو بالیقین، سٹیج کے بیک ڈراپ پر انہوں نے بھی آپ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کھچوائی گئی کوئی تصویر ہی لگانی ہے کہ اب آپ سے تعلق ثابت کرنا اس ملک کا نیا فیشن ہے۔ اس ملک میں یہ عزت آپ کے اور علامہ اقبال کے بعد شاید ہی کسی اور کے حصے میں آسکے۔
قائد! میں لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں مگر مجھے نہیں معلوم کہ مجھے معافی کس بات کی مانگنی چاہیئے؟ کس بات پر کہوں کہ میں شرمندہ ہوں؟ قائد! مجھے اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ آپ کا پاکستان اب فرقوں اور مسلکوں میں بٹا ہوا ہے کیونکہ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ بیماری صرف چند تنگ نظر اور کم فہم لوگوں تک محدود ہے۔ آپ جانتے ہیں کے آپ کے پاکستان میں کسی سوالی کے سوال پر اس کا مذہب پوچھ کر مدد نہیں کی جاتی۔ آپ جانتے ہیں کے ہر دوسرے سنی کا سب سے قریبی دوست کوئی شیعہ ہے اور کسی شیعہ کا حلقہ احباب اہل سنت بھائی کی موجودگی کے بغیر مکمل نہیں۔ آپ جانتے ہیں کے ہم سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور وقتی رنجشیں توخونی رشتوں میں بھی آ ہی جایا کرتی ہیں۔ ان کا مطلب دشمنی نہیں ہو سکتا!!! ہاں میں شرمندہ ہوں کے میں نے اپنا لیڈر وقتی طور پر ان لوگوں کو چن لیا تھا جن کی دکانیں ہی اس تفرقے سے چلتی ہیں مگر اللہ کے بعد میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کے میں کسی ایسی سازش کا شکار نہیں بنوں گا جو مجھے میرے بھائیوں سے دور کرے۔
قائد! مجھے تکلیف ضرور ہوتی ہے جب ایک اور سیاستدان اس ملک کی بوٹی نوچتا ہے مگر میں شرمندہ نہیں ہوں۔ میں کیونکر شرمندہ ہو سکتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کے میرے ملک کے لوگ اب ان کی اصلیت پہچاننے لگے ہیں۔ قائد آپ نے دیکھا کہ نتیجہ سے قطع نظر یہ لوگ اب صرف گھر میں بیٹھ کر بات کرنے کے بجائے باہر آکر اپنا ووٹ درج کراتے ہیں۔ اندھی تقلید جو کبھی اس قوم کے مزاج ایک حصہ تھی اب دم توڑتی جا رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ عملی انسان تھے اور شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں رکھتے تھے مگر پھر یہ آپ کے دوست جناب علامہ ہی تو کہہ گئے ہیں کہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی" ۔۔۔ میں معذرت خواہ ہوں قائد کے مٹی کو نرم ہونے میں تھوڑی دیر لگی مگر قائد، یقین رکھیئے کے مٹی اب نرم ہونا شروع ہو گئی ہے۔
قائد! مجھے افسوس ضرور ہے کے جس فلاحی ریاست کے قیام کے لیئے آپ نے دن رات اور صحت کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذندگی لگا دی وہ سرکاری سطح پر قائم نہ ہو سکی۔ برا لگتا ہے جب سرمایہ دار اور وڈیرہ شاہی اکثریت کو اس ملک کے جمہور غریب عوام پر حکومت کرتا بلکہ شاید روندتا ہوا دیکھتا ہوں۔ مگر قائد مجھے یقین ہے کے آپ جانتے ہیں کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود یہ پاکستانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ چیرٹی کرنے والی قوم ہے۔ میرا سینہ فخر سے خودبخود پھول جاتا ہے جب میں ایدھی صاحب، ادیب رضوی، رمضان چھیپا اور ان جیسے بےشمار لوگوں کو بلاتفریق عام انسان کی خدمت کرتے دیکھتا ہوں۔ فلاحی حکومت کا معلوم نہیں مگر فلاحی معاشرہ بننے کے لیئے درکار تمام جزو اس قوم میں موجود ہیں۔
!پیارے قائد! میں شرمندہ تو ہوں مگر نا امید نہیں
اس امید کے ساتھ اجازت کے اگلے سال میں معذرت کے بجائے کسی خوشخبری کے ساتھ حاظر ہوں۔
آپ کا تابعدار
ایک پرعزم پاکستانی