اتوار، 21 ستمبر، 2014

بنیادی سائنس - جدید

نوٹ: اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ میں پیدا ہونے والی کسی تبدیلی کا ادارہ زمہ دار نہیں ہوگا۔


پیارے بچوں! آرٹس کی چھوٹی بہن کو سائنس کہتے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ ترتیب الٹی ہے اور دنیا بھر میں سائنس کو بڑی بہن مانا جاتا ہے مگر چونکہ آرٹ میں ایک آرٹسٹک رومان جھلکتا ہے اور یہ کام اکثر گھر بیٹھے بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں آرٹ کو ہمیشہ زیادہ عزت دی جاتی ہے اور بڑی بہن سمجھا جاتا ہے۔ الحمدللہ اس ہی لیئے ہمارے معاشرے میں فنکار ایک تعریف جبکہ سائنس دان ایک قسم کا طنزیہ لفظ سمجھا جاتا ہے۔


جہاں تک سائنس کی تعریف کا تعلق ہے تو اول تو سائنس کی تعریف ہم صرف وہاں تک کرسکتے ہیں جہاں تک مسلم سائنسدانوں کے نام آتے ہیں۔ اور ماضی قریب و بعید میں چونکہ ایسا کوئی سانحہ ہوا نہیں ہے جس میں مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر سائنسی کارنامہ سر انجام دیا ہولہٰذا ہم اس مضمون میں سائنس کی تعریف سے اجتناب ہی کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے پہلے مسلمان سائنسدان کے مرنے کے کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام مسلمان نہیں بلکہ قادیانی تھے، لہٰذا مسلمانانِ پاکستان نے دینی غیرت کے تحت ان کی قبر کے کتبے سے لفظ مسلمان حذف کردیا ہے اور اب ان کا ذکر کرنا حرام اور کرنے والا ــــــــــــــــــــــــــ ہے٭۔  ایک اور اہم وضاحت اس باب میں یہ بھی ضروری ہے کہ حالیہ تاریخ میں ولید بن یوسف نامی عظیم مسلمان سائنس دان نے ستمبر گیارہ کو امریکہ کے مقام پر ایک ایسے کیمیکل کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا تھا جس سے کنکریٹ کے پہاڑ اور فولاد کے ڈھیر سے بنی عمارت تو پگھل گئی مگر اس کیمیکل کے زیرِ اثر معمولی پلاسٹک سے بنے ان کے چاروں کریڈٹ کارڈ نہیں جلے اور دنیا کو پتہ چل سکا کہ ستمبر گیارہ کے حملے کس نے کروائے۔ چونکہ ابھی تک دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ سائنس تھی یا آرٹ سو فی الحال ہم ولید بن یوسف کو یہیں چھوڑ کرآگے بڑھتے ہیں۔
٭ خالی جگہ پر کریں۔


سائنس کے بارے میں آپ کے سمجھنے کیلئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہزار کوشش کے باوجود کسی بھی طرح  آرٹ نہ بن سکے، ہم اسے سائنس کا نام دے دیتے ہیں۔ نیز ہر وہ چیز جس کو آپ سمجھ نہ پائیں آپ اسے بھی سائنس قرار دیکر شرمندگی سے بچ سکتے ہیں کہ جیسے ہی آپ کسی چیز کو سائنس قرار دے دیتے ہیں، مخاطب کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر آپ اس بات کو سمجھ نہیں پائے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں کہ یہ بات، محض ایک بات نہیں بلکہ سائنس ہے۔ ایسے مواقع پر آپ "بڑی سائنس ہے بھائی" قسم کے کلمات کہہ کر نہ صرف صاف بچ سکتے ہیں بلکہ سامنے والے شخص کے انا کے غبارے میں بھی مناسب مقدار میں ہوا بھر سکتے ہیں جو آگے چل کر آپ کے ہی کام آئے گی۔


پیارے بچوں! سائنس ہماری زندگی کا ایک بہت اہم جزو اور سیکھنے کیلئے بہت اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر تمام اہم موضوعات کی طرح ہم نے اس پر کبھی کام نہیں کیا اور یہی بات سائنس کی اہمیت کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے نے آرٹ کو تو فن اور کلا اور خدا جانے کیا کیا نام دے دیئے مگر سائنس کی اہمیت اور حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ صرف سائنس ہی کہا، سنا، اور لکھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے سائنس کو کوئی اردوانہ نام دے دیا تو یہ سائنس کا استحصال اور انگریزوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ جس طرح امریکہ و برطانیہ میں ٹیکسی چلانا صرف پاکستانی و ہندوستانی ڈاکٹروں اور انجینیئرز کا کام ہے اور کوئی فرنگی ہمارے اس کام میں مداخلت نہیں کرتا تو اس ہی طرح انسانیت اور احسان مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم بھی سائنس والے ان کے کاموں میں دخل نہ دیں۔ یہ بات مگر اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات ہر انسان کا حق ہے اور کہنے کو ہی سہی مگر چونکہ سائنس آپ کے نصاب کا حصہ ہے لہٰذا ہم آج آپ کو چند بینادی سائنسی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جو زندگی میں آپ کے کام آسکیں۔


سائنس کا اصل مقصد مادہ اور اس کے خواص پر ہونے والی تحقیق ہے۔ مادے کی دو بڑی اقسام ہیں جن کی اپنی مزید شاخیں ہیں۔ مادے کی یہ دو بڑی اقسام سادہ مادہ اور نر مادہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سادے مادے پر انسان بہت کچھ دریافت کر چکہ ہے مگر نر کی مادہ ہنوز تحقیق طلب ہے۔ ان دونوں مادوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سادہ مادہ اپنا مخصوص رویہ رکھتا ہے اور کسی مخصوص حالت میں اس کا ردعمل پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ نر کی مادہ البتہ اپنی فطرت اور رویوں دونوں میں آزاد ہے اور ایک جیسی صورتحال میں ہر بار الگ طریقے سے پیش آنے کے فن میں ماہر ہے۔ دونوں مادوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ پہلے مادے سے مل کر تصویر کائنات بنی ہے جبکہ نر کی مادہ اس تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے کے کام آتی ہے۔ محاورے کی زبان میں جب کسی کو مادہ پرست انسان کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی دوسری والی مادہ ہوتی ہے۔ نر کی مادہ کی سمجھ چونکہ آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی تو آپ کے بھی سمجھنے کے آثار کچھ ایسے روشن نہیں ہیں، لہٰذا آج ہم صرف کائنات کے مادے کے بارے میں بات کریں گے۔


جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ یہ کائنات مادے سے مل کر بنی ہے۔ جبکہ یہ مادہ خود لاکھوں کڑوڑوں ایٹم سے مل کر بنتا اور محض ایک ایٹم بم سے تباہ ہوجاتا ہے۔ ایٹم کے اپنے بھی چار جزو ہوتے ہیں جنہیں الیکٹرون، پروٹون، نیوٹرون اور مورونز کہا جاتا ہے۔ مورونز نامی حصہ سب سے طاقت ور ہوتا ہے اور طاقت کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی بھی چیز میں طاقتور کا نام لینا فعل قبیح اور ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس ہی اصول کے تحت حکومت گرنے کی ذمہ داری ہمیشہ فوج کے بجائے سیاستدانوں پر آتی ہے۔ اگر آپ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہوں تو مطالعہ پاکستان کی کتاب یا آج کا اخبار ملاحظہ کرلیں۔


مغربی ممالک میں سائنس کا دوسرا نام تحقیق بھی ہے۔ پیارے بچوں! تحقیق اپنے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اور چیزوں کی اصل سمجھنے کی ایک جان لیوا بیماری ساتھ لاتی ہے لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم  اس تحقیق نامی بلا سے دور رہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریاں بلاوجہ بدنام ہیں ورنہ امت مسلمہ کو جتنا نقصان اس تحقیق نے پہنچایا ہے وہ آج تک تمام بیماریاں مل کر بھی نہیں پہنچا سکیں۔ نہ یہ مردود کفار تحقیق کی بیماری کا شکار ہوتے نہ یہ سائنسی ایجادات ہوتیں اور نہ ہم مسلمان آج دنیا بھر میں محکوم ہوتے۔ امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کفار سے لڑنے کیلئے بھی ہم ان ہی کفار کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی اور ان ہی کے بنائے ہوئے اسلحے کے محتاج ہیں۔ تصور تو کیجیئے، آپ کے محلے کے مشہور مولوی اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں اس طرح جارہے ہوں کہ پیچھے بیٹھے تمام مریدوں کے ہاتھ میں میخائل کلاشنکوف کی بندوق کے بجائے ہاتھ میں غلیل ہو اور اس غلیل کا ربڑ کھنچائو دیکھ کر مسلمان متعین کریں کہ حالات خراب ہیں یا صحیح؟ اور اگر تصور مزید اجازت دے تو ڈبل کیبن ہٹا کر وہاں ایک گھوڑا کھڑا کردیجئے اور محظوظ ہوئیے۔ یہ تو خیر مذاق کی بات تھی ورنہ مجھے زندگی سے بہت پیار ہے اور میں کسی بھی مسلک کے مولوی سے اس کا ڈبل کیبن گاڑی رکھنے کا حق چھیننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ آپ سے ایسے احمقانہ خیالات کی امید کرتا ہوں۔ اس بارے میں کبھی سوچ آ بھی جائے تو لعنت ان کفار پر ہی بھیجیئے گا جنہوں نے اسلحہ سازی پر اتنی تحقیق کی اور آج ان ہی کی وجہ سے مسلمان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں ورنہ چاقو خنجر کے زمانے کے بارہ سو سال میں حرام ہے کہ کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کا خون بہایا ہو۔


پیارے بچوں!  شاید اللہ تعالٰی کو خود بھی منظور نہیں کہ ہم فتنے میں گرفتار ہوں اس لیئے کفار کی حرکات سے تنگ آکر اگر کبھی ہم مسلمانوں نے اس تحقیق کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا بھی تو ہمیں عبرت دلانے کیلئے ایسی عجیب خرافات کا شکار کردیا گیا جن کا علاج رہتی دنیا تک ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست جناب عاطف علی المعروف زبان دراز کو بھی پچھلے سال یہ تحقیق نامی بیماری ہوئی تھی اور تب سے وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ہندو، عیسائی، سکھ، شیعہ، سنی اور احمدی سب کے خون کا رنگ ایک ہی جیسا ہوتا ہے اور اس خون کے بہنے پر سب کے گھر والوں کو ایک ہی جتنی تکلیف ہوتی ہے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی اور مہاجر خون بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور محض علاقائیت و لسانیت کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ لاحول ولا قوۃ!!!
تحقیق کے بارے میں یہ بیان بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ہی زیادہ تر مشہور مسلمان اپنے وقتوں میں دہریے کہلائے اور زیادہ تر غیر مسلم سائنس دان اس ہی تحقیق کے ذریعے خدا سے قریب ہوگئے۔ مسلمان سائنس دانوں کے مذہب سے لاتعلق رہنے کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کے مسالک نے ان کو کبھی اپنایا نہیں اور آج ہمارے پاس شیعہ سائنسدان اور سنی سائنس دان کی تفریق نہیں ہے اور وہ بیچارے آج بھی معاشرے کے اس محروم طبقے میں موجود ہیں جومحض مسلمان ہی کہلاتے ہیں اور شیعہ، سنی جیسے قابل فخر اور باعثِ نجات القابات سے محروم ہیں۔ خدا ان بیچاروں کے حال پر رحم کرے۔


پیارے بچوں!  بنیادی سائنس کے سلسلے میں ہم نے تمام ضروری گزارشات عرض کردیں ہیں۔ اگر آپ اب بھی مزید تشنگی محسوس کریں تو ابنِ انشاء صاحب کی اردو کی آخری کتاب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اور اگر اس کتاب کے بارے میں نہیں جانتے تو مزید معلومات کیلئے اپنے والدین سے رجوع کریں۔ اگر شومئی قسمت انہوں نے بھی اس کتاب کے بارے میں نہیں سنا تو سب کام چھوڑ کر پہلے ان کے علاج کیلئے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ہمیں اجازت دیں کہ اب آپ کیلئے بیسک اردو کی کتاب بھی لکھنی ہے۔


ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

تاریخِ پاکستان - جدید

پیارے بچوں!  پاکستان کی بنیاد تو اس ہی دن پڑ گئی تھی جس دن برصغیر میں کسی مسلمان نے پہلا قدم رکھا تھا۔ یہ بات محض افواہ ہے کہ وہ پہلے مسلمان جو اس زمین پر پہنچے وہ اموی سلطنت کے مظالم سے تنگ آکر یہاں پناہ لینے پہنچے تھے۔ یہ سب پڑوسی ملک کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں اور چونکہ مورخین بھی ذیادہ تر ہندو رہے ہیں اس لیئے وہ باآسانی ان افواہوں کا شکار ہوگئے اور یہ سب افواہیں حقیقت سمجھ کر تاریخ کی کتب میں رقم کردیں۔ خدا ان کے حال پر رحم کرے۔


آپ ان افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے سرکاری نصاب میں لکھی ہوئی بات پر یقین رکھیئے جس کے مطابق سندھ کے راجہ داہر نے چند مسلمانوں کو پکڑ کر قید کر لیا تھا جس پر امت مسلمہ کی غیرت جاگ اٹھی اور حضرت حجاج بن یوسف جو اپنی رحم دلی اور امت مسلمہ کے ساتھ نرم سلوک کیلئے مشہور تھے انہوں نے حضرت محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک لشکر بھیجا جس نے سندھ کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اسلام کا بول بالا کردیا۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اس زمانے کے تمام مورخ کینہ پرور ہندو تھے لہٰذا انہوں نے راجہ داہر کی بیٹیوں کو خلیفہ کی خدمت میں بطور تحفہ بھجوانے کا ذکر تو کردیا مگر کہیں ان مسلمان قیدیوں کا ذکر نہیں کیا جن کو چھڑانے حضرت محمد بن قاسم یہاں آائے تھے۔ وہ بیچارے زندہ بچے یا مارے گئے؟ اس بارے میں چونکہ تاریخ خاموش ہے لہٰذا آپ بھی خاموش رہیں۔ نیز وہ خزانہ لٹنے اور ہزارہا عورتوں کی عزتیں پامال ہونے والی بات بھی سراسر بہتان ہے۔ اگر آپ کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو پاکستان ٹیلیویژن کا شہرہ آفاق ڈرامہ "لبیک" دیکھ لیں جس میں ایسا کچھ نہیں دکھایا گیا ہے۔ اور اگر اکا دکا واقعات ہوبھی گئے ہوں تو جنگ میں اتنا کچھ تو ہو ہی جاتا ہے۔ امریکی افواج نے عراق اور افغانستان میں جو کچھ کیا اس پر تو کبھی شور نہیں اٹھا؟ مسلمانوں کی دفعہ میں ہی سب کو اخلاقیات کا بھوت کیوں سوار ہوجاتا ہے؟


حضرت محمد بن قاسم کی سندھ میں شاندار کامیابیوں اور اسلام پھیلانے جیسی گرانقدر خدمات کے باوجود ان ہندو خواتین کی شکایت پر خلیفۃالمسلمین حضرت سلیمان بن عبدلملک نے انہیں ایک جانور کی کھال میں سلوا کر واپس دمشق بلوالیا۔ وہ کھال اپنی فطرت سے مجبور ہوکر گرمی پاکر سکڑتی رہی اور دمشق پہنچنے تک محمد بن قاسم جس پنچرے میں ڈال کر سندھ سے لےجائے گئے تھے، اس میں سے صرف زنجیریں اور بھوسے کا ڈھیر نکلا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ خود سمجھ جائیں کہ زندگی کے کسی موڑ پر اگر تاریخ کی کسی کتاب میں یہ واقعہ پڑھنے کو ملے تو آپ گھبرائیں نہیں اور آپ کو یاد رہے کہ یہ افواہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں۔ دوسری اور اہم نصیحت یہ ہے کہ اس واقعے سے ہندوئوں کا ہمارے ہیروز کےخلاف بغض سمجھیں اور حسب توفیق چچ نامہ لکھنے والے قاضی اسماعیل پر چار حروف بھیج کر آگے بڑھ جائیں کہ اگر یہ بات سچ بھی تھی تو مسلمان تو مسلمان کا پردہ رکھتا ہے؟ یہ کون سے مسلمان تھے جنہوں نے اتنے عظیم جھوٹ کو اتنے دھڑلے کے ساتھ چچ نامہ میں جگہ دے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مکروہ سازش کی؟


پیارے بچوں! ہمیشہ یاد رکھیئے گا کہ آپ کا یہ ملک اور آپ کا یہ دین، ہمیشہ سے ہی کفار کی سازشوں کے نشانے پر رہا ہے۔ جب روائتی طریقوں سے کام نہ چل سکا اور مسلمانوں کا جذبہ ایمانی اس ہی طرح قائم رہا تو کفار نے ایک سازش کے طور پر ہمارے پاک وطن اور پڑوسی ناپاک وطن جو کبھی ہمارے اجداد کی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا، میں مزارات کا ایک جال بچھا دیا اور اپنے کارندوں اور کمزور عقیدہ لوگوں کا ایک ہجوم ان مزارات پر جمع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ برصغیر میں اسلام دراصل ان مزرات میں مدفون بزرگانِ دین کی وجہ سے پھیلا ہے جنہوں نے اپنے کردار سے دنیا کو دکھایا کہ اسلام انسانیت کی بقاء کا ضامن اور سلامتی کا دین ہے۔ اس مذہب میں خلیفہ وقت اور ایک عام آدمی برابر ہوتے ہیں اور ذات، پات، رنگ، نسل کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اور ان ہی افراد کے کردار سے متاثر ہوکر لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے چلے گئے تھے۔


پیارے بچوں! یہ بات آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ یہ سب محض مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کی سازش ہے ورنہ دنیا میں کون سا ایسا کام ہے جو طاقت کے زور پر نہ ہوسکتا ہو اور محبت سے ہوجائے؟ یہ سازش دراصل موہن داس کرم چند گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو پھیلانے کیلئے ان بزرگوں سے منسوب کی گئی ہیں ورنہ حضرت نظام الدین اپنے وقت کے بہترین تیر انداز اور محمد علی ہجویری ایک ماہر تلوار باز تھے۔ لعل شہباز کے نام سے مشہور جناب عثمان صاحب نے تو کئی جنگیں جیتی تھیں اور عبداللہ شاہ غازی نے تو ویسے ہی اپنے نیزے سے کراچی کے مقام پر سمندر کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔


تاریخِ پاکستان کے موضوع پر واپس آتے ہوئے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ برصغیر کے مسلمان وقت کے ساتھ جہاد جیسی عظیم چیز کو بھلا بیٹھے تھے اور اس ہی لیئے ہندو ایک بار پھر ان پر مسلط ہوگئے۔ مسلمان محکومی کی اس زندگی سے تنگ تھے مگر اں کی دن رات کی عبادت مقبول ہوئی اور خدا نے اس زمین پر حضرت محمود غزنوی جیسا فرشتہ بھیج دیا۔ محمود غزنوی کو اسلام پھیلانے کا بہت شوق تھا۔ آپ کو جب کبھی اس بات کا علم ہوتا کہ کسی علاقے میں ہندوئوں نے مال جمع کرلیا ہے اور اسے ملت اسلامیہ کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو آپ فورا غزنی سے آکر اس مال اسباب کو اپنے ساتھ لےجاتے تاکہ یہ مال مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کیلئے استعمال ہو۔ آپ نے ہندوستان میں سترہ مرتبہ اسلام پھیلایا۔ اگر کوئی ملک دشمن آپ سے یہ سوال کربیٹھے کہ اگر اسلام ہی پھیلانا تھا تو ایک دفعہ میں ہی رک کر اسلام پھیلاتے یا یہاں اپنا گورنر لگا جاتے جو آپ کی غیر موجودگی میں اسلام کی ترویج پر عمل کرتا؟ تو اس کی باتوں پر چنداں کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا یہ سوال ہی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ وہ کس حد تک ہندوئوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہے۔ ایسے بندے سے بحث کرنا فضول ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کی شناخت سوشل میڈیا پر ڈال دی جائے تاکہ وقت کے محمود غزنوی اس کے گھر جاکر اسلام پھیلا سکیں۔


محمود غزنوی صاحب کے بعد بھی اللہ تعالٰی نے اس سر زمین پر اپنا خاص کرم رکھا اور ایک کے بعد ایک مسلم خاندان یہاں حکمرانی کرتا رہا۔ ہندو اس زمانے میں بھی حکومت چلانے سے زیادہ حکومت کو کھانے میں راحت محسوس کرتے تھے اور اس ہی لیئے حکومت کو زیادہ تر اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا جو ان کی جگہ خود کفار پر حکومت کرنے کا ثواب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پڑوسی ملک کی فلموں سے متاثرہ لوگ  اسے اکثر محض حکومت کی ہوس، اور مسلمانوں کی باہمی چپقلش سے تعبیر  کرتے ہیں مگر انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ دونوں طرف مسلمانوں کے شیر بچے تھے۔ اب شیر کے بچے آپس میں پنچے نہ چلائیں تو کیا کتے بلیوں کی طرح ایک دوسرے کے منہ چاٹیں؟ اور ویسے بھی حکیم امت کے بقول یہ جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا محض خون گرم رکھنے کا بہانہ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ کل کے لونڈے علامہ اقبال سے تو زیادہ نہیں جانتے ہوں گے نا؟


اس باہمی چپقلش کا اختتام بالآخر خاندانی حکمرانی کے سلسلے پر ہوا۔ برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم خاندانوں میں سب سے مشہور مغل خاندان تھا۔ آج بھی بہت سارے وہ لوگ جو خود مچھر تک نہیں مار سکتے، مغلوں کی بہادری اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے اپنے نام کے ساتھ مرزا اور بیگ وغیرہ لگا لیتے ہیں کہ عزت کا بھرم رہ جائے اور شہزادے سمجھے جائیں۔


مغل شہنشاہوں میں سب سے مشہور اکبر تھا۔ اکبر کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ پہلے خان آصف کی فلم "مغل اعظم" اور انارکلی تھی مگر حالیہ کچھ عرصے میں اکبر اعظم کہلانے والا یہ عظیم فرمانروا اب جودھا اکبر کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اکبر نے ایک شاندار تخلیقی ذہن پایا تھا اور جدت کو پسند کرتا تھا۔ اس کی اس کمزوری کو بیربل نامی ذات کے تیلی اور مذہب کے ہندو نے بھانپ لیا اور اسے غلط راستوں پر لگا لیا۔ بیربل کی ان حرکتوں کا جواب اللہ محشر میں اس سے لیں گے مگر  دنیا مین انتقام لینے کیلئے ہم نے مملکت اسلامی میں بیربل اور ملا دوپیازہ کی کہانیاں مشہور کرادی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اختتام پر بیربل ہی ذلیل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے دشمن اس ہی انجام کے لائق ہیں۔


اکبر اعظم کے بعد جہانگیر عرف شیخو المعروف انار کلی والی سرکار نے مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ ویسے تو آپ بچپن سے ہی ولی عہد تھے اور اکبر کے انتقال پرملال کے بعد آپ نے ہی حکومت کرنی تھی مگر جب جہانگیر کو یہ پتہ چلا کہ اکبر اعظم نے اسے دھوکہ دیکر انارکلی کو دیوار میں چننے کے بجائے اس سے شادی کرلی ہے اور اسے لاہور میں مال روڈ کے قریب ایک گھر لیکر دے دیا ہے تو جہانگیر کو فطری طور پر غصہ آگیا۔ اس غصے اور انارکلی کی بےوفائی پر اٹھنے والے جذبات کو بعض حاسدین نے بغاوت کا بھی نام دیا مگر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی محبت کی ہی نہ ہو۔ اپنی ہی محبوبہ کو والدہ کے روپ میں دیکھنے کا کرب کوئی حضرت جہانگیر سے پوچھے جنہوں نے آگے چل کر تزک جہانگیری لکھنی اور مورخ کو کوڑے مار مار کر عدلِ جہانگیری مشہور کروانا تھا۔


جہانگیر کے مرنے کے بعد شاہجہاں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ شاہ جہاں پیشے کے حساب سے سول انجینئر تھا اور اسے عمارات بنانے کا بہت شوق تھا۔ شاہجہاں ایک اچھا معمار ہونے کے علاوہ مستقبل پر گہری نظر رکھنے والا انسان تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک زمانے میں سیاحت عروج پکڑے گی اور اگر اس نے بھی عمارات تعمیر نہیں کیں تو آنے والے وقتوں میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جس پر ٹکٹ لگا کر پیسے کمائے جاسکیں۔ اس خیال کے آتے ہی شاہجہاں نے ملک بھر میں عمارات کا ایک جال بچھا دیا۔ مغلیہ سلطنت میں ہندوئوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اس نے کئی مندر تعمیر کروائے جو بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے برباد کردیئے تاکہ شاہجہاں پر  رعایا کا خیال رکھنے والے حکمران کے بجائے صرف مسلمانوں کا خیال رکھنے والا حکمران کا الزام لگایا جاسکے۔ پیارے بچوں! زرا خود سوچو کہ جس رحم دل حکمران نے اپنے ہرن کے مرنے پر شیخوپورہ میں ہرن مینار کھڑا کردیا ہو اس نے اپنی اکثریت میں موجود رعایا کیلئے کوئی ایک مندر نہیں بنوایا ہوگا؟ اور اگر نہ بھی بنوایا ہو تو اس میں کوئی ایسا عیب نہیں۔ ہر حکمران اپنے ہی دین کو اپنی حکومت میں پروان چڑھاتا ہے ناکہ مخالف کے دین کو۔ اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ پھر ہمیں چین میں روزہ رکھنے پر پابندی پر بھی نہیں کڑھنا چاہیئے تو یہ جان رکھیئے گا کہ وہ طاغوت کا ایجنٹ اور ہمالہ سے اونچی اور بحر ہند سے گہری پاک چین دوستی خراب کرنا چاہتا ہے۔ ایسے انسان سے بحث تو کیا، سلام دعا بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ شاہجہاں کے بارے میں اگر لکھا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر آپ تھوڑے کو غنیمت جانیں۔ شاہجہاں کے بارے میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ وہ ایک نہایت رحم دل، محبت کرنے والا انسان اور ایک سچا مسلمان تھا۔ اس کے دل میں رعایا کا بےحد درد تھا۔ بعض روایات میں تو یہ بھی آتا ہے کہ اس کی موت بھی ہارٹ اٹیک سے ہی ہوئی تھی۔ رعایا کیلئے اس کے درد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک مرتبہ اس کی نظر ممتاز محل نامی ایک عورت پر پڑی جس کا شوہر اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھتا تھا۔ رعایا کی محبت میں شاہجہاں نے اس عورت کے خاوند کی گردن اڑوادی۔ وہ بیچاری عورت اب آٹھ بچوں کے ساتھ بیوگی کا پہاڑ کیسے کاٹتی؟ شاہجہاں سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں گئی لہٰذا صرف انسانی ہمدردی کے تحت اس نے ممتاز محل سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد شاہجہاں نے اس عورت کو دنیا کی ہر خوشی دی اور اسے کبھی خالی پیٹ نہیں رکھا۔ مورخین کے مطابق شادی کے نو سال میں ان دونوں کے دس مزید بچے پیدا ہوچکے تھے۔ مذکورہ بالا جملے کے بعد شاہجہاں کا ممتاز محل کیلئے بےتحاشہ پیار کسی اور وضاحت کا محتاج نہیں۔ اٹھارہ بچوں کی فوج کھڑی کرنے کے بعد بھی شاہجہاں نے اپنے بیوی کو خالی پیٹ نہ رکھنے کے وعدے کی لاج رکھی جس سے اس کے راسخ العقیدہ مسلمان اور زبان کا پکا انسان ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ممتاز محل مگر اس مرتبہ پیٹ کی کچی نکلیں اور انیسویں بچے کی دفعہ میں مرگئیں۔ شاہجہاں نے ان کے مرنے کے بعد تاج محل بنوایا جو بٹوارے کے وقت جلدی جلدی سامان سمیٹنے کے چکر میں ہندوستان میں ہی رہ گیا۔ اللہ زید حامد کو زندگی دے، کل پرسوں تک انشاءاللہ ہم تاج محل واپس پاکستان لے آئیں گے۔ تاج محل بنانے کے بعد بھی ممتاز  کیلئیے شاہجہاں کی محبت کم نہیں ہوئی تھی لہٰذا صرف اس بیوی کی یاد میں انہوں نے ممتاز کی چھوٹی بہن سے شادی کرلی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس مرتبہ شادی کرنے کیلئے شاہجہاں کو اس کے میاں کو کسی دور کے محاذ جنگ پر نہیں بھیجنا پڑا ہوگا۔


شاہجہاں کے بعد عنان اقتدار حضرت اورنگزیب کے پاس آگئی۔ اورنگزیب عالمگیر اپنے وقت میں ریڈ بل کے برانڈ ایمبیسیڈر تھے اور کسی نیک کام میں تاخیر کے قائل نہیں تھے۔ جب تیس سال گزرنے کے بعد بھی شاہجہاں کی حکومت ختم نہیں ہوئی تو آپ نے بوریت سے تنگ آکر اپنے والد ماجد کو ایک کوٹھڑی میں اللہ اللہ کرنے کیلئے بھیج دیا اور ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں خود اقتدار سنبھال لیا۔ آپ نہایت متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ آپ نے زندگی میں نہ کبھی کوئی نماز چھوڑی نہ اپنے کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔ نمازیں پھر بھی پانچ تھیں جبکہ بھائی سترہ تھے۔ مگر جیسے ہم نے پہلے عرض کیا کہ شیر کے بچے اگر پنچے نہیں ماریں گے تو ۔۔۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اورنگزیب ایک نہایت متقی انسان تھے۔ سلطنت سے ہونے والی تمام آمدنی آپ "مغل ویلفیئر ٹرسٹ" میں جمع کرادیتے تھے اور خود ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ بعض بد بختوں نے اس تاریخی جملے میں سے لفظ "سی" کو" دے" سے تبدیل کرکے، ٹوپیاں دے کر گزارہ کرتے تھے، کردیا ہے مگر ہم کتنی دفعہ عرض کریں کہ یہ سب محض ایک پروپیگنڈہ اور سوچی سمجھی سازش ہے؟ اورنگزیب جیسا فرشتہ صفت بادشاہ برصغیر میں نہ آیا نہ کبھی آئے گا۔ آپ کے طرزِ حکومت کے قریب اگر کوئی کبھی پہنچ سکا تو وہ صرف جنت مکانی ضیاء الحق صاحب تھے جن کا بیان آپ مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ملاحظہ کریں گے۔ امت مسلمہ پر آپ کے احسانات کو یاد کرکے، اور آپکے دور میں شروع ہونے والی نیکیوں کی برکت سے آج بھی روزانہ کسی نہ کسی ماں کی آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان ہر سال ماہِ محرم میں اٹھنے والے فساد کی ابتداء آپ ہی کے مبارک دور میں ہوئی تھی۔


پچاس سال حکومت کرنے کے بعد جب اورنگزیب عالمگیر دنیا سے رخصت ہوئے تو اتحاد بین المسلمین عروج پر تھا۔ شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی سب مل جل کر رہتے تھے۔ مورخین البتہ اس زمانے میں بھنگ کے عادی ہوگئی تھے اور نشے میں الٹی سیدھی باتیں لکھ جایا کرتے تھے۔ اس بھنگ کے نشے ہی کی وجہ سے آپ دربار میں مسلکی بنیادوں پر چپقلش، کاروبارِ ریاست سے بے تعلقی، راگ رنگ کی محافل جیسی چیزوں کے بارے میں سنتے ہیں۔ نیز محمد علی شاہ رنگیلا نامی کردار بھی اس ہی بھنگ کے نشے کی پیداوار ہے ورنہ مسلمان ہمیشہ سے ہی راگ رنگ اور خواتین کے چکروں سے دور رہے ہیں۔ اور یہ تو پھر مغل بچے تھے، جو پیدا ہی تلواروں کے سائے میں ہوتے تھے۔ ان سے اس قسم کی لغو باتیں منسوب کرنا محض کمینگی اور مسلمانوں سے بغض ہے۔ آئندہ آپ سے کوئی پوچھے کہ پھر انگریزوں کی حکومت کیونکر آئی تو انہیں بتا دیجیئے گا کہ مسلمان کی پہچان اس کی سخاوت سے ہے۔ ویسے بھی مغل اب اتنے عرصے حکومت کرکے تھک چکے تھے اور اب گوشہ نشینی کی زندگی چاہتے تھے لہٰذا جیسے ہی انہیں کوئی حکومت کرنے کا اہل طبقہ دکھا، انہوں نے تخت و تاج ترک کے ویرانوں کی راہ لی اور باقی عمر اللہ اللہ کرتے گزار دی۔


مغلوں کے جانے اور انگریز کے آنے کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ جدید مطالعہ پاکستان میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

منگل، 16 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 17

پیاری ڈائری!


طویل غیر حاضری کیلئے معذرت! جی تو بہت کرتا تھا کہ لکھنے بیٹھوں اور تمہیں اپنی روداد سنائوں مگر کیا کرتا کہ مصروفیات نے ایسا گھیرا رکھا تھا کہ بلا مبالغہ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ یہ مصروفیت بھی کوئی معمولی مصروفیت نہیں تھی۔ دراصل ہوا یہ کہ میں طویل بیروزگاری سے تنگ آچکا تھا اور لکھنے کی عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا ساری توجہ کام کی تلاش پر مبذول کرکے قلم طاق پر رکھ دیا تھا اور نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔


عرصے کے بعد نوکری ڈھونڈنے نکلا تو احساس ہوا کہ نوکری ڈھونڈنا، آج کل کے معاشرے میں شریف انسان ڈھونڈنے کے بعد سب سے مشکل کام ہے۔ جہاں کہیں بھی گیا، سب لوگوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کسی ایسے انسان کو وہ اپنے ادارے میں جگہ نہیں دے سکتے جس کا دماغ اور زبان ایک ساتھ چلتی ہو۔ خود سوچو، زبان دراز اگر زبان بند رکھنا سیکھ جائے تو زبان دراز کس بات کا؟ اور جہاں تک دماغ نہ چلانے کا تعلق ہے تو مطالعہ نامی بیماری کے بعد سے یہ مردود دماغ ہر چیز میں خودبخود چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیچارہ زبان دراز جاتا تو کہاں جاتا؟


دوست احباب کو جب پریشانی کا علم ہوا تو اسد بھائی نے مشورہ دیا کہ مرغی کے کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ آنکھیں بند کرکے یہ کام شروع کردو کہ سرمایہ بھی کم ہے اور مرغی کے گوشت کا تو ناغہ بھی نہیں ہوتا۔ دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہوں نے کسی جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں کہیں پڑھ رکھا ہے کہ مرغی سب سے بے ضرر مخلوق ہے۔ دڑبے میں ہاتھ ڈال کر مرغی کو ذبح کرنے کیلئے نکالو بھی تو باقی مرغیاں، توتے کی طرح کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی باری آجائے اور ہم بچ جائیں۔ دن میں جتنی مرتبہ ضرورت پڑے، پنجرے میں ہاتھ ڈالو اور ایک مرغی کو دبوچ لو۔ یہ ایک ایک کرکے ساری ذبح ہوجائیں گی مگر پلٹ کر کچھ نہیں کہیں گی۔


میں نے بھی دل میں علامہ اقبال سے معذرت کرتے ہوئے سوچا کہ "یوں تو چھوٹی ہے ذات مرغی کی، دل کو لگتی ہے بات مرغی کی"۔ اور دوستوں سے سرمایہ لگا کر ایک مرغی کے گوشت کی دکان کھول لی۔ پچھلے تین دن اس ہی حوالے سے مصروفیت رہی۔ علی بھائی اور جاوید چوہدری صاحب دونوں صحیح کہتے تھے۔ کام کا بھی بےتحاشہ رش تھا اور منافع بھی چوکھا۔


دکان پر اکثر مجھے خیال آتا کہ ٹیلیویژن پر دن رات غربت کے رونے رونے والوں کو میں لاکر کھڑا کروں اور پوچھوں کے غربت کہاں ہے؟ جس ملک کی غربت کا رونا روتے ان کی زبان نہیں تھکتی وہاں لوگ اب بھی 100 فی صد منافع پر بکنے والی چیز تو خرید سکتے ہیں مگر اپنے نفس پر قابو کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ کیا اس ہی کا نام غربت ہے؟۔ میں کس منہ سے انہیں غریب کہوں جب ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے لینے والے ریستوران کا مالک مجھ سے روزانہ سینکڑوں مرغیاں خریدتا ہو؟ طلب اور رسد کا بنیادی قانون یہی بتاتا تھا کہ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کرنے والے بے تحاشہ لوگ موجود ہیں تبھی وہ مجھ سے اتنی مرغیاں خریدتا ہے۔ مگر خیر، جانتا ہوں کہ ڈائری اور مرغیاں غیر سیاسی ہوتی ہیں سو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ بلاوجہ کی نصیحت بھی ایک طرح کی زحمت ہی ہوتی ہے۔


یہ تو ہوا گزشتہ تین دن کا احوال۔ آج مگر ایک عجیب سا سانحہ ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے دکان جلدی بند کرکے آنا پڑا۔ جلدی گھر آیا اور وقت بھی میسر ہوگیا تو یہ ڈائری لکھنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج بھی روز کی طرح گاہک آرہے تھے، مرغیاں کٹ رہی تھیں، گوشت بک رہا تھااور ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔  جب جمال بھائی نے مجھے تین کلو مرغی تولنے کا کہا تو میں نے خوشی خوشی پنجرے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے بالکل برخلاف تھا۔ چونکہ ان مرغیوں نے کبھی کسی اخبار کا کالم نہیں پڑھا تھا اور نہ یہ اسد بھائی کو جانتی تھیں لہٰذا انہوں نے روز کے ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرے اوپر حملہ کردیا۔ ہاں پیاری ڈائری میں جھوٹ نہیں کہتا۔ ان ساری مرغیوں نے ایک بار اکٹھے ہوکر میرے ہتھ پر چونچوں کی بارش کردی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیا۔


پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھر میں نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے دوبارہ پنجرے کا دروازہ کھولا اور اپنے کاریگر کو مرغی پکڑنے کا کہا۔ مرغیوں نے نیا ہاتھ دیکھا تو پہلے تو کچھ نہ بولیں۔ مگر جیسے ہی اس غریب نے ایک مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی، تمام مرغیاں کڑکڑاتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ اس پر بھی حملہ آور ہوگئیں۔ میری دفعہ تو پھر بھی خیر رہی تھی، اس غریب کا تو انہوں نے ہاتھ ہی نوچ ڈالا۔


پیاری ڈائری! بھلا خود سوچو! ان مرغیوں کو دانہ دینے والا، میں! انہیں رہنے کیلئے جگہ دینے والا، میں! ان کا خیال رکھنے والا، میں! اور یہ میرے اوپر ہی پنجے جھاڑ کر پل پڑیں؟؟؟ کہاں کا انصاف اور کیسا قانون ہے یہ؟ صدیوں سے مروجہ قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ چپ کر کے ذبح ہوتی رہتیں! اور اگر اتنا ہی مسئلہ تھا تو اپنا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھجوا کر قانون میں تبدیلی کرواتیں؟ مگر خدا سمجھے ان قانون شکن مرغیوں کو!


حد تو تب ہوئی جب وہاں کھڑے ہوئے جمال بھائی نے اس سارے منظر کی ویڈیو بنائی اور مرغیوں کے ہاتھوں میری اس شامت پر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں نے جب مرغیوں پر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، میاں! ان مرغیوں کو ذبح کرکے جو پیسے کماتے ہو، اس میں سے چار پیسے اگر واپس ان مرغیوں پر خرچ کردیتے ہو تو کوئی احسان نہیں کردیتے۔ میں آج ہی جاکر اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈالوں گا کہ سب کو پتہ چل جائے اب اس ملک کی مرغیاں بیدار ہوگئی ہیں۔ بھلا بتائو، یہ بھی کوئی کرنے کی بات تھی؟ عجیب جانور نما انسان ہیں جمال بھائی!!!


وہ تو شکر ہے کہ شہرکو انٹرنیٹ مہیا کرنے والا میرا دوست ہے سو میں نے اس سے کہہ کر ایک کام اچھے وقتوں میں کروالیا تھا۔ اس وقت تو وہ بہت چیخا کہ بھائی یہ تو بے ضرر سی چیز ہے! اسے بند کرنے سے کیا فائدہ ہوجائے گا؟؟مگر آج اس عاقبت نا اندیش دوست کو بھی احساس ہورہا ہوگا کہ میں نے اچھے وقتوں میں ہی کتنا دوراندیش کام کیا تھا۔


پیاری ڈائری! خود سوچو، اگر ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوجاتی تو ہم انسانوں کی ان مرغیوں کے آگے کیا عزت رہ جاتی؟؟؟


والسلام


زبان دراز مرغی فروش

بدھ، 10 ستمبر، 2014

ہیجڑا

اس ہجوم میں پھنسے ہوئے مجھے اب بیس منٹ ہونے کو آرہے تھے مگرٹریفک تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آج دن ہی خراب تھا۔ میرے دفتر کے ساتھی عاطف صاحب جو خیر سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں کے گھپلوں میں ملوث ہیں آج ترقی پاکر مجھ سے اوپر آگئے ہیں۔ ہم دونوں  ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور جب ان کی ترقی ہورہی تھی تو ادارے کے ڈائریکٹر نے مجھ سے بھی ان کے بارے میں رائے مانگی تھی کہ گھپلوں کی کچھ اڑتی اڑتی شکایات اس تک بھی پہنچی تھیں۔ میرا دل تو کیا کہ میں سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اگر بات باہر نکلی تو بلاوجہ کی دشمنی ہوجائے گی اور کراچی جیسے شہر میں کسی کا کیا بھروسہ؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی شخص کو معمولی سمجھتے ہوں اور اس کے تعلقات کسی برائے نام کالعدم تنظیم سے ہوں؟ یا پھر وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو جو کل کو آپ سے مخاصمت پال لے؟ میں نے ڈائریکٹر صاحب کو کہہ دیا کہ میں نے عاطف صاحب میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عاطف صاحب نہ صرف اس انکوائری سے باعزت باہر آگئے بلکہ کمپنی نے مزید بزمدگی سے بچنے کیلئے زر تلافی کے طور پر ان کی ترقی وقت سے پہلے ہی کردی۔ آج ہی پتہ چلا ہے کہ اگلے مہینے کی یکم تاریخ سے اب وہ میرے بوس ہونگے۔
صبح صبح یہ خبر سن کر ویسے ہی دماغ کی بتی بجھ گئی تھی اوپر سے جھوٹے منہ عاطف صاحب کو مبارک باد اور ان کے ناکردہ کارناموں کی تعریف بھی کرنی پڑ گئی۔ جب تک لنچ کا ٹائم آتا تب تک میرا موڈ مکمل طور پر خراب ہوچکا تھا۔ لنچ کے دوران سلمان صاحب اور احمد بھائی کے درمیان کی وہی فرقہ وارانہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی کہ دونوں میں سے کس کا مسلک زیادہ مظلوم ہے اور کس نے اب تک زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایک شام میں ہونے والے مظالم پر گریہ کناں تھا تو دوسرے کو بحرین کے مسلمانوں کا غم کھائے جارہا تھا۔ دل تو کیا کہ پوچھ لوں کہ آیا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے آج فجر کی نماز پڑھی ہے؟ پھر مگر خیال آیا کہ یہ ان دونوں کی ذاتی بحث ہے اور ایسے مباحثوں میں پڑ کر سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملنا۔ اگر غلطی سے بھی سلمان صاحب کے حق میں بول دیا تو احمد صاحب ناراض ہوجاتے اور اگر احمد صاحب کی کسی بات کی تائید کردیتا تو سلمان صاحب سے تعلقات منقطع کرنے پڑجاتے۔ بہتری جان کر میں خاموش ہورہا ورنہ دل تو یہ بھی کر رہا تھا ان دونوں کو قرآن کی وہ آیت یاد دلائوں جس میں مالکِ کائنات تمام غیر مسلموں کو یہ پیشکش کررہا ہے کہ آئو ہم تم (کم سے کم) ان باتوں پر متفق ہوجائیں جو ہم میں تم میں یکساں ہیں۔ ایک طرف دین غیر مسلموں سے مشترک چیزیں ڈھونڈ کر ایک جگہ اکٹھا ہونے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دیندار ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ چیزیں جمع کرتے پھرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ ایک ہی مذہب کے دو مختلف مسالک نہیں بلکہ سراسر دو الگ ادیان ہیں۔ جتنی محنت ہم ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے میں کرتے ہیں اس کی آدھی محنت سے پوری دنیا مسلمان ہوسکتی تھی۔
بحث کے کثیف ماحول میں کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا گیا۔ واپس اپنی میز آگیا اور اس پریزنٹیشن پر کام کرنے لگا جو عاطف صاحب نے باس بننے کی پیشگی قسط کے طور پر میرے متھے مار دی تھی۔ تین گھنٹے کی عرق ریزی کے بعد جاکر وہ پریزنٹیشن تیار ہوہی گئی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ پاورجنریٹر کے زریعے بجلی بحال ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں فائل کو محفوظ کرنا بھول چکا ہوں اور کمپیوٹر مٰیں اب اس فائل کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جس کے پیچھے میں نے اپنی پوری دوپہر کالی کی تھی۔ بال نوچتے ہوئے نئے سرے سے کام کرنا شروع کردیا اور پھر کام ختم کرنے کیلئے دفتر میں بھی دیر تک رکنا پڑا۔
دفتر سے گھر پہنچا تو شدید بھوک لگی تھی۔ کافی عرصے سے گھر والوں کو بھی کھانے پر کہیں باہر نہیں لیکر گیا تھا اور یہ خیال بھی تھا کہ شاید باہر جاکر سب کے ساتھ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے پورے دن کی کلفت دور ہوجائے گی۔ میں بیوی بچوں کو لیکر کھانا کھانے آگیا۔ کھانا بہت شاندار تھا اور واقعی سارے دن کی کلفتیں مٹاگیا۔ واپسی میں البتہ یہ ٹریفک ایک مرتبہ پھر میرا منہ چڑا رہا تھا جس میں میں اب گزشتہ بیس منٹ سے پھنسا ہوا تھا اور اگلے بیس منٹ تک بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
جب گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا تو میں نے اتر کر صورتحال خود دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔  گاڑیوں کی طویل قطار کو عبور کرتا ہوا میں لوگوں کے اس ہجوم میں پہنچ گیا جو گھیرا بنا کر  کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ہجوم کے گھیرے میں ایک وڈیرہ نما انسان شراب کے نشے میں مخمور ایک زنخے کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے اپنی بیش قیمت پجارو میں بٹھانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ اس مریل سے زنخے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے کوسنے دے رہا تھا اور اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا تھا مگر اس وڈیرے پر اس کی چیخ و پکار کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اسے بالوں سے پکڑ کر گاڑی کی جانب گھسیٹتا اور جواب میں وہ زنخا اپنی پوری جان لگا کر زمین سے چمٹنے کی کوشش کرتا اور بالوں کی تکلیف سے بےنیاز گاڑی سے دور جانے کیلئے اپنا پور زور لگا دیتا۔
معاملہ ویسے تو بالکل واضح تھا مگر میں نے ہجوم میں شامل ہونے کی روایت نبھاتے ہوئے برابر میں کھڑے شخص سے معاملہ پوچھا تھا تو اس نے بتایا کہ یہ ملک کے ایک نامور جاگیردار  ہیں جو اس وقت رنگین پانی کے خمار میں رنگین ہوگئے ہین۔   اشارے پر اس زنخے نے ان کے آگے دست سوال دراز کیا تھا اور اس دست سوال کے جواب میں جاگیردار صاحب دست درازی پر اتر آئے ہیں۔ میں  نے معصوم بنتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ان صاحب کو روکتا کیوں نہیں؟ کچھ بولتا کیوں نہیں؟ اس شخص نے غصے سے مجھے دیکھا اور بولا کہ اتنی محبت جاگ رہی ہے تو تم روک لو؟ تم بول دو؟ ہم کم سے کم دل سے تو برا جان رہے ہیں اس برائی کو، اور بھلے کمتر سہی مگر یہ بھی ایمان کا ایک درجہ ہے۔ مزید کچھ کہہ کر میں مزید بے عزت نہیں ہونا چاہتا تھا سو میں بھی خاموشی سے ہجوم کے بیچ کھڑا تماشہ دیکھنے لگا۔
جاگیردار اور زنخا دونوں ہی تھک چکے تھے مگر دونوں ہی ہار ماننے کو تیار نہیں تھے، زاویہ الگ تھا مگر بات اب دونوں کی عزت کی تھی سو کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان دونوں کی زور آزمائی جاری ہی تھی اچانک ہجوم میں ہلچل ہوئی اور ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک اور زنخا اپنے ساتھی کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑا۔ دو اور ایک کی لڑائی میں فتح دو کی ہی ہوئی اور نئے آنے والے زنخے نے نہ صرف اپنے ساتھی کو چھڑایا بلکہ اس جاگیردار کی بھی طبیعت صاف کردی۔ وہ جاگیردار اچھی خاصی مرمت کروانے کے بعد برے انجام کی دھمکی دیتا ہوا گاڑی میں سوار ہوکر بھاگ گیا۔
ہجوم چھٹنا شروع ہوا تو میں بھی بھاگ کر گاؑڑی میں سوار ہوگیا اور ہجوم کے مکمل چھٹنے کے بعد آہستہ آہستہ ٹریفک کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔  جب گاڑی اس اشارے  پر پہنچی جہاں یہ سب فساد ہورہا تھا تو اشارہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ میں اشارہ کھلنے کا انتطار کر ہی رہا تھا کہ شیشے پر دستک ہوئی۔ میں نے نظر پھیر کر دیکھا تو باہر سے آنے والا دوسرا زنخا بھیک کا طلب گار تھا۔ میں نے خاموشی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس کا ایک نوٹ اسے نکال کر دے دیا۔ جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا؟ کل کو وہ جاگیردار اپنے گرگے لیکر آگیا تو؟ تمہارا تو یہ روز کا ٹھکانہ ہے، وہ کسی بھی دن موقع دیکھ کر بدلہ لے لے گا! اس زنخے نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! ڈرنے کیلئے ایک اللہ کی ذات کافی ہے! ان جیسے کتوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر ڈرو گے تو اور بھونکے گا اور اگر پلٹ کر پتھر مارو گے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ روز ہی کسی جاگیردار اور غنڈے سے نمٹتے ہیں، اب کیا ان سے ڈر کر روز مرتے رہیں؟ ایک دفعہ کی تکلیف روز روز کے عذاب سے بہتر ہوتی ہے۔
اشارہ کھل گیا اور وہ زنخا بھی واپس فٹ پاتھ پر جاکر دوبارہ اشارہ بند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ میں شاید ساری عمر ہی وہاں دم بخود کھڑا رہ جاتا مگر پیچھے سے آنے والے ہارن کے مسلسل شور سے میں چونک گیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی آگے بڑھی تو پیچھے والی سیٹ سے میرا نو سال کا بیٹا اپنی معلومات کا رعب جھاڑنے کیلئے سوالیہ انداز میں بولا، بابا یہ ہیجڑا تھا نا؟ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سچ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے جواب دیا، بیٹا یہ ہیجڑا نہیں تھا، یہی تو واحد مرد تھا!! ہیجڑے تو ہم ہیں!!!

پیر، 8 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 16

پیاری ڈائری!

انسان فطرتا ناشکرا اور احسان فراموش ہے. ہمیں کسی بهی نعمت اور آسائش کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ چهن نہ جائے.

مجهے تو خیر اس بات کا احساس کل ہی ہوا مگر خیر سے بیگم صاحبہ اول روز سے یہ بات جانتی ہیں اور اس ہی لیئے صبح شام اپنی قربانیوں اور احسانات کو گنواتی رہتی ہیں کہ کہیں غلطی سے بهی میں ان احسانات کو بهول نہ جائوں. خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا کہ بیوی خواہ کتنی ہی فرشتہ صفت مل جائے، اس کی برائی کرنا مرد کا پیدائشی اور بنیادی حق ہوتا ہے. ایسا نہیں کہ مردوں کو برائیاں کرنے کا شوق ہے، بات بس یہ ہے کہ ہم اپنی بیوی کی تعریف کرکے دوسرے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور اپنے لیئے زن مرید کا خطاب پانے سے ڈرتے ہیں.

نعمتوں کی یہ قدر ہمیں کل بهی نہ ہوتی اگر کل اخبار کے دفتر سے تهک کر آنے کے بعد ہم وہ بهیانک خواب نہ دیکهتے جس میں ہم نے دنیا کا ایک عجیب ہی نقشہ دیکها. ہم نے دیکها کہ ملک سے اسمبلی، سیاست، آمریت نامی ساری چیزیں ختم ہوگئی ہیں.

ہوا کچه یوں کہ ملک میں انتخابات ہوئے اور بیلٹ پیپر پر غلطی سے "ان میں سے کوئی نہیں" منتخب کرنے کی سہولت دے دی گئی. ساته میں یہ شرط بهی رکه دی گئی کہ اگر کسی حلقے کے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹر اس "ان میں سے کوئی نہیں" پر مہر لگاتے ہیں تو اس حلقے کے تمام امیدوار اس حلقے سے انتخاب لڑنے کیلئے تاحیات نااہل قرار دیئے جائیں گے. انتخابات ہوئے اور ایک ریکارڈ ٹرن آئوٹ کے ساته عوام نے تمام سیاستدانوں کو مسترد کردیا. سیاستدان اس پر تلملائے تو بہت مگر چہرے بدل کر نئے امیدوار کهڑے کر دیئے گئے. نتیجہ اس بار بهی وہی نکلا. اور پهر تیسرے انتخابات تک عوام بیزار ہوچکے تهے سو ایک ریفرنڈم کے زریعے حکومت ٹیکنوکریٹس کے حوالے کردی گئی.

سیاسی جماعتوں کی اب ضرورت نہیں رہی تهی سو ان پر مکمل پابندی لگادی گئی. سیاسی تنظیمیں نہیں رہیں تو سیاسی مباحثے نہیں رہے. وہ تمام دوست احباب جو اپنے سیاسی قائدین کے نام پر اپنی بچپن کی دوستیاں بهلا کر دشمن ہوچکے تهے، اب سیاسی اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ ایک ہوگئے. شیر اور کتا تو سیاسی دور میں ہی ایک ہوچکے تهے، اب شیر اور بکری بهی ایک ہی گهاٹ پر پانی پینے لگے.

دوسری طرف کسی نے پڑوسی دشمن ملک کے بارے میں افواہ اڑا دی کہ اس سے زیادہ خطرہ خود ہمارے ملک کے اندر موجود عناصر سے ہے سو فوج سے دست بستہ گزارش کی گئی اور فوج نے بهی سیاست چهوڑ کر وطن کے دفاع، سیلاب سے نمٹنا، سڑکیں بنانا، ہائوسنگ اتهارٹی اور کهاد کی فیکٹریاں چلانے سمیت اپنے وہ تمام فرائض انجام دینا شروع کردیئے جن کیلئے انہیں رکها گیا تها.

ملک میں یہ سب تبدیلیاں آچکی تهیں اور ان تمام تبدیلیوں کے ساته ساته اخبارات کی دنیا بهی یکسر تبدیل ہوگئی تهی. تمام اخباری تنظیمیں دن رات اب مظاہرے کر رہی تهیں کہ موجودہ سیٹ اپ ان اخبارات کیلئے زہر قاتل اور ان کے خلاف ایک سوچی سمجهی منظم سازش تها. جب سیاسی مباحثے نہ ہوں، فوج کے کردار پر بحث کرنے کو نہ ملے، ملک کی عوام مذہبی منافرت چهوڑ کر یہ سمجه لیں کہ محشر میں یہ نہیں پوچها جائے گا کہ کتنے کافروں کو شہید کیا، تو اخبارات میں چهاپنے کو بچے گا کیا؟ اور جو چهپے گا اسے پڑهے گا کون؟ غضب خدا کا، تصور تو کرو، ہمارے روزنامے کی شہہ سرخی جب یہ ہو کہ "گجرانوالہ میں ایک بهینس زچگی کے دوران ہلاک!" تو اخبار اور میرے مستقبل کا تو اللہ ہی حافظ!

اخبار کی شہ سرخی دیکه کر میرے سینے میں شدید درد اٹها اور درد کی شدت سے میں گهبرا کر اٹه بیٹها. آنکه کهلی تو دیکها کہ صاحبزادی سینے پر چڑه کر چهلانگیں مار رہی ہیں اور درد کی اصل وجہ یہ ہے. میں نے درد کی تکلیف بهلا کر اسے چوم لیا. تکلیف برطرف، میرے لیئے یہی خوشی بہت تهی کہ یہ سب محض ایک خواب تها اور کل پهر میں "اوئے میں تجهے چهوڑوں گا نہیں -فلاں سیاستدان" قسم کی شہ سرخی لگا سکوں گا.

بےشک انسان کو کسی نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ نعمت اس سے چهن نہ جائے. صبح سے یہی بات دہرا کر میں شکرانے کے نفل پڑه رہا ہوں.

اب اجازت دو کہ میں نے ٹیلیویژن دیکه کر کل کے اخبار کیلئے کوئی چٹپٹی سی شہ سرخی نکالنی ہے.

والسلام

زبان دراز اخبار نویس

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

جهولا

میں تیز قدموں سے اس سرکاری زچہ خانے سے باہر نکل کر آگیا۔ خیر سے تولید کا مرحلہ تو طے ہوگیا تھا مگر اب اصل مرحلہ درپیش تھا۔ مجھے جلد از جلد اس معصوم کو ٹھکانے لگانا تھا جو انجانے میں ایک غلط وقت پر غلط شخص کے گھر پیدا ہوگئی تھی۔

شام کا وقت تھا اور ابھی روشنی تھی سو میں اسے ایدھی یا چھیپا کے جھولے میں نہیں ڈال سکتا تھا کہ کوئی مسلمان اگر مجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتا تو وہیں مجھے سنگسار کردیا جاتا۔

جهولے کا خیال ترک کر کے میں اسے کچرا کنڈی میں ڈالنے کا سوچنے لگا، مگر کچرا کنڈی میں بچوں کو ڈالنے کیلئے ایک جگر چاہیئے تھا اور اگر میرے اندر اتنا جگر ہوتا تو میں اس معصوم کو پال نہیں لیتا جس کی رگوں میں میرا اپنا خون تھا؟ ویسے بھی میں سن چکا تھا کہ کچرا کنڈی میں ڈالے جانے والے بچے اکثر انسانوں کے ہاتھ لگنے سے پہلے کسی بھوکے جانور کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کا تصور بھی میرے لیئے ہولناک تھا. ویسے بهی مقصد صرف جان چهڑانا نہیں بلکہ اس ننهی کلی کی محفوظ اور بہتر زندگی کی ضمانت تها سو میں نے کچرا کنڈی جانے کے خیال پر لعنت بھیج دی۔ کچھ دیر یونہی کهڑا سوچتا رہا کہ کیا کیا جائےاور پهر میں نے شہر کے ایک مشہور یتیم خانے جانے کا فیصلہ کرلیا۔

میں جب یتیم خانے پہنچا تو وہاں ایک زندگی سے بیزار کرخت صورت عورت نے میرا استقبال کیا۔ میرے ہاتھ میں موجود بچے کو دیکھ کر وہ میرے آنے کی غایت سمجھ گئی اور میرا حلیہ دیکھ کر اسے یہ بهی یقین ہوگیا کہ میں اس یتیم خانے کو اپنا بچہ تو دے سکتا ہوں مگر امداد کے نام پر ایک روپیے کی امید بھی فضول ہوگی۔ کسی قسم کی مہمان نوازی یا گرم جوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لہٰذا میرے بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس نے مجھے سنانے کیلئے بڑبڑانا شروع کردیا کہ کس طرح ادارے پر پہلے ہی ہزاروں یتامٰی کا بوجھ پڑا ہوا ہے جبکہ مدد کرنے کیلئے کوئی شخص آگے آنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر ماہ سینکڑوں بچے جمع کروائے جاتے ہیں جبکہ ان بچوں کو گود لینے یا ان کا خرچہ اٹھانے کیلئے کوئی ایک بهی تیار نہیں ہے۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی میز کی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی جبکہ میں خاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے جب یقین ہوگیا کہ اس کی ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا اور میں بچے کو یہیں چھوڑ کرجانے کا مصمم ارادہ کرکے بیٹھا ہوا ہوں تو مجبورا وہ میری طرف متوجہ ہوہی گئی۔

آپ نے بچے کو جمع کرانا ہے؟ اس نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے ماں باپ کو کیا ہوا؟ اس نے گھورتے ہوئے دوسرا سوال داغا۔ جی وہ ایک حادثے میں مارے گئے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ اس نے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر بچے کی طرف دیکھ کر بولی، تو اس کی ماں مرتے مرتے سڑک پر بچے کو جنم دے گئی؟؟ دیکهو میاں! یہ یتیم خانہ ہے پاگل خانہ نہیں. ہم یہاں لوگوں کے پاپ دھونے نہیں بیٹھے ہیں! جب غلطی کی ہے تو پالو بھی! اور جب پال نہیں سکتے اورسماج سے اتنا ہی ڈر لگتا ہے تو غلطی کرتے ہی کیوں ہو؟ یہ چونچلے پیٹ بھروں پر اچھے لگتے ہیں کہ اگر بچے کو یتیم خانے بھیجنا بھی پڑے تو اس کا خرچ خود اٹھا سکیں۔ انسان کو گناہ بھی اپنی اوقات کے حساب سے کرنا چاہیئے۔ میں اس بچے کو یہاں نہیں لے سکتی مجھے ماں باپ کا موت کا سرٹیفیکیٹ یا پھر چار معززین کی گواہی چاہیئے ہوتی ہے کہ بچہ واقعی یتیم ہے! اگر اتنی ہی گھن آرہی ہے تو جاکر کسی جھولے میں ڈال آئو۔ آگے وہ خود سنبھال لیں گے۔

یتیم خانے سے نکل کر میں سڑکوں پر کچھ دیر یونہی گھومتا رہا اور پھر تھک کر ایک پارک میں جاکر بیٹھ گیا۔ میں نے کپڑا ہٹا کر اسے دیکھا تو وہ معصوم ابھی تک نیند میں ہی تھی۔ اس کی شکل ابھی سے مجھ پر تھی۔ وہی بڑی آنکھیں اور ننھی سی مگر کھڑی ناک۔ زندگی کے زہر کے علاوہ میرے چہرے کی ہر چیز کا عکس اس معصوم پیکر میں موجود تھا۔ بچے تو ہوتے ہی خوبصورت ہیں اور پھر یہ تو میرا اپنا خون تھی، پیار کیسے نہ آتا؟ میں نے بے اختیار اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

بیٹیاں شاید پیدائش کے فورا بعد سے ہی باپ سے محبت لینے کا ہنر سیکھ کر آتی ہیں۔ میرے اندر اب ایک شدید احساس گناہ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے اس کو سنانے کے بہانے خود کو تسلی دینا شروع کردی کہ، میری بیٹی میں تجھے پالتا ضرور! مگر میں کیا کروں کہ تو جن حالات میں پیدا ہوئی ہے اس میں میرے لیئے تجھے اپنا نام دینا خود تیرے لیئے ساری عمر کا آزار ہوجائے گا۔ تو زندگی میں کچھ بھی بننا چاہے گی تو تیرے باپ کی کمزوریاں تیرے ہی آگے آئیں گی۔ تیرے پیروں کی زنجیر خود تیرے ماں باپ ہوں گے۔ تو ابھی صرف ایک دن کی ہے مگر میں ابھی سے تجھ سے عشق کرتا ہوں۔ گو ہمارا یہ ساتھ صرف ایک دن کا ہی ہے مگر میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ تجھے تیری ساری عمر میں کوئی اتنی محبت نہیں کرے گا جتنی اس ایک دن میں میں نے تجھ سے کی ہے۔ بخدا اگر مجھے ذرا سی بھی امید ہوتی اور کوئی راستہ نکل سکتا تو میں تجھے اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتا۔ تجھے اپناتا، اپنا نام دیتا، تجھے پڑھاتا، لکھاتا، تیری خوشیوں میں شریک ہوتا، تیرے غم کا ساتھی اور سہارا بنتا۔ تجھے جدا کرنا میرے لیئے دنیا کا سب سے مشکل کام ہے مگر بخدا یہ کارِ محال میں صرف تیری بہتری کیلئے کر رہا ہوں۔

میں گھنٹوں اس سے بات کرتا رہا اور اس تولیئے کو بھگوتا رہا جس میں ملفوف وہ ننھی سی جان دنیا اور دنیا کی تمام غلاظتوں اور مصائب سے بےنیاز سونے میں مصروف تھی۔
اندھیرا بڑھ گیا تو میں پارک سے اٹھ کر واپس سڑک پر آگیا۔ پیدل چلتا ہوا چھیپا کے ایک دفتر کے پاس پہنچا جہاں اس وقت نسبتا سناٹا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اس معصوم کو جھولے میں ڈالا اور سرپٹ دور پڑا۔ مجھے ڈر تھا کہ کوئی پیچھے سے آکر مجھے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ یہ جھولا ناجائز بچوں کیلئے ہے۔ شادی شدہ افراد جو اپنے بچوں کو پالنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے ان کا اس جھولے پر کوئی حق نہیں ہے۔ اٹھائو اور لیکر جائو اسے!! پالو اور بھوکا مارو اسے اپنے ساتھ. اسے رکهو اپنے ساته اس دن تک کہ جب تک یا تو یہ مرنہیں جاتی یا اس ملک میں ایسا کوئی جھولا نہیں آجاتا جس میں ان غریب بچوں کو بھی ڈالا جاسکے جن کے ماں باپ کی غلطی سے وہ پیدا تو ہوجاتے ہیں مگر اپنے حصے میں صرف اتنا سا ہی رزق لاتے ہیں جس سے ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہو۔

جب تک پھیپھڑوں نے ساتھ دیا میں دوڑتا گیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب مجھے یقین آگیا کہ اب میرے پیچھے کوئی نہیں آرہا تو میں نے رک کر سانس درست کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کم سے کم ایک جان کو تو میں نے بهوک اور ذلت کے اس دلدل سے بچا لیا جس میں میں خود برسوں یا شاید صدیوں سے دهنسا ہوا تها. مجهے یقین تها کہ اب اسے پیٹ بهر کهانا بهی ملے گا اور مناسب تعلیم بهی. اسے بڑے ہوکر کسی امیر آدمی کے گهر جهاڑو پونچها کرتے ہوئے غلیظ نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. کیا ہوا جو اس کے پاس باپ کا نام نہیں ہوگا؟ اس کی دوسری چار بہنوں نے باپ کا نام اپنے ساته لگا کر زندگی کا کون سا سکه پا لیا؟

باقی چار بیٹیوں کا خیال آتے ہی میں نے جیب ٹٹول کر یقین کرلیا کہ میری جیب میں ابھی بھی وہ ادھار کے چار سو روپے موجود ہیں جن سے مجھے کھانا اور اپنے اور بیوی بچوں کیلئے نیلا تھوتھا لیکر جانا ہے۔  مجھے پتہ تھا کہ کل ہماری بھی خبر چھپے گی کہ کس طرح ایک سنگدل باپ نے اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کیساتھ زہر کھا کر خودکشی کرلی مگر اس میں میرا کیا قصور کہ روزگار ملتا نہیں ہے اور ہم اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اب ناجائز کہلا کرکسی جھولے میں بھی نہیں ڈالے جاسکتے؟؟؟

پیر، 1 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 15

پیاری ڈائری!

شاعر اور ادیب ہونا بھی کتنا مشکل کام ہے۔  خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں لکھنے سے لیکر رویئے تک کسی بھی چیز میں ادب کا نہ کوئی گزر ہو اور نہ قدر۔ اپنے ہم عمر لوگوں کو بتائو کہ آپ ادیب ہیں تو سوال آتا ہے کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ اور اگر بزرگوں سے اس بات کا ذکر کرو تو پوچھا جاتا ہے کہ لکھنا وکھنا تو ٹھیک ہے مگر کرتے کیا ہو؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
احباب میں کسی کو پتہ چل جائے کہ آپ شاعر ہیں تو رات کے تین بجے فون کرکے "جانی کوئی پوپٹ سا شعر تو بھیج، تیری بھابھی کو میسج کرنا ہے" کی فرمائش اٹھتی ہے اور کالم نویسی کا بیان ہو تو رازداری سے کان میں پوچھا جاتا ہے کہ کس سیاسی گروہ سے تعلق ہے؟ نیز یہ بھی کہ آج کل لفافے کا کیا بھائو ہے اور پیسے کام ہونے سے پہلے ملتے ہیں یا کام ہونے کے بعد؟؟؟ ہم تو اس لکھنے کے ہاتھوں مر چلے!!!

شام کو بیٹھا ایک کہانی مکمل کررہا تھا کہ بھابھی نے ہمارے بھتیجے کو ساتھ میں لاکر بٹھا دیا کہ فارغ تو بیٹھے ہو زرا اس کے ساتھ کھیل ہی لو۔ مجھے امی سے بات کرنی ہے اور صاحبزادے کو موبائل چاہیئے اپنے گیم کھیلنے کیلئے۔ جتنی دیر میں فون پر بات کر رہی ہوں زرا اس کے ساتھ بیٹھ جائو۔ ہمارے بھتیجے کی عمر کوئی آٹھ سال کے قریب ہے۔ ان کی عمر میں ہم شام کے وقت کھیلنے باہر جاتے تھے جبکے یہ صاحب کھیلنے کیلئے ایپ اسٹور یا پھر گوگل پلے اسٹور کا رخ کرتے ہیں۔ باقی کی رہی سہی کسر اس ٹیلیویژن نے پوری کردی ہے جسے دیکھ دیکھ کر وہ آدھے بقراط ویسے ہی بن چکے ہیں۔

بھتیجے صاحب نے ہمارے برابر میں بیٹھتے ہی سوال داغ دیا کہ چاچو کیا کر رہے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔ ان کی ننھی سی بانچھیں کھل گئیں اور فورا سے کہانی سننے کی فرمائش داغ دی۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیا کہ مجھے کوئی کہانی نہیں آتی۔ آتی ہوتی تو اب تک لکھ نہ چکا ہوتا؟ اتنی دیر سے بیٹھا ہی اس لیئے ہوں کہ کہانی آنے کا نام ہی نہیں لی رہی۔ ہمارے بھتیجے نے ٹٹولتی ہوئی نگاہوں سے ہمیں دیکھا تو ہم نے فورا چہرے پر معصومیت طاری کرلی۔ ایک لحظے کیلئے اس کے چہرے پر مایوسی آئی مگر پھر فورا ہی چہک کر بولا، کیا چاچو! آپ کو ایک سٹوری بھی نہیں آتی؟ چلیں میں آپ کو سٹوری سناتا ہوں۔
کہانی لکھنے سے زیادہ مشکل کام دوسروں کی کہانی سننا ہوتا ہے مگر کسی کا دل توڑنا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ زندگی میں کتنے ہی سفاک کیوں نہ ہوجائیں، کسی کا دل توڑنے کیلئے ہر بار آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس محنت کی مقدار کم اور زیادہ ہوسکتی ہے مگر انسانی فطرت کے مطابق دل توڑنے کیلئے محنت بہرحال درکار ہوتی ہے۔ میں نے اس کی معصوم خوشی کیلئے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

ہمارے بھتیجے کے مطابق ایک بیچارے بھوکے کوے کو کہیں سے ایک چنے کا دانہ مل گیا۔ وہ اسے لیکر درخت پر بیٹھا ہی تھا کہ دانہ اس سے گر کر درخت میں چلا گیا۔ کوے نے درخت سے درخواست کی کے میرا چنا واپس کردو! درخت نے کہا جائو میاں! میں کیوں واپس کروں؟ کوے نے اسے دھمکایا کہ اگر درخت نے اس کا چنا واپس نہ کیا تو وہ لکڑہارے سے کہہ کر درخت کو کٹوا دے گا۔ درخت کو بھی اب غصہ آگیا، اس نے کہا کہ کیا کوا اور کیا کوے کا چنا، جا بھائی جو کرسکتا ہے کرلے! چنا تو اب نہیں ملنے والا۔ کوا طیش کے عالم میں اڑا اور لکڑہارے سے جاکر بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا تم درخت کو کاٹ دو۔ لکڑہارے نے کہا، درخت نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ تس پہ کوے نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے درخت کو نہ کاٹا تو وہ لکڑہارے کی بیوی سے کہے گا کہ وہ اپنے میکے چلی جائے۔ لکڑہارے نے جواب دیا کہ جو بن سکتا ہے کر لو میں تو درخت نہیں کاٹتا۔ اب لکڑہارے کی بیوی کی باری تھی۔ کوے نے اپنا دکھڑا سنایا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، تم اس سے ناراض ہوکر میکے چلی جائو۔ لکڑہارے کی بیوی تنک کر بولی، لکڑہارے نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ جائو جائو اپنا کام کرو۔ کوا وہاں سے ناکام ہوکر اڑا اور اب چوہے کے پاس پہنچا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، تم اس کی بیوی کے کپڑے کتر دو! چوہے نے انگڑائی لیکر کہا کہ کپڑے کترنے والے زمانے چلے گئے ہیں اور ویسے بھی لکڑہارے کی بیوی اب لان کے سوٹ پہنتی ہے جن میں کپڑے کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے سو میرا موڈ نہیں ہے۔ کوا وہاں سے جھنجھلا کر اب بلی کے پاس پہنچا اور بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، تم چوہے کو کھا جائو! بلی انسانوں کے ساتھ رہ کر انگریزی زدہ ہوچکی تھی سو جھرجھری لیکر بولی، چوہا کھالوں؟ اررر ڈسگسٹنگ!!! مجھ سے نہیں ہوگا میں صرف کیٹ فوڈ کھاتی ہوں۔
کوا اب غصے اور بھوک سے پاگل ہورہا تھا اس نے راہ چلتے ایک کتے کو پکڑا اور ہاتھ جوڑ کر بولا کہ بھائی میری مدد کرو! درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، تم بلی کو کھا جائو؟ کتے نے کوے کو سر سے پائوں تک دیکھا اور بولا کہ کوے ہو کوے رہو! کتے نہ بنو! یہ سب انسانوں کی اڑائی ہوئی افواہیں ہیں۔ لڑائی جھگڑا اپنی جگہ مگر آج تک تم نے کسی کتے کو کسی بلے کو کھاتے دیکھا ہے جو میں یہ کام کروں؟  کوا اپنے پر نوچتا ہوا ایک ڈنڈے کے پاس پہنچا اور اس سے بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، تم کتے کی پٹائی کردو؟ اتفاق سے یہ ڈنڈا گاندھی جی کا پیروکار تھا اور اہنسا میں یقین رکھتا تھا۔ اس نے کوے کو بٹھا کر ایک تفصیلی لیکچر دیا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے معذرت کرلی۔

کوا اس کے بعد ڈنڈے کو جلانے آگ کے پاس اور پھر آگ کو بجھانے کیلئے پانی کے پاس پہنچا مگر نتیجہ ہر بار اس کی امید کے برخلاف ہی تھا۔ بہت ساری امیدیں لیکر کوے نے اس بار ہاتھی کا رخ کیا جو جنگل کا چوکیدار بھی تھا اور اس کی جسامت کی وجہ سے سب اسے ڈرتے بھی تھے۔ کوے نے ہاتھی کے سامنے ایک لمبی تمہید باندھی کہ وہ جانتا ہے ہاتھی کو پانی کی کس قدر ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کا اور کوے کا باہمی مفاد اس ہی میں ہے کہ آگ کو نہ بچھانے کی سزا دیتے ہوئے وہ پانی کو پی جائے۔ ہاتھی نے اسے محبت سے سمجھایا کہ اس کا جنگل والوں سے معاہدہ ہے اور اب وہ اس تالاب سے پانی نہیں پی سکتا۔ اگر کسی نے اسے پانی پیتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی بڑی سبکی ہوگی اور وہ بڑی مشکل سے بحال کی گئی اپنی عزت ایک کوے کے چکر میں نہیں کھوئے گا۔

کوا سب طرف سے مایوس ہوکر زمین پر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ اتفاق سے وہاں ایک چیونٹی کا گزر ہوا جس کی بہن اس ہی درخت کی ٹہنی گرنے سے دب کر ہلاک ہوگئی تھی۔ اس نے کوے سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے؟ کوے نے اسے روتے ہوئے جواب دیا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، ڈنڈا کتے کی پٹائی نہیں کرتا، آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی، پانی آگ کو نہیں بچھاتا اور اب یہ ہاتھی بھی اس پانی کو پینے سے انکاری ہے۔ اب تم خود بتائو میں کیا کروں؟

چیونٹی کو جلال آگیا۔ اس نے کوے کو ساتھ لیا اور ہاتھی کے پاس پہنچ گئی کے اگر اس نے اب بھی پانی نہ پیا تو وہ اس کی سونڈ میں گھس کر اسے مار ڈالے گی۔ ہاتھی کی اپنی جان پر بنی تو وہ گھبرا کر بولا کہ نہیں نہیں میری سونڈ میں نہ گھسنا، میں ابھی پانی پیتا ہوں۔ پانی نے کہا نہیں نہیں مجھے مت پینا میں ابھی آگ کو بجھاتا ہوں۔ آگ نے کہا مجھے مت بجھائو میں ابھی ڈنڈے کو جلاتی ہوں۔ ڈنڈا بولا مجھے مت جلانا میں ابھی کتے کو سبق سکھاتا ہوں۔ کتے نے کہا مجھے مت مارو میں ابھی بلی پر حملہ کرتا ہوں۔ بلی گھبرا کر بولی مجھے چھوڑ دو میں ابھی چوہے کو کھاتی ہوں۔ چوہے نے فریاد کی کہ مجھے مت کھانا میں ابھی لکڑہارے کی بیوی کے کپڑے کترتا ہوں۔ لکڑہارے کی بیوی چلائی میں لعنت بھیجتی ہوں لکڑہارے پر، میرے کپڑے نہیں کترنا۔ لکڑہارے نے کہا کہ ایسی کی تیسی درخت کی، مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ درخت گھبرا کر بولا کہ بھائی کوے! تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ آئو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ یہ رہا آپ کا چنا اور اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں تو میں سب سے آرام دہ شاخ پر آپ کو ایک گھونسلہ اور اپنے سب سے رسیلے پھل اگلے تین سال تک آپ کو مفت دوں گا۔ کوا خود بھی اس سب سے تھک چکا تھا سو اس نے بھی درخت کی پیشکش خوشی خوشی قبول کرلی اور اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے،

بھتیجے صاحب تو کہانی سنا کر دوبارہ اپنے کھیل کود میں مصروف ہوگئے مگر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کہانی کچھ سنی سنی سی لگ رہی ہے۔ خدا معلوم کہاں سنی تھی، یاد آیا تو تمہیں بھی ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔

والسلام

زبان دراز

بلاگ فالوورز

آمدورفت