بڑے شہروں کا یہ ہے کہ ان کے قبرستان بھی بڑے ہوتے
ہیں۔ شہر سے کہیں زیادہ وسیع القلب! تدفین
کے لیئے آنے والے کی ذات یا قومیت یا مذہب و مسلک سے بے نیاز۔ مٹی واقعی ماں ہوتی ہے۔ اس کے اوپر کتنے ہی کانڈ کرکے جب آخر کار اس کے پاس پہنچو
تو بھی شکایت نہیں کرتی۔ منہ نہیں بسورتی۔
باتیں نہیں سناتی۔ بس خاموشی سے اپنے چوڑے سینے میں جگہ دے دیتی ہے۔ میں جب شہر میں کہیں قرار نہیں پاتا تو کنکریٹ
اور تارکول کی اس بستی سے فرار حاصل کرنے کے لیئے قبرستان پہنچ جاتا ہوں۔ جتنی
خاموشی لائبریری اور قبرستان میں ہوتی ہے شاید دنیا میں کہیں اور ممکن نہیں ۔ شاید
اس ہی لیئے انسان ان دونوں جگہوں پر اکیلے جانے سے ہچکچاتا ہے۔ قبرستان کی خاموشی میں البتہ ایک سکون بھی ہوتا
ہے کیونکہ یہاں کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔ سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں
کے معاملات میں الجھنا اور اس پر بے وجہ رائے دینا تو زندوں کا کام ہے، مردے ایسی
کسی بھی علت سے بے نیاز ہیں۔
بحیثیت لیکھک میں
اپنے تئیں ایک حساس آدمی ہوں ۔ روز ہی معاشرے سے کوئی روگ چن لیتا ہوں اور اس کو
پھوڑا بنا کر اپنے تن پر سجا لیتا ہوں۔ پھوڑا اگر پیپ دینے لگے تو قرطاس پر اس کی قے کر دیتا ہوں ورنہ خود ہی اس
پھوڑے کی اذیت سے لذت کشید کرتا رہتا ہوں۔ شاید ہر فنکار کی طرح میں بھی ایک اذیت
پسند انسان ہوں۔ اذیت نہ بھی ہو تو بھی اذیت لینے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتا
ہوں۔ اور آج تو مجھے بہانہ ڈھونڈنا بھی نہیں پڑا تھا۔ دوپہر سے ہی طبیعت شدید مکدر
تھی۔ ملک کے بعض علاقوں میں شدید نوعیت کا
زلزلہ آیا تھا اور اس قدرتی آفت سے جڑے
انسانی المیوں کا سوچ کر میری روح بلک رہی تھی۔ کافی دیر تک تو جسم کے پنجرے میں قید اس روح کی
زنجیر زنی اور سوز خوانی سے محظوظ ہوتا رہا مگر جب وحشت حد سے بڑھنے لگی تو میں نے
قبرستان کا راستہ لینے میں ہی عافیت جانی۔
میں جب قبرستان پہنچا تو مغرب ہوچکی تھی اور رات کے اندھیرے نے بجھتے سورج کو مکمل طور پر
نگل لیا تھا۔ قبرستان کے دروازے سے چند سوگواران اپنے کسی پیارے کو مٹی کی آغوش میں
سونپ کر باہر آرہے تھے۔ میں نے اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں ان کے چہروں کی طرف
دیکھا۔ قبرستان سے باہر آنے والے چہرے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ بظاہر مضمحل مگر
درپردہ خورسند۔ گویا موت کے گھر سے زندہ نکل آنے کا جشن منا رہے ہوں۔ قبرستان کے
دروازے پر تواتر کے ساتھ کہا جانے والا یہ جملہ کہ" بس جی! موت کے آگے کس کی
چلتی ہے؟" دراصل اعلان ہوتا ہے کہ آؤ
مجھے دیکھو! میں وہ کہ جس کا موت بھی اب تک کچھ نہیں بگاڑ پائی! میں! زندہ! خواہ
اس زندگی سے کتنا ہی عاجز، مگر زندہ! موت کی پہنچ سے دور! موت ایسی طاقتور کی پہنچ
سے دور! مانتے ہو؟ میں ان گزرتے چہروں کو پڑھتا ہوا قبرستان کے اندر داخل ہوگیا۔
میں چلتا ہوا سیدھا گورکن کی جھگی پر پہنچ گیا۔ جھگی کے
باہر گورکن کا بارہ تیرہ سالہ بیٹا ایک قریبی سنگ مر مر سے بنی قبر پر لیٹا ہوا
تھا جس کے ساتھ ہی ایک بجلی کا بلب بھی آویزاں تھا۔ قبر کے اندر روشنی ہو یا نہ
ہو، قبر کے اوپر چراغ ضرور جلنا چاہیئے ۔ خیر مجھے دیکھتے ہی وہ لپک کر پاس چلا
آیا اور پوچھا کہ آیا میں قبر خریدنے کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں؟ میرے انکار پر اس
نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور یہ کہہ کر دوبارہ اس قبر پر جا لیٹا کہ صاحب!
پرسوں آنا، اماں ابھی چھٹی پر ہے!
میں ابھی اس مردود کو سنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ گورکن
آگیا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی بانچھیں کھل گئیں! اس کا بیٹا بھلے مجھے نہ پہچانتا ہو
مگر گورکن جانتا تھا کہ میں سابقہ کئی
راتوں کی طرح رات یہیں قبرستان میں گزاروں گا اور جاتے وقت اگلے ایک دو دن کے لیئے
اس کے واسطے ولایتی سگریٹ کا انتظام کرتا جاؤں گا۔ میں نے اس کو دیکھ کر خاموشی سے سگریٹ کا پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنی مکروہ بتیسی دکھاتے ہوئے وہ پیکٹ میرے
ہاتھ سے اڑس لیا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کردیا۔
کافی اندر چلنے کے بعد اس نے آج رات کے لیئے مجھے میرا کمرا
دکھا دیا۔ وہ ایک بالکل تازہ آباد شدہ قبر کے برابر والی خالی قبر تھی۔ میں
نے سر کی جنبش سے گورکن کو جانے کا اشارہ
کیا اور خود اس قبر میں اتر گیا۔ میں نے قبر میں اتر کر اس کی سطح ہموار کی اور چبھنے والے چھوٹے کنکر باہر پھینک کر قبر میں دراز ہوگیا۔ یہ پہلی بار
نہیں تھا کہ میں کسی آباد قبر کے برابر میں لیٹا ہوا تھا۔ کسی مشہور آدمی کی کہی
ہوئی یہ بات اکثر میرے دماغ میں گھومتی تھی کہ " خدا کی رحمت کے بارے میں
جانتے ہوئے بھی اس سے انجان رہنا ایسا ہی ہے جیسا یہ جاننا کہ مردہ بے بس ہے اور
ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر اس کے باوجود آپ رات کی تاریکی، ایک لاش کے ساتھ لیٹ کر تنہائی میں گزارنے کی
ہمت نہیں کریں گے کیونکہ آپ جانتے تو ہیں
کہ مردہ کچھ نہیں کرے گا مگر آپ اس بات پر مکمل ایمان نہیں رکھتے۔ جس دن آپ
کا یقین مکمل ہوجائے کہ مردہ کچھ نہیں کرے گا اس دن آپ مردے کے ساتھ ویسے ہی رات
گزار سکیں گے جیسے ایک گورکن یا مردہ خانے کا رکھوالا۔ بالکل ایسے ہی جس دن آپ خدا کی رحمت پر یقین
کرلیں گے اس دن کے بعد زندگی گزارنا آسان
ہوجائے گا"۔ جب پہلی بار میں کسی قبر میں لیٹا تھا تو یہ بات میرے کان میں رات بھر گونجی تھی اور صبح ہونے تک
میں خدا کی رحمت پر تو مکمل یقین نہیں کر پایا مگر اس بات پر میرا ایمان کامل ہوگیا تھا کہ مردے واقعی کچھ نہیں کرسکتے۔
میں قبر میں دراز ہوکر لیٹا ہوا تھا اور دھرتی ماں کی ٹھنڈک
بھری ممتا کو محسوس کر رہا تھا۔ پھر میں نے لاڈ میں آکر اس کا منہ سہلانا شروع کر
دیا۔ اس کے ذرات پر محبت سے ہاتھ پھیرتے
ہوئے میں اس سے بات کرنا شروع ہوگیا۔ میں
نے ماں کو بتایا کہ کیسے آج سوشل میڈیا پر لوگ بحث کر رہے تھے کہ آیا یہ زلزلے
انسانی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں یا پھر
یہ سائنسی وجوہات کی بنا پر ہونے والا کوئی واقعہ ہے؟ ماں نے توجہ سے میری بات سنی اور ہر اچھی ماں کی
طرح خود تحقیق کرکے جواب دینے کے بجائے کہہ دیا کہ "جب تم بڑے ہوجائو گے تو
خود جان جاؤ گے"۔ میں نے منہ بسورا مگر پھر ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماں سے کیسے
ناراض رہا جا سکتا ہے؟ میں نے پچھلے سوال کی کلفت بھلا کرماں کو بتایا کہ کس طرح
سوشل میڈیا پر لوگ بتا رہے تھے کہ یہ زلزلے کسی چھ ماہ کے بچے کوجھولا جھلانے کے
لیئے آتے ہیں؟ عجیب بچہ ہے جس کے جھولے کے چکر میں ہر مرتبہ ہزاروں انسانی جانوں
کی بھینٹ چڑھانی پڑتی ہے۔ پھر وہ گائے کے سینگوں والی بات؟ اور پھر دوبارہ وہ اعمال والی بات ؟ میں نے ماں
سے پوچھ ہی لیا کہ اگر یہ سب ایسا ہی ہے تو تھائی لینڈ میں زلزلے کیوں نہیں آتے؟
وہاں زیادہ مسلمان بستے ہیں یا وہاں جو ہوتا ہے وہ گناہ نہیں ہوتا؟ ماں نے ایک بار پھر مجھ پر شفقت کی نظر کی مگر
اس بار کچھ بولی نہیں۔ میں اس یکطرفہ گفتگو سے اکتا سا گیا تھا سو میں نے بوریت سے
تنگ آکر سگریٹ نکال لی۔
میں نے جیسے ہی سگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر جلایا، کون ہے ،
کون ہے کی آواز لگاتا ہوا کوئی منحوس میرے اوپر گر پڑا۔ میں نے جلدی سے جیب سے موبائل نکال کر ٹارچ روشن
کی تو میرے پائنتی ایک حواس باختہ بوڑھا موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے کپکپاتی
ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔ککک،،کون ہو تم؟ ییییہاں قبر میں ککک،،کیا کررہے ہو؟ میں نے حلق بھر کر سگریٹ کا کش لیا اور دھواں اس
بوڑھے کی سمت اچھالتے ہوئے اس سے کہا، بڑے میاں! قبر میں چھلانگ تم نے لگائی ہے!
تم بتاؤ تم کون ہو؟ بوڑھا اب اپنے حواسوں پر کچھ قابو پاچکا تھا۔ اس نے تشویشناک
نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئےکہا، دیکھو میاں! مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ قبرستان
تمہارا علاقہ ہے۔ میں یہاں روز نہیں آتا ہوں۔ آج صرف دوسری کاروائی ہے۔ تم کہتے ہو
تو میں کوئی دوسرا قبرستان ڈھونڈ لوں گا۔ تین سو کا بکتا ہے کفن اور اگر مجھے اس
میں سے بھی حصہ دینا پڑا تو میں گھر کیا لے کر جاؤں گا؟ایک بیٹا معذور ہوگیا ہے
اور اس کی اولاد کا دال پانی بھی میری ذمہ
داری بن چکی ہے۔ گھر میں سات کھانے والے ہیں۔ ڈیڑھ سو میں کہاں گزارا ہوگا؟ اور جہاں
تک قبر میں چھلانگ لگانے کی بات ہے تواس تاریک رات میں مجھے اپنے پیچھےسے روشنی
آتی ہوئی محسوس ہوئی تو گربڑا کر گر پڑا۔ اگلی بار خیال کروں گا۔ شروع شروع ہے، تھوڑا وقت تو لگے گا قبرستان کا عادی ہونے میں۔
بوڑھے کے مجھے کفن چور سمجھنے کی وجہ سے میرا مزاج مکدر
ہوگیا تھا۔ میں نے اسے اسی وقت قبر سے نکل جانے کو کہہ دیا۔ اس نے جب یہ سنا کہ
مجھے حصہ بھی نہیں چاہیئے اور وہ چاہے تو کفن نکال کر خود بیچ کھا سکتا ہے تو وہ
خوش ہوکر مجھے دعائیں دیتا ہوا بدقتِ تمام قبر سے نکل گیا اور برابر والی قبر سے
کفن نکالنے کے اسباب کرنے لگا۔ میں نے دھرتی ماں سے کہا، ماں دیکھ انسانیت کتنی گر چکی ہے۔ جو قوم مردوں کے
کفن تک نہ چھوڑتی ہو اس پر زلزلے نہ آئیں تو کیا جنت سے خلعت آئے؟ جو ہورہا ہے صحیح ہو رہا ہے۔ پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا کہ ثوبان تو
کہتا ہے زلزلے فالٹ لائن کے پاس رہنے والے علاقوں میں آتے ہیں، خواہ ان کے اعمال
کیسے بھی ہوں۔ دھرتی ماں جو میری باتیں خاموشی سے سن رہی تھی میری یہ سوچ پڑھ کر
بولی، بیٹا! فالٹ لائن والی بات کا ایک
پہلو یہ بھی تو دیکھ کہ اس فالٹ لائن کے پاس کون امیر اقوام بستی ہیں؟ کوئی امیر
ملک اس فالٹ لائن کے گرد موجود تو ہوسکتا
ہے مگر وہ یا تو زلزلے سے محفوظ عمارات بنا لے گا یا پھر اس فالٹ لائن کے گرد
غرباء کی بستی بسا دے گا۔ تو نے کبھی یہ سنا کہ کوئی ارب پتی آدمی زلزلے میں ہلاک
ہوگیا ہو؟ یہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں مرنے والی وہی کیوں ہوتے ہیں جو اگر جی
جائیں تو ہر گھڑی موت کی آرزو لیئے گھومتے رہیں؟ میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا
اور پوچھا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہی ہے کہ مجھے ان زلزلے میں مرنے والے غرباء کی
موت کا جشن منانا چاہیئے؟ اس سے پہلے کہ
ماں میری بات کا جواب دیتی، اوپر سے بوڑھے کی آواز آئی، بیٹا یہ سل بہت بھاری ہے۔ اگر برا نہ مناؤ تو ہاتھ
لگا دو گے؟ میں نے غرا کر بوڑھے کو کہا، بڑے میاں! جو کام تمہارے اکیلے کے بس کا
ہے نہیں، وہ کرنے کیوں نکلے ہو۔ انسان سکون کرنے کے لیئے قبر میں آتا ہے ، اگر
یہاں بھی وہی ساری چخ چخ کرنی ہے تو یہاں آنے کا فائدہ؟ بوڑھے نے جواب دیا، بیٹا! بوڑھے کی مدد کر دے گا تو تیرا کیا جائے
گا؟ ویسے بھی مسلمان بھائی کی مدد کرنا تو
ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔ میں نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا کہ ماں سے اس خصیص بوڑھے
کی شکایت کروں تو میں نے دیکھا کہ ماں وہاں موجود نہیں تھی۔ میں نے حیرت سے ادھر
ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ کہیں موجود نہیں تھی۔ میں اسے ڈھونڈنے کیلئے دیوانہ وار
قبر سے باہر نکل آیا۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا کہ وہ بوڑھا ہانپتے ہوئے قبر کی سل
کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میں نے دل ہی دل میں اس پر لعنت بھیجی اور ماں کی
تلاش میں ایک قدم آگے بڑھا ہی ہوں گا کہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ دھرتی ماں پوری شدت سے اس
کفن چور کی مدد کرنے میں مصروف تھی۔ بوڑھا بھی میری طرح زمین پر گر چکا تھا۔ زلزلہ
تھمنے کے بعد بھی میں زمین پر ہی پڑا رہا۔ وہ بوڑھا البتہ سہارا لے کر کھڑا ہوگیا اور اب
ناچ رہا تھا۔ میں نے پشت کو اوپر اٹھا کر دیکھا، زلزلے سے قبر کی سل ہٹ چکی تھی۔
زلزلے سے قبر کی سل ہٹ چکی تھی ۔
جواب دیںحذف کریںعمدہ جناب ہمیشہ کی طرح کمال
بہترین- خوبصورت- سادہ اور حکمت آمیز- لکھتے رہئیے-
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںلکهتے رہیں اور فیضیاب کرتے رہیں
بہت عمدہ اور سبق آموز تحریر۔۔۔۔سلامت رہیں
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ
جواب دیںحذف کریںبہت اعلی
جواب دیںحذف کریںماشااللّہ
Bone chilling. A++++
جواب دیںحذف کریںہاہاہاہا نام اور قول کچھ سنا سنا لگ رہا ہے
جواب دیںحذف کریںاچھا لکھا ہے---