جمعرات، 29 اکتوبر، 2015

پاگل

دعا مانگنے سے پہلے سوچ لینا چاہیئے کہ اگر واقعی قبول ہوگئی تو کیا ہوگا۔ انسانی نفسیات کے طالبعلم کی حیثیت سے نجانے کس منحوس گھڑی میں میں نے یہ دعا کر دی تھی کہ مجھے خواہ چند گھنٹوں کیلئے ہی سہی مگر کسی پاگل خانے کے مریضوں کو قریب سے جاننے کا موقع مل سکے۔ دراصل مجھے یہ لگتا تھا کہ  اصل پاگل، پاگل خانوں کے باہر بستے ہیں اور جو لوگ ان پاگلوں کی طرح سوچنے، سمجھنے، اور بولنے سے انکار کردیتے اور دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے کی جسارت کرتے ہیں انہیں ہم پاگل قرار دے کر کسی پاگل خانے میں بھجوا دیتے ہیں تاکہ یہ بیماری بنی نوع انسان کے اس پرسکون معاشرے میں پھیل کر کوئی ہیجان نہ برپا کردے۔

میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری دعا اتنی جلدی اور اس طرح قبول ہوجائے گی۔ میری  خالہ کی بڑی بیٹی جنہیں ہم آپا  کہتے ہیں، پچھلے ہفتے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ آپا آسٹریلیا میں ہوتی ہیں اور نفسیات کی ایک مشہور ڈاکٹر ہیں۔ کراچی  میں  دماغی امراض کے حوالے سے کوئی کانفرنس تھی جس میں شرکت کے لیئے آپا کراچی آئی تھیں۔ دو دن تک آپا اس کانفرنس میں مصروف رہیں اور ہم ان کے ڈرائیور کی ڈیوٹی نبھاتے رہے۔  اور پھر بچپن کی الف لیلوی کہانیوں کی طرح جب آپا نے جانے سے پہلے ہم سے پوچھا کہ "مانگ کیا مانگتا ہے؟" تو ہم نے  پاگل خانے کے دورے کی فرمائش جھٹ سے ان کے سامنے رکھ دی۔ انتظام کروانا آپا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایک فون کال کی دیر تھی اور ہمیں اجازت کا پروانہ مل گیا۔ آنے والے اتوار کو ہمیں دو گھنٹے کے لیئے پاگل خانے میں وقت گزارنے اور پاگلوں سے بات چیت کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔

اتوار والے دن ہم وقت مقررہ سے پانچ منٹ پہلے ہی پاگل خانے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں اپنے کمرے میں بٹھا کر چائے پلائی اور محتاط رہتے ہوئے پاگلوں سے ملاقات کی اجازت دے دی کہ بعض پاگل دورہ پڑنے کی صورت میں خطرناک بھی ثابت ہوسکتے تھے۔

پہلا ایک گھنٹہ میری توقعات کے برخلاف بہت بیزار کن تھا۔ تمام پاگلوں کی ایک جیسی کہانیاں تھیں ۔ وہی محبت میں دھوکہ، کاروبار میں خسارا،  ازدواجی زندگی کی الجھنوں سے بڑھا ہوا دماغی دباؤ اور اس کے نتیجے میں پاگل خانے تک کا سفر وغیرہ۔ زیادہ تر پاگل اپنی کہانی سنانے کو تیار ہی نہیں تھے۔ یا شاید اس حالت میں ہی نہیں تھے کہ اپنا ماجرہ خود بیان کر سکیں۔ پاگل خانے کا عملہ مجھے ان کی کہانیاں سنا رہا تھا۔ اگر کوئی بات کرنے پر راضی ہو بھی جاتا تو وہی ایک جملے کی  گردان کہ "میں پاگل نہیں ہوں"۔  میں یہاں آنے کے فیصلے پر مایوس ہو ہی چکا تھا کہ میری ملاقات اس لڑکے سے ہوئی۔ وہ میرا ہی ہم عمر رہا ہوگا۔ میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کمرے کی میز پر چڑھ کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ آہٹ سن کر اس نے گھٹنوں سے منہ اوپر اٹھایا اور مجھے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کے قریب جا کر اسے مخاطب کرنے کے لیئے سلام کیا۔ توقعات کے برخلاف وہ اتنا پاگل نہیں تھا اور سلام کا جواب دینا جانتا تھا۔ اس کے منہ سے سلام کا جواب سن کر مجھے کچھ ڈھارس بندھی کہ غریب اتنا پاگل نہیں ہے اور شاید مجھے اس سے بات کرکے کچھ مقصد حاصل ہوجائے۔ میں نے گفتگو کو بڑھانے کے لیئے اس سے اس کا نام پوچھا جو اس نے خوش دلی سے بتا دیا۔ میں نے اسے اس کا نام لے کر مخاطب کیا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے۔آنے والے جواب کے لیئے میں ذہنی طور پر تیار تھا۔ اس نے کہا، میں پاگل نہیں ہوں۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تم پاگل نہیں ہو دوست! میں اس ہی لیئے تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ تم یہاں کیسے پہنچے؟ ہوسکتا ہے تمہاری کہانی سن کر میں تمہاری مدد کر سکوں۔

اس نے امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا، بھائی میں پاگل نہیں ہوں۔ پاگل یہ سب ہیں جو میری بات نہیں سمجھتے۔ نہ ابو، نہ بھائی، نہ دوست، نہ ڈاکٹر اور نہ پولیس والے۔ پولیس کا نام سن کر میری دلچسپی بڑھ گئی ۔ میں نے اس سے سے پوچھا کہ پولیس والوں کا اس کی بات سے کیا تعلق؟ اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا گویا میری کم علمی پر افسوس کر رہا ہو۔ پھر میری طرف جھک کر رازداری سے بولا، بھائی میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے! میں نے کہا، کیسی زیادتی؟ اس نے جھینپتے ہوئے نظریں جھکا لیں اور بولا، آپ اخبار میں نہیں پڑھتے کہ فلاں لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوگئی؟ میرے منہ سے بے ساختہ اوہ نکلی! وہ بیچارہ کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر یہاں پہنچا تھا۔ میں نے سوچ لیا کہ میں ضرور اس کی مدد کروں گا۔ میں نے اس سے تفصیلات جاننے کیلئے سوالات کا آغاز کر دیا۔ تو تمہاری ساتھ یہ زیادتی جس نے کی تم نے اس کو پکڑوایا کیوں نہیں؟ اس نے غصے میں آتے ہوئے کہا، میں ان پولیس والے کتوں کے پاس گیا تھا ان درندوں کو پکڑوانے مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی! جب میں نے بہت زیادہ چکر کاٹنے شروع کردیئے تو انہوں نے میرے گھر والوں  کو کہہ کر مجھے یہاں ڈلوا دیا۔ میں نے کہا، پولیس کا تمہارے ساتھ تعاون نہ کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر یہ تمہارے گھر والے کیوں تمہیں اس طرح یہاں چھوڑ جائیں گے؟ کیا جس نے زیادتی کی وہ بہت طاقتور لوگ ہیں؟ اس کی آنکھوں میں اب غصے کے ساتھ بے بسی بھی نظر آرہی تھی، اس نے کہا نہیں! تینوں کزنز ہیں! تمہارے اپنے کزنز؟ انہوں نے تمہارے ساتھ یہ کیا؟ سفاکی کی حد ہے! مجھے پورا واقعہ بتاؤ کہ کیا ہوا تھا۔  کیا تم گھر میں اکیلے تھے؟ ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے ہی بھائی کو نہ چھوڑا؟  اس نے کہا میں اس دن گھر میں اکیلا تھا۔ یہ بات آج سے سات سال پہلے کی ہے۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ کے قریب ہوگی۔ تو میں گھر میں اکیلا تھا جب میری  دونوں خالاؤں جو میری پھپھو بھی ہیں کی  تینوں بیٹیاں ہمارے گھر آئیں۔ وہ تینوں عمر میں مجھ سے بڑی اور غیر شادی شدہ تھیں۔ مجھے اکیلا پا کر انہوں نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔  مگر وہ کزنز کب آئے؟ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔ مجھے اس کی  خالہ و پھوپھی کی بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے کہا جی وہی تو بتا رہا ہوں کہ اس کے بعد ان تینوں نے مجھے باندھ دیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ کہہ کر وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔

میں نے اسے تسلی دے کر چپ کرایا اور پھر پوچھا کہ جب وہ بندھا ہوا تھا تب اس کے کزنز آگئے ہوں گے جنہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا؟ اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور بولا،  نہیں اس کے بعد تو گھر والے آئے تھے جنہوں نے مجھے کھول دیا تھا۔ تو زیادتی کب ہوئی؟   میں نے بے ساختہ پوچھا۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا ابھی تو بتایا کہ میری کزنز نے میری عزت لوٹ لی تھی۔ میں اب زچ ہونے لگا تھا، میں نے کہا مگر تم نے تو ایسا کچھ نہیں بتایا! تم نے تو بتایا کہ تمہاری کزنز نے تمہارا فائدہ اٹھایا مگر زیادتی والی بات تم گول کر گئے! ابھی کہتے ہو کہ کزنز نے عزت لوٹی اور پھر کہتے ہو وہ تو آئے ہی نہیں! اس نے میز پر سے اٹھ کر میرا گریبان پکڑا اور مجھے جھنجھوڑتے ہوئے چلانا شروع ہوگیا، میری عزت عورت نے لوٹی ہے! مجھ سے زیادتی   عورت نے کی ہے! میں جانتا ہوں تم مردوں کی دنیا میں یہ خبر ہوتی ہے سانحہ نہیں!  مگر جب ایک عورت کی عزت مرد  لوٹ سکتاہے تو مرد کی عزت عورت کیوں نہیں؟  سالے مرد کی عصمت ہوتی ہی نہیں کیا؟  جب تک بدفعلی کرنے والا مرد نہ ہو یہ بدفعلی ہی نہیں؟  تم ، ڈاکٹر ، پولیس، امی، خالہ، پھوپھا، ابو، سب کےسب پاگل ہو اور کوئی بھی عقلمند آدمی دکھ جائے تو اسے پاگل خانے میں ڈال دیتے ہو۔ وہ یہ کہتا جاتا تھا اور مجھے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتا جاتا تھاپاگل خانے کے عملے کی مدد سے میں نے بدقت تمام اپنا گریبان چھڑایا اور وہاں سے اٹھ آیا۔ پاگل سالا۔


صحیح کہتے ہیں، دعا مانگنے سے پہلے واقعی سوچ لینا چاہئے کہ اگر قبول ہوگئی تو کیا ہوگا۔  اور ہاں! پاگل، پاگل خانے کے باہر نہیں ، اندر ہی بستے ہیں!  

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت