تو جب نو
سو اٹھاسیویں شب آئی تو شہرزاد نے بدستور
کہانی کہنا شروع کی۔
قصہ
وقار عسکری و عفریت کا شکار
تو ہواں یوں
کہ کسی ملک میں ایک وقار عسکری نامی خلیفہ رہا کرتا تھا۔ یہ خلیفہ داستان گوکے
بیان کردہ خلفاء جیسا نہ تھا بلکہ محاورہ موجود کے مطابق خلیفہ تھا کہ ہر کام میں
اپنی خلافت جھاڑنے کا عادی تھا۔ خلقِ خدا اس سے تنگ تو نہ تھی مگر ہوتی بھی تو کس
مائی کے لال میں اتنا دم کے اس بات کا اظہار کرسکے؟ ویسے بھی خلیفہ بے پناہ صلاحیتوں
کا حامل انسان تھا۔ روایات کے مطابق اسے سحر و کلام پر مکمل دسترس تھی۔ مورخین نے
خلیفہ کے گزرنے کے اڑھائی سو سال بعد لکھا کہ جو شخص خلیفہ سے بٖغض رکھتا یا ان کی
شان میں کچھ گستاخی کرنے کا سوچتا بھی تو آپ اپنے سحر کے زور پر اسے ایسا غائب
کرتے تھے کہ قاضی القضاء کا نوٹس بھی اسے واپس نہیں لاسکتا تھا۔ واللہ اعلم
بالصواب۔
تو ایک روز
خلیفہ وقار عسکری کی طبیعت بہت اداس تھی اور وہ خودبخود گہرے خیالات میں الجھا ہوا
تھا کہ خواجہ سرانے عمرانہ کے آنے کی اطلاع کی۔خلیفہ نے سر کے اشارے
سے اجازت دے دی۔عمرانہ اندر آئی اور حسبِ
معمول سلام کیا لیکن وقار نے صرف گردن اٹھا کر سلام کا جواب دیا اور دوبارہ اپنی
سوچ میں بیڑہ غرق ہوگیا۔عمرانہ نے عرض کیا کہ آج نصیبِ نوازخلیفہ کی طبیعت کیسی ہے؟ خلیفہ نے ایک آہ سرد بھر کر کہا،
عمرانہ! بعض اوقات میرے خیالات کی رو ایسے دور دراز قصوں تک چلی جاتی ہے کہ پریشان
ہو جاتا ہوں۔یہ تخت، یہ ڈنڈا، یہ خلافت سب
ہیچ لگنے لگتا ہے۔اور میں دل برداشتہ ہوکر سوچنے لگتا ہوں کہ کہیں ایسی جگہ نکل
جاؤں جہاں روح کو سکون مل جائے۔ گو کہ مجھے خود بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ سکون کس
چیز سے حاصل ہوتا ہے مگر میں نے ملک تھائی لینڈ کے بارے میں بہت سنا ہے کہ وہاں جانے
سے بہت سکون ملتا ہے۔ خدا جانے ایسا کیا ماجرہ ہے وہاں؟ تم تو میری فطرت جانتے ہو
کہ میں ایسے معاملات میں سدا کا کورا ہوں۔ جائیں گے تو دیکھیں گے!
عمرانہ نے
کہا، یہ ہماری فطرت کا تقاضہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انسان بسا اوقات لامعلوم کی
تلاش میں ہوا کرتا ہے۔لیکن آج میں فلسفہ کی گفتگو کرنے کے بجائے یہ یاد دہانی
کرانے آئی ہوں کہ حضور نے آج لباس پہن کر ملک کراچی کا دورہ کرنے کا قصد کیا تھا
کہ وہاں پائی جانے والی عفریت کا خاتمہ کرسکیں۔ حضور کی یاد دہانی کیلئے یہ بھی
عرض کرتی چلوں کہ عفریت کے خاتمے کے بعد حضور نے ملک کی گورنری خادمہ کو سونپنے کا
بھی پیمان کر رکھا ہے جو اس عفریت کی موجودگی میں شہر پر گورنری کرنے سے قاصر ہے۔میرا
خیال ہے کہ اگر حضور چلے چلیں تو طبیعت مسرور ہوجائے گی کہ شہر ڈیفینس کے کینٹونمنٹ
کے علاقے زمزمہ میں ہمارے اپنے بہت سے
تھائی لینڈ موجود ہیں۔ خلیفہ نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو! چنانچہ اس ہی وقت مسرور ہوا
اور خواجہ سرا کو طلب کرکے لباس تبدیل کیا اور عفریت کے شکار پر روانہ ہوگیا۔
شہر کراچی میں
پہنچ کر خلیفہ کی نظر دور ایک مخلوق پر پڑی
جو خلیفہ کا قافلہ اور جاہ و جشم دیکھ کر بدک کر بھاگ اٹھی۔ خلیفہ کی زیرک
نگاہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور اس سے پہلے کہ وہ عفریت خلیفہ کے قافلے سے بچ کر
نکل جاتی، خلیفہ نے اپنا طمنچہ نکال کر گولی داغ دی۔ وہ کریہہ الشکل مخلوق ڈکراتی
ہوئی دور جھاڑیوں میں ہی ڈھیر ہوگئی۔ خلیفہ نے ایک خواجہ سرا کو بھیجا کہ جاکر
دیکھ کر آئے کہ جس مخلوق کا ہم نے ابھی شکار کیا ہے وہ کون سا جانور ہے۔ خواجہ سرا
گیا اور دو منٹ بعد دوڑتا ہوا واپس آگیا۔ آکر بولا، خلیفہ حضور! آپ نے جس جانور کا
ابھی شکار کیا ہے وہ اپنا نام فہیم بتا رہی ہے۔ مگر چونکہ گولی اس کی ران میں لگی
ہے اور غالبا اس کی ٹانگ کی ہڈی اڑا چکی ہے لہٰذا ناچیز کے خیال میں اس مخلوق کا
اب پورا نام، فہیم لنگڑا ہے۔
جس وقت شہرزاد
نے یہ کہانی ختم کی تو دنیا زاد اور بادشاہ دونوں نے خلیفہ کے انصاف، بہادری
اور پھرتی وغیرہ کی بہت داد دی اور قصد کیا کہ شہر میں بننے والی اگلی مسجد خلیفہ
کے نام پر بنائی جائے گی۔ شہرزاد نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیااور عرض کیا کہ کل میں
ایک اور کہانی سناؤں گی۔بادشاہ نے اس روز اس کے قتل کا حکم نہیں دیا کہ جانتا تھا
کہ بہت جلد خلیفہ کے چاہنے والے خود اسے پھڑکا دیں گے۔اور اگر نہ ماریں تو دیکھیں
گے کہ اگلی کہانی کیسی سناتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں