ہفتہ، 7 نومبر، 2015

گدھ

محبت میں دماغ استعمال کرنا تو عور ت کا خاصہ ہے۔ مرد تو حسن پرست ہوتا ہے۔ اسے تو صرف صورت درکار ہے۔ حمید مجھے اس دیوانگی سے کیسے چاہ سکتا ہے؟  دنیا کا کوئی بھی مرد میرے بارے میں اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے؟

 بے ترتیب بال، دھنسے ہوئے گال، ہونٹوں پر پپڑیاں، کمہلایا ہوا سانولا رنگ! آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی حمیدن بہت سالوں کے بعد اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہ تاثرات تھے  جیسے زندگی میں پہلی بار اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو۔

وہ ایک پچیس سالہ عورت اور پانچ بچوں کی ماں تھی۔ گو کہنے کو پچیس برس  زیادہ عمر نہیں ہوتی  مگر غریبوں کی جس بستی میں وہ رہتی تھی وہاں تیرہ چودہ سال کی عمر میں بیاہ کر رخصت ہونے والی لڑکیاں پچیس چھبیس سال میں ہی اپنی عمر جی چکی ہوتی تھیں اور بالعموم اپنی گیارہ بارہ سالہ لڑکی کی شادی کی فکر میں لگی ہوتی تھیں ۔ شاید یہی وجہ تھی کی اس کی تمام ہم عمر ساتھی آئینہ دیکھنے کے بجائے ہانڈی چولہا دیکھنے پر توجہ کرتی تھیں۔

خود اس کا ارادہ بھی بناؤ سنگھار کرنے کا نہیں تھا۔ وہ تو جس گھر میں کام کیا کرتی تھی وہاں سنگھار میز کو صاف کرتے ہوئے اس کی نظر شیشے پر پڑ گئی اور  وہ شیشے میں خود کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیئے رک گئی۔  پچھلے دس سال سے وہ اس گھر میں کام کر رہی تھی مگر کبھی شیشے کو دیکھ کر اس کے دل میں وہ سوالات نہیں آئے تھے جو آج اچانک سے اسے کاٹنے کو دوڑ رہے تھے۔  پیچھے سے بیگم صاحبہ کی چنگھاڑ کی آواز سن کر وہ اپنی محویت سے باہر آئی اور خود پر ایک تنقیدی نظر ڈالتی ہوئی صفائی کے لیئے آگے بڑھ گئی۔

پورا دن یہی خیال اسے ستاتا رہا ۔ حمید مجھے اس دیوانگی سے کیسے چاہ سکتا ہے؟  رات بچوں کے سونے کے بعد حمید اس کے پاس آیا تو آج اس نے مزاحمت نہیں کی۔ دن بھر کی تھکن کا افسانہ نہیں سنایا۔ چپ چاپ لیٹی رہی اور برداشت کرتی رہی۔ حمید نے اس تبدیلی کو محسوس کر لیا  اور رک کر تبدیلی کی وجہ پوچھ ڈالی۔ حمیدن نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا، حمیدے! تو باہر جاتا ہے۔ دنیا دیکھتا ہے۔ تیرا دل نہیں کرتا  کہ تیری بیوی گوری چٹی ، بھری بھری ہو؟ اس کی میری بیگم صاحبہ جیسی ریشمی زلفیں ہو؟  میں تو ایک لاش ہوں۔ مجھ میں تجھے کیا ملتا ہے؟  بلکہ میں  نے غور کیا ہے کہ اس بستی کی سب عورتیں لاشیں ہی تو ہیں! بس ان لاشوں کا معجزہ یہ ہے کہ یہ مسلسل بچے جننے میں مصروف ہیں؟ اس بستی کے مردوں کو ہم لاشوں میں کیا ملتا ہے؟

حمید نے ایک محبت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور بولا، تو سچ کہتی ہے حمیدن! اس بستی میں عورتیں نہیں لاشیں بستی ہیں۔ مگر تو یہ بھی تو دیکھ ناں کہ غربت نامی سامری نے اپنے جادو سے اس بستی کے عقابوں کو گدھ بنا دیا ہے! وہ گدھ جو خوشبودار اور خوشرنگ زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور مردار کھانے پر مطمئن ہو چکا ہے۔ جو اگر زندہ شکار پائے بھی تو اس کے مرنے کا انتظار کرتا ہے کہ اس کے مردار ہونے پر اس سے اپنی بھوک مٹا سکے۔ یہ کہہ کر حمید نے جواب کا انتظار کیئے بغیر دوبارہ اس کے جسم میں اپنی چونچ گاڑ دی اور بھنبھوڑنے میں مصروف ہوگیا۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت