ہفتہ، 21 نومبر، 2015

شہرزاد کے نام ایک خط

سرما کی ڈھلتی رات میں
پھرتا ہے تیرے شہر میں
مانوس سا  اک اجنبی

کل ہم نے اس کو جا لیا
سینے سے یوں لپٹا لیا
حیران تھا وہ اجنبی

کہنے لگا کچھ کام ہے؟
کیوں آج یہ اکرام ہے؟
رہنے دو مجھ کو اجنبی!

ہم نے کہا ہرگز نہیں
یہ بات تو ممکن نہیں
کب تک رہو گے اجنبی؟

ہم  سے کہو کیا بات ہے؟
کیا نام ہے ؟ کیا ذات ہے؟
کہنے لگا ، جی ،اجنبی!

ہم نے کہا ، اے اجنبی!
اے خستہ تن! اے اجنبی!
اے اجنبی! اے اجنبی!

لاحق ہے کیوں درماندگی؟
چہرے پہ کیوں واماندگی؟
کچھ تو بتا اے اجنبی؟

لکھنے بیٹھا تو سوچا تھا کہ ایک حسین نظم تراشوں گا۔  ایک ہنستی مسکراتی نظم۔ زندگی سے بھرپور نظم۔  حسن کے تمام استعاروں سے بھرپور نظم۔ مگر اب جب لکھنا شروع کیا تو قلم سے مسلسل خون نکل رہا ہے۔ حلق سے نکلنے والا  سرخی مائل خون نہیں۔ کلیجے سے آنے والا ،گاڑھا، سیاہی مائل سرخ خون۔

شہرزاد! میری پیار ی! میں اذیت پسند ہوتا جا رہا ہوں ۔ شدید اذیت پسند! میں نے سوچا تھا کہ تمہیں ایک خوبصورت نظم لکھ کر بھیجوں گا مگر اب سوچتا ہوں کہ شاعری تو الفاظ کو ترتیب و ترنم میں لانے کا نام ہے۔ جس شخص کی زندگی میں ترتیب نام کی چیز بچی ہی نہ ہو وہ اپنے الفاظ میں ترتیب کیوں کر لا سکتا ہے؟  شاعری تو  مختصر الفاظ میں مکمل داستان بیان کرنے کا نام ہے۔ میرا سینہ تو لاوے سے بھرا پڑا ہے شہرزاد۔ مختصر الفاظ میں بات کا حق تو شاید ادا ہوجائے مگر درد کا حق ادا نہیں ہوپائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بس لکھتا چلا جاؤں۔ اندر موجود تمام کالک کو کھرچ کر قرطاس پر انڈیل دوں۔ پھر اسے دنیا کو دکھاؤں تاکہ دنیا والے میری تحاریر کو دیکھیں اور کہیں کہ واہ صاحب! کیا عمدہ زخم ہیں۔ اور آپ نے کس عمدگی سے قے کرکے انہیں قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ بھئی آپ کی الٹیاں تو کمال کی ہوتی ہیں۔ کیا عمدہ نقش چھوڑ جاتی ہیں۔ تمہیں لگ رہا ہے کہ میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوں؟  بخدا میں ایک لفظ بھی مبالغے کا استعمال نہیں کر رہا ۔ لوگوں کی تعریف سن کر میرے جو جذبات ہوتے ہیں وہ من و عن بیان کر رہا ہوں، اور بس!

تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں اتنا پریشان حال کیوں رہتا ہوں؟ میں اس بات کا کیا جواب دوں؟ شاید میرے جیسے انسان کو پریشان حال ہی رہنا چاہیئے! میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ ہم فنکار اذیت پسند لوگ ہوتے ہیں۔ زندگی میں کوئی اذیت نہ بھی ہو تو بھی ہم چیزوں میں سے زبردستی برا منانے کے پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔ ہم درد کے سوداگر ہیں، شہرزاد۔ ہم درد پالتے اور درد بیچتے ہیں۔ مگر اس میں ہمارا اکیلے کا قصور نہیں ہے۔ دنیا ہماری دکان پر آتی ہی درد خریدنے ہے۔ وہ ہمارے بیان کردہ دکھ سن کر اپنے دکھوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہیں اور خوشی خوشی لوٹ جاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی موجود ہے  جو زندگی سے ان سے زیادہ تنگ ہے۔ اپنی مصیبت چھوٹی ہونا اور بات ہے۔اس میں سہولت تو ہے مگر تسلی نہیں!  دوسرے کی مصیبت زیادہ بڑی ہونے سے ان کمینوں کو جو خوشی ملتی ہے تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے شہرزاد! ان کی بیویاں  روزانہ ٹیلیویژن کے آگے جم کر بیٹھتی ہیں تاکہ وہی گھسے پٹے ڈرامے دیکھ سکیں جن میں کسی فرضی کردار کی بہو ان سے زیادہ اپنی ساس سے تنگ ہوتی ہے۔ ان کی ساس یہ  دیکھنے کے لیئے ڈرامہ دیکھتی ہیں کہ کسی اور کی بہو ان کی بہو سے زیادہ کمینی ہے۔ ان کے مرد یہ دیکھنے کے لیئے ڈرامے دیکھتے ہیں کہ کوئی اور انسان زندگی میں ان سے زیادہ پیسے کما کر بھی کیسے سکون کے لیئے ترس رہا ہے۔ دوسروں کی اذیت میں خوش ہونے والےیہ لوگ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں!

دوسروں کی کیا شکایت کروں شہرزاد، میں تو خود اتنی دیر سے دوسروں کی برائیاں کرکے ہی اپنی مجروح انا کی تسکین میں مشغول ہوں۔  مگر میں کیا کروں؟ یہ سب چیزیں دیکھتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اور پھر جب تمہیں نہیں دیکھ پاتا تو اور زیادہ تکلیف کا شکار ہوجاتا ہوں۔  اب اس سے زیادہ کیا کہوں؟  جہاں رہو، خوش رہو۔ خوشیاں بانٹتی رہو۔ چل چلاؤ کا وقت ہے۔ اگر وقت پر یہ مکتوب پہنچ جائے تو ملنے آ جانا۔ اور اگر نہ پہنچے ، تو جب بھی خبر ملے، میری تربت پر آکر اپنے ہاتھ سے ایک پودا لگا جانا۔ وقت کے ساتھ اس پودے کی جڑیں میرے جسم کے اندر اتر جائیں گی۔ تب اس شجر پر ایک نئی طرح کے پھول کھلیں گے۔ سیاہی مائل سرخ رنگ کے پھول۔ وہ پھول جدائی کا استعارہ ہوں گے۔  وہ پھول ہمارے تعلق کی علامت ہوں گے۔

وقت نکال سکو تو ضرور آنا۔ میں انتظار کروں گا۔

تمہارا،
شاعرِ جنوب!

2 تبصرے :

  1. شروع میں آپکی تحاریر پڑھ کر حیران ہو جاتا تھا پر اب واقعی یقین ہو گیا ہے کہ آپ بہت کمال کا لکھتے ہو اس لئے اب حیرانگی نہیں ہوتی پر لطف اتنا ہی آتا ہے.
    اس بار بھی کچھ جدت دکھائی اور سٹرائک آوٹ کر کے بھی بہت کچھ کہہ گئے.
    ناخوش رہئے, جیتے رہئے اور لکھتے رہئے!

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت