منگل، 17 نومبر، 2015

اوہ بھینس!

چھوٹے چوہدری کی پوری توجہ اس وقت پڑھائی سے زیادہ کمرے سے اٹھنے والی ان چیخوں پر تھی جو اس کی ماں دردِ زہ کی وجہ سے نکال رہی تھی۔ صحن میں تخت پر بیٹھ کر پڑھتے ہوئے اس کی نظریں کتاب سے زیادہ اس بند دروازے پر تھیں جس کے پیچھے اس کی ماں  تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔ تنزیلہ نے اس کی کیفیت کو بھانپ لیا اور کتاب بند کرکے اسے باتوں میں مشغول کرنے لگی۔  اس نے پانچ سالہ ارحم کے بال سہلاتے ہوئے اس سے پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتا ہے؟ سوال سن کر ارحم کی معصوم آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی اور اس نے بڑے وثوق سے جواب دیا کہ وہ بڑا   ہو کر ابا بنے گا۔ تنزیلہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس نے  محبت سے پانچ سالہ ارحم کا کان کھینچتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چوہدری صاحب! کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، کوئی پائلٹ بننا چاہتا ہے، کسی کو فوج میں جانے کا شوق ہوتا ہے مگر آپ تو سب سے نرالے نکلے! آپ بڑے ہوکر ابا کیوں بننا چاہتے ہیں؟ ارحم نے ترنت جواب دیا کہ چونکہ ابا گاؤں کا سب سے بڑا آدمی  ہوتاہے! میرا ابا جہاں کہیں جاتا ہے سب اس سے کھڑے ہوکر ملتے ہیں۔ جھک کر سلام کرتے ہیں۔ وہ کرسی پر بیٹھے تو باقی سب زمین پر بیٹھتے ہیں۔ کوئی اس کے برابر میں بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ کہہ کر وہ سانس لینے کے لیئے رکا اور پھر تنزیلہ کی طرف دیکھ کر اشتیاق سے پوچھا، استانی جی آپ بڑی ہو کر کیا بنیں گی؟ اس سے پہلے کہ تنزیلہ کوئی جواب دیتی، گلی میں سے ڈھول کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور ارحم گفتگو کو چھوڑ کر دروازے کی طرف لپک گیا۔ جتنی دیر میں تنزیلہ اس تک پہنچتی، ڈھول کی آوازیں گھر کے دروازے تک پہنچ چکی تھیں اور گھر کا دروازہ کھول کر بڑے چوہدری صاحب اندر داخل ہورہے تھے۔ تنزیلہ نے انہیں دیکھ کر جلدی سے دوپٹہ درست کیا اور ارحم کو بازو سے پکڑ کر دوبارہ تخت کی طرف چل پڑی۔ چوہدری صاحب نے پیچھے دروازہ بند کیا اور اسے آواز دیتے ہوئے بولے، استانی جی! پڑھائی ہوتی رہے گی۔ یہ لو ، خود بھی منہ میٹھا کرو اور میرے شیر کو بھی کھلاؤ۔ تنزیلہ نے پلٹ کر دیکھا تو چوہدری صاحب کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔  مٹھائی اس کی بچپن کی کمزوری تھی! اس نے لپک کر مٹھائی کا ڈبہ چوہدری صاحب کے ہاتھ سے لیا اور ایک گلاب جامن منہ میں رکھتے ہوئے بولی، چوہدری صاحب! مبارکی ہو! خیر سے کس بات کی مٹھائی ہے؟  چوہدری صاحب  گویا اس ہی سوال کے انتظار میں تھے سو فورا ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنا شروع ہوگئے کہ کس طرح ان کی بھینس نے اس سال بھی ایک مادہ کو جنم دیا ہے اور کس طرح ان کے ازلی دشمن چوہدری بشیر کے ہاں لگاتار تیسری مرتبہ نر بھینسا پیدا ہوا ہے! چوہدری صاحب تو شاید اپنی بھینس کے قصیدے پوری شام سنانے کی تیاری سے تھے مگر کمرے سے اٹھنے والی کسی نومولود کے رونے کی آواز نے ان کے قصے میں خلل ڈال دیا  اور وہ کمرے کی طرف لپک گئے۔ ابھی وہ کمرے کے دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ دروازہ کھل گیا اور اندر سے ایک سہمی ہوئی دائی برآمد ہوئی جس نے ہاتھ میں  تولیے میں لپٹا ایک ننھا فرشتہ اٹھا رکھا تھا۔ چوہدری صاحب نے آگے بڑھ کر بچے کو اس کی گود سے لے لیا۔ شکل صورت دیکھنے کے لیئے ساری عمر پڑی تھی اس لیئے پہلے انہوں نے بچے کا تولیہ کھولا اور کچھ دیر کے لیئے سکتے میں آگئے۔ چوہدری صاحب کی اس خاموشی نے ماحول پر موت کا سا سناٹا مسلط کر دیا تھا۔ اور جب یہ سناٹا ٹوٹا تو سمجھو طوفان ہی آگیا۔ چوہدری صاحب نے پہلے تو بچے کو اٹھا کر دائی کی طرف پھینک دیا جسے اس نے معجزاتی طور پر گرنے سے پہلے ہی سنبھال لیا۔ اپنی گود سے گندگی دور کرنے کے بعد چوہدری صاحب کی زبان سے مغلظات کا ایک سیلاب جاری ہوگیا۔ نحشی! کرم جلی! مردود! آج کے بعد اگر تو نے اس گھر میں عورت ذات کو جنم دیا تو سن لے! تجھے طلاق، طلاق، طلاق! چوہدری صاحب یہ کہہ کر پاؤں پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے!

چوہدری صاحب کے جانے کے بعد فضا میں طوفان کے بعد کی سی خاموشی پھیل گئی۔ گویا گھر میں کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو! ننھا ارحم، تنزیلہ کا ہاتھ چھڑا کر کمرے کی طرف بڑھا اور عین اس جگہ جہاں اس کا باپ تھوڑی دیر پہلے کھڑا تھا وہیں باپ کے سے انداز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ پہلے تو اس نے ادھر ادھر دیکھ کر صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر اپنے ننھے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر چیخا،   نحشی! کرم جلی! مردود! آج کے بعد اگر تو نے اس گھر میں عورت ذات کو جنم دیا تو سن لے! تجھے طلاق، طلاق، طلاق! یہ کہہ کر وہ بعینہہ باپ کی طرح پائوں پٹختا ہوا آیا اور استانی کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔ تنزیلہ  کے پیروں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا وہ تخت پر بیٹھ گئی تھی۔ ارحم نے  ایک مرتبہ پھر اس پر سوالیہ نظر کی کہ شاید اس کی اپنے آئیڈیل کی اتنی اچھی نقل کرنے پر استانی  شاباش دیں گی مگر جب استانی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو وہ مایوس سا ہوگیا۔ ادھر تنزیلہ کے دماغ میں مسلسل زلزلے آرہے تھے۔ اگلے ماہ خود اس کی بھی شادی طے تھی۔ وہ اس شادی اور اس کے نتیجے میں کبھی نہ کبھی ہونے والے بچے  کی خوفناک سوچ میں ہی غلطاں تھی کہ اسے لگا سچ مچ زلزلہ آگیا ہے۔ خیالات کی دنیا سے باہر آکر اس نے دیکھا تو ارحم اس کا بازو جھنجھوڑ کر اس سے پوچھ رہا تھا کہ استانی جی ! آپ نے بتایا نہیں آپ بڑی ہوکر کیا بنیں گی؟  تنزیلہ کو لگتا تھا کہ اس کو خدا نے کمال ضبط سے نوازا ہے مگر خدا جانے کیسے ایک آنسو اس کی آنکھ کی بندش توڑ کر اس کے رخسار پر آگیا۔ اس نے ہاتھ سے گال رگڑ کر چہرا صاف کیا اور صرف اتنا کہہ پائی، کاش میں بڑی ہوکر بھینس بن جاؤں!

(دسمبر دو ہزار تیرہ کی ایک تحریر جو اس سے پہلے کبھی چھاپنے کی ہمت نہیں ہوئی!)

5 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت