جمعہ، 13 نومبر، 2015

داستان الف لیلہ - قصہ سلیپنگ بیوٹی اور چمی باز شہزادے کا

تو جب چھ سو پانچویں شب آئی تو شہرزاد نے بدستور کہانی کہنا شروع کی۔

قصہ سلیپنگ بیوٹی اور چمی باز شہزادے کا
تو ہوا یوں کہ کسی ملک میں ایک نہایت عادل و رعایا پرور بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا۔ چونکہ بادشاہ نے مورخ  کو ایسا ہی لکھوایا تھا  اورویسے بھی بادشاہ بھلے وردی میں ہو یا عمامے میں، اس کی تعریف کرنا فرض عین ہوتا ہے لہٰذا بادشاہ  کے کردار پر بحث کرنے کے بجائے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔  تو  جیسا کہ داستان میں بیان ہوتا ہے کہ بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہت پیروں فقیروں، حکیم ویدوں کو دکھانے پر بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ بادشاہ کی بہنوں نے بادشاہ کو دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا مگر بادشاہ کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جہاں مرغی اذان دیتی ہے لہٰذا بادشاہ بسیار کوشش کے باوجود دوسری شادی کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اولاد نہ ہونے کے غم میں اس کی زندگی بسر ہو رہی تھی  اور اب وہ اکثر اداس رہنے لگا تھا۔ بادشاہ کا وزیرِ خاص اس سب کاروائی کو دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کے لیئے پریشان تھا۔ ایک دن دربار کی کاروائی سے فارغ ہونے کے بعد اس نے بادشاہ سے دست بستہ گزارش کی کہ اگر برا نہ مانیں تو ایک کونے میں تشریف لا کر خاکسار کی  ایک عرض سن لیں؟ بادشاہ وزیر کی بات سن کر سخت کھسیانہ ہوگیا اور اسے سمجھایا کہ وہ بادشاہ ہے، نواب نہیں۔ جو بات کرنی ہے یہیں کی جائے! وزیر  باتدبیر اپنی حرکت پر نادم ہوا اور جان گیا کہ اب بادشاہ سلامت سدھر گئے ہیں۔ اس نے خدا سے بھی فی الفور توبہ کی  اور بادشاہ سے بھی معافی کا خواستگوار ہوا۔ معافی تلافی سے فراغت کے بعد اس زیرک وزیر نے بادشاہ کو صلاح دی کہ حکیم، وید، ڈاکٹر، پیر، فقیر وغیرہم کو دکھانے کے علاوہ اگر ہوسکے تو ملکہ معظم کے ساتھ تین چار دن تک وہ بھی کر کے دیکھیں جو اتنے عرصے سے رعایا کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ خدا بہتر کرے گا۔ بادشاہ نے وزیر کی بات ناڑے سے باندھ لی اور خدا کے حکم سے کچھ ہی دن میں ملکہ بیگم کا پیر بھاری ہوگیا اور معینہ مدت کے بعد بادشاہ کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی نے جنم لیا۔

بیٹی کی پیدائش پر بادشاہ شدید  چھچھورا ہوگیا اور اس نے پورے ملک سے چندے کی اپیل کر دی تاکہ شہزادی کے اعزاز میں ایک عظیم الشان دعوت منعقد کی جا سکے۔  لوگوں نے بادشاہ کی اپیل پر کھل کر لبیک کہا اور کال کرنے کا بہانہ کرکے اپنے دوستوں کے موبائل سے بیس بیس روپے چندے والے خوب میسج بھیجے۔  جب خوب ساری رقم جمع ہوگئی تو بادشاہ نے اس  جمع شدہ رقم کے آدھے پیسوں  سے ٹیلیویژن پر اشتہار چلوا دیا تاکہ مزید لوگ اس نیک کام میں شامل ہوسکیں۔   مملکت کے لوگ کافی خدا ترس تھے اور زکٰوۃ ، صدقات نکالنے کے لیئے ویسے بھی بھکاریوں کو ڈھونڈتے ہی رہتے تھے لہٰذا انہوں نے  کروڑوں روپے کے ٹیلیویژن اشتہارات  دیکھ کر ایک بار پھر اس مہم میں بھرپور حصہ لیا اور ٹیلیویژن کے اشتہارات پر خرچ ہوئے کروڑوں روپے محض چھ ماہ میں دوبارہ جمع کر دیئے۔ بادشاہ اس جذبہ ایثار کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور  بہت جلد دعوت ِ عام  کرنے کا اعلان کردیا۔

جیسا  کہ پہلے بیان ہوچکا تھا کہ رعایا بہت اچھی تھی لہٰذا اس نے بادشاہ کی مزید انتظار کرنے والی بات خوش دلی سے قبول کرلی مگر مملکت میں رہنے والی ایک پری نما چڑیل کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔ وہ اڑ کر بادشاہ کے محل میں پہنچی اور شہزادی کے قریب  کھڑے بادشاہ و ملکہ دونوں کو جا لیا۔  چڑیل  نے بادشاہ کو  اول تو چند مغلظات سنائیں اور پھر شہزادی کو بد دعا دیتے ہوئے اڑ گئی کہ یہ پندرہ سال کی عمر میں مر جائے گی۔ چڑیل کی بد دعا سن کر ملکہ بہت پریشان ہوئی مگر پھر بادشاہ نے سمجھایا کہ یہ غریب کی بچی نہیں ہے جو بے موت ماری جائے یا کسی ناگہانی کا شکار ہو۔ بادشاہوں کے بچوں کا نہ ریپ ہوتا ہے نہ وہ زلزلوں میں مارے جاتے ہیں۔ حد تو  حد یہ کہ یہ کسی غریبوں والی بیماری میں بھی نہیں مرتے! بادشاہ کی منطقی اور مارکسی گفتگو سن کر ملکہ کی کچھ جان میں جان آئی مگر پھر بھی دل میں ایک گرہ سی رہ  گئی اور وہ شہزادی کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرنے لگی۔ اسے ایک منار میں چھپا دیا گیا اور اس کی دائی کے علاوہ تمام انسانوں کے اس سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی۔

کہتے ہیں کہ ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا سو وہی ہوا جو بادشاہ اور اس چڑیل نے کہا تھا۔ چڑیل کے کہنے پر وہ مر سی گئی مگر جیسا بادشاہ نے کہا تھا سو وہ مر کر بھی نہیں مری۔ حضور شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ میں  کسی مشہور سیاسی لیڈر کا بیان کر رہی ہوں جو بیچارہ آج تک چین سے مر بھی نہیں پایا اور اپنے متوالوں سے منتیں کرتے تھک چکا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے چین سے مرنے دو مگر وہ مصر ہیں کہ نہیں بھائی تُو زندہ ہے! یہ سب تو آنے والے وقتوں کے فسانے ہیں، اس وقت ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس وقت تو بس اتنا سا معاملہ تھا کہ شہزادی اور شہزادی کے ساتھ پورا ملک ایک گہری نیند میں ڈوب گیا تھا۔

پتہ نہیں کتنے سال اس ہی نیند کے عالم میں گزر گئے۔ شہزادی  گو نیند کے عالم میں تھی مگر اس کا دماغ  اس نیند کے عالم میں بھی جاگ رہا تھا اور  اسے نت نئے خواب دکھاتا  رہتا تھا۔ وہ سوچتی تھی کہ یہ کیا زندگی ہے؟ میرا  باپ کہتا ہے کہ میں شہزادی ہوں جبکہ درحقیقت میں اتنی غلام ہوں کہ اپنی مرضی سے اس بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتی!  کیا دنیا میں کوئی ایسی بھی لڑکی ہو گی جو کہنے کو خودمختار ہو اور درحقیقت میری طرح پابند ہو؟ پھر وہ سوچتی کے کبھی تو کوئی ایسا آئے گا جو مجھے اس نیند سے جگا دے گا! مجھے  واقعی وہ شہزادی بنا دے گا جو میں دراصل ہوں! پھر میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکوں گی! پھر مجھے اس طرح سونا نہیں پڑے گا! مجھے اس نیند سے چڑ ہے! کب آئے گا کوئی ؟ وہ دن بھر یہی سوچوں بھرے خواب دیکھتی رہتی اور اپنی قسمت پر کڑھتی رہتی۔

کہتے ہیں کہ خدا سب کی سنتا ہے۔ کسی ملک کا ایک شہزادہ جو اپنی ٹھرک کے لیئے مشہور تھا  ایک دن نئے مال کی تلاش میں اس ملک تک پہنچ گیا۔ یہاں شہر اور بازار سب ویران تھے کہ لوگ عالمِ خواب میں تھے۔ وہ اس بستی کی ویرانی پر تعجب کرتا ہوا بادشاہ کے محل تک پہنچا اور سستانے کی نیت سے محل میں داخل ہوگیا۔ محل میں اس کی نظر شہزادی پر پڑی جو اپنے کمرے کے فرش پر پڑی سو رہی تھی۔ شہزادے کو اس خوبصورت شہزادی پر بہت ٹھرک آئی جسے اس کے بادشاہ بننے کے بعد مورخین نے تصحیح کر کے پیار سے منسوب کردیا۔ تو جیسا کے داستان میں ہوتا آیا ہے، شہزادے نے شہزادی کو ایک طویل بوسہ دیا۔ اس کا ارادہ تو مکمل کاروائی کا تھا مگر اس کے منہ سے اٹھنے والی تمباکو کی بو سے شہزادی کو ابکائی آگئی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

شہزادی کے جاگنے کی دیر تھی کہ پورا محل  اور پورا شہر جاگ اٹھا۔ بادشاہ ملکہ دوڑتے ہوئے شہزادی کے کمرے میں پہنچے تو دیکھا کہ شہزادی ایک اجنبی کے ساتھ قابل دست اندازی پولیس قسم کی حالت میں تھی۔پہلے تو بادشاہ کو شدید غصہ آیا مگر پھر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ دست درازی کی کوشش کرنے والا، ان سے بھی بڑی ایک سلطنت کا ولی عہد ہے تو انہوں نے شریف مردوں کی طرح نکاح کی شرط لگا  کر مزید چھیڑ چھاڑ کی اجازت  دے دی۔اگلے ہی دن دھوم دھام  سے دونوں کا نکاح ہوگیا اور ایک طویل نیند سے جاگنے کی قیمت کے طور پر ،  وہ شہزادی جو ماں باپ کے حکم سے کسی مرد کو دیکھتی تک نہیں تھی، والدین کی خواہش پر ، خیر سے روزانہ ایک اجنبی کے ساتھ سونے لگی۔  خدا نے جیسے اس کے دن پھیرے، ویسے سب کے پھیرے!


جس وقت شہرزاد نے یہ کہانی ختم کی تو دنیا زاد اور بادشاہ دونوں  کی آنکھوں میں نیند کی شدت سے پانی آ چکا تھا ۔ بادشاہ کا دل تو کیا کہ اس آدھ ٹکے کہانی اور دنیا زاد کو حقیقی زندگی کا ٹیکا لگانے کی اس کوشش پر شہزادی کی گردن فی الفور اتار دے مگر پھر اس نے سزا کی اذیت بڑھانے کے لیئے شہرزاد کو رات بھر جدید اردو شاعری پڑھنے  اور اس میں جسمانی اعضاء کی تشریحات کے علاوہ کوئی مطلب ڈھونڈنے جیسے کام پر مامور کردیا۔ ایک دن کی مہلت مزید ملنے اور سزا کی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شہرزاد نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیااور عرض کیا کہ کل میں ایک اور کہانی سناؤں گی۔بادشاہ نے  سوچا کہ اگر اس نے دوبارہ کوشش کی تو میں اس کی گردن مار دوں گا۔ اب دیکھیں کہ شہرزاد دوبارہ کوشش کر کے زندہ بچ پاتی ہے یا نہیں اور اگر بچی تو دیکھیں گے کہ اگلی کہانی کیسی سناتی ہے۔

6 تبصرے :

  1. آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں بھائی ؟ :-)

    جواب دیںحذف کریں
  2. کیا بات ہے. ..اعلٰی
    قابل دست اندازی... واہ
    اگر پولیس آلات برآمدگی سامانِ مسروقہ استعمال کرتی تو تباکو بھی مل جاتا.. واہ واہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت خوب جناب
    آپ کا طرزِ تحریر قابلِ رشک ہے !!

    جواب دیںحذف کریں
  5. کہاں سے کہاں ملاتے ہیں بات کو.... کمال کرتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت