منگل، 15 ستمبر، 2015

ادیب - 2

ڈیئر مشہور و معروف ادیب،

بھائی یار یہ کیا چیز بھجوائی ہے آپ نے ؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ جیسا اتنا مشہور ادیب کیسے ایسی کہانیاں لکھ سکتا ہے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ ہو؟ بھلا بتاؤ کون سی دنیا میں عورت مرد پر ہاتھ اٹھاتی ہے اور وہ خاموشی سے برداشت کرتا ہے کیونکہ اس کی تربیت وغیرہ ایسی نہیں ہوتی کہ وہ جواب میں عورت پر ہاتھ اٹھا سکے؟ کمال کرتے ہیں یار آپ بھی! اور آپ نے یہ کہاں سنا ہے کہ عورت کسی مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلق رکھ سکتی ہے؟ حضرت یہ پاکستانی معاشرہ ہے اور آپ پاکستانی ٹیلیویژن کیلئے لکھ رہے ہیں! تصور تو کریں اگر یہ چیزیں میڈیا پر دکھائی جانے لگیں تو معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور اگر دکھانا ہی ہے تو حقیقت دکھائیے کہ کس طرح لڑکی کا آشنا اس معصوم کو بہلا پھسلا کر اپنے شوہر کو قتل کرنے پر آمادہ کرتا ہے کیونکہ بات پھر وہی ہے کہ پاکستانی عورت نکاح کے بندھن سے آزاد ہوئے بغیر کسی اور مرد کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نعوذباللہ سوچ بھی نہیں سکتی۔

میں شاید جذباتی ہورہا ہوں مگر بھائی آپ ماشاءاللہ ایک نامور ادیب ہو۔  آپ کو یوں برباد ہوتے دیکھ کر دکھ ہورہا ہے۔ کیوں اپنے نام پر بٹہ لگانے پر تلے ہوئے ہو؟ سیدھی سیدھی کہانیاں لکھا کرو جیسے سب لکھتے ہیں۔ میں آپکی سہولت کیلئے چند بنیادی چیزیں دوبارہ یاد کرا دیتا ہوں۔ کہانی کا مرکزی کردار ہمیشہ عورت ہونی چاہئے۔ یہ بات بتانے کی ضرورت تو نہیں مگر احتیاطا بتا رہا ہوں کہ عورت مظلوم ہوتی ہے سو ڈرامے میں بھی اس پر جتنے مظالم ہوں گے کہانی حقیقت سے اتنی ہی قریب معلوم ہوگی۔ بحیثیت ایک ادیب آپ پر یہ ذمہ داری ہے کہ آپ ڈرامہ دیکھنے والی خواتین کو یہ احساس دلائیں کہ صرف وہی نہیں ہیں جن کی زندگیاں شادی کے بعد برباد ہوگئی ہیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ اپنے سے زیادہ مظلوم کو دیکھ کر ہمیں فطری طور پر صبر آجاتا ہے۔ بحیثیت ڈرامہ نگار یہ قوم کی عورتوں کا آپ پر قرض ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیئے اور کہانی دوبارہ لکھیئے۔

خط کے اختتام پر میں آپ کی توجہ ایک اہم  مسئلے کی طرف بھی دلانا چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان پڑوسی ملک کی فلموں کی وجہ سے دین سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے کہنے پر آپ نے اس چیز کا سدباب کرنے کی کوشش کی تھی مگر آپ کا یہ نامعقول تصور کہ ایک سائنسدان مسلمان بھی ہوسکتا ہے  ایک عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ کہانی کے کردار کو تھوڑا تبدیل کریں اور مسلمان کو سائنسدان دکھائیں تاکہ لوگوں میں اسلام کا بہتر تصور پیدا ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ دونوں کے مابین فرق سمجھ گئے ہوں گے۔

امید ہے کہ آپ اصلاح کے بعد کہانی جلد ہی دوبارہ بھجوادیں گے تاکہ کاسٹنگ مکمل کرکے ہم شوٹ اسٹارٹ کرسکیں۔

والسلام
مشہور پروڈیوسر


ابے او ابنِ ابو جہل

خدا کی لعنت ہو اس منحوس گھڑی پر جس شب تیرے والدین نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم تھوڑی دیر بعد سوئیں گے۔ کاش وہ اس دن واقعی سوجاتے اور دنیا میں ایک اور کم  فہم، کم ظرف، بسیار سخن، ناہنجار نہ پیدا ہوا ہوتا۔ تو جانتا بھی ہے کہ تو حقیقی دنیا کے نام پر کس تخیلاتی جہنم میں جی رہا ہے؟ تیری ماں تجھ پر روئے تو نے معاشرے کے مسائل کا نہ خود ادراک کیا نہ کسی اور کو ہونے دیا۔ مجھ اور مجھ ایسے کسی بھی کہانی نویس نے جب جب معاشرے کے بھیانک چہرے سے نقاب اتارنی چاہی، تیرا خود ساختہ شوقِ عظمت اس کے آڑے آگیا۔ ارے میرے نہ لکھنے سے کیا معاشرے کی یہ بھیانک سچائیاں چھپ جائیں گی؟ میں مانتا ہوں کہ میں اس نیم عریاں معاشرے کے بدن پر لٹکتے چیتھڑے بھی نوچ دینا چاہتا ہوں مگر تو خود بتا کہ اس نیم برہنگی میں بھی کون سا ستر باقی ہے؟ تیرا حال اس کوٹھے کی عورت کا سا ہے جو مجبوری نہیں بلکہ شوق میں دھندا کرتی ہے۔ جسم پر لباس کے نام پر ایک چیتھڑا نہیں ہوتا مگر سر پر دوپٹہ اس سلیقے سے جماتی ہے کہ حرام ہے ایک بال بھی دکھ جائے۔ جب کوئی گاہک تیری برہنگی پر تجھے ٹوکتا ہے تو تو الٹا اس گاہک کو لتاڑتی ہے کہ جسے سر کا دوپٹہ تو نہ دکھا البتہ جسم کی برہنگی دکھ گئی۔ لعنت ہے تجھ پر اور تیری سوچ پر۔ تجھے لگتا ہے کہ تیرے دیئے گئے چند روپوں کہ جن سے میرے گھر کا چولہا جلتا ہے، کی وجہ سے میں سچ لکھنا چھوڑ دوں گا تو یہ تیری خام خیالی ہے۔ تیرا روپیہ تجھے مبارک مگر میں تیری وجہ سے اپنے قلم کی حرمت کو قربان نہیں کرسکتا۔ میں چند روپیوں کی وجہ سے سچ لکھنا نہیں چھوڑ سکتا۔ کہانی کسی اور سے لکھوا لے مگر مجھ سے سچ لکھنے کا حق نہ چھین۔

والسلام
چوتیا۔


محترم جناب مشہور پروڈیوسر

آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ فدوی اپنی نادانی پر شرمندہ ہے۔ ترمیم شدہ مسودہ انشاءاللہ پرسوں کی ڈاک سے آپ کو موصول ہوجائے گا۔ امید ہے حسب سابق اس مرتبہ کہانی کا معاوضہ ارسال کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے کہ خاکسار کا ہاتھ تھوڑا تنگ ہے اور بھوک کے عالم میں شاعری تو کی جاسکتی ہے مگر کہانی نہیں لکھی جاسکتی۔

مخلص


مشہور و معروف ادیب

8 تبصرے :

  1. عاطف،
    بہت منفرد تکنیک۔ مزا آ گیا۔ لکھتے تو آپ خوب ہیں ہی، کامیاب تجربے پر بہت سی مبارکباد وصول کریں
    رفیع

    جواب دیںحذف کریں
  2. منٹو آج کے دور میں نئی جدت کے ساتھ، پیغام ٹکا کر مارا ہے، جیتے رہئے،

    جواب دیںحذف کریں
  3. منٹو آج کے دور میں نئی جدت کے ساتھ، پیغام ٹکا کر مارا ہے، جیتے رہئے،

    جواب دیںحذف کریں
  4. شعوری اور لاشعوری سوچ میں فرق واضح ہو گیا :پ

    کمال لکھا جناب

    جواب دیںحذف کریں
  5. یہ منٹو نہیں عاطف لکھ رہا ہے۔ کیا تکنیک استعمال کی ہے۔۔۔ بہت ہی عمدہ۔۔۔۔مزید ایسی تحریریں لیکن وقفے کے بعد تاکہ تشنگی رہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. we dont tend to see what you are trying to make us.wonderful effort indeed.

    جواب دیںحذف کریں
  7. Great indeed with exclusion of one word. Remember why manto used the word choohli and not chaddi.

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت