انسان کی زندگی اس کے رزق سے متصل ہے۔ آپ زمین کے اوپر تب ہی تک ہیں کہ جب تک آپ کا رزق لکھا ہوا ہے۔ اور رزق کا تصور محض خوراک تک محدود کردینا بھی ناشکری ہی کی ایک قسم ہے کہ جس میں انسان دیگر عطاکردہ چیزوں کی شکرگزاری سے بچنے کے لئے رزق کے شکر کو محض معدے کی سہولت تک محدود کر لیتا ہے۔ اور جب نعمت کا شکر ختم ہوجائے تو منعم کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے ہاتھ کھینچ لے۔ وہ ان سب باتوں کا ادراک رکھتا تھا مگر نجانے کب شکر کی عادت شکوے میں تبدیل ہوگئی تھی اور نتیجتا آج بھی وہ لکھنے کی میز پر بیٹھا سامنے پڑے کورے کاغذ کو گھور رہا تھا جسے وہ گزشتہ تین ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر یونہی کورا دیکھتا آرہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ لکھنے سے قاصر تھا۔ الفاظ کا سمندر تو اب بھی اس کے اندر موجزن تھا مگر کہانیاں اب اس سے روٹھ سی گئی تھیں۔ وہ خیال جو ایک کہانی کو تحریک دیتے ہیں، اس سے منہ موڑ چکے تھے۔ ابکائی کی ایک مسلسل کیفیت تھی کہ جو ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی کہ کہانی کی قے باہر نکل کر اسے آرام دینے سے مسلسل انکاری تھی۔
اسے یہ بھی
لگتا تھا کہ اس کو کسی کی نظر لگ چکی تھی۔
پچھلی کہانیوں کی مقبولیت کے بعد یوں اچانک کہانیوں کا اس سے روٹھ جانا اس کے اس
شک کو تقویت پہنچاتا تھا۔ یوں بھی اپنی ناکامیوں کے لئے انسان ہمیشہ سے ہی کسی
دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا عادی رہا ہے کہ اس سے ذات کی اصلاح جیسے مشقت طلب
کام سے فرار حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
سو وقت کے ساتھ ساتھ اسے یقین سا ہوچلا
تھا کہ اس ناکامی کے پیچھے دنیا والوں کی بری نظر کا ہاتھ تھا کہ جو اس کی
کامیابیوں سے خائف تھے۔
تقدیر بھی انسانوں کے ساتھ عجیب کھیل کھیلتی ہے کہ
جب کبھی شک نامی جرثومہ ہمارے دماغوں میں
جگہ بناتا ہے تو یہ اسے راسخ کرنے کے لئے ہمارے اردگرد ایسے واقعات کا جال بننا شروع
کردیتی ہے کہ پھر اس شک کو یقین میں بدلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ غور کرنے
پر اس ادیب کو محسوس ہونے لگا کہ آخری
کہانی کے بعد سے اس کی طبیعت بھی مضمحل رہنا شروع ہوگئی تھی۔ روزمرہ کے معمولات تو
برطرف، محض بستر پر لیٹے ہوئے بھی وہ تھکاوٹ محسوس کرنے لگا تھا۔ گاڑی جو بغیر
آواز کے چلا کرتی تھی، اب ہر دوسرے دن مکینک کے پاس کھڑی ہونے لگی۔ اور معاملہ اس
وقت سنگین تر ہوگیا جب اسے لگا کہ جو بلغم وہ تھوک رہا ہے اس میں خون کے ذرات بھی
آنے لگے ہیں۔
کہتے ہیں کہ
موت کو بالکل سامنے پاکر ایک لحظے کے لئے ہی سہی مگر خودکشی کرنے والے انسان کو
بھی زندگی پیاری لگنے لگتی ہے اور وہ
تو جینے کی خواہش سے لبریز ادیب
تھا۔ جسے ابھی پوری دنیا کی کہانیاں لکھنی تھیں۔ مشہور ہونا تھا۔ اپنی کتب کی
کمائی سے امیر آدمی بننا تھا۔ اور ویسے بھی ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی؟ لوگ تو اس
کی عمر میں آکر زندگی جینا شروع کرتے ہیں۔ وہ اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اور
کسی کی نظر کی زد میں آکر تو بالکل بھی نہیں۔اس نے اٹھتے بیٹھتے وظیفوں کا ودر
کرنا شروع کردیا۔ کلائی میں ایک سرخ رنگ کا منتی دھاگہ بھی بندھ گیا ۔ گلے میں بیک
وقت دو تعویز ڈال دئے گئے ۔ اور گھر سے باہر نکلتے وقت الٹا پیر پہلے باہر رکھتے
ہوئے معوذتین کا ورد شروع ہوگیا۔ مگر اس سب اہتمام کے باوجود مرض بڑھتا گیا جوں
جوں دوا کی کے مصداق صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس
کے سنکی پن سے تنگ آ کر گھر والی نے بھی بچوں سمیت اپنے میکے کی راہ لے لی اور اب بڑے سارے گھر میں محض وہ اور اس کی وحشت
بسا کرتے تھے۔
اسے لگتا تھا
کہ اگر وہ کسی طرح اس جمود کو توڑ کر ایک مرتبہ پھر کوئی کہانی لکھ سکے تو شاید اس
نظر کا اثر ختم ہوجائے گا اور اس ہی سوچ کے زیراثر وہ روزانہ لکھنے کی میز پر قلم
سنبھالے گھنٹوں بیٹھا کورے کاغذ کو گھورتا
رہتا اور بالآخر کاغذ کو کورا ہی
چھوڑ کر اٹھ جاتا۔ کئی بار اسے شدید ابکائی کی سی کیفیت ہوتی اور وہ اس امید پر دوبارہ کاغذ اٹھاتا کہ
شاید اب کی بار کہانی باہر آجائے گی مگر کہانی تھی کہ ہر بار وہی ڈھاک کے تین پات ،
باہر نکلنے سے انکاری تھی۔
آج بھی وہ
تنہائی اور وحشت سے بیزار ہوکر اور شدید ابکائی کے زیر اثر ،خود کو گھسیٹ کر لکھنے
کی میز پر لے آیا تھااور اب بیٹھا ہوا اس کاغذ کو یوں گھور رہا تھا کہ جیسے کہانی
کے باہر نہ آنے کی اصل وجہ وہ کاغذ ہی رہا ہو۔ اس ہی جھلاہٹ میں اس نے چاہا کہ قلم
ہاتھ سے پھینک کر اٹھ کھڑا ہو مگر ہاتھوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ وہ
بھول بیٹھا تھا کہ انسان کی زندگی اس کے رزق سے متصل ہے۔ آپ زمین کے اوپر تب ہی تک
ہیں کہ جب تک آپ کا رزق لکھا ہوا ہے۔ اور رزق کا تصور محض خوراک تک محدود
کردینا بھی ناشکری ہی کی ایک قسم ہے کہ
جس میں انسان دیگر عطاکردہ چیزوں کی شکرگزاری سے بچنے کے لئے رزق کے شکر کو محض
معدے کی سہولت تک محدود کر لیتا ہے۔ اور جب نعمت کا شکر ختم ہوجائے تو منعم کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے ہاتھ کھینچ لے۔
اس نے چاہا کہ وہ چیخ کر کسی کو مدد کے لئے آواز دے مگر گھر میں تھا ہی کون کہ جو مدد کو آتا؟ اور زبان بھی کب اس کا ساتھ
دے رہی تھی کہ وہ چیخ ہی پاتا۔ اس نے ایک حسرت سے کورے کاغذ کی سمت آخری بار دیکھا
اور پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔
اس کی گردن
ایک طرف ڈھلکتے ہوئے دیکھ کر میں مسکرایا اور آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے قلم لے کر
میز پر رکھا کاغذ اٹھا لیا۔ کہانی مکمل ہوچکی تھی!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں