دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک لڑکی رہا کرتی تھی۔ اس کا گاؤں پچھلی کہانی کے برخلاف ہرا بھرا تھا کیونکہ اس گاؤں میں طوفانی بگولے اور آندھیاں انسانوں کے اندر چلا کرتی تھیں جس سے لوگوں کے چہروں کے رنگ تو زرد ہوجاتے تھے مگر گاؤں کے کھیت کھلیانوں اور ڈنگروں پر اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ یہ کہانی پچھلی کہانی سے زیادہ سچی ہے لہٰذا اس میں وہ لڑکی اپنے رشتے داروں کے گھر میں بخوشی نہیں رہ سکتی کہ فی زمانہ تو لڑکیوں کو اپنے سگے ماں باپ کے گھر میں بھی بخوشی رہنے کی اجازت دینے کی عیاشی فراہم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا ہماری کہانی کی لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر میں رہا کرتی تھی۔
کہنے والے
کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کتے کو گالی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ لوگوں کا اجتماعی
شعور اتنا بلند نہیں ہوا تھا کہ مسلسل شہوت اور مسلسل بھوک کو ایک گالی سمجھا جائے، لہٰذا اس لڑکی نے بھی
بہت سے گاؤں والوں کی طرح اپنے اندر کے کتے کو باہر نکالا ہوا تھا اور اسے بڑے چاؤ
اور مان کے ساتھ لے کر گھوما کرتی تھی۔ کہنے والے تو خیر یہ بھی کہتے ہیں کہ فی
زمانہ بھی کتے کو گالی سمجھنے والا شخص
اپنی ذات میں ایک گالی ہے مگر چونکہ پچھلی کہانی میں بھی کتے کا کردار محض اس لڑکی
کو طوفانوں میں دربدر کروانے اور راستے کی صعوبتوں کو بڑھانے تک محدود تھا تو ہم
یہاں بھی کتے سے آگے بڑھ کر اس لڑکی کی کہانی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔
بڑے بوڑھے
بتاتے ہیں کہ کرونا کی طرح اس زمانے میں
لکھنے کی وبا عام ہوا کرتی تھی۔ ویکسین اور سماجی فاصلے کی لاکھ احتیاط کے باوجود
بھی بمشکل ہی کوئی خوش نصیب ہوتا تھا کہ جو اس بیماری سے بچ سکے۔ تو سب کی طرح اس
بیچاری کا بھی وقت آیا اور ایک رات معرفت کی کھڑکی کھلی رہ جانے کی وجہ سے ایک
بگولا اندر گھس آیا اور اس کی ذات کے اندر طوفانی جھکڑ چلنا شروع ہوگئے۔ بیچاری
لڑکی نے پچھلی کہانی کی حماقت دہراتے ہوئے کھڑکی بند کرنے کے بجائے اپنے اندر کے
کتے کو بچانے کی کوشش کی کہ معرفت کے طوفان میں کہیں ہوس شہید نہ ہوجائے اور جتنی
دیر میں وہ اپنے کتے کو لے کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوتی یا کھڑکی بند کرپاتی،
بگولے نے اسے اس مکان سمیت اٹھا کر کالے کوس پار ایک بستی میں لے جا پٹخا۔
مکان جب واپس
زمین پر لگا اور اس لڑکی کے حواس بحال ہوئے تو اس نے باہر نکل کر دیکھا کہ وہ
بونوں کی ایک بستی میں کھڑی ہے جہاں بہت سے بونے مکان کی طرف اشارہ کر کے خوشی سے
ناچ رہے ہیں۔ وہ معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک بونے نے
آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سینیٹائز کروائے اور پھر چوم لئے۔ بونے نے اسے بتایا کہ
بونوں کی یہ پوری بستی اس کی احسان مند ہے کہ اس نے مشرق کے شریر نثر نگار سے ان
سب کی جان بچائی جو آزاد نظم کے نام پر ان
کو نثر سناتا اور اصرار کر کے خود کو مجید امجد اور ن م راشد سے بڑا شاعر منواتا
تھا ۔ وہ لڑکی چونکہ سخن کی بستی میں نئی تھی لہٰذا ابھی تک کسی بھی ناکردہ کام کی
داد لینے میں متامل تھی۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس نے کسی کی کسی سے خلاصی نہیں
کرائی ہے اور وہ تو خود واپس اپنے گاؤں جا کر اپنی پہلی نظم مکمل کرنا چاہتی ہے۔
تس پر بونے نے اسے دکھایا کہ کس طرح سخن کی بستی میں اس کے نئے مکان کے نیچے آکر
مشرق کا شریر نثر نگار ہلاک ہوچکا ہے اور اب مکان کے نیچے سے
محض اس کے ہاتھ باہر تھے جن میں ایک چاندی سے بنا پارکر کا انک پین دبا ہوا
تھا۔قلم کو دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی اور اس کہانی کی لڑکی نے بونے کے کہے بغیر مشرق کے
شریر نثر نگار کے ہاتھ سے وہ قلم نکالا اور اپنے کان کے اوپر اڑس لیا۔لڑکی کو یوں
پرایا مال اٹھا کر استحقاق کے ساتھ اپنا بناتے دیکھ کر بونوں نے دادِ تحسین بلند
کی اور اسے یقین دلایا کہ اب اسے عظیم سخنور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ لڑکی نے
شرماتے ہوئے ان سب کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کا راستہ دریافت کیا تاکہ گھر جا کر
مرکزی خیال ماخوذ والی اپنی نظم مکمل کرے اور
اس چاندی کے قلم سے اپنے مستقبل کے مداحوں کو آٹوگراف دے سکے۔
بستی والوں نے
پچھلی بار کے جھمیلوں سے سبق سیکھتے ہوئے بغیر دماغ کا کٹھ پتلی ایڈیٹر، بغیر دل کا ٹین کا بنا پروڈیوسر، اور بغیر ہمت کا شیر دکھنے والا ہدایتکار کو اپنے پاس ہی بلا
رکھا تھا کہ اگر پچھلی کہانی کی لڑکی کو دوبارہ آنا پڑے تو کھیت کھلیانوں اور
جنگلوں میں ان لوگوں کے پیچھے خوار نہ ہوتی پھرے اور براہ راست شمال کی پیاری بلاگر سے ویریفائی کا بییج لگوا کر عوز کی
ریاست پر راج کرنے والے اس جادوگر سے جا ملے
جو ساحر سے متاثر ہوکر جادوگر تخلص کے ساتھ شاعری کے نام پر پارٹ ٹائم تک
بندی کرتا اور فل ٹائم اپنی ٹریول ایجنسی چلایا کرتا تھا۔
راستے میں
ملنے والی غیر ضروری مشکلات اور چلنے والی
ہوا و اڑنے والے پتوں کے تین صفحات بچاتے ہوئے،
جب ہماری کہانی کی لڑکی عوز کی ریاست میں پہنچی تو سب نے اسے سمجھایا کہ
عوز کا عظیم جادوگر ہر کسی سے نہیں ملتا
اور اس سے ملاقات کا خصوصی وقت لینا پڑتا ہے۔ مگر جب جادوگر کو ایک شعر کہنے والی
زندہ اور نوجوان لڑکی سے ملاقات کا بتایا گیا تو اس نے چاندی کے قلم کو بہانے کے
طور پر استعمال کرتے ہوئے فوری ملاقات پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ پچھلی کہانی کی
طرح اس بار بھی اس نے لڑکی کو تو اس وقت تک کسی بھی قسم کی مدد دینے سے انکار
کردیا کہ جب تک وہ جنوب کے ذلیل شاعر سے ایک نئی کہانی لکھوا کر نہیں لے آتی جبکہ
ساتھ آنے والے باقی تینوں کرداروں سے اس نے سرے سے ملنے سے ہی انکار کردیا۔ لڑکی
بیچاری بھنائی تو بہت مگر بستی میں بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کا پورا نیٹ ورک اس ہی
جادوگر کے ہاتھ میں تھا لہٰذا اس کی بات
ماننے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
جب جنوب کے
شاعر سے ملاقات لازم ٹھہری تو لڑکی نے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں
۔تحقیق پر معلوم ہوا کہ جنوب کا شاعر اس کالے کوس میں واقع عوز سے بھی کالے کوس
دور ہے اور راستے میں کوے، مکھیاں، ٹوپی والے بندر اور اس ہی قسم کی دیگر ذلالتیں
بھی درپیش ہوتی ہیں۔ پہلے تو اس نے سوچا واپسی
کے خیال پر لعنت بھیج کر یہیں قیام کرلیا جائے کہ اب چاندی کے قلم اور ویریفائیڈ
کے بیج کے ساتھ وہ عوز میں بھی ایک سلیبرٹی کی زندگی گزار سکتی تھی۔ مگر جادوگر
سمیت بستی کے تمام لوگوں کا جنوب کے ذلیل شاعر کی نئی کہانی کے لئے اشتیاق دیکھ کر
خود اس کے اندر بھی یہ تجسس جاگ گیا تھا کہ یہ جنوب کا شاعر کون ہے اور یہ ذلیل
کیوں کہلاتا ہے ، نیز اس نے کہانیاں لکھنا کیوں چھوڑ رکھی ہیں؟ اور ان سب سوالات
کے لئے اس سے ملاقات ضروری تھی سو اس نے بھی تینوں نکموں کو ساتھ لیا اور اپنے کتے
کو گود میں دبائے سفر پر روانہ ہوگئی۔
تاریخ کا سب
سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے اور انسانوں کا سب سے بڑا المیہ
یہ ہے کہ یہ کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ مشہوری کے کھیت میں جا کر ضمیر کو
سلانے کے بعد، اور کووں پھر مکھیوں سے نمٹنے کے بعد بالآخر ٹوپی والے بندروں کی باری آئی اور ایک بار پھر
تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور پتلے، ٹین کے آدمی، اور شیر کو تاراج کرتے ہوئے اس
لڑکی کو جنوب کے ذلیل شاعر کے گھر میں لے جا پٹخا ۔ جنوب کے شاعر کے سامنے پہنچتے ہی لڑکی نے اپنی تمام تر معصومیت اپنے چہرے پر مجتمع کی
اور آنکھوں میں آنسو بھر کر اسے یقین دلادیا کہ وہ لڑکی اس کی سب سے بڑی مداح ہے
اور اس نے دنیا میں اس سے بہتر لکھیک آج تک کسی کو نہیں جانا۔ جتنی دیر وہ یہ
قصائد پڑھتی رہی، جنوب کے ذلیل شاعر کی نظریں اس کے کان پر ٹکے چاندی کے قلم
پر مرکوز رہیں۔ بیچاری لڑکی سمجھی کہ
یا تو شاعر بھینگا ہے یا اتنے عرصے مجرد
زندگی گزارنے کی وجہ سے بھول بیٹھا ہے کہ
خواتین سے بات کرتے ہوئے مردوں کی نظریں کہاں ہونی چاہئیں۔ دونوں صورتوں میں اسے
شاعر پر بہت ترس آیا اور اس نے گھریلو خادمہ کے طور پر اپنی خدمات اسے پیش کردیں
کہ ساتھ رہ کر شاید وہ اسے ڈھنگ سے دیکھنا اور سوچنا سکھا سکے اور پھر کوئی کہانی وجود میں آجائے کہ جس سے اس
کی گھر واپسی کی سبیل نکل سکے۔
تاریخ اس بارے
میں خاموش ہے کہ کتنے برس یا صدیاں یا ہزارہا سال گزرگئے مگر جنوب کے ذلیل شاعر نے
کہانی لکھنے کا نام نہ لیا۔ وہ دونوں روزانہ ایک معمول کی زندگی گزارتے اور رات کو اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو مرتے۔
اس کے ساتھ رہ رہ کر یہ لڑکی بھی بھول گئی تھی کہ مستقبل کی عظیم شاعرہ تھی، اس کے
پاس ویریفائیڈ کا بیج تھا، سوشل میڈیا فالوورز محض چند دنوں کی مار تھے۔ اس کا
دیکھا دیکھی اسے بھی لکھنے پڑھنے سے سے زیادہ ویب سیریز دیکھنے کا شوق ہوگیا تھا۔ اور ایسے ہی ایک دن فلم دیکھتے ہوئے اس کے سامنے
سے ایک منظر گزرا کہ جہاں ایک شرابی لیکھک نے اپنے بچے کی دوائی کے پیسے بھی اپنی
دارو پر خرچ کردیے تو اسے لگا کہ وہ بھی ایک ایسے ہی بے حس لیکھک کے ساتھ زندگی
گزار رہی ہے۔ اس نے سامنے پڑی ہوئے پوچھے کی بالٹی اٹھائی اور جنوب کے ذلیل شاعر
پر انڈیل دی اور چیخ پڑی کہ تم سب لیکھک ایک جیسے اور نیچ ہوتے ہو۔ دنیا سے داد و
تحسین کے ٹوکروں کی امید کرتے ہو جبکہ تمہاری اوقات پوچھے کی بالٹی کی بھی نہیں
ہوتی۔ جب تک پھیپھڑوں نے ساتھ دیا وہ مسلسل کھڑی چلاتی رہی یہاں تک کہ بے دم ہوکر واپس کرسی میں نہ گر
پڑی۔
ادھر جنوب کا
ذلیل شاعر اپنی ہی سرشاری میں کھڑا اس کی دشنام سن رہا تھا۔ ہر ہر طعنہ مانو اس کے
مردہ وجود میں جان بھرتا جا رہا تھا۔ بیچاری لڑکی نہیں جانتی تھی کہ جتنے بھی ایسے
سخنور گزرے ہیں کہ جنہیں اپنے فن میں ماہر سمجھا جاتا ہے، ان تمام کی
زندگیاں ذلتوں سے عبارت تھیں۔ کسی کو مالی اعتبار سے شرمندہ رہنا پڑا۔ کوئی جذباتی
نا آسودگی کے ہاتھوں رسوا ہوا۔ جس کو پسند کا جیون ساتھی ملا اس کے حصے میں قید
آئی۔ اور کوئی اپنے ہی گھر کے بند دروازوں
کے پیچھے ذلت کی فصل کاٹتا رہا۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ تخلیق درد سے عبارت
ہے ، مگر یہ بات انسان اکثر بھول جاتے ہیں کہ تخلیق کے لئے درکار درد جسمانی نہیں
بلکہ ذلت کا ہوتا ہے۔ جنت کے نکلنے سے
شروع ہونے والا ذلتوں کا یہ انسانی سفر آج
بھی ہر تخلیق کے پیچھے کارفرما ہے۔
کہتے ہیں اس دن گھڑوں پانی پڑنے کے بعد واہیات ہی سہی مگر جنوب کے ذلیل شاعر نے مدت
بعد ایک کہانی لکھی تھی۔ عوز کے غلیظ
جادوگر کی کہانی جو کہانی پڑھنے کے بعد ایک بار پھر مکر گیا تھا کہ کہانی جیسی واہیات چیز کے لئے کون کس کا کام
کرتا ہے؟اور بیچاری لڑکی کو گھر جانے کے لئے ٹیکسی کروانی پڑ گئی تھی۔ واللہ اعلم
بالصواب
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں