انسان اپنے آدرش کے تعاقب میں چلتا ہوا اس دنیا تک آ نکلتا ہے اور پہنچنے کے بعد ہی اسے یہ احساس ہو پاتا ہے کہ منزل کہیں پیچھے ہی چھوٹ گئی ہے۔ اس کے بعد کا سفر یا تو اس وقت کے زیاں پر واپسی کی صورت میں ہونے والی ممکنہ خفت کی وجہ سے واپسی سے بچنے کی کوشش میں کٹ جاتا ہے یا پھر مزید وقت ضائع کیے بغیر کسی بھی طرح واپس لوٹ جانے کی دعا میں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں ہی جان جاتے ہیں کہ جو کچھ پیچھے چھوٹ گیا ہے وہ اتنا پیچھے چھوٹ چکا ہے کہ اب اس کے بارے میں فکر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اور وہ اس دنیا کو ہی کل دنیا بنا کر جینا شروع ہوجاتے ہیں ۔مگر ایسوں کا انجام بھی آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ یہ کہانی اوپر بیان کردہ تمام انسانوں میں سے کسی کی بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہانی کسی انسان کی ہے ہی نہیں۔ انسان تو درندہ ہوتا ہے جو بغیر بھوک کے بھی شکار کرتا ہے۔ یہ کہانی تو ایک جانور کی ہے جو محض جان کے خوف سے یا شدید بھوک کے عالم میں ہی کسی دوسرے جانور پر حملہ آور ہوتا ہے۔
وہ جانور ایک
بہت سلجھے ہوئے اور دور اندیش جانور کے گھر پیدا ہوا تھا اور شاید اس ہی لئے اس کو
بہت سلیقے سے سدھایا گیا تھا ۔ بچپن سے ہی اس با ت کا اہتمام کیا گیا تھا کہ اسے
ایسی تمام چیزوں سے دور رکھا جائے جن سے اس کی تربیت میں خلل واقع ہوسکتا تھا۔ وہ
تمام اشیا جو جنگل کے تمام جانوروں کی مرغوب تھیں اس کی پہنچ سے دور رکھی جاتی تھیں کہ کہیں اسے
اشتہا جیسی موذی لت نہ لگ جائے۔ اس کے گھر والوں کا ماننا تھا کہ چونکہ انہوں نے
اشتہا کے شکار کسی بھی جانور کو دوبارہ سدھرتے نہیں دیکھا تھا لہٰذا وہ اپنے ہیرے
جیسے جانور کو ان چیزوں سے دور رکھیں گے کہ جن کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور بگڑ
چکے تھے۔ جنگل میں سال کے سال بہار پر جو میلہ لگتا تھا اس میں دیگر جانوروں کے ساتھ
اس کا تمام خاندان شامل ہوتا تھا مگر اس کو اس میلے سے دور رکھا جاتا کہ میلے
ٹھیلوں میں جانا نرا وقت کا زیاں ہے۔ اس کے دوست کہ جن کے بارے میں یہ خیال رکھا
جاتا تھا کہ وہ تمام جسمانی اعتبار سے بالکل اس ہی کی طرح ہوں، وہ بھی میلے میں
جاتے اور واپس آکر اسے میلے کی داستانیں سناتے۔ یہ منہ کھولے حیرت سے ان کی باتیں
سنتا کہ اس کی ننھی سمجھدانی اور معلومات کے اعتبار سے تو اس سے مختلف دکھنے والے
جانوروں کے قریب جانا جنگل میں ممنوع تھا اورنہایت نیچ سمجھا جاتا تھا جبکہ یہ
دوست ان میلوں میں ان جانوروں سے نہ صرف خوش گپیاں کرتے تھے بلکہ کوئی کوئی تو
میلوں کے بعد بھی ان جانوروں کے ساتھ وقت
گزارنے اور ان سے ملنے جایا کرتے ۔ وہ یہ
سب دیکھتا تو عجیب ذہنی کشکمش کا شکار ہوجاتا۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ اس کے یہ دوست
ٹھیک ہیں یا پھر اس کے گھر والے، جو اسے بچپن سے سکھاتے آئے تھے کہ مختلف دکھنے والے جانوروں کو چھونا بھی
بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا اگر بے دھیانی میں بھی وہ کسی مختلف دکھنے والے
جانور سے ٹکرا جائے تو اسے لازم ہے کہ وہ جنگل کے کنارے پر بہتی ندی میں جاکر رگڑ
رگڑ کر اپنے آپ کو پاک صاف کرے۔ جسم کی اس پاکیزگی کے بدلے وہ اسے ایک ایسی زندگی
کا وردان دیتے تھے کہ جہاں اس کا جراثیم
اور بیماریوں سے پاک جسم اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتا ہے۔ایک ایسی زندگی کہ جہاں
وہ اپنی مرضی سے جتنے چاہے مختلف دکھنے والے جانوروں سے تعلق رکھے اسے کوئی جراثیم
نہیں لگے گا۔ جہاں مختلف دکھنے والے جانور ہمہ وقت اس کی خدمت پر مامور ہوں گے۔
مکمل آزادی اور بنا کسی روک ٹوک کے۔ مگر اس سب کو حاصل کرنے کی شرط یہ تھی کہ وہ
اس وقت مختلف دکھنے والے جانوروں سے مکمل فاصلہ اختیار رکھے یہاں تک کہ اس کے گھر
والے اس کی صحت سے مطمئن ہوکر اور اپنی مکمل تسلی کے بعد ایک ایسے مختلف دکھنے
والے جانور کو اس کے لئے تلاش کرسکیں جس
سے اسے کوئی جراثیم نہ لگے اور جو اس کے لائق ہو۔
اس ذہنی کشمکش
کے بیچ ، اس کا ماننا تھا کہاس کے گھر
والوں نے بہر حال اس کے دوستوں سے زیادہ دنیا دیکھی تھی اور یوں بھی اپنی مرضی کی
مکمل زندگی پانے کا خواب اتنا لذت آمیز تھا کہ وہ وقتی طور پر بھی اپنے دوستوں کی
جراثیم سے بھری دنیا میں نہیں اترنا چاہتا تھا۔ ایسا نہیں کہ اسے اس تیاگ کا فوری
طور پر کوئی فائدہ نہ رہا ہو۔ جنگل بھر میں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ دیگر
جانوروں کے والدین چاہتے تھے کہ ان کے بچے
اس سے سبق سیکھیں اور اس جیسے بن جائیں۔
چھوٹے بڑے تمام جانور اسے عزت و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا کرتے اور اس کے
اپنی سچائی کے زعم کے غبارے میں ہوا بھرنے میں مدد دیتے تھے۔
سب کچھ بہت
اچھا چل رہا تھا اور اسے امید تھی کہ بہت جلد وہ اتنا توانا ہوجائے گا کہ ہر طرح
کے جراثیم کا سامنا کرسکے اور اس کے گھر والے اس کے لئے اس کے لائق کوئی مختلف
دکھنے والا جانور بھی تلاش کرلیں گے، مگر پھر وہ منحوس شام آگئی ۔ خلاف معمول وہ
اس دن شام کے بعد گھر سے نکلا ہوا تھا اور ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ اچانک ایک ذوردار
خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔ ایسا
نہین کہ وہ اس خوشبو سے انجان تھا۔ وہ اس خوشبو کو پہلے بھی محسوس کر چکا تھا مگر آج
سے پہلے یہ خوشبو ہمیشہ اسے دور سے اور
دھیمی ہی محسوس ہوئی تھی ، جبکہ آج وہ خوشبو اور اس
کا مآخذ دونوں اس کے سامنے موجود
تھے۔ آج پہلی مرتبہ وہ ایک مختلف دکھنے
والے جانور کے ساتھ چار ٹانگ کے فاصلے پر موجود تھا۔ چونکہ اس سے پہلے اس نے اس
خوشبو کو محض دور ہی سے محسوس کیا تھا لہٰذا وہ اس بات سے ناآشنا تھا کہ یہ خوشبو
محض نتھنوں ہی کو بھلی نہیں لگتی بلکہ اپنے ساتھ اشتہا جیسی موذی بیماری بھی لاتی
ہے۔ وہ اس خوشبو کے اثرات کے ساتھ اس کو برتنے کے طریقے سے بھی انجان تھا۔ مختلف
دکھنے والے جانور نے اس کے بدلتے ہوئے تاثرات بھانپ لئے تھے مگر اطمینان کی بات یہ
تھی کہ وہ پورے جنگل میں نیک نام تھا اور اس سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا تھا؟ مگر
ماحول میں کچھ ایسا عجیب سا تناؤ پیدا ہوگیا تھا کہ اس وقت وہاں سے نکل
جانے میں اس مختلف دکھنے والے جانور کو عافیت محسوس ہوئی۔
مختلف دکھنے
والے جانور کو اپنے برابر سے گزر کر نکلتے ہوئے دیکھ کر اس ہیرے جیسے جانور کو
اچانک احساس ہوا کہ وہ کتنے برسوں سے بھوکا ہے۔ بھوک کی شدت کے احساس سے وہ بالکل
اتاؤلا ہوچکا تھا۔ ہوش تب آیا جب ایک پتھر اس کے سر پر لگا اور اس نے سر اٹھا کر
دیکھاکہ آدرش کے تعاقب میں چلتا چلتا وہ تعلق کی بھوک کے چوراہے سے بھٹک کر جسم کی بھوک کی منزل پر
پہنچ چکا تھا اور اس وقت مختلف دکھنے والے
اس جانور پر سوار تھا جس کا نرخرہ وہ پھاڑ چکا تھا ۔ جبکہ جنگل کے جانوراسے گھیرے
میں لئے کھڑے ہیں۔ اسے اپنی سمت متوجہ
پاکر پتھر مارنے والے ایک جہاندیدہ بزرگ
درندے نے خفت سے صفائی پیش کی وہ اسے ایذا پہنچانا نہیں چاہتے تھے بلکہ
پتھر تو اس کمین مختلف دکھنے والے جانور کے لئے تھا کہ جس نے جنگل کے مقدس اور
معزز ترین جانور تک کو ورغلا کر اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ وہ اس کے نرخرے سے
اپنی پیاس بجھالے۔
بزرگ درندے کی
بات سن کر اس نے غصے سے ایک نظر اپنے نیچے
تڑپتے اس مختلف دکھنے والے جانور پر ڈالی اور مجبوری کے عالم میں اپنے دانت دوبارہ
اس کے نرخرے پر گاڑ دیے!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں