منگل، 29 جولائی، 2014
چاند رات
رگ و پے میں اذیت ہے
بہت بے چین ہوں کل سے
اداسی ہے ۔۔۔ مسلسل ہے!!!
مگر بے جا نہیں کچھ بھی ۔۔۔
سنا ہے اہلِ ایماں نے
جلا ڈالی ہے اک بستی
جہاں کچھ عورتیں، بچے ۔۔۔۔
مگر وہ قادیانی تھے،
قصور ان کا رہا ہوگا!!!
یا پھر وہ قتل و غارت کا
عجب اک سلسلہ جو ہے
ہمارے شہرِ قائد میں ۔۔۔
مگر یہ عام باتیں ہیں،
حکومت معاوضہ دے گی
سو اس پر کیا گلہ کرنا؟
تو پھر شاید یہ نوحہ ہے
غزہ کی بے نوائی کا
برستے آگ و آہن کا
سسکتے ننھے بچوں کا
مگر ان کا تو ٹھیکہ مذہبی تنظیم رکھتی ہیں
میں ان کا کیوں برا مانوں؟
کہ میں تو ایک لبرل ہوں!!!
یہ سب بکواس باتیں ہیں
دراصل ماجرہ یوں ہے
بہت ناشاد ہوں کل سے
بہت بے چین ہوں کل سے ۔۔
کہ میرے عید کا جوڑا
ابھی تک سل نہیں پایا
اداسی ہے ۔۔۔ مسلسل ہے ۔۔
چلو شاپنگ پہ چلتے ہیں!!!!
سید عاطف علی
29 جولائی
اتوار، 27 جولائی، 2014
فیصلہ
لو آج یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
لو آج یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
لو آج قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کیوں لکھوں میں اس بستی میں؟
جس بستی کے اندھے بہرے
گز بھر کی زبانیں رکھتے ہیں
جو سچ سننے سے عاری ہیں
جو اندھیاروں کے عادی ہیں
(جو سورج سے گھبراتے ہیں)
اپنوں کی جان کے دشمن ہیں
غیروں کیلئے چلاتے ہیں ۔۔۔
کیوں لکھوں ان کی خاطر میں؟
میں کیوں لکھوں ان کی خاطر؟
میں کیا لکھوں ان کی خاطر؟
کیا عشق ہے کیا مجبوری ہے؟
کیا وصل ہے کیا مہجوری ہے؟
یہ موضوع میرے ہو نہ سکے!!!
اس اندھی بہری بستی میں
میں روز کھڑا چلاتا تھا ۔۔
بازارِ سیاست کیا ہے یہ؟
بدحال ریاست کیا ہے یہ؟
کیوں لاشوں کے انبار یہاں؟
کیوں فاقوں کے انبار یہاں؟
کیوں چادر کھینچی جاتی ہے؟
کیوں عصمت بیچی جاتی ہے؟
یہ سارے موضوع میرے تھے ۔۔۔
پر ان کا سامع کوئی نہیں!!!
اب کیا لکھوں؟ اور کیوں لکھوں؟
اے میرے پیارے سب اندھوں!
اے چیخنے والے سب بہروں!!
نہ حزن کرو، نہ فکر کرو!!
تکلیف کے دن اب ختم ہوئے!!!
الفاظ مرے، اشعار مرے
اقوال مرے، ہذیان مرے
تم اندھے بہرے لوگوں میں
بیچارے زندہ رہ نہ سکے
اور تنگ آکر کل شب میں نے ۔۔۔
ایک آخری نوحہ لکھ ڈالا ۔۔۔
جس کے آخر میں شاعر نے ۔۔۔
اپنا یہ دامن چاک کیا ۔۔۔
آخر یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
کل رات یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
کل رات قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کل رات سے جینا چھوڑ دیا!!!!
سید عاطف علی
جمعرات، 24 جولائی، 2014
زبان دراز کی ڈائری - آم کھائے گا؟
رمضان آئے بھی اور تقریباُ چلے بھی گئے، عبادت اور اصلاح تک کرنے کا وقت نہیں ملا تو ڈائری لکھنے کا وقت کہاں سے لاتے؟؟ اور وہ قید ہونے والی بات نری افواہ ہے جو کسی حاسد نے اڑائی ہے سو پیاری ڈائری اِس غیر حاضری کو اس قید والی بات سے نہ جوڑا جائے۔ ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ قید ہوں اور بعد میں کسی منصبِ جلیلہ کے حقدار ٹھہریں؟ ان ساری چیزوں کے لیئے قید کے ساتھ ساتھ کسی بڑے لیڈر کا داماد ہونا بھی ضروری ہے، مگر خیر یہ تو ایک سیاسی بات ہوگئی اور ہم جانتے ہیں کہ ڈائری غیر سیاسی ہوتی ہے سو ہم اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
رمضان بھی کیا خوبصورت مہینہ ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی ایمان پانچ دن کیلئے تازہ ہوجاتاہے۔ چھٹے دن البتہ ہماری تراویح اور جذبہ دونوں ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اس چھ دن میں جذبہ ختم ہونے میں ہمارا دوش نہیں ہے، دراصل یہ جو رمضان میں شیطان بند ہوجاتا ہے نا اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر کا انسان آزاد ہوجاتا ہے۔ اور اس انسانی آزادی کا مظاہرہ دفتر سے واپسی، پارکنگ کی جگہ، کاروباری لین دین وغیرہ جیسی ہر چیز کے اندر سامنے آتا ہے کیونکہ ان تمام مواقع پر ہم وہ تمام کام کرتے ہیں جو شیطان کے سان گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قید کی میعاد میں توسیع کی باقاعدہ درخواست بھیج دی ہے۔ اللہ کرے کہ درخواست رد ہوجائے ورنہ انسانوں کا لڑ لڑ کر بہت برا حال ہوجائے گا۔
شیطان پر ایک ماہ کی پابندی والی بات مجھے پتہ نہیں کیوں عجیب سی لگ رہی تھی۔ میں نے بھائی رفیق سے اس بات کا پوچھا کہ کیا واقعی شیطان اس پورا مہینہ بند رہے گا؟ کہنے لگے کہ مجھے کیا پتہ؟ میں اب پیمرا میں کام نہیں کرتا!!! اور یہی سوال جب میں نے چوہدری صاحب سے کیا تو خوب زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ بھائی رمضان میں شیطان قید اور چندہ لینے والے صاحب آزاد ہوجاتے ہیں؟ مجھے پتہ تھا کہ چوہدری صاحب کی نظر میری طارق روڈ والی دکان پر ہے اور وہ مجھ پر توہینِ مذہب وغیرہ جیسی کوئی چیز لگوانے کیلئے ایسی فتنہ پرور باتیں کر رہے ہیں سو میں نے فورآ وہاں سے روانگی اختیار کی اور مسجد میں جاکر دو رکعت صلوٰت التوبہ ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوا تو مولوی صاحب سے ملاقات ہوگئی، ان سے پوچھا کہ روزے میں کن چیزوں کی اجازت ہے اور کن چیزوں کی ممانعت؟ تو ایک آنکھ دبا کر بولے، شراب اور شباب سے تو ویسے بھی پرہیز لازم ہے، کباب کی البتہ اجازت ہے۔ میں نے جلدی سے ان سے ہاتھ ملایا اور یہ کہہ کر نکل آیا کہ قبلہ، شراب کو میں منہ نہیں لگاتا اور شباب مجھے منہ نہیں لگاتا ۔۔۔۔ لے دے کر ایک کباب بچا ہے سو اس کیلئے بس افطار کا انتظار ہے، انشاءاللہ کسی بچے کے ہاتھ آپ کیلئے بھی بھجوا دوں گا۔
تو پیاری ڈائری! میں بتا رہا تھا کہ رمضان بھی کیا خوبصورت مہینہ ہے، مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد اس مبارک مہینے کے اختتام پر عید مناتی ہے جبکہ مسلمانوں کی باقی کثیر تعداد جس میں اجناس سے لیکر انٹرٹینمنٹ تک کے تمام تاجر شامل ہیں، اپنی عید اس ہی ماہ میں منا لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو بازار کا ایک چکر یا ابھی ٹیلی ویژن لگا کر دیکھ لیں۔ نہ صرف پتہ لگ جائے گا بلکہ قوی امکان ہے کہ لگ پتہ جائے گا۔ بازار میں قیمتیں سن کر لگتا ہے کہ ہم کسی زرعی ملک میں نہیں بلکہ براعظم افریقہ کے کسی قحط زدہ معاشرے میں جی رہے ہیں اور ٹیلیویژن پر عوام جس طرح تحفوں پہ لڑ مر رہی ہوتی ہے اس سے لگتا ہے کہ بہت جلد ہماری بھوک سے متاثر ہوکر افغانستان اور ایتھوپیا بھی ہمیں امداد بھجوا رہے ہونگے۔ اور ایسے میں اگر ایک میزبان اپنے پروگرام میں آئے ہوئے قحط زدہ انسانوں کو کچھ کھلانے کی کوشش کرلے تو یہ سوشل میڈیا والے الٹا اس ٖغریب کو نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ جیب پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، ان بیچاروں میں سے کسی ایک کی شکل بھی اس قابل تھی کہ وہ بازار سے خود خرید کر آم کھا سکتا؟ مجھے کامل یقین ہے کہ یہ جتنے لوگ لیاقت بھائی کے بیٹے پر فقرے کس رہے ہیں، یہ سب وہ ہیں جن کو اس پروگرام کے پاس نہیں مل سکے اور اب وہ اس بات کی بھڑاس انٹرنیٹ پر نکال رہے ہیں۔ خیر ہمیں کیا، ہم تو کل ٹیلیویژن پر بھی آئے اور الٹا لٹک کر بندر کی آواز نکالنے کا مقابلہ جیت کر ایک موبائل سیٹ اور ایک موٹر سائکل بھی جیت لائے۔ موبائل تو خیر ہم نے استعمال کیلئے رکھ لیا ہے البتہ موٹر سائکل کی ہمیں ضرورت نہیں تھی سو ہم نے رمضان میں نیکی کمانے کا موقع حاصل کیا اور سود کے ساتھ قسطوں پر اپنے ملازم کو بیچ دی۔ اگلے تین سال تک اب اس کمبخت کی تنخواہ کی کھٹ پٹ سے تو جان چھوٹی۔
خیر، اب مجھے اجازت دو، افطار کا وقت ہوگیا ہے اور میں کل کی طرح افطار سے محروم نہیں رہنا چاہتا، بندہ روزہ رکھے نہ رکھے کم سے کم افطار کے ثواب سے تو محروم نہ ہو۔ کل تھوڑی دیر سے دستر خوان پر پہنچا تو سب کچھ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے پوچھا افطاری کا جو اہتمام ہوتا تھا وہ کیا ہوا؟ بابا نے جواب دیا وہ تو افطار ٹرانسمیشن کھاگئی!!! بات کچھ سمجھ تو نہیں آئی مگر شائد پوری قوم میں سے کسی کی بھی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی ہے سو میں اکیلا سمجھ کر کیا کرلوں گا؟؟
والسلام،
حاجی زبان دراز رنمازی و روضوی!!!
منگل، 22 جولائی، 2014
مسلمان
سید عاطف علی!
عمر؟
اب کیا فرق پڑتا ہے؟
مذہب؟
جی ۔۔۔ یاد نہیں!!
کیا مطلب یاد نہیں؟ دعائے قنوت آتی ہے؟
جی نہیں!
آیت الکرسی؟
جی پہلے یاد تھی اب بھول گیا!
چاروں قل آتے ہیں؟
آپ کیوں مجھے شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟
اچھا ۔۔۔ چھٹا کلمہ سنائو!
وہ تو مجھے بچپن میں بھی یاد نہیں ہوا!!!
ہاں بھائی، رجسٹر میں لکھو، سید عاطف علی، عمر نامعلوم اور مذہب کے خانے میں آج کل کا مسلمان لکھ دینا۔
(از: سید عاطف علی)
بدھ، 16 جولائی، 2014
تلاش نگر
آج پھر ساحل پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ تلاش نگر کے باسی دن بھر سر کھپانے کے بعد چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں شام گئے تلاش نگر واپس پہنچ جاتے تھے۔ کہنے کو تلاش نگر ایک چھوٹا سا شہر تھا، اتنا چھوٹا کہ دنیا کے کسی جغرافیہ دان نے اس شہر کو کسی نقشے پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر یہ چھوٹا سا شہر، دنیا کے ہر قصبے، ہر گائوں، ہر شہر اور ہر ملک سے زیادہ آبادی رکھتا تھا۔ جتنی عجیب بات اس شہر کا دنیا کے نقشے پر نہ ہونا تھی، اتنی ہی عجیب بات اس شہر کا اپنا نقشہ تھا۔ اس شہر میں نہ کوئی مکان تھا اور نہ کوئی سڑک۔ آپ چلتے چلے جائیے، سڑک اپنے آپ بنتی چلی جائے گی۔
تلاش نگر میں صرف تین چیزیں مستقل تھیں، ساحل، متلاشی انسان، اور ہر وہ چیز جس کی آپ کو تلاش نہ ہو۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا کہ جو چیز ابھی ابھی آپ نے بلاوجہ اٹھا کر جیب میں رکھی ہے، اس چیز کی تلاش میں آپ کے پیچھے آنا والا شخص پچھلے بیس سال سے تلاش نگر کے چکر کاٹ رہا ہے! اور جس چیز کی تلاش میں آپ دیوانہ وار گھوم رہے ہوں وہ عین اس وقت جب آپ جھک کر کسی اور کی چیز اٹھا رہے تھے، آپ کے آگے والے شخص نے اٹھا کر جیب میں رکھ لی ہے۔ تاش کی رمی کا ایک گیم تھا جو مسلسل رواں تھا۔ کوئی بھی شخص غیر ضروری پتے محض اس ڈر سے نہیں پھینکتا تھا کہ وہ کسی اور کے کام نہ آجائیں۔ جواریوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان غیر متعلقہ پتوں کو سینت کر رکھنے کی وجہ سے وہ خود بھی اپنا ہاتھ مکمل نہیں کر پارہے مگر ۔۔۔۔ (اس مگر کا علاج ڈھونڈنے بھی بہت سے لوگ تلاش نگر آئے مگر ۔۔۔) ایک عجیب سا کولہو کا چکر تھا جو مسلسل رواں تھا۔
سیانے کہتے تھے کہ دنیا میں جب کبھی کہیں کوئی شخص کسی چیز کی تلاش میں نکلتا ہے تو وہ چیز خودبخود تلاش نگر بھیج دی جاتی ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہونگے کہ اس حساب سے تو تلاش نگر مسلسل وسعت پذیر ہوگا؟ جی نہیں! انسانوں کی منہ مانگی ہر چیز اب یہاں پہنچ چکی تھی۔ وسعت تو تب ہوتی جب کسی نئی چیز کی خواہش ہوتی۔ بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ ان کے بڑے بوڑھوں نے بتایا تھا کہ ان کے بڑے بوڑھوں نے بھی کبھی کوئی نئی چیز اس تلاش نگر میں آتی نہیں دیکھی تھی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو لگتا تھا کہ اس کی خواہشات بڑھ رہی ہیں مگر وہ آج بھی ان ہی تمام چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا جن کے پیچھے بھاگتے ہوئے اس کے باپ دادا بھی منہ کے بل گرے تھے۔یہاں صحرا بھی تھا اور سمندر بھی، عزت وشہرت بھی تھی اور دولت بھی، عشق بھی تھا ہوس بھی، یزداں بھی تھا اور اہرمن بھی ۔۔۔ تصور تو کیجیئے کہ ایک صحرا کے کنارے پر ایک سمندر آباد۔ مگر ٹھہریئے، صرف تصور، اگر دیکھنے کی خواہش کرلی تو آپ بھی تلاش نگر پہنچ جائیں گے اور اللہ بہتر جانتا ہے مگر تلاش نگر سے آج تک کوئی واپس آتا نہیں دیکھا گیا۔ ایسا نہیں کہ یہاں لوگوں کی ان کی منزل نہیں ملتی، مگر کم ہی ایسا ہوا تھا کہ یہاں آیا ہوا شخص اپنی خواہشات کو سمیٹ کر بغیر کسی نئی چیز کی تلاش میں پڑے یہاں سے زندہ نکل پایا ہو۔
اس نے بھی یہ ساری کہانیاں بچپن سے سنی ہوئی تھیں۔ گذشتہ پچیس سال سے وہ اس شہر میں روز آتی تھی۔ پہلی مرتبہ وہ شاید کسی کھلونے کی تلاش میں یہاں آئی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی ایک مستقل مہمان بن گئی تھی۔ سکون، محبت، شہرت، عزت، دولت غرض کوئی ایسا بہانہ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ تلاش نگر نہ آئی ہو اور انتہا یہ کہ اب وہ اس بات کی تلاش میں یہاں آتی تھی کہ جان سکے کہ اسے دراصل کس چیز کی تلاش ہے۔
ہر انسان کی طرح اسے بھی زندگی سے بےحد شکایات تھیں۔ اسے لگتا تھا کہ زندگی میں کسی نے اسے اس طرح نہیں سمجھا جس طرح وہ دراصل تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں لوگ نہیں تھے۔ مگر آپ میں سے ہر ایک کی طرح جس ایک کی اسے تلاش تھی وہ ایک نہیں تھا۔ اس کی زندگی میں لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ ہر نئے آنے والے کی آمد پر اسے لگتا تھا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی اسے مدتوں سے تلاش تھے۔ اور کچھ عرصے کے سفر کے بعد اسے لگنے لگتا کہ وہ اس شخص کے بغیر زندگی نہیں گذار سکتی، مگر پھر کچھ عرصے بعد وہ شدید یاسیت میں اس شخص کو اپنے ہاتھ سے الوداع کہہ رہی ہوتی کہ وہ ویسا نہیں ثابت ہو پاتا تھا جیسا اس نے سوچا تھا۔ پھر کچھ عرصے کیلئے وہ سوگ میں ڈوب جاتی اور پھر اس سوگ کے دوران اس کی ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوجاتی جسے دیکھ کر اسے لگتا کہ یہی وہ شخص ہے جس کی اسے مدتوں سے تلاش تھی۔ تلاش نگر کے دائروں ہی کی طرح اس کی زندگی کا یہ دائرہ وار سفر بھی نجانے کتنی مدت سے جاری تھا۔ اس کی زندگی عملی طور پر
چلتا ہوں دو قدم کو ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کی تصویر تھی۔ مگر وہ مسلسل تلاش کے اس سفر سے اکتا چکی تھی۔ وہ اب کچھ دیر سکون کرنا چاہتی تھی۔ زندگی کے خسارے گننا چاہتی تھی۔ اور شاید اس ہی تلاش کے خاتمے کی تلاش میں وہ آج پھر تلاش نگر آنکلی تھی۔ آج پھر ساحل پر لوگوں کا ایک بےپناہ ہجوم تھا۔ سامنے خواہشات کے سمندر میں بہت سے لوگ ڈوب رہے تھے۔ کچھ مزید لوگ اندر جاکر ڈوبنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کچھ ساحل کی ریت کھود کر خزانہ تلاش کر رہے تھے۔ کہیں کوئی شخص، لیڈر کی تلاش میں آئے ہوئے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی عزت نفس کو تلاش کر رہا تھا۔ کہیں کوئی مداری مذہب کی پٹاری کھول کر اس میں سے رنگ برنگی گولیاں نکال نکال کر سکون کے متلاشی لوگوں کو بیچ رہا تھا۔ ہر شخص ہی کسی نہ کسی چیز میں مگن تھا۔
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور ایک نسبتا خالی کونا دیکھ کر اُدھر جا کر بیٹھ گئی۔ وہ خالی نظروں سے سمندر کو تک رہی تھی۔ آج پہلی بار اسے اس سمندر پر ترس آرہا تھا۔ ساحل پر موجود تمام لوگوں سے زیادہ پرانی تلاش تو اس سمندر کی تھی، جو کڑوروں انسانوں کو نگلنے کے باوجود بھی اپنی تلاش مکمل نہیں کر پایا تھا اور آج بھی ہر نئے آنے والے کو اتنی ہی لالچ سے اپنے پاس بلاتا تھا۔ لہریں آ آکر ساحل پر نووارد کے قدموں میں لوٹ جاتیں تھیں کہ ہم تمہاری غلام ہیں ہمارے پاس آجائو اور جب وہ غریب اس لالچ میں ان کے ساتھ سمندر میں اتر جاتا تھا تو وہ اسے ڈوبنے کیلئے چھوڑ کر کسی نئے آنے والے کے قدموں میں سر پٹخنے لگتی تھیں۔ کبھی کوئی خوش قسمت اگر اس جال میں پھنسنے سے بچ جاتا اور پلٹ جاتا تو یہی لہریں دیوانہ وار اس کا پیچھا کرتیں، ساحل پر آکر سر پٹختیں کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائے۔ اب اگر وہ بیچارہ اس فریب میں دوبارہ آجاتا تو اس التفات اور بے مہری کا کھیل دوبارہ جاری ہوجاتا۔ لہروں کے اس فریب سے اس کی بہت پرانی شناسائی تھی۔ شروع شروع میں وہ روز اس فریب کا نشانہ بنتی تھی، روز سمندر میں اترنے سے پہلے پلٹتی اور پھر روز ایک مختلف نتیجے کی امید لیکر سمندر کی سمت چل پڑتی۔ اس روزانہ کے کھیل نے اسے سکھا دیا تھا کہ فطرت چاہے جس چیز کی بھی ہو، کبھی نہیں بدلتی۔ انسان ہی احمق ہے جو ایک ہی چیز سے ہر مرتبہ ایک مختلف نتیجے کی امید لگاتا ہے اور ہر مرتبہ خود کو یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ اس بار نتیجہ مختلف ہوگا۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ انسان خود بھی اپنی فطرت سے باز نہیں آتا اور فطرتاٗ خود کو یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ آئندہ ایسا نہ کرے گا۔ ایک مسلسل دائرہ ہے جس کے سفر میں یہ چلتا ہے۔ اور کتنے ہی دائرے ہیں جن میں انسان سفر کرتا چلا جارہا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دائرے کے سفر کا حاصل سوائے تھکن کے کچھ نہیں ہوتا۔
شام سے رات ہوگئی تھی، ڈوبنے والے ڈوب چکے تھے، دکاندار اپنی دکانیں سمیٹ چکے تھے، اور خریدار بھی کل نہ آنے کا عہد کرکے واپسی کی راہ لے رہے تھے۔ وہ بھی اب اٹھنا ہی چاہتی تھی کہ ایک شخص آ کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ اس نے چونک کر نئے آنے والے کو دیکھا کیونکہ یہ چیز تلاش نگر کے اصولوں کے خلاف تھی۔ یہاں ہر شخص اپنی خواہش اور اپنی تلاش کے پیچھے بھاگتا تھا۔ یہاں دوسرے سے بات کرنے کا مطلب صرف یہی تھا کہ مخاطب کو آپ سے کچھ چاہیئے۔ برابر میں آکر بیٹھنے والا شخص اس کیلئے بالکل انجان تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں اس نووارد کو دیکھا۔ تلاش نگر میں یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ کوئی شخص اس کے پاس آیا ہو۔ کسی کو اس کے جسم کی خواہش تھی تو کسی کو اس کے ساتھ کی، کوئی ہمدردی کی تلاش میں اس تک آتا تھا تو کوئی کسی دوسری امداد کی تلاش میں۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس شخص کو ان میں سے کس چیز کی تلاش ہے۔
نو وارد گویا اس کے خیالات بھانپ چکا تھا۔ اس نے خود ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں کچھ مانگنے یا لینے نہیں آیا ہوں۔ وہ یہ سوچ کر جھنجھلا گئی کہ شاید یہ کوئی نیا طریقہ واردات ہو۔ تو پھر آپ یہاں کیاں کر رہے ہیں؟؟ کیا آپ تلاش نگر کے بنیادی اصول نہیں جانتے؟؟؟ اس نے بےصبری سے سوالات داغنا شروع کردیئے۔ آنے والے نے مسکرا کر دھیمے لہجے میں کہا، بالکل جانتا ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہیں کس چیز کی تلاش ہے اور وہ چیز کہاں مل سکتی ہے۔ وہ یہ سن کر چونک گئی مگر خود پر قابو پاتے ہوئے بولی، اول تو یہ ایک بالکل ٖفضول بات ہے کہ آپ میری خواہشات جانتے ہوں جبکہ میں خود بھی نہیں جانتی کہ مجھے دراصل کس چیز کی تلاش ہے۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بالفرض محال اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ جانتے ہیں مجھے کس چیز کی خواہش ہے تو آپ میری مدد کیوں کریں گے؟؟ بدلے میں آپ کو مجھ سے کیا چاہیئے؟؟؟ یہ تلاش نگر ہے! یہاں ہر شخص کسی نہ کسی چیز کی تلاش میں ہے، نہ کہ دوسروں کو تلاش میں مدد کرنے کیلئے۔ اپنی راہ لیجئے میں آپ ایسوں کو بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ نو وارد تحمل سے اس کی بات سنتا رہا اور زیادہ تر وقت مسکراتا رہا۔ اس کی بات مکمل ہونے پر وہ بولا، اگر آپ برا نا مانیں تو ہم کچھ دیر ساحل پر چہل قدمی کرلیں؟؟ راستے میں ہو سکتا ہے آپکے سوالات کے جواب بھی مل جائیں؟؟ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ عجیب قبطی انسان تھا۔ کسی بات، کسی غصے، کسی طنز کا اس پر اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔ پھر خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اٹھ کر اس کے ساتھ ساحل پر چلنا شروع ہوگئی۔
کافی دیر تک وہ دونوں خاموشی سے ساحل پر چلتے رہے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑا مگر آنسوئوں کا ایک سیلاب تھا جو مسلسل بہنا شروع ہوگیا۔ اسے خود پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس طرح اپنے کمرے سے باہر بھی رو سکتی ہے؟ وہ بھی ایک اجنبی کے سامنے؟ اجنبی اس دوران مسلسل مسکرا رہا تھا اور اسے یہ مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔ کیا جانتا تھا وہ اس کے بارے میں؟؟ اسے کیا پتہ تکلیف کیا ہوتی ہے؟؟ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کے عزیز ترین لوگوں کو دور کرنے کا دکھ کیا ہوتا ہے؟؟ دوستوں اور غمخواروں کو سب کچھ بتا کر بھی کچھ نہ بتانے اور اندر ہی اندر طوفان پالنے کا کرب کیا ہوتا ہے؟؟ ضبط کیا ہوتا ہے؟ تکلیف کسے کہتے ہیں؟ آزمائش کس چیز کا نام ہے؟؟ وہ کیا جانتا ہے؟؟ کس نے اسے حق دیا کہ یوں مجھ پر ہنس سکے؟؟ اسے اجنبی کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، وہ پوچھ رہا تھا کہ اگر وہ ایک کہانی سننا چاہے؟؟ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی، اجنبی نے کہانی شروع کر دی۔
کسی ملک میں ایک پریشر کوکر رہتا تھا۔ ہر پریشر کوکر کی طرح اس کو بھی اسکے خالق نے یہ صلاحیت دی تھی کہ وہ اپنے اندر بننے والے بھاپ کے دبائو کو محفوظ رکھ سکے تاکہ اس میں موجود اشیاء کو گلنے میں آسانی رہے۔ پریشر کوکر اپنی اس شاندار قوت برداشت سے بہت خوش تھا۔ وقت کے ساتھ وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ اسکے خالق نے اس میں ایک سیٹی بھی لگائی ہے کہ جب اندرونی دبائو برداشت سے باہر ہوجائے تو وہ کچھ دبائو کو باہر بھی نکال سکے۔ وہ کوکر اس سیٹی کو استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ وقت گذرتا رہا اور کوکر اس اندرونی دبائو کو سہتے ہوئے دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ کہانی کے اس موڑ پر آکر اجنبی خاموش ہوگیا۔ وہ جو تھوڑی دیر پہلے تک اس کوکر، اس کوکر سے اپنے تعلق؟ اس اجنبی کے اس کہانی سنانے کے مقصد؟؟ جیسے سوالات کے اندر گم تھی، بےساختہ پوچھ بیٹھی، پھر کیا ہوا؟ اجنبی نے کھوئی ہوئی آواز میں جواب دیا، ہونا کیا تھا، ایک دن وہ کوکر اتنا کمزور ہوگیا کہ معمولی سے دبائو پر ہی پھٹ گیا۔ پھٹ گیا؟؟؟ مگر کیوں؟؟ وہ تو دوسروں کو تکلیف سے بچانے کیلئے اس دبائو کو اپنے اندر دبا کر رکھتا تھا؟؟ وہ ایسے کیسے پھٹ سکتا ہے؟؟؟ اسے اس طرح نہیں پھٹنا چاہیئے تھا؟؟ وہ تو معاشرے کا محسن تھا، محسن کا یہ انجام نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ جذبات کی شدت میں بولے چلی جارہی تھی اور ہر جملے کے ساتھ اس کے دماغ میں ایک تصویر آرہی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ پریشر کوکر کون تھا۔ وہ چلتے چلتے رک گئی اور رحم طلب نظروں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگی۔ اجنبی ایک بار پھر اس کو دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ اس نے پوچھنا چاہا کہ وہ یہ سب کیسے جانتا ہے مگر چاہ کر بھی وہ صرف یہ پوچھ پائی کہ پریشر کوکر اگر پھٹنے سے بچنا چاہے تو کیا کرے؟؟ کیا محض ایک سیٹی کا استعمال اس کی زندگی کو کھوکھلے کردینے والے روگ ختم کرسکتا ہے؟؟؟ اجنبی نے کہا، سیٹی کا استعمال تو محض ایک علامت ہے، اس بات کی کہ کوکر کو خود اپنی بھی فکر ہے۔ کوکر کو یہ بات یاد رکھنے چاہیئے کہ اگر اسے دنیا سے محبت کرنی ہے تو اسے سب سے پہلے خود سے محبت کرنی ہوگی۔ وہ بیچارہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ سب کو خوش رکھے گا تو سب اسے سے خوش ہوجائیں گے۔ اول تو وہ سب کو خوش رکھ نہیں سکتا، اور دوسرا یہ کہ اگر وہ سب کو خوش کرنے کا خیال ترک کرکے صرف چند لوگوں کو خوش کرنے کا بھی سوچے تو بھی یہ کارِ محال ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ صرف تب ہی خوش ہوتا ہے جب وہ خوش ہونا چاہتا ہے۔ ایک ہی جملہ دو مختلف اشخاص کیلئے دو مختلف ردعمل رکھتا ہے۔ اگر میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ مجھے آپ اچھے نہیں لگتے تو آپ کی کی ہوئی تعریف بھی میرے لیئے گالی ہے جبکہ اگر میں نے تیہہ کرلیا کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں تو آپ کی دی ہویئ گالی بھی مجھے اپنائیت کا ایک انداز لگے گی۔ معاشرے کو خوش کرنے کی کوشش ہمیشہ وقت کا زیاں ہے۔ خود کو خوش کرو! جب تم اندر سے خوش ہوگے تو تمہیں پورا معاشرہ ویسے ہی خوش لگنے لگے گا۔ گویا کہ پچاس ڈگری درجہ حرارت میں تم ایک ائیر کنڈیشن گاڑی میں جارہی ہو۔ باہر کتنی ہی جھلسا دینے والی دھوپ ہو، تمہیں باہر کے سب مناظر دلکش لگیں گے۔ کیوںکہ اس وقت تمہارے گرد کا موسم اچھا ہے۔ اجنبی کا ایک ایک جملہ اس کے سامنے ماضی کی سچائیاں کھول کھول کر رکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے آگے پڑے ہوئے پردے تیزی کے ساتھ اٹھ رہے تھے۔ اس نے ساحل سے منہ پھیر کر اجنبی کی سمت مسکرا کر دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ اجنبی اب تیز قدموں کے ساتھ آگے نکل رہا ہے۔ وہ بھاگ کر دوبارہ اس کے پاس پہنچ گئی۔ شکریہ، آپ نے ایک بالکل سامنے کی بات کا احساس دلا کر میری زندگی آسان کر دی! اس نے ہانپتے ہوئے اجنبی کا شکریہ ادا کیا۔ اجنبی حسب عادت ایک بار پھر مسکرایا اور دوبارہ تیز قدموں سے چل پڑا۔ اس نے ایک بار پھر اجنبی کو آواز دی۔ مگر آپ ہیں کون؟ اور آپ نے یہ سب کچھ مجھے کیوں بتایا؟؟ تلاش نگر میں تو ہر شخص کسی نہ کسی چیز کی تلاش میں ہے، آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟ آپ کس چیز کی تلاش میں ہیں؟ دیکھیں آپ مجھے بتائے بغیر اس طرح یہاں سے نہیں جا سکتے ۔۔۔ اس نے اس مرتبہ اجنبی تک پہنچ کر اس کو بازو سے پکڑ کر گھما دیا ۔۔۔۔ اجنبی ایک بار پھر مسکرایا مگر اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ میں بے پناہ کرب تھا ۔۔۔۔ اجنبی نے اپنا سر نیچے کیا، اور دھیمے لہجے میں بولا، میں وہ پریشر کوکر ہوں جو بہت پہلے پھٹ گیا تھا۔ اور تلاش نگر میں ایسے کوکر کی تلاش میں آتا ہوں جو پھٹنے کے قریب ہو، اس امید پر ۔۔۔ کہ شاید اسے بچا سکوں!!! اجنبی نے یہ کہتے ہوئے نرمی سے بازو چھڑایااور ایک انجان منزل کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔ اگلے پریشر کوکر کی تلاش میں۔
ختم شد۔
مصنف: سید عاطف علی
اتوار، 13 جولائی، 2014
نوحہ
کہ کتنی معصوم ننھی کلیاں
کہ جن کو کھلنا تھا پھول بن کر
وہ بن کھلے ہی کچل گئی ہیں
وہ مرگئی ہیں ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے؟
تمہیں پتہ ہے؟
کہ کتنے بوڑھے، ضعیف کاندھے
جو خود سہارے کے منتظر تھے
جوان لاشے اٹھا چکے ہیں
جوان بیٹے کی لاش اٹھانا ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے؟؟؟
تمہیں پتہ ہے؟
کہ کتنے تازہ سہاگ تھے جو
ہوائے ظلم و ستم کی زد میں
بکھر گئے ہیں، اجڑ گئے ہیں
بھری جوانی میں گھر اجڑنا ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے؟
تمہیں پتہ ہے؟
مگر تمہیں یہ پتہ ہو کیسے
کہ یہ ہے قصہ میرے نگر کا
میرے شہر کا، میری گلی کا
کے جس کا وارث کوئی نہیں ہے
کہ میری بستی غزہ نہیں ہے!!!1
تمہیں پتہ ہے!!!1
سید عاطف علی
2014- جولائی -13
پیر، 7 جولائی، 2014
وصیت
میں پهوٹ بہوں ... تو ہنسیو مت !!!
میں خوں تهوکوں ... تو ہنسیو مت !!!
اقرار کروں ... تو ہنسیو مت !!!
انکار کروں ... تو ہنسیو مت !!!
میں ریزہ ریزہ خاک بنوں
اک جیتی جاگتی لاش بنوں
پیہم آزار سے تهک جائوں
پهر سچ مچ لاشہ بن جائوں
تب ساری دنیا کی مانند
تم بهی دل کهول کے ہنس لینا
پر اس سے پہلے ...
#عاطفیت
جمعرات، 3 جولائی، 2014
بلا عنوان ۔۔۔
آج مدت کے بعد یاد آیا
یاد ہے تم کو وہ گھنیری شام
تم نے مجھ سے کہا سرِ ہجراں
عشق سے بھوک تو نہیں مٹتی؟
شعر سے پیٹ تو نہیں بھرتا؟
دیکھیئے رحم کھائیے مجھ پر
میری آنکھوں میں خواب بستے ہیں
اور یہ چھوٹے موٹے خواب میرے
ایک شاعر کے بس کے خواب نہیں
آپ کا عشق بےمثال سہی
عشق سے پیٹ تو نہیں بھرتا؟؟
جانتی ہوں کہ آپ شاعر ہیں
بے تحاشہ دلوں کی دھڑکن ہیں
آپ کے شعر میں روانی ہے
کل کو مشہور بھی بہت ہونگے
ہاں مگر یہ بھی جانتی ہوں میں
داد سے پیٹ تو نہیں بھرتا؟؟
دیکھیئے اب مجھے اجازت دیں
وہ میری راہ دیکھتا ہو گا
شعر، تمثیل، عاشقی اظہار
کیا ہے گر اس کو سب کا شوق نہیں؟
ذوق اتنی بڑی دلیل نہیں!!!
ذوق سے پیٹ تو نہیں بھرتا؟؟
آج دیکھا تمہیں سر محفل
زیوروں کے حسین بوجھ تلے
کھوکھلی سی ہنسی کے پردے میں
اپنے آنسو چھپائے بیٹھیں تھیں
دل میں آیا کہ پوچھ لوں تم سے
اب تو یہ پیٹ بھر گیا ہے نا؟؟؟؟
سید عاطف علی
تین - جولائی - 2014