اتوار، 31 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 14

پیاری ڈائری!

تمہیں تو معلوم ہے کہ کل سے گھر میں دادی آئی ہوئی ہیں سو تمام تر مصروفیات موقوف ہیں۔ انسان کتنا بھی بڑا ہوجائے بزرگوں کے نزدیک ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔ دادی کے نزدیک بھی ہم بہن بھائی اب تک بچے ہی ہیں۔ ان کی یہ ہر وقت کی بزرگی بچپن میں کھَلتی تھی مگر نوجوانی میں آکر اس ہی بزرگی کی قدر ہوگئی ہے کہ کچھ ہی تو رشتے ہیں جو بدلے کی پرواہ کیئے بغیر سراسر خلوص ہوتے ہیں۔ وہی ڈانٹ ڈپٹ جو بچپن میں ایک بوجھ لگتی تھی اب اس احساس میں بدل چکی ہے کہ صحیح غلط برطرف، یہ بزرگ اپنے تئیں ہماری بہتری کیلئے ہی ہمیں ٹوکتے ہیں ورنہ باقی دنیا نے تو گویا نپولین کے اس قول کو حدیث ہی سمجھ لیا ہے کہ دشمن کو غلطی کرتے دیکھو تو ٹوکو مت!!

کل سے دادی گھر میں ہیں اور موبائل اور انٹرنیٹ گھر سے باہر۔ شاید اس ہی وجہ سے کل بہت مدت بعد کھانے کی میز پر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی۔ کھانے کی میز پر اکٹھا ہونے والی یہ کہانی بھی خوب رہی کہ کل جب کھانا لگا اور حسب معمول امی کا واٹس ایپ پر میسج آیا کہ کھانا کھا لو تو میں اسے نظر انداز کرکے دوبارہ ٹوئیٹر پر مشغول ہوگیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل پر ایک نہایت دلچسپ مکالمہ جاری تھا۔ میں ابھی اپنی جوابی ٹوئیٹ بھیجنے ہی لگا تھا کہ اچانک وائے فائے بند ہوگیا۔ میں وائے فائے رائوٹر کو کوستا ہوا نیچے اترا تو دیکھا کہ وائے فائے کا تار نکلا ہوا ہے اور دادی صاحبہ بہت اطمینان سے اسے ہاتھ میں پکڑے کھڑی ہیں۔ میں نے التجائیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر کاندھے اچکا دیئے۔ پانچ منٹ میں گھر کے تمام افراد کھانے کے کمرے میں جمع تھے کیونکہ بدقسمتی سے وائے فائے رائوٹر بھی اس ہی کمرے میں موجود تھا۔ دادی اماں نے فیصلہ سنا دیا کہ بہو نے مجھے سب بتا دیا ہے! کھانے کے اوقات میں یہ نگوڑ مارا بند ہی رہے گا، غضب خدا کا! ایک گھر میں رہتے ہوئے تم لوگ کھانے کی میز تک پر اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ کچھ ان سیاستدانوں سے ہی سبق سیکھ لو جو کھانے کے وقت تمام چیزیں بھلا کر ایک میز پر جمع ہوجاتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ

 دادی اس مرتبہ کئی سال بعد آئی ہیں اور ان کے آنے کے بعد سے ہم گھر والوں پر حیران کن انکشافات کا ایک حسین سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کل سے اب تک مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر موبائل فون ایک طرف رکھ کر کھانا کھایا جائے تو امی نہایت لذید کھانا بناتی ہیں۔ نیز زندگی ٹوئیٹر اور فیس بک کے بغیر بھی گزاری جاسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اگر گھر میں گھر والوں کو وقت دیا جائے تو انسان کو انٹرنیٹ پر منہ بولے رشتے بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ خدا کے بنائے ہوئے رشتے اپنے آپ میں خود ہی بہت حسین ہیں۔

کل تو دادی بہت تھکی ہوئی تھیں سو جلدی ہی سوگئیں مگر آج ہم بہن بھائیوں نے دادی کو گھیر لیا اور کہانی کی فرمائش کردی۔ بچپن میں ہم دادی سے روز کہانی سنا کرتے تھے اور اس وقت کی حسین یادیں ہم سب ہی دہرانا چاہتے تھے۔ پہلے تو دادی نے ٹال مٹول سے کام لیا کہ، اے نوج! اتنے بڑے گھوڑے ہو رہے ہو سب کے سب۔ اب اس عمر میں جن، پریوں اور شیر، بندر کی کہانیاں سنتے ہوئے  اچھے لگو گے؟ مگر ہماری مسلسل ضد کے آگے بالآخر دادی نے ہتھیار ڈال ہی دیئے اور بندر اور بلیوں کی وہی کہانی سنادی جسے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ کہانی کے مطابق تین بھوکی اور ندیدی بلیوں کے ہاتھ کہیں سے تین روٹیاں لگ گئیں۔ اصولی طور پر تو ان بلیوں کو ایک ایک روٹی بانٹ کر کھالینی چاہیئے تھی مگر چونکے وہ بھوکی کے ساتھ ساتھ ندیدی بھی تھیں تو تینوں ہی ان روٹیوں پر لڑ پڑیں کہ کس کو کتنا حصہ ملنا چاہیئے۔ قریب بیٹھا ایک بندر جو پچھلے پانچ سال سے بھوکا تھا یہ سب کاروائی دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تینوں بلیاں بلا کی جذباتی اور پرلے درجے کی احمق ہیں۔ ویسے بھی شیر ہو، چیتا ہو یا بلی، عقل تو تینوں میں جانور والی ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک بندر کا تعلق ہے تو بقول ڈارون یہ وہ انسان ہیں جو ارتقاء کے عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں اور انشاءاللہ کچھ عرصے بعد یہ بھی انسان بن ہی جائیں گے۔ سو بندر نے اپنی تقریباؔ انسانی عقل کا استعمال کرتے ہوئے ان تینوں بلیوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ان کے بیچ ثالثی کروا سکتا ہے۔ بلیاں ہنسی خوشی راضی ہوگئیں۔

بندر نے روٹیاں ایک کے اوپر ایک رکھیں اور ان کے تین ٹکڑے کر  دیئے۔ ٹکڑے کرنے کے بعد بندر نے افسوس سے سر ہلایا کہ ایک ٹکڑا تھوڑا بڑا رہ گیا تھا۔ انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے بندر نے اس بڑے ٹکڑے میں سے ایک ٹکڑا توڑا اور بلیوں سے اجازت چاہی کہ چونکہ یہ ٹکڑا اضافی ہے اور ان کے درمیان فساد کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا یہ ٹکڑا اسے کھانے دیا جائے۔ بلیوں کی نظریں بڑے ٹکڑوں پر تھیں اور اتنا سا ٹکڑا لینا تو بہرحال بندر کا بھی حق تھا کہ وہ ثالثی جیسا کارِخیر انجام دے رہا تھا سو بلیوں نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ بندر نے روٹی کا ٹکڑا کھایا اور اب باقی روٹیوں کی طرف متوجہ ہوا جہاں اب دو بڑے ٹکڑے اور ایک چھوٹا ٹکڑا اس کا منتظر تھا۔ اس مرتبہ دونوں بڑے ٹکڑوں سے انصاف کیا گیا اور اضافی ٹکڑے ایک مرتبہ پھر بندر کے ہی حصے میں آئے۔ روٹیوں میں سے یہ چھوٹی چھوٹی کٹوتی کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ تینوں روٹیاں بندر کے پیٹ میں چلی گئیں اور بلیاں آخر میں ایک دوسرے کی شکل دیکھتی رہ گئیں۔

دادی تو کہانی سنا کر سو گئیں اور اب میں ان کے برابر میں بیٹھا یہ ڈائری لکھتا ہوا سوچ رہا ہوں کہ کاش ان بلیوں کی بھی کوئی دادی ہوتیں جو یہ ہزار مرتبہ سنی ہوئی کہانی انہیں بھی سنا دیتی کہ بلیوں کی آپس کی لڑائی میں بندر کو الجھانے سے فائدہ صرف بندر کا ہوتا ہے۔

والسلام

زبان دراز

ہفتہ، 30 اگست، 2014

مریض

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ اکیس سال کی عمر تک میں بھی آپ جیسا ایک عام سا ہی انسان تھا جو روزانہ صبح اٹھ کر ایک خاص عادمی کی نوکری کرتا تھا اور پھر پورا دن سہانے مستقبل کے خواب دیکھتا ہوا رات گئے اپنے ادھاروں کی گنتی کرتے ہوئے سو جاتا تھا۔ زندگی نے عجیب موڑ اس وقت لیا جب میں نے حب الوطنی کے کسی جرثومے کے زیرِاثر اپنی کمپنی کے ٹیکس کے گھپلوں کی رپورٹ ایک اخباری روزنامے کو بھجوادی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس روزنامے کا مالک خود بھی ایک خاص آدمی اور ہماری کمپنی کے مالک کا دوست نکلے گا۔ رپورٹ گھوم کر واپس کمپنی میں پہنچ گئی اور میں گھما کر واپس گھر بھیج دیا گیا۔

بیروزگاری کے یہ دن شدید اذیت ناک تھے۔ جس ادارے میں بھی نوکری کیلئے جاتا وہاں یہ خبر پہلے سے پہنچ جاتی کہ اس لڑکے کو ایمانداری کی جان لیوا بیماری ہے۔ کمپنیز کو لگتا تھا کہ یہ چھوت کی بیماری ہے اور پھیل سکتی ہے لہٰذا کوئی بھی اب مجھے نوکری دینے کیلئے تیار نہ تھا۔ تین ماہ کی بیروزگاری میں جتنی بھی ایمانداری تھی وہ مناسب راستہ دیکھ کر جسم سے باہر نکل گئی تھی۔ اب میں چوری، ڈکیتی اور اجرت پر قتل تک کرنے کو تیار تھا مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ بد اچھا بدنام برا۔ شہر کے سارے چور اور ڈکیت مجھے پہچانتے تھے اور کوئی بھی مجھے گروہ میں شامل کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا کہ کیا پتہ کب پرانے جراثیم جاگ جائیں اور میں اپنے ساتھ انہیں بھی لے ڈوبوں۔

بیروزگاری کے ان تین ماہ میں میرے اندر ایک اور بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ میں اب بلاتھکان اور بغیر سوچے سمجھے بولنا شروع ہوگیا تھا۔ مجھے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں، کس سے بول رہا ہوں اور کیوں بول رہا ہوں؟ جو منہ میں آتا تھا بک دیتا تھا۔ لوگ اب مجھ سے ڈرنا شروع ہوگئے تھے۔ ان بیچاروں کو اب مجبوری میں میری عزت کرنی پڑتی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ اگر ایسا نہ کیا تو میں کہیں بھی کھڑا ہوکر ان کے بارے میں کچھ بھی بولنا شروع کردوں گا اور پھر ان کی ساری عمر اس کی وضاحت میں گزر جائے گی کہ معاملہ ایسا نہیں ایسا تھا۔ معاشرے کی یہ خوبی کہ اگلے سے منسوب ہر اچھائی کے بخیے ادھیڑ دو اور ہر برائی کو من و عن تسلیم کرلو، میرے بہت کام آرہی تھی۔

اب مجھے نوکری کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ میری ضروریات کا خیال رکھنے کیلئے محلے والے موجود تھے۔ جس کسی کو بھی کسی غریب سے دشمنی نکالنی ہوتی تھی وہ میرے گھر کچھ نذرانہ لیکر پہنچ جاتا اور میں ایک کے چار بنا کر اگلے دن محلے میں اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ دیتا تھا۔ زندگی اب سکون سے گزر رہی تھی مگر محلے والوں کو احساس ہوگیا کہ ایک ایک کرکے میرے ہاتھوں وہ سب ہی ذلیل ہورہے ہیں۔ محلہ کمیٹی کا اجلاس بیٹھا اور سب نے سر جوڑ کر بالآخر حل یہ نکالا کہ میری اس بیماری کا علاج کروایا جائے ورنہ میری بیماری کی وجہ سے بہت جلد محلے میں طلاقیں شروع ہوجائیں گی۔

اب میرے علاج کا مرحلہ شروع ہوا جس کا خرچہ محلے والوں نے بخوشی اٹھانے کا اعلان کردیا۔ خدا جانے کتنے حکیم، وید اور ڈاکٹر تھے جن کے پاس مجھے بھیجا گیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ طب یونانی سے لیکر طب مشرقی اور ایلوپیتھک سے لیکر ہومیو پیتھک تک کون سا طریقہ علاج تھا جو آزمایا نہ گیا ہو مگر میرا وہی حال تھا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ان تمام روائتی طریقوں سے تنگ آکر پھر بابوں اور پیر فقیروں کا سلسلہ شروع ہوا مگر الحمدللہ میں جہاں بھی گیا وہاں موجود پیر کو اپنا مرید ہی بنا کر اٹھا۔ مجھے خود بھی اب اس سارے کھیل سے لطف آنے لگا تھا۔ محلے کا واحد بیروزگار ہونے کے باوجود محلے کا سب سے شاہانہ طرزِ زندگی میرا تھا۔ محلے والے اس حقیقت کو جانتے تھے مگر مجبور تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی میرے علاج سے مایوس ہوگئے تھے۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ اخلاق صاحب نے جو محلہ کمیٹی کے سربراہ بھی تھے، ہمالیہ کی چوٹیوں پر موجود ایک سادھو کا پتہ لگایا ہے جو ہر اس بیماری کا علاج جانتا ہے جس کا علاج دنیا میں کہیں اور ممکن نہیں۔ چار دن کے بعد میں ہمالیہ کے برفاب پہاڑوں پر ان بابا کے سامنے بیٹھا تھا۔

اس سے پہلے کہ بابا مجھ سے کچھ پوچھتے اور کہتے میں ہمالیہ کی پگھلتی ہوئی برف اور انسانی آبادی کے اس پہاڑ پر اثرات کے سلسلے میں اپنی تقریر شروع کرچکا تھا۔ کوئی سات منٹ تک میں نے ان بابا کو ایران توران کے قصے سنائے اور تحقیق سے ثابت کیا کہ کس طرح وہ بابا اور انسانیت کے مسیحا کہلانے کے باوجود دراصل انسانیت کے مجرم ہیں۔ بابا خاموشی سے میری بات سنتے رہے اور جب میں سانس لینے کیلئے رکا تو انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کمال محبت سے میرے منہ پر ٹیپ لگادی۔ میں حیرانی سے ان کی شکل دیکھ رہا تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ انہوں نے میرے گال پر رسید کیا اور دھیمے لہجے میں گویا ہوئے کہ، ابے سالے! تیرے جیسوں کو میں بچپن سے دیکھتا آرہا ہوں۔ تیری یہ بیماری کوئی نئی نہیں بلکہ اولین انسانوں کے اندر بھی اس بیماری کے جراثیم پائے گئے تھے۔ یہ کل کے لونڈے جو ڈاکٹر بنے پھرتے ہیں اگر تاریخ انسانی اور نفسیات بھی پڑھ لیتے تو تجھے ہمالیہ تک ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ چل اب منہ پر سے ٹیپ ہٹا اور مزید سن۔ طب نے بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی تیری اس بیماری کی صرف دو قسمیں دریافت کی ہیں جو خونی اور بادی کہلاتی ہیں جبکہ تجھے اس بیماری کی تیسری اور سب سے خطرناک قسم لاحق ہے جسے ہزاروں سال پہلے ہمارے بزرگوں نے "منہ کے بواسیر" سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ بیماری ہنوز ناقابل علاج  ہے۔ البتہ اگر تو چاہتا ہے کہ معاشرے میں تیری کھوئی ہوئی عزت دوبارہ بحال ہوجائے تو اپنا یہ منحوس کان میرے قریب لا اور میری بات سن۔ بابا نے اس کے بعد جو حل مجھے بتایا وہ یقینا قابل عمل بھی تھا ور کارآمد بھی۔ میں خوشی خوشی بابا کے پاس سے اٹھ کر واپس کراچی آگیا۔ مجھے اپنی بیماری کا حل معلوم ہوگیا تھا۔

میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں اب ایک مشہور ٹیلیویژن چینل پر دن میں مارننگ شو اور رات کو حالات حاظرہ کا پروگرام کرتا ہوں۔

زبان دراز کی ڈائری - 13

پیاری ڈائری!

اب تم تو مجھ سے ناراض ہوکر نہ بیٹھو! میں نے کہا تھا نا کہ فارغ ہوتے ہی پوری رام کتھا سنائوں گی سو لو میں حاضر ۔۔۔ پہلے کہانی سن لو پھر اس کے بعد بھی روٹھنا چاہو تو میں شکوہ نہیں کروں گی۔ تم تو خیر نئی ہو اس لیئے شروع سے ہی کہانی بیان کردیتی ہوں تاکہ تمہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ تو تم جانتی ہو کہ جوائنٹ فیملی کے گھر میں رہتی ہوں جہاں کمائی ایک ہے اور کھانے والے پیٹ ہزار۔ وہی لگے بندھے وسائل اور وہی ان وسائل پر اختیار کی گھریلو رنجشیں۔ شروع میں یہ نظام طے ہوگیا تھا کہ ہر کچھ عرصے بعد گھر کا انتظام ایک شخص کے ہاتھ سے لیکر دوسرے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا تھا کہ اس طرح جوابدہی اور زمہ داری کا احساس سب لوگوں میں قائم رہے۔ میں تو چھوٹی تھی سو جتنے پیسے چاہیئے ہوتے تھے لے لیتی تھی۔ نہ جوابدہی کا خوف تھا نہ کسی اور چیز کا ڈر۔ گھر کے سب لوگ مجھ سے اتنا پیار جو کرتے تھے۔ ایک دفعہ غلطی سے گھر کا انتظام میں نے لینے کی خواہش ظاہر کردی۔ گھر والوں کی چہیتی تو تھی ہی لہٰذا کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ سارے وسائل میرے قبضے میں آئے۔ بہت سے گھر پہ لگائے باقی یاروں میں اڑائے۔ شروع میں تو کسی نے کچھ نہیں کہا مگر کچھ عرصے بعد گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں اور گھر کا انتظام مجھ سے واپس لے لیا گیا۔ سارے وسائل کا اختیار میں ہونا اتنا لطف انگیز نہیں تھا جتنا ان اختیارات کا چلے جانا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ خیر میں نے بھی اس وقت تو برداشت کیا مگر موقع ملتے ہی گھر کا کنٹرول ایک بار پھر سنبھال لیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور اختیار و بے اختیاری کا کھیل بھی جاری رہا۔ کچھ دنوں پہلے مگر جب آخری مرتبہ اختیار میرے ہاتھ سے گیا تو میرے دونوں چچا زاد بھائیوں نے دادا ابو سے کہہ کر یہ تحریری معاہدہ کروا لیا کہ اب اگلے پندرہ ماہ تک میں گھر کے امور میں مداخلت نہیں کروں گی اور خاموشی سے اپنی ضرورت کی چیزیں ان چچا زاد بھائیوں اور دادا ابو سے لیتی رہوں گی۔ اس وقت تو مجبوری تھی کہ سامنے دادا ابو تھے اور گھر کے بیشتر وسائل ان ہی کی مرہون منت تھے۔ میں ان سے اختلاف کی جسارت نہیں کرسکتی تھی۔ مرتی کیا نہ کرتی میں نے بھی معاہدے پر ستخط کردیئے۔

پہلے پانچ ماہ تو جیسے تیسے کرکے کاٹ دیئے مگر اختیار اور طاقت کا نشہ تو افیم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ کچھ نشہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور کچھ اس بات کا بھی غصہ تھا اب ان دونوں چچا زاد بھائیوں میں سے اختیار اس بھائی کے ہاتھ میں آگیا تھا جس کی مجھے کبھی بھی شکل پسند نہیں آئی تھی۔ مجھے بچپن سے یہ بات سکھا دی گئی تھی کہ اس گھر کی سب سے حسین فرد میں ہوں سو اس اعتبار سے انا و غرور بھی صرف مجھ پر ہی جچتا تھا۔ یہ چچازاد بھائی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک تو عجیب موٹا اور گنجا سا انسان اور اوپر سے انا ایسی جیسے گھر کا اصل چہیتا وہی ہو۔ خیر میں پھر بھی اسے برداشت کرلیتی اگر اس نے آتے ہی اپنی اوقات نہ دکھا دی ہوتی۔ سب سے پہلے تو اس نے کھلے کمینے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوس والی رشیدہ کی شادی میں شرکت کا فیصلہ کرلیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ رشیدہ سے مجھے کتنی چڑ ہے۔ میں پھر بھی برداشت کرگئی۔ میری اس برداشت کو کمزوری سمجھتے ہوئے اس گنجے نے دوسرا کام یہ کیا کہ میرے لیئے کام کرنے والی کریمن کو نوکری سے نکالنے اور پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا ہوا اگر گھر کے سودے میں سے چار پیسے رکھ لیتی تھی غریب؟ گویا خود تو اس نے کبھی چوری کی ہی نہیں؟ اور جب وہ جانتا تھا کہ کریمن میری خاص ہے اور اس کی تمام حرکات میرے علم میں بھی ہیں تو جب میں نے اسے پولیس کے حوالے نہیں کیا تو یہ کون ہوتا تھا یہ فیصلہ کرنے والا؟

کریمن والے واقعے کے بعد سے میری بس ہوگئی تھی اور میں اب مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ اس گنجے چچا زاد کی واحد اچھی چیز یہ تھی کہ یہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا تھا۔ جب جب میں نے اس سے کسی حماقت کی امید کی، اس نے الحمدللہ میری امیدوں کی لاج رکھی۔ ہوا یوں کہ گھر میں دیمک لگ گئی جو سارے دروازوں کھڑکیوں کو مسلسل چاٹنے لگی۔ گھر میں سب لوگ اسے کہتے رہے کہ مجھ سے کہہ کر یہ دیمک مار دوائی ڈلوا دو کہ گھر کی صفائی میرے ذمے تھی۔ گنجے نے مگر ایک نہ سنی۔ ایک دن تنگ آکر میں نے خود اسپرے اٹھایا اور صفائی میں لگ گئی۔ تب یہ صاحب بھاگتے ہوئے اور سب گھر والوں کو جمع کرکے بتانے لگے کہ کس طرح ان کے کہنے پر میں یہ صفائی کرنے لگی ہوں۔ میں دل ہی دل میں مسکرارہی تھی کیوںکہ گھر میں اب کوئی بچہ نہیں رہا تھا جسے معلوم نہ ہو کہ کون سا کام کس کے کہنے پر اور کون کر رہا ہے۔ میری منزل اب آسان تھی۔ گھر والوں کی نظر میں میری عزت اب بحال ہوگئی تھی۔ اب صرف آخری وار کرنا باقی تھا۔

میں نے اپنے تایا کے دونوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو یقین دلوا دیا کہ اگر وہ چاہیں تو میں گھر کے وسائل اور زمام اختیار ان کے حوالے کروا سکتی ہوں۔ وہ دونوں بیچارے سیدھے سادھے فوراّ میری مدد کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اب گھر کے اندر روزانہ ایک فصیحتہ کھڑا ہونے لگا۔ دونوں تایازاد کچن کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ نہ خود کھائیں گے اور نہ کسی کو کھانے دیں گے۔  ایک عجیب افراتفری کا عالم ہوگیا تھا۔ گھر کے سارے افراد پریشان تھے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ بات اب گھر سے نکل کر محلے بھر میں پھیل چکی تھی اور گھر والے مسلسل بدنام ہورہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ گنجا اس طرح دبائو کا شکار ہوکر میرے پاس آئے گا اور پھر میں اپنی مرضی کی شرائط پر مک مکا کروالوں گی۔ گنجا مگر اس مرتبہ ہوشیار نکلا۔ اسے معلوم تھا کہ دادا ابو کے ہوتے ہوئے اور اس تحریری معاہدے کے بعد میں چاہ کر بھی بذات خود ایک فریق نہیں بن سکتی تھی، اس نے دونوں تایا زاد بھائیوں کو ہر لحاظ سے زچ کرنا شروع کردیا۔ تایا زاد بھائی روزانہ رات کو میرے کاندھے پر سر رکھ کر روتے مگر میں ان کو تسلی دلوا کر واپس بھیج دیتی۔ ان بیچاروں کو اب یہ فکر لگ گئی تھی کہ اب اگر اپنا مطالبہ منوائے بغیر اٹھ گئے تو گھر کا انتظام کبھی بھی نہیں سنبھال پائیں گے اور جگ ہنسائی الگ۔ میری الگ مجبوری کہ میں بذات خود فریق نہیں بن سکتی تھی کہ دادا ابو کو پتہ چلتا تو بہت مار پڑنی تھی اور خرچہ پانی الگ بند ہوجاتا۔

اس ہی کشمکش میں پندرہ بیس دن ہوگئے تھے اور سب کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔ میں نے چچازاد گنجے کو کہا کہ اگر وہ چاہے تو میں ان دونوں تایازاد سے بات کرکے معاملہ رفع دفع کروائوں؟ اس نے بخوشی ہامی بھر لی۔ تایازاد جو اپنی چھوٹی سی انا کی وجہ سے اب چچازاد سے براہ راست مل نہیں سکتے تھے اور کسی باعزت واپسی کا ویسے ہی راستہ ڈھونڈ رہے تھے، ان کو جیسے ہی پتہ چلا کہ چچازاد نے معاملات سنبھالنے کا اختیار مجھے سونپ دیا ہے وہ ناچتے گاتے فورا میرے کمرے میں آپہنچے۔ معافی تلافی ہوئی اور اگلی بار بہتر تیاری کے ساتھ آنے کے عزم مصمم کے ساتھ وہ لوگ باہر نکلے تو گھر  کے تمام لوگ بشمول ان کے اپنے بچے ان پر تھو تھو کر رہے تھے کہ اب سب کو یقین ہوگیا تھا کہ اس سارے ہنگامے میں کہیں نہ کہیں میرا بھی ہاتھ تھا۔ اب کوئی میرے اوپر تو انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا  لہٰذا ساری لعنت ملامت ان دونوں غریب تایازاد پر آگئی۔ جلے پر نمک اس وقت پڑا جب گنجے چچازاد نے بھی گھر بھر کو جمع کرکے ان دونوں تایازاد کو خوب لتاڑا کہ کس طرح وہ میری مدد لیکر اس سے اختیارات چھیننا چاہ رہے تھے۔ جذبات کی رو میں وہ یہ بھی کہہ گیا کہ کسی کو اگر شک ہے تو مجھ سے تصدیق کرلے۔

بیچارے گنجے کو جوش میں ہوش نہیں کھونا چاہیئے تھا۔ اب چونکہ ساری توپوں کا رخ میری طرف تھا۔ اور یہ ویسے بھی واضح تھا کہ اس ڈرامے کا انجام چچازاد کے جانے پر نہیں بلکہ کچھ اختیارات میرے پاس آجانے پر ہی ہونا ہے سو میرے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم تو ڈوبے ہین صنم کا ورد کرتے ہوئے میں نے گھر والوں کو جمع کیا اور سب گھر والوں کو یقین دلا دیا کہ اصل سازش چچازاد گنجے کی رچائی ہوئی ہے اور اس ہی کے کہنے پر میں تایازاد سے ملی تھی ورنہ میں تو ان لوگوں کے نام تک نہیں جانتی تھی۔ اور ویسے بھی، ان لوگوں سے میرا کیا لینا دینا؟؟

خیر سے میری پوزیشن اب گھر میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اگر گنجے کو ہٹا کر گھر کا انتظام بھی سنبھال لوں تو بھی اب کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کیوںکہ پیچھے بیٹھ کر حکم چلانا سامنے آکر گالی کھانے سے زیادہ آسان اور مزیدار کام ہے۔ باقی رہے تایازاد، تو جب وہ ایک چچازاد کے نہیں ہوسکتے تو دوسری چچازاد کے کیسے ہونگے؟ میں بھی موقع دیکھ کر ان پر لعنت بھیج دوں گی۔ اب خود بتائو؟ اتنا کچھ چل رہا ہو گھر میں تو ڈائری خاک لکھتی؟

تمہاری

آب-پاری

 

جمعہ، 29 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 12

!پیاری ڈائری 

آج سے پہلے میں تمہیں اپنی ہی کہانیاں سناتا رہا کہ ڈائری انسان لکھتا ہی یاد داشت کیلیئے ہے۔ آج مگر میں تمہیں ایک پرائی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ زندگی کے کسی موڑ پر شاید مجھے اس کہانی کو دوبارہ دہرانے کی ضرورت پڑے سو بہتر ہے کہ اسے قرطاس پر منتقل کردوں تاکہ بوقت ضرورت حوالہ رہے۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک بہت بڑا مظلوم طبقہ بستا تھا۔ یہ بیچارے ہر لحاظ سے استحصال کا شکار  لوگ تھے اور زندگی کی سختیوں سے شدید تنگ آچکے تھے۔ وہ صبح شام گڑگڑا کر کائنات کے مالک سے دعائیں کرتے کہ ان کیلئے کسی نجات دہندہ کو بھیج دے۔ ایک دن خدائے بزرگوار نے ان محکوموں کی دعائیں سن لیں اور ان کے درمیان ایک ایسے شخص کو بھیج دیا جس نے ان کے متفرق گروہوں کو جوڑ کر ایک ملت ہونے کا احساس دوبارہ ان میں زندہ کردیا۔ اس فرشتہ صفت انسان نے نہ صرف انہیں ان کی شناخت لوٹائی بلکہ انہیں ایک الگ ملک بھی لے کر دے دیا کہ وہ وہاں رہ کر اپنی اس شناخت کا لوہا منوا سکیں اور دنیا کو دکھا سکیں کہ وہ کس قدر باصلاحیت قوم ہیں۔

جب تک وہ محسن ان لوگوں کے درمیان رہا تب تک یہ لوگ بھی بےپناہ خوش رہے۔ ایک عجیب جذبہ تھا جو اس نے ان لوگوں میں پیدا کردیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایثار اور محنت کی مثال بن کر اس نئے ملک کو آگے لے جانا چاہتا تھا۔ محدود وسائل کے باوجود وہ سب لوگ اس نئی مملکت کے حصول سے خوش تھے۔ مملکت اب ایک سال کی ہوگئی تھی اور تیزی سے استحکام کی طرف جا ہی رہی تھی کہ خدا نے اس عظیم انسان کو واپس اپنے پاس بلا لیا۔ یہ پوری قوم اس سانحے پر بہت روئی مگر اس قوم نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور یکسوئی اور محنت کے ساتھ ترقی کا سفر جاری رکھا۔

جس طرح گھر کے بڑے کے گزنے کے بعد اکثر گھر سلامت نہیں رہ پاتے اس ہی طرح اس ملک میں بھی کچھ ہی عرصے بعد لوگوں کو یہ احساس ستانے لگا کہ "ایک قوم" کے دلفریب نعرے میں الجھ کر وہ اپنی سابقہ اور اصل شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اس احساس کے ہوتے ہی لوگوں نے اپنی ان تمام شناخت کو جنہیں وہ برسوں پہلے دبا آئے تھے، دوبارہ کھود کر نکال لیا۔ اب وہ ایک قوم کے بجائے بہت ساری صوبائی، معاشی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم اقوام بن کر  رہنے لگے۔ تقسیم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہ مسلسل ہوتی ہے۔ تقسیم کا منحوس سلسلہ اگر ایک بار شروع ہوجائے تو یہ ایک ایسا  لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے جس میں انسان ہر دوسرے انسان سے اپنی شناخت الگ کرتے کرتے بالآخر مکمل اکیلا رہ جاتا ہے۔ تقسیم کے اس سفر میں ہوتے ہوتے ملک بھی تقسیم ہوگیا مگر تقسیم کی ہوس کسی طرح بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

وقت کا پہیہ بھی چلتا رہا اور زوال کا زینہ بھی بخوبی طے ہوتا رہا۔ ملک میں ایک دستور سا بن گیا تھا کہ ہر وہ چیز جس پر آپ یقین رکھتے ہیں وہ بہترین ہے اور جس چیز کے آپ مخالف ہیں، روئے زمین پر اس سے زیادہ گھٹیا کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ تقسیم کی عادت سے جو عدم برداشت کی آگ معاشرے میں پیدا ہوئی تھی وہ اب سب کے گھروں کو چاٹ رہی تھی۔ کہیں لسانیت کی بنیاد پر دنگا تھا تو کہیں مسلک اور مذہب کے نام پر فساد۔ معاشرے کی ایک بڑی تعداد مگر اب بھی اس سب صورتحال سے تنگ تھی۔ وہ اب اس سارے سلسلے سے نجات چاہتی تھی۔ طلب اور رسد کے قانون کے تحت بہت جلد ایک نیا گروہ تبدیلی کا نعرہ لیکر میدان میں آگیا۔

اس نئے گروہ کو نئی نسل نے خاص طور پر  پزیرائی بخشی کہ وہ ملک کے دگرگوں حالات سے تنگ تھے اور اب واقعی بہتری چاہتے تھے۔ ملک میں انتخابات ہوئے تو اس نوجوان طبقے کو امید تھی کہ شاید ہرکوئی ان ہی کی طرح سوچتا ہوگا مگر کسی بھی حقیقی معاشرے میں تمام افراد کبھی بھی یکساں سوچ نہیں رکھتے۔  نتیجہ ان نوجوانوں کی مرضی کے خلاف آیا تو بیچارے وقتی طور پر تو گم سم ہوکر رہ گئے۔ وقت کے ساتھ مگر جب اوسان بحال ہوئے تو حواس کے ساتھ ساتھ تفریق اور نفرت کا وہ جذبہ بھی بیدار ہوگیا کہ جس کی نفرت میں وہ خود میدان میں آئے تھے۔ اس بار نوجوانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقہ بھی سڑکوں پر آگیا۔ مطالبہ دونوں کا یہی تھا کہ موجودہ حکمران طبقہ جابر اور بدعنوان ہے لہٰذا حقِ حکمرانی کھو چکا ہے۔

ملک اب کی بار ایک نئی قسم کی تفریق سے دوچار تھا۔ اس مرتبہ یہ محض فرق نہیں بلکہ باقاعدہ نفرت تھی۔ سیاسی اختلافات اب باقاعدہ دشمنیوں میں بدل رہے تھے۔ کل کے دوست، آج کی سیاسی وفاداریوں کی وجہ سے ایک دوسرے کا نام تک سننے کے روادار نہیں رہے تھے۔ قوم کی نفسیات اب یہ ہوچکی تھی کہ محفل میں دوسرے کا گریبان اور گھر میں اپنے بال نوچتے تھے۔ ایک دوسرے کا سامنہ ہوجاتا تو منہ سے کف بہنا شروع ہوجاتا اور آوازیں خودبخود اونچی ہوجاتیں۔ جان اور مال کا تو پہلے ہی اللہ حافظ تھا مگر اب تو خیر سے عزتیں بھی محفوظ نہیں رہی تھیں۔ وہ لوگ بھول گئے تھے کہ اختلاف کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور ہدف تنقید بھی ان کا اپنا پاکستانی بھائی ہی ہے جو ان ہی کی طرح سگنل تو توڑ سکتا ہے مگر ملک پر آنچ آنے کی بات آئے تو اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔

پیاری ڈائری! اس سے آگے مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا؟ اس کہانی کا انجام کیا تھا؟ ان تمام فریقوں میں سے کون حق تھا اور کون ناحق؟ کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟ میں ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں جانتا۔

پیاری ڈائری!  ایک بات البتہ ضرور اور بالیقین کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت ان تمام لوگوں کے پیروکار ایک دوسرے کی عزتیں اچھال رہے تھے، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہ تمام لیڈران ایک دوسرے کے گلوں میں بانہیں ڈال کر بلند و بانگ قہقہے لگا رہے تھے۔

والسلام

ایک تفریق زدہ پاکستانی

زبان دراز کی ڈائری - 11

پیاری ڈائری!

تمہیں ضرور حیرت ہورہی ہوگی کہ آج میں کیسے ڈائری لکھنے بیٹھ گئی جبکہ یہ لکھنے لکھانے والے کام ہمارے منہ پھٹ میاں جی کے ہیں جو بلاوجہ اپنے آپ کو زبان دراز کہلواکر اس زبان کی خندق کو عزت دار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خیر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ویسے بھی ہم خواتین کس کام میں مردوں میں پیچھے ہیں جو یہ تصنیف کا شعبہ مردوں کے حوالے کرکے پیچھے رہ جائیں؟

ویسے اگر سوچا جائے تو تمہارا بھی اتنا قصور نہیں۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر خواتین کے ہاتھ میں قلم یا تو سودے کی پرچی بنانے یا شلوار میں ازاربند ڈالنے سے ہی مخصوص کردیا گیا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی بیچاری عورت ان روایات کو توڑ بھی دے تو یا تو بانو قدسیہ پر راجہ گدھ اشفاق احمد سے لکھوانے کا الزام لگادیا جاتا ہے یا بیچاری عصمت چغتائی پر فحش نگاری کا الزام لگ جاتا ہے۔ زرا خود انصاف کرو، یہی سب کچھ منٹو لکھے تو وہ ایک عظیم لکھاری، اور اگر عصمت لکھے تو فحش؟؟ گویا تمہاری دھوتی، فیشن اور ہماری دھوتی، لنگوٹ؟؟ اچھا انصاف ہے!!!

خیر! میں اس وقت خواتین کے حقوق کے رونے نہیں بیٹھی ہوں کہ یہ کام کرنے کیلئے ہم عورتوں نے بہت سے مرد رکھ چھوڑے ہیں جو اپنے گھروں میں خواتین کو شٹل کاک پہہنا کر دوسروں کو خواتین کے حقوق کی تلقین کرتے پھرتے ہیں۔ عرف عام میں ایسے لوگوں کو لبرل کہا جاتا ہے۔ رشیدہ آپا کی بیٹی اس دن کہہ رہی تھی کہ اس نے انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ یہ مرد عورت کی آزادی سے زیادہ عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ پانچوں انگلیاں کبھی یکساں نہیں ہوتیں مگر کافی حد تک اس کی بات بھی صحیح تھی۔

بات کہاں سے نکلی تھی اور کہاں جا پہنچی! ڈائری لکھنے کی اصل وجہ یہ خواتین کے حقوق کا رونا نہیں بلکہ میاں جی کی حرکات کا رونا تھا۔ ملک میں انقلاب آئے نہ آئے ہمارے گھر میں انقلاب ضرور آگیا ہے۔ دن بھر دفتر میں خواتین کے ساتھ فلرٹ کرنے کے بعد جب شام گئے میاں جی لوٹتے ہیں تو اپنا دن بھر کا محبت لٹانے کا کوٹا پورا کر چکے ہوتے ہیں۔ حرام ہے کہ سیدھے منہ بات کرلیں۔ آکر بس ٹیلی وژن کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور رات گئے تک ملکی حالات پر بریکنگ نیوز کے چکر میں میرا دل بریک کرتے رہتے ہیں۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے شک کرنے کی رتی برابر بھی عادت نہیں ہے۔ اتفاقاََ موبائل ہاتھ لگ جائے یا ان کا فیس بک کھلا رہ جائے تو بندے کی نظر پڑ ہی جاتی ہے۔ اس پر بھی ان کا ہر وقت کا یہی رونا رہتا ہے کہ میں بلاوجہ شک کرتی رہتی ہوں۔ اب تم خود ہی بتاؤ میں معصوم جان کسی پر شک کرسکتی ہوں؟

کل سے البتہ میرا دل بہت زیادہ اداس ہے! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ مجھ سے جھوٹ بھی بولنا شروع کردیں گے۔ کل شام کو جب یہ دفتر سے گھر آئے تو بہت تھکے ہوئے اور پریشان لگ رہے تھے۔ مجھ سے ضبط نہیں ہوا میں فوراََ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ پہلے تو کچھ نہیں بولے مگر میرے بہت کریدنے پر کہنے لگے کہ بیگم صاحبہ! آپ خود دیکھ رہی ہیں کہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ ایک طرف تبدیلی کے نعرے ہیں اور دوسری طرف انقلاب کے۔ کوئی جمہوریت کے راگ الاپ رہا ہے تو کوئی حکمرانوں پر فرعونیت کے الزام لگا رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بندہ کس طرف جائے۔ تبدیلی کی ضرورت سے کس کو انکار ہے؟ مگر یہی بات کسی کے سامنے کہہ دو تو وہ آپ کو تحریک انصاف کا کارکن سمجھ بیٹھتا ہے۔ انقلاب کی ضرورت و افادیت پر بات کرو تو آپ طاہرالقادری کے مرید کہلاتے ہیں۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی بات کرو تو سوال آتا ہے کہ آیا میں مسلم لیگ کا ووٹر تو نہیں ہوں؟ خود بتاؤ کہ انسان کرے تو کیا کرے؟ کیا ان تمام تحریکوں اور تنظیموں کے علاوہ کوئی پاکستانی نہیں ہوسکتا جو جس کی جو حق بات ہو اس کے حق میں ساتھ دے سکے؟؟ بیگم صاحبہ! میں اس لئے بھی اداس و پریشان ہوں کہ اس سب شور شرابے کے درمیان میں کل پھر میرے شہر میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔

پیاری ڈائری! باقی باتوں کے دوران تو میں موبائل پر کینڈی کرش کھیلتی رہی کہ یہ چار سو تیسواں راؤنڈ مردود مکمل ہی نہیں ہوکر دے رہا تھا اور میرا دماغ اس ہی میں اٹکا ہوا تھا۔ آخری جملے پر البتہ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ میرے منہ پر اس دھڑلے سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں! کل پورا دن مٰیں نے بھی ٹیلی وژن دیکھا تھا۔ اگر واقعی میں اتنے لوگ مرے ہوتے تو ایک آدھا ٹاک شو یا اور کچھ نہیں تو ایک نیوز بلیٹن تو اس بات پر بھی چلتا نا؟ غضب خدا کا! اپنی دفتر والی محبوبہ کا غم چھپانے کیلئے انہوں نے ایک درجن لوگوں کو مروا دیا؟

خیر، تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے زیادہ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ زندگی کے غم تم سے نہیں تو کس سے کہوں؟ دل کی بھڑاس تھی سو نکال دی، اب مجھے اجازت دو۔ ویسے بھی کامیڈی نائٹ ود کپل کا ٹائم ہوگیا ہے اور تم جانتی ہو مجھے کپل کتنا کیوٹ لگتا ہے۔

والسلام

مسز زبان دراز

جمعرات، 28 اگست، 2014

طوائف

میرا شمار ملک کے اس طبقہ اشرافیہ میں سے ہے کہ جو خود باشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ گو کہ میرا تعلق کسی بھی ایک مخصوص سیاسی جماعت سے نہیں رہا مگر وقت اور حالات کی مناسبت سے مختلف سیاسی جماعتیں میرے در کی چوکھٹ چومتی رہی ہیں۔ میں نے بھی ان میں سے کسی سیاسی جماعت کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کرنے کا گر سیکھنے کے لیئے دور دور سے لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ خدا کا کرم شروع سے میرے ساتھ رہا ہے اور ملک کے وہ تمام ادارے جہاں اس ملک کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں، میرے دوستوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ اس دوستی کے پیچھے خلوص، محبت اور وفاداری کے علاوہ ان تحفوں کا تبادلہ بھی شامل ہے جو ہم دوست آپس میں کرتے رہتے ہیں۔ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہوتا ہے البتہ یہ تحائف کا لین دین ہی میری کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ اس وقت بھی میرے پاس ایک ایسے دوست کی جانب سے تحفہ آیا ہوا تھا جو آنے والے انتخابات میں ایک مشہور سیاسی جماعت کے ٹکٹ کا امیدوار تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں صرف میں ہی اس کے کام آسکتا ہوں۔

اس تحفے کی عمر کوئی بیس بائیس سال رہی ہوگی۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ ہم دونوں اس وقت اسلام آباد کے نواحی علاقے میں موجود میرے فارم ہائوس پر بیٹھے تھے۔ اسلام آباد بھی کیا خوبصورت شہر ہے۔ کوئی نہایت ہی بذلہ سنج انسان تھا جس نے اس شہر کو اسلام آباد کا نام دیا تھا۔ جتنا اسلام اس شہر میں آکر برباد ہوا تھا اتنا تو تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد اور حسن ابن صباح کے ہاتھوں قلعہ الموت میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔

ہم دونوں اس وقت میرے فارم ہائوس پر بیٹھے جام سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا تھا کہ انگور کی بیٹی کا اصل مزہ حوا کی بیٹی کے ہاتھ سے پینے میں ہے۔ اس وقت بھی ہم دونوں قمریوں کی طرح بیٹھے تھے اور وہ بھر بھر کر مجھے جام پلائے جارہی تھی۔ اچھے وقتوں میں کسی نے سکھایا تھا کہ انسان کو اوقات کے حساب سے عزت دینی چاہیئے ورنہ ایک محاورے کے مطابق کتوں کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ برا ہو انگور کی بیٹی کا کہ میں اپنی سب فہم و فراست بھول کر اس نازک حسینہ کو جوابی جام پلانا شروع ہوگیا۔ اس غریب کو شاید اتنا پینے کی عادت نہیں تھی لہٰذا تیسرے ہی جام میں وہ اپنی اوقات پر آگئی!

پہلے تو وہ میری گود سے اتری اور پھر دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ میں سمجھا کہ یہ کوئی نئی ادا ہے کہ جس پیشے سے وہ جڑی تھی اس میں اصل کمال ادائوں کا ہی تھا۔ زندگی کی دی ہوئی وہ تمام تلخیاں جو میک اپ سے نہیں چھپ پاتیں، یہ طوائفیں اپنی ادائوں سے ان کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان بیچاریوں کو کیا معلوم کہ سامنے والا مرد اس وقت ہوس کی آگ میں اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر ان کے جسم پر کوڑھ بھی نکل آئے تو بھی یہ اسے نہ چھوڑیں۔

پہلے تو کافی دیر تک وہ یونہی کھڑی مجھے دیکھتی رہی، پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ دوبارہ میرے پاس آگئی۔ اس بار میرے برابر میں بیٹھنے کے بجائے اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر کرسی پر رکھ دی اور جھک کر مجھ سے بولی، صاحب ایک بات بتائو۔ مجھے اس کی حرکت پر ہنسی آرہی تھی۔ وہ شاید پنجابی فلموں کی شوقین رہی تھی اور اس وقت سلطان راہی لگ رہی تھی۔ میں نے بڑے لگائو سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ، پوچھو؟ اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بولی، صاحب! آپ لوگوں کی زبان میں میری جیسی لڑکی کو کیا کہا جاتا ہے؟ میں نے اس کا دل رکھنے کیلئے ایک نسبتاّ قابل برداشت لفظ چنا اور اسے بتا دیا کہ اس کی جیسی لڑکیاں تحفہ کہلاتی ہیں۔ وہ ایک ادا سے مسکرائی اور بولی، صاحب کیوں دل رکھتے ہو؟ اگر میں تحفہ ہوں تو بستر میں وہ تحفہ کون تھی جسے آپ بار بار طوائف کہہ کر پکار رہے تھے؟ میں ایک لحظہ کیلئے جھجکا مگر پھر مجھے اپنا اور اس عورت کا مقام یاد آگیا۔ میں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اس یاد دلادیا کہ وہ دراصل کون ہے اور اس کے ہم پیشہ لوگوں کا اس معاشرے میں اصل مقام کیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک کرب بھری مسکراہٹ آئی جسے دباتے ہوئے اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔ اس بار اس نے کمال معصومیت سے مجھ سے پوچھا کہ، صاحب! زنا تو دو لوگ مل کر کرتے ہیں! پھر صرف طوائف ہی کیوں گالی ہوتی ہے؟ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اگر گفتگو اس ہی طرح جاری رہی تو میرا رہا سہا نشہ بھی بیکار ہوجائے گا۔ میں نے ایک ہی دفعہ میں اسے سمجھانے کا تہیہ کرلیا۔ اس کی لامبی چوٹی کو پکڑ کر میں نے اس کو اپنے قریب کھینچا اور اس کے کان میں بولا کہ، گالی زنا کی وجہ سے نہیں بلکہ ہر دوسرے دن اپنے مقصد کیلئے تمام اصولوں اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نئے انسان کے ساتھ سونے کی وجہ سے ہے۔ اس کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار تھے مگرخدا جانے کہاں سے وہ مسکرانے کی ہمت لے آئی اور میری طرف رحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی، صاحب! اگر طوائف کی یہی تعریف ہے تو ملائیں ہاتھ! اس لحاظ سے تو ہم دونوں ہی طوائف ہیں!!

اس حرام زادی کو گھر سے نکالے ہوئے تین گھنٹے ہوگئے ہیں۔ واڈکا کی پوری بوتل خالی کر چکا ہوں مگر سکون ہے کے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جاتے جاتے وہ میرے چہرے تھوک کر چلی گئی ہے، رنڈی سالی!!!!

بدھ، 27 اگست، 2014

بیچارے افضل

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا آپ سمجھے ہیں۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ اس میں ڈرامہ بنانے والے کا قصور نہیں، میرے حصے میں آنے والا زندگی کا اسکرپٹ ہی ایسا تھا۔ زندگی کبھی بھی مجھ پر کھل کر مہربان ہوئی ہی نہیں۔ اگر ہو جاتی تو شاید آپ آج یہ کہانی نہیں پڑھ رہے ہوتے اور میں توسیع کے بعد اب بھی کسی بڑئے عہدے پر براجمان ہوتا۔

ایک چھوٹے سے گائوں نما شہر میں پیدا ہونے کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ آپ شاید کبھی اس بات کا اندازہ اس لیئے نہیں کرپاتے کیونکہ آپ خود ہمیشہ کسی بڑے شہر میں رہے ہیں۔ چھوٹا شہر اپنے محدود کلچر کی وجہ سے محدود مشاہدہ پیدا کرتا ہے اور پھر جب کوئی اس محدود مشاہدے کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکلتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا۔ بچپن سے صحافت کا شوق تھا لحاظہ میں نے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک صحافتی ادارے سے منسلک ہوگیا اور زندگی کے بہت سے قیمتی سال اس ہی غم میں برباد کردیئے۔ یہ دور صحافت کا برا دور تھا۔ حکمرانوں کے خلاف لکھو تو کوڑے کھائو اور اگر حق میں لکھو تو بھی کوئی خاص انعام نہیں پائو۔ ان تلخ ایام کی حقیقت کو میں نے اپنے پلو سے باندھ لیا اور قسم کھائی کے آئندہ صحافت میں قدم نہیں رکھوں گا۔ فائدہ ایسے کام کا جہاں انسان کے ضمیر کی مناسب قیمت بھی نہ مل سکے؟

صحافت چھوڑی تو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کیا جائے؟ پھر زمانہ صحافت کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ایک اہم قومی ادارے میں جگہ بنوائی اور سکون سے زندگی بسر کرنے لگا۔ کہنے کو اس قومی ادارے کی ضرورت ہر 5 سال بعد پیش آنی چاہیئے تھی مگر خدا بھلا کرے جمہوریت کا کہ جس کے حسن کی وجہ سے ہر دو سال بعد ہمارے بھائو بڑھ جاتے اور پورا ملک ہماری طرف دیکھنے لگتا۔ زندگی اپنی رفتار سے گزر رہی تھی۔ زمانہ ملازمت میں کئی آمریت، کئی نیم جمہوریت اور ایک آدھی مکمل جمہوریت بھی بھگتا دی مگر چھوٹے شہر کا بڑا آدمی بننے کا میرا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا تھا۔ اس بات کی خلش نے میری رات کی نیندیں اور دن کا سکون سب برباد کردیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب میری مدت ملازمت ختم ہورہی ہے اور شاید آخری مرتبہ میرے اس ادارے کو ٹیلی وژن پر آنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں نے سر دھڑ کی بازی لگادی کہ کسی طرح اس بار میں کوئی ایسا کام کرجاؤں کہ میں اپنے اس چھوٹے شہر میں ایک بڑا آدمی بن کر لوٹ سکوں۔ میں نے وزراء سے مائک چھینے، صحافیوں کو للکارا، چیف جسٹس سے ملاقاتیں کیں، مگر کوئی چیز بھی ایسی نہ نکلی جو مجھے شہرت کے اس دوام پر پہنچا دیتی جس کے میں نے بچپن سے خواب دیکھے تھے۔

وقت بھی نکل گیا اور نوکری کی مدت بھی ختم ہوگئی۔ اب میں گھر میں بیٹھ کر اس اچھے وقت کے خواب دیکھتا تھا جو کبھی آیا ہی نہیں۔ زندگی میں ایک عجیب سی مایوسی آگئی تھی اور اب میں شدید اکتاہٹ کا شکار تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کا خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے سو میری زندگی میں بھی وہ دن آ ہی گیا جب میں مشہور ہوسکتا تھا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے میرے سابقہ ادارے کی بدعنوانیوں کےخلاف ایک ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ میں نے اس جماعت کے سرکردہ رہنمائوں سے رابطے کی کوششیں شروع کردیں اور خود بھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بن گیا۔ میری کوششیں رنگ لے آئیں اور میری ملاقات اس تحریک کی قیادت سے بھی ہوگئی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے تمام تر الزامات درست ہیں اور میرا سابقہ ادارہ سنگین بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ ان کم ظرف لوگوں نے میری بات سنی تو سہی مگر اس بات کے ثبوت بھی مانگ لیئے۔ اب میں ثبوت کہاں سے لاتا؟ مایوس ہوکر میں جلسے سے باہر آگیا۔

اگلے دو دن اس ہی مایوسی میں گزرے۔ کسی کام میں دل نہیں لگا۔ قدرت نے یہ ایک آخری موقع دیا تھا جسے میں اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھا تھا۔ تیسرے دن البتہ میرے پاس ایک گمنام کال آئی۔ فون اٹھا کر بات کی تو دوسری طرف موجود شخص نے مجھ سے وہ سوال کیا جس کا مجھے صدیوں سے انتطار تھا۔ اس شخص نے مجھ سے پوچھا، پیارے افضل! کیا تم مشہور ہونا چاہتے ہو؟ مجھ پر تو گویا شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی اور میں نے فی الفور ملاقات کی خواہش کردی۔ اس انجان شخص نے مجھ سے پوچھا کہ جو باتیں میں ان لیڈران سے کرکے آیا ہوں کیا میں وہی باتیں ٹیلی وژن پر بھی دہرا سکتا ہوں؟ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ جب اس ملک میں پیارے افضل مشہور ہو سکتا ہے تو بیچارے افضل نے کیا بگاڑا ہے؟ کیا میں کسی بھی طرح پیارے افضل سے کم تھا؟؟

ٹیلی وژن پر بھی آگیا، سب باتیں بھی کہہ ڈالیں، دل کا بوجھ بھی اتر گیا، مگر پروگرام کے اختتام پر اس میزبان نے بھی وہی سوال داغ دیا کہ آیا میرے پاس ان سب باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟ دل تو کیا میں چیخ چیخ کر رو پڑوں مگر میں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے بچپن کا خواب پورا ہوگیا ہے۔ احتجاجی دھرنوں سے لیکر گلی چوباروں تک ہر کوئی اس نئے پیارے افضل کے بارے میں بات کررہا تھا۔ گاؤں گاؤں اور شہر شہر ہر ایک کے لب پر اب میرا ہی نام تھا۔

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا میں سمجھا تھا۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ کل رات یہ خواب پورا ہونے کے بعد سے میں سکون سے سو نہیں پایا ہوں اور اس بےخوابی کی وجہ میرے ارادوں اور خوابوں کی تکمیل کی خوشی نہیں ہے۔

کل رات سے محض ایک ہی خیال رہ رہ کر دماغ میں گھوم رہا ہے کہ ڈرامے کے اختتام پر کچھ بدلے یا نہ بدلے، پیارے افضل کو گولی ماردی جاتی ہے۔

 (اس کہانی کے تمام نام، مقام، واقعات اور کردار فرضی ہیں۔ کسی اتفاقیہ مماثلت کی صورت  میں مصنف زمہ دار نہیں ہوگا۔)

منگل، 26 اگست، 2014

نظم

مجھ سے ملیئے میں ایک شاعر ہوں!!!

میری نظموں میں چوڑیوں کی کھنک

میرے گیتوں میں پایلوں کی چھنک

میری غزلوں میں کنگنوں کا بیاں

میرے دوہوں میں آنچلوں کا ذکر
میں نے چاہا ۔۔۔ مگر میں لا نہ سکا!!!

 

میری نظمیں تھیں جاگتی نظمیں

میری نظمیں تھیں زندگی کا بیاں

 

میرے نغموں میں زیست بوجھ بنی

میرے گیتوں میں سانس روگ بنی

میری غزلیں تھیں حسرتوں کی کسک
میرے دوہوں میں خون تھوکا گیا

 

x------------------x------------------x------------------x------------------x------------------x------------------x

 

میں نے چاہا کہ میں بھی وہ لکھوں

جس طرح اور لوگ لکھتے ہیں

وصل و چاہت کے شوخ افسانے

ہجر کے دردخیز افسانے

میں نے چاہا ۔۔۔ مگر میں لکھ نہ سکا!!!

 

میرے موضوع شروع سے ہیں انساں

کاروبارِ سیاستِ دوراں

بھوکے بچوں کی موت اور انساں

 

اب مگر سوچتا ہوں جانے کیوں؟

اتنا بے ربط سوچتا ہوں کیوں؟

میرے دکھ سب سے مختلف ہیں کیوں؟

 

مجھ سے ملیئے میں ایک شاعر ہوں!

اس لیئے خون تھوکتا ہوں میں ۔۔۔

آئیے ترس کھائیے مجھ پر!!!

زبان دراز کی ڈائری – 10

پیاری ڈائری!

آج میرا ڈائری لکھنے کا قطعاّ کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کیا کرتا۔ کچھ درد اگر قرطاس پر منتقل نہ کیئے جائیں تو جسم کے اندر ہی گھائو بنا کر بس جاتے ہیں اور پھر گھائو سے لاوہ بنتے انہیں کب دیر لگتی ہے؟ اور لاوے کی فطرت تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ یا تو اندر ہی اندر چٹان کو کھاتا رہتا ہے یا پھر ایک ہی دفعہ باہر نکل کر سب کچھ برباد کر چھوڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ درد کو درد ہی رہنے دیا جائے اور اسے رگوں سے نچوڑ کر قرطاس پر منتقل کردیا جائے۔

میں جانتا ہوں تمہیں ان سب سنجیدہ چیزوں کی عادت نہیں ہے اور مجھ سے یہ باتیں سننا تمہیں ضرور حیران بلکہ شاید کچھ حد تک پریشان  بھی کر رہا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں کے آج کوشش کے باوجود بھی میں مسکرا نہیں پارہا۔ میں چاہتا ہوں کہ قلم سے شگوفے بکھیروں، تمہارے چہرے پر مسکراہٹ لائوں، طنز کے لطیف نشتر سے تمہیں گدگدائوں ۔۔۔ مگر آج کا زخم شاید نشتر کے بس کا نہیں ہے۔ اسے کسی معمولی نشتر کی نہیں بلکہ کاٹ دینے والی تلوار کی ضرورت ہے کہ اگر آج بھی تلوار نہ چلی تو اس زخم میں موجود زہر پورے جسم کو چاٹ جائے گا۔

پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی اور یہ موسمی بخار جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دو ڈاکٹر بدل کر دیکھ لیئے مگر اس بخار نے جان نہیں چھوڑی۔ کل خالہ جان ملنے کیلئے آئیں تو جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ بیٹا روائتی علاج اپنی جگہ سہی مگر ہوسکے تو گوشت کا صدقہ نکال دو۔ صدقہ بہت سی آفات و بلیات کو ٹال دیتا ہے۔ بات بھی کچھ مناسب تھی اور ویسے بھی بیماری و کمزوری میں انسان مذہب سے کچھ قریب ہوجاتا ہے سو آج صبح جاکر میں بھی حسب استطاعت ایک چھوٹا سا بکرا خرید کر لے آیا کہ گھر میں ہی صدقہ دلاکر گوشت مستحقین میں تقسیم کردوں گا۔

خیر سے بکرا بھی آگیا اور صدقہ بھی دے ڈالا۔ اب جب گوشت مستحقین کو دینے کی باری آئی تو میں نے اپنے دفتر کے ایک چپڑاسی کو فون کرکے بلا لیا۔ خدا بیچارے مشتاق کو خوش رکھے کہ وہ چپڑاسی ہونے کے باوجود ایک بڑے دل کا مالک ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس کے علم میں کوئی نہ کوئی ایسا مستحق ضرور ہوگا جو صدقے کا یہ گوشت استعمال کرسکے۔

میں نے گوشت مشتاق کے حوالے کیا اور اس کو تاکید کی کہ کسی واقعی مستحق انسان تک اسے پہنچا دے۔ مشتاق نے گوشت کا تھیلا میرے ہاتھ سے لیا مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو مشتاق نے بھرائی ہوئی آواز مٰیں ایک ایسا سوال کرڈالا کہ جس کا جواب میں اب تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ مشتاق نے کہا کہ صاحب! میں سید ہوں لہٰذا صدقے کا گوشت مجھ پر حرام ہے؛ میری اپنی ذات پر اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، پر صاحب میرے گھر والوں نے پچھلے تین سال سے بکرے کا گوشت نہیں کھایا ہے!! آپ تو مذہب جانتے ہیں، کیا کوئی ایسی صورت نہیں نکل سکتی کہ میں اس پورے تھیلے میں سے تین، چار بوٹیاں اپنے والدین کیلئے استعمال کرسکوں؟؟؟

پیاری ڈائری! مشتاق تو گوشت لیکر چلا گیا مگر میری طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب ہوگئی ہے۔ دوپہر سے ٹیلیویژن کے آگے بیٹھا ہوں اور دماغ میں صرف ایک ہی بات چل رہی ہے؛

میاں صاحب کو ہرن نہیں کھانا چاہیئے تھا۔

والسلام

لٹا ہوا پاکستانی

منگل، 12 اگست، 2014

بھوک

میں:
جاننا چاہتی ہیں میں کون ہوں؟
سنیئے مادام!!!
میں بہت عام سا اک فرد ہوں اِن کے جیسا ۔۔۔ !!!

وہ:
وہ جنہیں تابِ گراں باریٰ ایام نہیں؟

میں:
جی نہیں! وہ تو بڑے لوگ تھے جن پر اکثر
فیض و جالب سے کئی،
نظم لکھا کرتے تھے
اب مگر دور دِگر ہے میری پیاری مادام۔۔!!!
اس نئے دور کا عنوان ہے
جسموں کی ہوس ۔۔۔!!!
اب کوئی ہم پہ غزل ۔۔۔ جانے دیں!!!
ہم انہی بھوک زدہ، خوف زدہ، ننگ زدہ لوگوں کی اولاد ہیں جو ۔۔۔
خیر ، اب چھوڑیئے؛ اس بات کو ہی جانے دیں!!!

میں:
کیا کہا؟؟ جاننا چاہیں گی میرے بارے میں؟؟
میرے بارے میں بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں
میرا ماضی نری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں!
میں نے بولا نا بہت عام سا اک فرد ہوں میں
اک نظر دیکھیئے، ہر شخص میں دکھ جائوں گا!!
دیکھیئے ایک نظر گرتے ہوئے بوڑھوں پر
جن کے بارے میں کہا تھا یہ کبھی فیض نے ہی
"وہ جنہیں تابِ گراں باری ایام نہٰیں"
دیکھیئے ایک نظر غور سے پیاری مادام
اپنے سینے کو چھپاتی یہ سسکتی عورت
روز بکتی ہے جو اس شہر کے بازاروں میں
اس کے پہلو میں یہ لیٹا ہوا بیمار بدن
آیا تھا زد میں دھماکے کی کئی سال گئے ۔۔۔
اور یہ بچے ۔۔۔۔
میں نے بولا نا ۔۔۔ بہت عام سا اک فرد ہوں میں
ان میں جس شخص میں دیکھیں گی تو دکھ جائوں گا

وہ:
مگر یہ سب ۔۔۔؟؟؟
خداوندا ۔۔۔!!!
یہ غربت، غلاظت، یہ عصمت فروشی؟
یہ سب کیا ہے، کیوں ہے؟ میں کیسے بتائوں؟
وہ ساحر کا جملہ میں کس کو سنائوں
ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کو لائوں،
یہ گلیاں یہ کوچے یہ منظر دکھائوں!!

میں:
یہ بستی، یہ قریہ
یہ گلیاں، یہ کوچے
جوانوں کے لاشے
یہ رسوا بڑھاپے
یہ کمزور بچے
یہ ادھ ننگی عورت
یہ عصمت دریدہ
نہیں جس کو پرواہ
کے بھٹو جیئے یا کہ عمران آئے
میاں جی رکیں یا حکومت ہی جائے
اسے بس فکر ہے تو اتنی سی میڈم
کہ کل سے ہے دھندے میں ہفتے کا ناغہ
اور اس ایک ہفتے
بڑی والی بیٹی کو اک بار پھر سے ۔۔۔۔

میں نے نظم مکمل کرکے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور ڈرائیور کو اےسی تیز کر نے کا کہہ کر اپنی نئی کرولا کی نشست پر نیم دراز ہوگیا۔ مجھے یقین تھا کہ بھوک، سیاست، اور غربت پر لکھے ہوئی یہ نظم بہت مشہور ہوگی۔

سید عاطف علی
12-August-2014

بلاگ فالوورز

آمدورفت