میرا شمار ملک کے اس طبقہ اشرافیہ میں سے ہے کہ جو خود باشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ گو کہ میرا تعلق کسی بھی ایک مخصوص سیاسی جماعت سے نہیں رہا مگر وقت اور حالات کی مناسبت سے مختلف سیاسی جماعتیں میرے در کی چوکھٹ چومتی رہی ہیں۔ میں نے بھی ان میں سے کسی سیاسی جماعت کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کرنے کا گر سیکھنے کے لیئے دور دور سے لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ خدا کا کرم شروع سے میرے ساتھ رہا ہے اور ملک کے وہ تمام ادارے جہاں اس ملک کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں، میرے دوستوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ اس دوستی کے پیچھے خلوص، محبت اور وفاداری کے علاوہ ان تحفوں کا تبادلہ بھی شامل ہے جو ہم دوست آپس میں کرتے رہتے ہیں۔ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہوتا ہے البتہ یہ تحائف کا لین دین ہی میری کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ اس وقت بھی میرے پاس ایک ایسے دوست کی جانب سے تحفہ آیا ہوا تھا جو آنے والے انتخابات میں ایک مشہور سیاسی جماعت کے ٹکٹ کا امیدوار تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں صرف میں ہی اس کے کام آسکتا ہوں۔
اس تحفے کی عمر کوئی بیس بائیس سال رہی ہوگی۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ ہم دونوں اس وقت اسلام آباد کے نواحی علاقے میں موجود میرے فارم ہائوس پر بیٹھے تھے۔ اسلام آباد بھی کیا خوبصورت شہر ہے۔ کوئی نہایت ہی بذلہ سنج انسان تھا جس نے اس شہر کو اسلام آباد کا نام دیا تھا۔ جتنا اسلام اس شہر میں آکر برباد ہوا تھا اتنا تو تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد اور حسن ابن صباح کے ہاتھوں قلعہ الموت میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔
ہم دونوں اس وقت میرے فارم ہائوس پر بیٹھے جام سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا تھا کہ انگور کی بیٹی کا اصل مزہ حوا کی بیٹی کے ہاتھ سے پینے میں ہے۔ اس وقت بھی ہم دونوں قمریوں کی طرح بیٹھے تھے اور وہ بھر بھر کر مجھے جام پلائے جارہی تھی۔ اچھے وقتوں میں کسی نے سکھایا تھا کہ انسان کو اوقات کے حساب سے عزت دینی چاہیئے ورنہ ایک محاورے کے مطابق کتوں کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ برا ہو انگور کی بیٹی کا کہ میں اپنی سب فہم و فراست بھول کر اس نازک حسینہ کو جوابی جام پلانا شروع ہوگیا۔ اس غریب کو شاید اتنا پینے کی عادت نہیں تھی لہٰذا تیسرے ہی جام میں وہ اپنی اوقات پر آگئی!
پہلے تو وہ میری گود سے اتری اور پھر دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ میں سمجھا کہ یہ کوئی نئی ادا ہے کہ جس پیشے سے وہ جڑی تھی اس میں اصل کمال ادائوں کا ہی تھا۔ زندگی کی دی ہوئی وہ تمام تلخیاں جو میک اپ سے نہیں چھپ پاتیں، یہ طوائفیں اپنی ادائوں سے ان کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان بیچاریوں کو کیا معلوم کہ سامنے والا مرد اس وقت ہوس کی آگ میں اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر ان کے جسم پر کوڑھ بھی نکل آئے تو بھی یہ اسے نہ چھوڑیں۔
پہلے تو کافی دیر تک وہ یونہی کھڑی مجھے دیکھتی رہی، پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ دوبارہ میرے پاس آگئی۔ اس بار میرے برابر میں بیٹھنے کے بجائے اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر کرسی پر رکھ دی اور جھک کر مجھ سے بولی، صاحب ایک بات بتائو۔ مجھے اس کی حرکت پر ہنسی آرہی تھی۔ وہ شاید پنجابی فلموں کی شوقین رہی تھی اور اس وقت سلطان راہی لگ رہی تھی۔ میں نے بڑے لگائو سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ، پوچھو؟ اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بولی، صاحب! آپ لوگوں کی زبان میں میری جیسی لڑکی کو کیا کہا جاتا ہے؟ میں نے اس کا دل رکھنے کیلئے ایک نسبتاّ قابل برداشت لفظ چنا اور اسے بتا دیا کہ اس کی جیسی لڑکیاں تحفہ کہلاتی ہیں۔ وہ ایک ادا سے مسکرائی اور بولی، صاحب کیوں دل رکھتے ہو؟ اگر میں تحفہ ہوں تو بستر میں وہ تحفہ کون تھی جسے آپ بار بار طوائف کہہ کر پکار رہے تھے؟ میں ایک لحظہ کیلئے جھجکا مگر پھر مجھے اپنا اور اس عورت کا مقام یاد آگیا۔ میں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اس یاد دلادیا کہ وہ دراصل کون ہے اور اس کے ہم پیشہ لوگوں کا اس معاشرے میں اصل مقام کیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک کرب بھری مسکراہٹ آئی جسے دباتے ہوئے اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔ اس بار اس نے کمال معصومیت سے مجھ سے پوچھا کہ، صاحب! زنا تو دو لوگ مل کر کرتے ہیں! پھر صرف طوائف ہی کیوں گالی ہوتی ہے؟ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اگر گفتگو اس ہی طرح جاری رہی تو میرا رہا سہا نشہ بھی بیکار ہوجائے گا۔ میں نے ایک ہی دفعہ میں اسے سمجھانے کا تہیہ کرلیا۔ اس کی لامبی چوٹی کو پکڑ کر میں نے اس کو اپنے قریب کھینچا اور اس کے کان میں بولا کہ، گالی زنا کی وجہ سے نہیں بلکہ ہر دوسرے دن اپنے مقصد کیلئے تمام اصولوں اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نئے انسان کے ساتھ سونے کی وجہ سے ہے۔ اس کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار تھے مگرخدا جانے کہاں سے وہ مسکرانے کی ہمت لے آئی اور میری طرف رحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی، صاحب! اگر طوائف کی یہی تعریف ہے تو ملائیں ہاتھ! اس لحاظ سے تو ہم دونوں ہی طوائف ہیں!!
اس حرام زادی کو گھر سے نکالے ہوئے تین گھنٹے ہوگئے ہیں۔ واڈکا کی پوری بوتل خالی کر چکا ہوں مگر سکون ہے کے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جاتے جاتے وہ میرے چہرے تھوک کر چلی گئی ہے، رنڈی سالی!!!!
معاشرے میں انیوالی تبدیلیاں سب سے پہلے لکھاری کو چھیڑتی ہیں کہ وہ حقیقت میں (یا اپنے تئیں، مؑذرت مگر میں خود اس کیفیت سے دوچار ہونے کے باوجود بھی آج تک اس میں فرق نہیں کر پایا) بہت حساس مخلوق ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ آپ کی حساسیت کو قائم رکھے اور آپ کو معاشرے کی نبض ٹٹولنے اور اس کو جھنجھوڑنے کی ہمت عطا فرماتا رہے۔
معذرت*
جواب دیںحذف کریںبراوو عاطف۔ براوو
جواب دیںحذف کریںعاطف بھائی کیا ہی کمال کی تحریر ہے بہت ہی اعلی زبردست ایسے ہی لکھتے رہو ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںابے یہ کیا یار ماڈریشن آزادی اظہار خیال کی موت ہے :( اور لڑکیاں لگاتی ہیں ماڈریشن تسی وی :(
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ میرے بهائی
جواب دیںحذف کریںمتشکرم بهائی
جواب دیںحذف کریںیہاں کوئی کمنٹ کرتا ہی کب ہے کہ ماڈریشن لگانے یا ہٹانے کی ضرورت ہوتی؟
جواب دیںحذف کریںbeautiful, Thankyou, for sharing
جواب دیںحذف کریںkya zannaatay daar thappar lagaaya hai. Buhut khoob.
جواب دیںحذف کریں