بدھ، 27 اگست، 2014

بیچارے افضل

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا آپ سمجھے ہیں۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ اس میں ڈرامہ بنانے والے کا قصور نہیں، میرے حصے میں آنے والا زندگی کا اسکرپٹ ہی ایسا تھا۔ زندگی کبھی بھی مجھ پر کھل کر مہربان ہوئی ہی نہیں۔ اگر ہو جاتی تو شاید آپ آج یہ کہانی نہیں پڑھ رہے ہوتے اور میں توسیع کے بعد اب بھی کسی بڑئے عہدے پر براجمان ہوتا۔

ایک چھوٹے سے گائوں نما شہر میں پیدا ہونے کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ آپ شاید کبھی اس بات کا اندازہ اس لیئے نہیں کرپاتے کیونکہ آپ خود ہمیشہ کسی بڑے شہر میں رہے ہیں۔ چھوٹا شہر اپنے محدود کلچر کی وجہ سے محدود مشاہدہ پیدا کرتا ہے اور پھر جب کوئی اس محدود مشاہدے کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکلتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا۔ بچپن سے صحافت کا شوق تھا لحاظہ میں نے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک صحافتی ادارے سے منسلک ہوگیا اور زندگی کے بہت سے قیمتی سال اس ہی غم میں برباد کردیئے۔ یہ دور صحافت کا برا دور تھا۔ حکمرانوں کے خلاف لکھو تو کوڑے کھائو اور اگر حق میں لکھو تو بھی کوئی خاص انعام نہیں پائو۔ ان تلخ ایام کی حقیقت کو میں نے اپنے پلو سے باندھ لیا اور قسم کھائی کے آئندہ صحافت میں قدم نہیں رکھوں گا۔ فائدہ ایسے کام کا جہاں انسان کے ضمیر کی مناسب قیمت بھی نہ مل سکے؟

صحافت چھوڑی تو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کیا جائے؟ پھر زمانہ صحافت کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ایک اہم قومی ادارے میں جگہ بنوائی اور سکون سے زندگی بسر کرنے لگا۔ کہنے کو اس قومی ادارے کی ضرورت ہر 5 سال بعد پیش آنی چاہیئے تھی مگر خدا بھلا کرے جمہوریت کا کہ جس کے حسن کی وجہ سے ہر دو سال بعد ہمارے بھائو بڑھ جاتے اور پورا ملک ہماری طرف دیکھنے لگتا۔ زندگی اپنی رفتار سے گزر رہی تھی۔ زمانہ ملازمت میں کئی آمریت، کئی نیم جمہوریت اور ایک آدھی مکمل جمہوریت بھی بھگتا دی مگر چھوٹے شہر کا بڑا آدمی بننے کا میرا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا تھا۔ اس بات کی خلش نے میری رات کی نیندیں اور دن کا سکون سب برباد کردیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب میری مدت ملازمت ختم ہورہی ہے اور شاید آخری مرتبہ میرے اس ادارے کو ٹیلی وژن پر آنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں نے سر دھڑ کی بازی لگادی کہ کسی طرح اس بار میں کوئی ایسا کام کرجاؤں کہ میں اپنے اس چھوٹے شہر میں ایک بڑا آدمی بن کر لوٹ سکوں۔ میں نے وزراء سے مائک چھینے، صحافیوں کو للکارا، چیف جسٹس سے ملاقاتیں کیں، مگر کوئی چیز بھی ایسی نہ نکلی جو مجھے شہرت کے اس دوام پر پہنچا دیتی جس کے میں نے بچپن سے خواب دیکھے تھے۔

وقت بھی نکل گیا اور نوکری کی مدت بھی ختم ہوگئی۔ اب میں گھر میں بیٹھ کر اس اچھے وقت کے خواب دیکھتا تھا جو کبھی آیا ہی نہیں۔ زندگی میں ایک عجیب سی مایوسی آگئی تھی اور اب میں شدید اکتاہٹ کا شکار تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کا خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے سو میری زندگی میں بھی وہ دن آ ہی گیا جب میں مشہور ہوسکتا تھا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے میرے سابقہ ادارے کی بدعنوانیوں کےخلاف ایک ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ میں نے اس جماعت کے سرکردہ رہنمائوں سے رابطے کی کوششیں شروع کردیں اور خود بھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بن گیا۔ میری کوششیں رنگ لے آئیں اور میری ملاقات اس تحریک کی قیادت سے بھی ہوگئی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے تمام تر الزامات درست ہیں اور میرا سابقہ ادارہ سنگین بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ ان کم ظرف لوگوں نے میری بات سنی تو سہی مگر اس بات کے ثبوت بھی مانگ لیئے۔ اب میں ثبوت کہاں سے لاتا؟ مایوس ہوکر میں جلسے سے باہر آگیا۔

اگلے دو دن اس ہی مایوسی میں گزرے۔ کسی کام میں دل نہیں لگا۔ قدرت نے یہ ایک آخری موقع دیا تھا جسے میں اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھا تھا۔ تیسرے دن البتہ میرے پاس ایک گمنام کال آئی۔ فون اٹھا کر بات کی تو دوسری طرف موجود شخص نے مجھ سے وہ سوال کیا جس کا مجھے صدیوں سے انتطار تھا۔ اس شخص نے مجھ سے پوچھا، پیارے افضل! کیا تم مشہور ہونا چاہتے ہو؟ مجھ پر تو گویا شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی اور میں نے فی الفور ملاقات کی خواہش کردی۔ اس انجان شخص نے مجھ سے پوچھا کہ جو باتیں میں ان لیڈران سے کرکے آیا ہوں کیا میں وہی باتیں ٹیلی وژن پر بھی دہرا سکتا ہوں؟ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ جب اس ملک میں پیارے افضل مشہور ہو سکتا ہے تو بیچارے افضل نے کیا بگاڑا ہے؟ کیا میں کسی بھی طرح پیارے افضل سے کم تھا؟؟

ٹیلی وژن پر بھی آگیا، سب باتیں بھی کہہ ڈالیں، دل کا بوجھ بھی اتر گیا، مگر پروگرام کے اختتام پر اس میزبان نے بھی وہی سوال داغ دیا کہ آیا میرے پاس ان سب باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟ دل تو کیا میں چیخ چیخ کر رو پڑوں مگر میں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے بچپن کا خواب پورا ہوگیا ہے۔ احتجاجی دھرنوں سے لیکر گلی چوباروں تک ہر کوئی اس نئے پیارے افضل کے بارے میں بات کررہا تھا۔ گاؤں گاؤں اور شہر شہر ہر ایک کے لب پر اب میرا ہی نام تھا۔

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا میں سمجھا تھا۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ کل رات یہ خواب پورا ہونے کے بعد سے میں سکون سے سو نہیں پایا ہوں اور اس بےخوابی کی وجہ میرے ارادوں اور خوابوں کی تکمیل کی خوشی نہیں ہے۔

کل رات سے محض ایک ہی خیال رہ رہ کر دماغ میں گھوم رہا ہے کہ ڈرامے کے اختتام پر کچھ بدلے یا نہ بدلے، پیارے افضل کو گولی ماردی جاتی ہے۔

 (اس کہانی کے تمام نام، مقام، واقعات اور کردار فرضی ہیں۔ کسی اتفاقیہ مماثلت کی صورت  میں مصنف زمہ دار نہیں ہوگا۔)

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت