ہفتہ، 30 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 13

پیاری ڈائری!

اب تم تو مجھ سے ناراض ہوکر نہ بیٹھو! میں نے کہا تھا نا کہ فارغ ہوتے ہی پوری رام کتھا سنائوں گی سو لو میں حاضر ۔۔۔ پہلے کہانی سن لو پھر اس کے بعد بھی روٹھنا چاہو تو میں شکوہ نہیں کروں گی۔ تم تو خیر نئی ہو اس لیئے شروع سے ہی کہانی بیان کردیتی ہوں تاکہ تمہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ تو تم جانتی ہو کہ جوائنٹ فیملی کے گھر میں رہتی ہوں جہاں کمائی ایک ہے اور کھانے والے پیٹ ہزار۔ وہی لگے بندھے وسائل اور وہی ان وسائل پر اختیار کی گھریلو رنجشیں۔ شروع میں یہ نظام طے ہوگیا تھا کہ ہر کچھ عرصے بعد گھر کا انتظام ایک شخص کے ہاتھ سے لیکر دوسرے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا تھا کہ اس طرح جوابدہی اور زمہ داری کا احساس سب لوگوں میں قائم رہے۔ میں تو چھوٹی تھی سو جتنے پیسے چاہیئے ہوتے تھے لے لیتی تھی۔ نہ جوابدہی کا خوف تھا نہ کسی اور چیز کا ڈر۔ گھر کے سب لوگ مجھ سے اتنا پیار جو کرتے تھے۔ ایک دفعہ غلطی سے گھر کا انتظام میں نے لینے کی خواہش ظاہر کردی۔ گھر والوں کی چہیتی تو تھی ہی لہٰذا کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ سارے وسائل میرے قبضے میں آئے۔ بہت سے گھر پہ لگائے باقی یاروں میں اڑائے۔ شروع میں تو کسی نے کچھ نہیں کہا مگر کچھ عرصے بعد گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں اور گھر کا انتظام مجھ سے واپس لے لیا گیا۔ سارے وسائل کا اختیار میں ہونا اتنا لطف انگیز نہیں تھا جتنا ان اختیارات کا چلے جانا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ خیر میں نے بھی اس وقت تو برداشت کیا مگر موقع ملتے ہی گھر کا کنٹرول ایک بار پھر سنبھال لیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور اختیار و بے اختیاری کا کھیل بھی جاری رہا۔ کچھ دنوں پہلے مگر جب آخری مرتبہ اختیار میرے ہاتھ سے گیا تو میرے دونوں چچا زاد بھائیوں نے دادا ابو سے کہہ کر یہ تحریری معاہدہ کروا لیا کہ اب اگلے پندرہ ماہ تک میں گھر کے امور میں مداخلت نہیں کروں گی اور خاموشی سے اپنی ضرورت کی چیزیں ان چچا زاد بھائیوں اور دادا ابو سے لیتی رہوں گی۔ اس وقت تو مجبوری تھی کہ سامنے دادا ابو تھے اور گھر کے بیشتر وسائل ان ہی کی مرہون منت تھے۔ میں ان سے اختلاف کی جسارت نہیں کرسکتی تھی۔ مرتی کیا نہ کرتی میں نے بھی معاہدے پر ستخط کردیئے۔

پہلے پانچ ماہ تو جیسے تیسے کرکے کاٹ دیئے مگر اختیار اور طاقت کا نشہ تو افیم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ کچھ نشہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور کچھ اس بات کا بھی غصہ تھا اب ان دونوں چچا زاد بھائیوں میں سے اختیار اس بھائی کے ہاتھ میں آگیا تھا جس کی مجھے کبھی بھی شکل پسند نہیں آئی تھی۔ مجھے بچپن سے یہ بات سکھا دی گئی تھی کہ اس گھر کی سب سے حسین فرد میں ہوں سو اس اعتبار سے انا و غرور بھی صرف مجھ پر ہی جچتا تھا۔ یہ چچازاد بھائی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک تو عجیب موٹا اور گنجا سا انسان اور اوپر سے انا ایسی جیسے گھر کا اصل چہیتا وہی ہو۔ خیر میں پھر بھی اسے برداشت کرلیتی اگر اس نے آتے ہی اپنی اوقات نہ دکھا دی ہوتی۔ سب سے پہلے تو اس نے کھلے کمینے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوس والی رشیدہ کی شادی میں شرکت کا فیصلہ کرلیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ رشیدہ سے مجھے کتنی چڑ ہے۔ میں پھر بھی برداشت کرگئی۔ میری اس برداشت کو کمزوری سمجھتے ہوئے اس گنجے نے دوسرا کام یہ کیا کہ میرے لیئے کام کرنے والی کریمن کو نوکری سے نکالنے اور پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا ہوا اگر گھر کے سودے میں سے چار پیسے رکھ لیتی تھی غریب؟ گویا خود تو اس نے کبھی چوری کی ہی نہیں؟ اور جب وہ جانتا تھا کہ کریمن میری خاص ہے اور اس کی تمام حرکات میرے علم میں بھی ہیں تو جب میں نے اسے پولیس کے حوالے نہیں کیا تو یہ کون ہوتا تھا یہ فیصلہ کرنے والا؟

کریمن والے واقعے کے بعد سے میری بس ہوگئی تھی اور میں اب مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ اس گنجے چچا زاد کی واحد اچھی چیز یہ تھی کہ یہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا تھا۔ جب جب میں نے اس سے کسی حماقت کی امید کی، اس نے الحمدللہ میری امیدوں کی لاج رکھی۔ ہوا یوں کہ گھر میں دیمک لگ گئی جو سارے دروازوں کھڑکیوں کو مسلسل چاٹنے لگی۔ گھر میں سب لوگ اسے کہتے رہے کہ مجھ سے کہہ کر یہ دیمک مار دوائی ڈلوا دو کہ گھر کی صفائی میرے ذمے تھی۔ گنجے نے مگر ایک نہ سنی۔ ایک دن تنگ آکر میں نے خود اسپرے اٹھایا اور صفائی میں لگ گئی۔ تب یہ صاحب بھاگتے ہوئے اور سب گھر والوں کو جمع کرکے بتانے لگے کہ کس طرح ان کے کہنے پر میں یہ صفائی کرنے لگی ہوں۔ میں دل ہی دل میں مسکرارہی تھی کیوںکہ گھر میں اب کوئی بچہ نہیں رہا تھا جسے معلوم نہ ہو کہ کون سا کام کس کے کہنے پر اور کون کر رہا ہے۔ میری منزل اب آسان تھی۔ گھر والوں کی نظر میں میری عزت اب بحال ہوگئی تھی۔ اب صرف آخری وار کرنا باقی تھا۔

میں نے اپنے تایا کے دونوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو یقین دلوا دیا کہ اگر وہ چاہیں تو میں گھر کے وسائل اور زمام اختیار ان کے حوالے کروا سکتی ہوں۔ وہ دونوں بیچارے سیدھے سادھے فوراّ میری مدد کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اب گھر کے اندر روزانہ ایک فصیحتہ کھڑا ہونے لگا۔ دونوں تایازاد کچن کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ نہ خود کھائیں گے اور نہ کسی کو کھانے دیں گے۔  ایک عجیب افراتفری کا عالم ہوگیا تھا۔ گھر کے سارے افراد پریشان تھے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ بات اب گھر سے نکل کر محلے بھر میں پھیل چکی تھی اور گھر والے مسلسل بدنام ہورہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ گنجا اس طرح دبائو کا شکار ہوکر میرے پاس آئے گا اور پھر میں اپنی مرضی کی شرائط پر مک مکا کروالوں گی۔ گنجا مگر اس مرتبہ ہوشیار نکلا۔ اسے معلوم تھا کہ دادا ابو کے ہوتے ہوئے اور اس تحریری معاہدے کے بعد میں چاہ کر بھی بذات خود ایک فریق نہیں بن سکتی تھی، اس نے دونوں تایا زاد بھائیوں کو ہر لحاظ سے زچ کرنا شروع کردیا۔ تایا زاد بھائی روزانہ رات کو میرے کاندھے پر سر رکھ کر روتے مگر میں ان کو تسلی دلوا کر واپس بھیج دیتی۔ ان بیچاروں کو اب یہ فکر لگ گئی تھی کہ اب اگر اپنا مطالبہ منوائے بغیر اٹھ گئے تو گھر کا انتظام کبھی بھی نہیں سنبھال پائیں گے اور جگ ہنسائی الگ۔ میری الگ مجبوری کہ میں بذات خود فریق نہیں بن سکتی تھی کہ دادا ابو کو پتہ چلتا تو بہت مار پڑنی تھی اور خرچہ پانی الگ بند ہوجاتا۔

اس ہی کشمکش میں پندرہ بیس دن ہوگئے تھے اور سب کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔ میں نے چچازاد گنجے کو کہا کہ اگر وہ چاہے تو میں ان دونوں تایازاد سے بات کرکے معاملہ رفع دفع کروائوں؟ اس نے بخوشی ہامی بھر لی۔ تایازاد جو اپنی چھوٹی سی انا کی وجہ سے اب چچازاد سے براہ راست مل نہیں سکتے تھے اور کسی باعزت واپسی کا ویسے ہی راستہ ڈھونڈ رہے تھے، ان کو جیسے ہی پتہ چلا کہ چچازاد نے معاملات سنبھالنے کا اختیار مجھے سونپ دیا ہے وہ ناچتے گاتے فورا میرے کمرے میں آپہنچے۔ معافی تلافی ہوئی اور اگلی بار بہتر تیاری کے ساتھ آنے کے عزم مصمم کے ساتھ وہ لوگ باہر نکلے تو گھر  کے تمام لوگ بشمول ان کے اپنے بچے ان پر تھو تھو کر رہے تھے کہ اب سب کو یقین ہوگیا تھا کہ اس سارے ہنگامے میں کہیں نہ کہیں میرا بھی ہاتھ تھا۔ اب کوئی میرے اوپر تو انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا  لہٰذا ساری لعنت ملامت ان دونوں غریب تایازاد پر آگئی۔ جلے پر نمک اس وقت پڑا جب گنجے چچازاد نے بھی گھر بھر کو جمع کرکے ان دونوں تایازاد کو خوب لتاڑا کہ کس طرح وہ میری مدد لیکر اس سے اختیارات چھیننا چاہ رہے تھے۔ جذبات کی رو میں وہ یہ بھی کہہ گیا کہ کسی کو اگر شک ہے تو مجھ سے تصدیق کرلے۔

بیچارے گنجے کو جوش میں ہوش نہیں کھونا چاہیئے تھا۔ اب چونکہ ساری توپوں کا رخ میری طرف تھا۔ اور یہ ویسے بھی واضح تھا کہ اس ڈرامے کا انجام چچازاد کے جانے پر نہیں بلکہ کچھ اختیارات میرے پاس آجانے پر ہی ہونا ہے سو میرے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم تو ڈوبے ہین صنم کا ورد کرتے ہوئے میں نے گھر والوں کو جمع کیا اور سب گھر والوں کو یقین دلا دیا کہ اصل سازش چچازاد گنجے کی رچائی ہوئی ہے اور اس ہی کے کہنے پر میں تایازاد سے ملی تھی ورنہ میں تو ان لوگوں کے نام تک نہیں جانتی تھی۔ اور ویسے بھی، ان لوگوں سے میرا کیا لینا دینا؟؟

خیر سے میری پوزیشن اب گھر میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اگر گنجے کو ہٹا کر گھر کا انتظام بھی سنبھال لوں تو بھی اب کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کیوںکہ پیچھے بیٹھ کر حکم چلانا سامنے آکر گالی کھانے سے زیادہ آسان اور مزیدار کام ہے۔ باقی رہے تایازاد، تو جب وہ ایک چچازاد کے نہیں ہوسکتے تو دوسری چچازاد کے کیسے ہونگے؟ میں بھی موقع دیکھ کر ان پر لعنت بھیج دوں گی۔ اب خود بتائو؟ اتنا کچھ چل رہا ہو گھر میں تو ڈائری خاک لکھتی؟

تمہاری

آب-پاری

 

2 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت