منگل، 26 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 10

پیاری ڈائری!

آج میرا ڈائری لکھنے کا قطعاّ کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کیا کرتا۔ کچھ درد اگر قرطاس پر منتقل نہ کیئے جائیں تو جسم کے اندر ہی گھائو بنا کر بس جاتے ہیں اور پھر گھائو سے لاوہ بنتے انہیں کب دیر لگتی ہے؟ اور لاوے کی فطرت تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ یا تو اندر ہی اندر چٹان کو کھاتا رہتا ہے یا پھر ایک ہی دفعہ باہر نکل کر سب کچھ برباد کر چھوڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ درد کو درد ہی رہنے دیا جائے اور اسے رگوں سے نچوڑ کر قرطاس پر منتقل کردیا جائے۔

میں جانتا ہوں تمہیں ان سب سنجیدہ چیزوں کی عادت نہیں ہے اور مجھ سے یہ باتیں سننا تمہیں ضرور حیران بلکہ شاید کچھ حد تک پریشان  بھی کر رہا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں کے آج کوشش کے باوجود بھی میں مسکرا نہیں پارہا۔ میں چاہتا ہوں کہ قلم سے شگوفے بکھیروں، تمہارے چہرے پر مسکراہٹ لائوں، طنز کے لطیف نشتر سے تمہیں گدگدائوں ۔۔۔ مگر آج کا زخم شاید نشتر کے بس کا نہیں ہے۔ اسے کسی معمولی نشتر کی نہیں بلکہ کاٹ دینے والی تلوار کی ضرورت ہے کہ اگر آج بھی تلوار نہ چلی تو اس زخم میں موجود زہر پورے جسم کو چاٹ جائے گا۔

پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی اور یہ موسمی بخار جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دو ڈاکٹر بدل کر دیکھ لیئے مگر اس بخار نے جان نہیں چھوڑی۔ کل خالہ جان ملنے کیلئے آئیں تو جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ بیٹا روائتی علاج اپنی جگہ سہی مگر ہوسکے تو گوشت کا صدقہ نکال دو۔ صدقہ بہت سی آفات و بلیات کو ٹال دیتا ہے۔ بات بھی کچھ مناسب تھی اور ویسے بھی بیماری و کمزوری میں انسان مذہب سے کچھ قریب ہوجاتا ہے سو آج صبح جاکر میں بھی حسب استطاعت ایک چھوٹا سا بکرا خرید کر لے آیا کہ گھر میں ہی صدقہ دلاکر گوشت مستحقین میں تقسیم کردوں گا۔

خیر سے بکرا بھی آگیا اور صدقہ بھی دے ڈالا۔ اب جب گوشت مستحقین کو دینے کی باری آئی تو میں نے اپنے دفتر کے ایک چپڑاسی کو فون کرکے بلا لیا۔ خدا بیچارے مشتاق کو خوش رکھے کہ وہ چپڑاسی ہونے کے باوجود ایک بڑے دل کا مالک ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس کے علم میں کوئی نہ کوئی ایسا مستحق ضرور ہوگا جو صدقے کا یہ گوشت استعمال کرسکے۔

میں نے گوشت مشتاق کے حوالے کیا اور اس کو تاکید کی کہ کسی واقعی مستحق انسان تک اسے پہنچا دے۔ مشتاق نے گوشت کا تھیلا میرے ہاتھ سے لیا مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو مشتاق نے بھرائی ہوئی آواز مٰیں ایک ایسا سوال کرڈالا کہ جس کا جواب میں اب تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ مشتاق نے کہا کہ صاحب! میں سید ہوں لہٰذا صدقے کا گوشت مجھ پر حرام ہے؛ میری اپنی ذات پر اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، پر صاحب میرے گھر والوں نے پچھلے تین سال سے بکرے کا گوشت نہیں کھایا ہے!! آپ تو مذہب جانتے ہیں، کیا کوئی ایسی صورت نہیں نکل سکتی کہ میں اس پورے تھیلے میں سے تین، چار بوٹیاں اپنے والدین کیلئے استعمال کرسکوں؟؟؟

پیاری ڈائری! مشتاق تو گوشت لیکر چلا گیا مگر میری طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب ہوگئی ہے۔ دوپہر سے ٹیلیویژن کے آگے بیٹھا ہوں اور دماغ میں صرف ایک ہی بات چل رہی ہے؛

میاں صاحب کو ہرن نہیں کھانا چاہیئے تھا۔

والسلام

لٹا ہوا پاکستانی

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت