ہفتہ، 21 نومبر، 2015

شہرزاد کے نام ایک خط

سرما کی ڈھلتی رات میں
پھرتا ہے تیرے شہر میں
مانوس سا  اک اجنبی

کل ہم نے اس کو جا لیا
سینے سے یوں لپٹا لیا
حیران تھا وہ اجنبی

کہنے لگا کچھ کام ہے؟
کیوں آج یہ اکرام ہے؟
رہنے دو مجھ کو اجنبی!

ہم نے کہا ہرگز نہیں
یہ بات تو ممکن نہیں
کب تک رہو گے اجنبی؟

ہم  سے کہو کیا بات ہے؟
کیا نام ہے ؟ کیا ذات ہے؟
کہنے لگا ، جی ،اجنبی!

ہم نے کہا ، اے اجنبی!
اے خستہ تن! اے اجنبی!
اے اجنبی! اے اجنبی!

لاحق ہے کیوں درماندگی؟
چہرے پہ کیوں واماندگی؟
کچھ تو بتا اے اجنبی؟

لکھنے بیٹھا تو سوچا تھا کہ ایک حسین نظم تراشوں گا۔  ایک ہنستی مسکراتی نظم۔ زندگی سے بھرپور نظم۔  حسن کے تمام استعاروں سے بھرپور نظم۔ مگر اب جب لکھنا شروع کیا تو قلم سے مسلسل خون نکل رہا ہے۔ حلق سے نکلنے والا  سرخی مائل خون نہیں۔ کلیجے سے آنے والا ،گاڑھا، سیاہی مائل سرخ خون۔

شہرزاد! میری پیار ی! میں اذیت پسند ہوتا جا رہا ہوں ۔ شدید اذیت پسند! میں نے سوچا تھا کہ تمہیں ایک خوبصورت نظم لکھ کر بھیجوں گا مگر اب سوچتا ہوں کہ شاعری تو الفاظ کو ترتیب و ترنم میں لانے کا نام ہے۔ جس شخص کی زندگی میں ترتیب نام کی چیز بچی ہی نہ ہو وہ اپنے الفاظ میں ترتیب کیوں کر لا سکتا ہے؟  شاعری تو  مختصر الفاظ میں مکمل داستان بیان کرنے کا نام ہے۔ میرا سینہ تو لاوے سے بھرا پڑا ہے شہرزاد۔ مختصر الفاظ میں بات کا حق تو شاید ادا ہوجائے مگر درد کا حق ادا نہیں ہوپائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بس لکھتا چلا جاؤں۔ اندر موجود تمام کالک کو کھرچ کر قرطاس پر انڈیل دوں۔ پھر اسے دنیا کو دکھاؤں تاکہ دنیا والے میری تحاریر کو دیکھیں اور کہیں کہ واہ صاحب! کیا عمدہ زخم ہیں۔ اور آپ نے کس عمدگی سے قے کرکے انہیں قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ بھئی آپ کی الٹیاں تو کمال کی ہوتی ہیں۔ کیا عمدہ نقش چھوڑ جاتی ہیں۔ تمہیں لگ رہا ہے کہ میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوں؟  بخدا میں ایک لفظ بھی مبالغے کا استعمال نہیں کر رہا ۔ لوگوں کی تعریف سن کر میرے جو جذبات ہوتے ہیں وہ من و عن بیان کر رہا ہوں، اور بس!

تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں اتنا پریشان حال کیوں رہتا ہوں؟ میں اس بات کا کیا جواب دوں؟ شاید میرے جیسے انسان کو پریشان حال ہی رہنا چاہیئے! میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ ہم فنکار اذیت پسند لوگ ہوتے ہیں۔ زندگی میں کوئی اذیت نہ بھی ہو تو بھی ہم چیزوں میں سے زبردستی برا منانے کے پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔ ہم درد کے سوداگر ہیں، شہرزاد۔ ہم درد پالتے اور درد بیچتے ہیں۔ مگر اس میں ہمارا اکیلے کا قصور نہیں ہے۔ دنیا ہماری دکان پر آتی ہی درد خریدنے ہے۔ وہ ہمارے بیان کردہ دکھ سن کر اپنے دکھوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہیں اور خوشی خوشی لوٹ جاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی موجود ہے  جو زندگی سے ان سے زیادہ تنگ ہے۔ اپنی مصیبت چھوٹی ہونا اور بات ہے۔اس میں سہولت تو ہے مگر تسلی نہیں!  دوسرے کی مصیبت زیادہ بڑی ہونے سے ان کمینوں کو جو خوشی ملتی ہے تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے شہرزاد! ان کی بیویاں  روزانہ ٹیلیویژن کے آگے جم کر بیٹھتی ہیں تاکہ وہی گھسے پٹے ڈرامے دیکھ سکیں جن میں کسی فرضی کردار کی بہو ان سے زیادہ اپنی ساس سے تنگ ہوتی ہے۔ ان کی ساس یہ  دیکھنے کے لیئے ڈرامہ دیکھتی ہیں کہ کسی اور کی بہو ان کی بہو سے زیادہ کمینی ہے۔ ان کے مرد یہ دیکھنے کے لیئے ڈرامے دیکھتے ہیں کہ کوئی اور انسان زندگی میں ان سے زیادہ پیسے کما کر بھی کیسے سکون کے لیئے ترس رہا ہے۔ دوسروں کی اذیت میں خوش ہونے والےیہ لوگ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں!

دوسروں کی کیا شکایت کروں شہرزاد، میں تو خود اتنی دیر سے دوسروں کی برائیاں کرکے ہی اپنی مجروح انا کی تسکین میں مشغول ہوں۔  مگر میں کیا کروں؟ یہ سب چیزیں دیکھتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اور پھر جب تمہیں نہیں دیکھ پاتا تو اور زیادہ تکلیف کا شکار ہوجاتا ہوں۔  اب اس سے زیادہ کیا کہوں؟  جہاں رہو، خوش رہو۔ خوشیاں بانٹتی رہو۔ چل چلاؤ کا وقت ہے۔ اگر وقت پر یہ مکتوب پہنچ جائے تو ملنے آ جانا۔ اور اگر نہ پہنچے ، تو جب بھی خبر ملے، میری تربت پر آکر اپنے ہاتھ سے ایک پودا لگا جانا۔ وقت کے ساتھ اس پودے کی جڑیں میرے جسم کے اندر اتر جائیں گی۔ تب اس شجر پر ایک نئی طرح کے پھول کھلیں گے۔ سیاہی مائل سرخ رنگ کے پھول۔ وہ پھول جدائی کا استعارہ ہوں گے۔  وہ پھول ہمارے تعلق کی علامت ہوں گے۔

وقت نکال سکو تو ضرور آنا۔ میں انتظار کروں گا۔

تمہارا،
شاعرِ جنوب!

جمعرات، 19 نومبر، 2015

شکاری

ہم دونوں اس وقت کراچی سے لاہور جانے والے جہاز میں موجود تھے۔ جب وہ میرے برابر والی نشست پر آکر بیٹھی تو میں اسے دیکھ کر ہونق ہوگیا تھا۔   ایسا  نہیں کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی مگر بہرحال وہ ایک شدید خوبصورت لڑکی تھی۔شاید میرے حواس باختہ ہونے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح جہاز میں بالکل برابر والی نشست پر کسی ہم عمر اور  خوبروہ خاتون کے ساتھ بیٹھ کر جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ آج سے پہلے میں ہمیشہ خراٹے دار مردوں، شادی زدہ عورتوں یا چھچھورے لڑکوں کے برابر میں ہی نشست پاتا رہا تھا۔ جب وہ جہاز میں داخل ہوئی تو  اسے دیکھنے والے ہر مرد کی طرح میری بھی یہ خواہش تھی کہ وہ میرے برابر والی نشست پر بیٹھ جائے۔مگر جب وہ واقعی میری نشست پر رک کر سامان بالائی خانے میں رکھنے لگی تو میں بے چین سا ہوگیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کس قسم کا ردعمل دینا چاہیئے۔ اس کے سامان رکھنے سے نشست پر براجمان ہونے کے درمیانی تیس سیکنڈ میں میں تیس ہزار خیالات میرے دماغ میں آچکے تھے۔ یہ جب بیٹھے گی تو مجھے اس سے بات میں پہل کرنی چاہیئے؟ یاپھر میں انتظار کروں کہ یہ مجھ سے خود مخاطب ہو؟ مگر یہ مجھ سے مخاطب کیوں ہوگی؟  اور اگر میں نے اس سے کلام کرنے میں پہل کی اور اس نے مجھے جھڑک دیا تو؟ ساری نشستیں قریب قریب ہوتی ہیں۔ اس کی آواز بلند ہوگئی تو سب سمجھیں گے میں نے اس سے بدتمیزی کرنے کی کوشش کی ہے! بے وجہ خفگی اٹھانی پڑ جائے گی! مگر زندگی روز تو ایسے مواقع نہیں دیتی؟ ڈیڑھ گھنٹے کی اڑان کے بعد لاہور آجائے  گا اور پھر یہ اپنے راستے اور میں اپنے راستے! میں لاکھ کوشش کروں کبھی اس کے اتنے قریب بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گا! کیا کروں؟ بات کروں ؟ جانے دوں؟ میں ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نےاپنی  نشست سنبھال کر میری طرف دیکھے بغیر اپنے کانوں میں ایئر فون ٹھونس لیئے۔ اب کانوں سے ایئر فون نکلوا کر گفتگو کی درخواست کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی سو میں نے آنکھیں موند کر کرسی کی پشت پر ٹیک لگا لی۔
جہاز کے اڑنے کے دس منٹ بعد تک میں ایسے ہی آنکھیں بند کرکے نیم دراز رہا مگر پھر اکتاہٹ کا شکار ہوکر اپنی ڈائری کھول لی اور ایک نامکمل کہانی کو مکمل کرنے کی کوشش میں مشغول ہوگیا۔ کوشش بھی کیا، کہ دو جملے لکھتا اور پھر ایک کاٹ ڈالتا۔ پھر آگے چلنے کی کوشش کرتا اور دو قدم چلنے کے بعد اندازہ ہوتا کہ یہ وہ راستہ ہی نہیں جو منزل کی طرف جاتا ہو۔ اسی ادھیڑ بن میں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کی مترنم آواز نے مجھے چونکا دیا۔ آپ کہانیاں لکھتے ہیں؟ میں نے گربڑا کر دیکھا  تو وہ بڑی دلچسپی سے میری ڈائری کی جانب دیکھ رہی تھی ۔   میں نے جلدی سے ڈائری کو بند کردیا گویا اس میں کہانی نہیں بلکہ ایٹم بم کا فارمولا لکھ رکھا ہو جس کے افشا ہوجانے سے ملک و ملت کا اہم نقصان ہوجاتا۔  اس نے ڈائری  سے نظریں ہٹا کر مجھ پر ایک سوالیہ نظر ڈالی گویا کہہ رہی ہو کہ میاں! اب چھپانے کا کیا فائدہ جب میں آپ کی لکھی پوری خرافات ویسے ہی پڑھ چکی ہوں؟ میں نے جھینپتے ہوئے ایک کھسیانی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی اور ہمت جمع کرکے جواب دیا، جی! میں کہانیاں لکھتا ہوں۔ میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر ایک جوش بھری مسکراہٹ آگئی۔ اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے مجھ سے پوچھا، واقعی؟ آپ کسی رسالے کے لیئے لکھتے ہیں یا ٹیلیویژن کے لیئے؟ میں نے شرمندگی سے جواب دیا کہ جی نہیں! میں صرف اپنے لیئے لکھتا ہوں۔ ٹیلیویژن اور رسالوں کے لیئے لکھنے والے ایک عظیم تخیل کے مالک ہوتے ہیں جو  ایسی کہانیاں تراشتے ہیں جن کا عام آدمی تصور تک نہیں کر سکتا۔ میں تو صرف جو دیکھتا ہوں وہی اپنی کہانیوں میں بیان کر دیتا ہوں۔  میرا جواب سن کر وہ کچھ مایوس سی ہوگئی اور اپنی نشست میں واپس سمٹ گئی۔
 اسے  اس طرح مایوس دیکھ کر میں اپنے آپ کو کوسنے لگا۔ کیا تھا اگر میں جھوٹ بول دیتا؟ وہ کون سا ہر وقت ٹیلیویژن دیکھتی ہوگی؟ ویسے بھی ٹیلیویژن کے ڈراموں کے کردار اور اداکار یاد رکھے جاتے ہیں، لیکھک کا نام کون پڑھتا ہے؟ اور پڑھ بھی لے تو کون یاد رکھتا ہے؟ دیکھو کیسے مایوس ہوگئی بیچاری! یہ حزن اس چہرے پر جچتا ہے بھلا؟  میں نے دل میں خود کو کوستے ہوئے اس سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  آپ کہانیاں شوق سے پڑھتی ہیں ؟ میں نے اس کی طرف جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ اس نے  میری طرف دیکھا اور مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔   میں نے ایک جوابی مسکراہٹ اس کی سمت اچھالی اور اس کے پسندیدہ لکھاریوں اور موضوعات کے بارے میں سوال داغ دیا۔ اس کا جواب سن کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جتنی خاص نظر آتی ہے، درحقیقت اتنی ہی عام لڑکی ہے۔ آگے کا کام میرے لیئے بہت آسان تھا۔ اگلے  ایک گھنٹے میں میں اسے وہی معمول کی دہرائی ہوئی کہانی سنا کر اسے یقین دلا چکا تھا کہ میں اس کے بتائے بغیر بھی اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ وہی ، آج تک تمہیں کوئی ایسا انسان نہیں ملا جو تمہارے دکھ کو سمجھ سکے۔ تم رشتوں میں اپنا سب کچھ لگا دیتی ہو مگر آج تک کوئی ایسا نہیں ملا جس نے تمہارے جذبات کی صحیح معنوں میں قدر کی ہو۔ لوگوں کو تمہاری ہر بات سے محض اس لیئے مسئلہ ہے کیونکہ وہ تمہاری آزادی سے جلتے ہیں۔ معاشرتی رسومات کی قیود کے زیر اثر وہ تمہیں بھی پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ نناوے فی صد خواتین پر یہ کہانی اثر کر جاتی ہے اور میری خوش قسمتی کہ وہ بھی ان میں سے ہی ایک تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھ رہی تھی گویا میں کوئی عاملِ کامل ہوں جو لوگوں کے چہرے دیکھ کر ان کے دلوں کا حال جان لیتا ہوں۔ اس غریب کو کیا خبر کے یہ میرا روز کا کام تھا؟ جہاز سے اترنے سے پہلے ہم دونوں ایک دوسرے سے ٹیلیفون نمبرز کا تبادلہ کرچکے تھے، اور میں اس سے وعدہ کرچکا تھا کہ  میں ایک دن اس کی کہانی ضرور لکھوں گا۔
لاہور پہنچنے کے بعد میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایئرپورٹ سے نکلتے ہی اسے فون کر لوں مگر میں جانتا تھا کہ گرم کھانے سے صرف منہ ہی جلتا ہے لہٰذا میں صبر کے ساتھ خود اس کے مجھ سے رابطہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ میرا یہ انتظار زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور رات کو ہی اس کا پیغام آگیا کہ اگر میں مصروف نہیں ہوں تو وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے۔ میرے پاس اس وقت کرنے کو کوئی کام نہیں تھا مگر میں یہ جان چکا تھا کہ وہ بھی تمام خوبصورت لڑکیوں کی طرح نرگسیت کا شکار ہے اور اسے مردوں کے اپنے آگے پیچھے گھومتے دیکھنے کی عادت تھی۔میں فوری جواب دے کر ان مردوں میں سے ایک نہیں دکھنا چاہتا تھا۔ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اپنے آگے پیچھے گھومتا دیکھنا چاہتی تو ہیں مگر جب کوئی غریب ان کے آگے پیچھے گھومنے لگے تو وہ ان کے نزدیک وقعت کھو دیتا ہے۔ لاحاصل، جب حاصل ہوجائے تو اس کی اوقات ماٹی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سو میں  نے پیغام پڑھ کر موبائل ایک طرف ڈال دیا اور ٹیلیویژن پر انیس سو بانوے کے کرکٹ ورلڈ کپ کا چھتیس مرتبہ دیکھا ہو اسیمی فائنل ایک بار پھر دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
جیسا میں نے سوچا تھا عین اس کے مطابق، جب اس نے پیغام کے آگے پڑھے جانے کا اشارہ دیکھا اور پھر بھی کوئی جواب نہیں پایا تو پانچ منٹ کے بعد اس نے تین سوالیہ نشان بنا کر بھیج دیئے۔ میں نے اس کا پیغام پڑھا اور اپنی خواہشات پر بمشکل قابو پاتے ہوئے اسے ، اس وقت میرا گفتگو کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ ہم کل بات کریں؟ کا جواب بھجوادیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے یقینی کے عالم میں اپنی موبائل کی اسکرین کو دیکھتی رہی ہوگی اور چار منٹ کے بعد جب اسے واقعی یقین آگیا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی انسان موجود ہے جس سے وہ مخاطب ہونا بھی چاہتی ہےمگر وہ اس  کے لیئے وقت نکالنے پر تیار نہیں ہے تو اس نےفقط انگریزی حرف کے لکھ کر بھیج دیا۔  وہ غریب اس گمان میں تھی کہ شاید میں گھبرا کر اسے کال کروں گا  اور اپنی اس بے اعتنائی پر نادم ہوں گا مگر وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ میں جانتا تھا۔ میں نے موبائل ایک مرتبہ پھر صوفے پر ڈال دیا اور مسکراتے ہوئے ٹیلیویژن دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
اگلا پورا دن بھی وہ غریب میرے پیغام کی منتظر رہی مگر میں نے لاکھ خواہش کے باوجود اسے کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ یہ اعصاب کی جنگ تھی اور میں پہلے ہتھیار ڈال کر مال غنیمت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔  رات ایک بجے کے قریب میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے اسے پیغام بھیجنے کے لیئے فون اٹھایا ہی تھا کہ اسکرین پر اس کا نمبر جگمگانے لگا۔ وہ مجھ سے دس سیکنڈ پہلے ہمت ہار چکی تھی۔ میں نے تین چار گھنٹیوں کا انتظار کیا اور اس کے بعد فون اٹھا لیا۔ ہم دونوں نے پندرہ منٹ تک فون پر بات کی جس میں اس نے مجھے ہر طرح سے کھنگالنے کی کوشش کی کہ میں اپنے بارے میں اتنا خوش فہم کیوں ہوں؟ اس جیسی حسین لڑکی کی توجہ کو میں کیسے نظرانداز کر سکتا ہوں؟  میں  اس کی گفتگو سن کر من ہی من مسکراتا رہا اور اسے یہ یقین دلاتا رہا کہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا جس چیز کو وہ میری خود پسندی سمجھ رہی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں ایک شادی شدہ انسان ہوں اور ایک بیٹی کا باپ ہوں لہٰذا میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر نگاہ التفات کروں۔ میری پوری گفتگو سن کر اس نے صرف ایک سوال کیا، کیا تمہاری بیوی مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے؟ میں اس سوال کے لیئے پہلے سے تیار تھا  سو میں نے اسے بتا دیا کہ میری بیوی کا دنیا میں کوئی مقابل نہیں ہے!
انا کے بت پر پڑنے والی یہ ضرب میری توقعات سے زیادہ اثر انگیز تھی۔ اس وقت تو اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا تھا کہ 'ٹھیک ہے! پھر آپ اپنی بیوی سے ہی بات کریں' مگر ٹھکرائے جانے کا احساس اس کے اندر ناسور بن کر پھیلنے لگا تھا۔ میں  لاہور سے کراچی آگیا۔ اس بات کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ اس ایک ماہ میں اس نے کوئی دس مرتبہ مجھے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر میں نے ایک بار بھی اس کا فون نہیں اٹھایا۔ پھر ایک دن میں دفتر میں موجود تھا کہ اس کا پیغام آیا، "میں کراچی میں ہوں اور ہوٹل تاج  میں ٹھہری ہوئی ہوں۔ میں جانتی ہوں آپ صرف اپنی بیوی سے محبت کرتے ہیں مگر ہوسکے تو ایک بار ، صرف ایک بار آکر مجھ سے مل لیں"۔
شام  کو دفتر سے نکل کر میں سیدھا ہوٹل تاج پہنچ گیا۔ ہوٹل میں پہنچ کر میں نے اسے پیغام بھیجا کہ میں ہوٹل میں موجود ہوں۔ اس نے جواب میں اپنے کمرے کا نمبر مجھے بھجوا دیاکہ میں شدید تھکی ہوئی ہوں لہٰذا آپ اوپر ہی تشریف لے آئیں۔ پانچ منٹ بعد میں اس کے کمرے میں موجود تھا۔
گھنٹے بھر کے بعد میں جب کمرے سے نکلا تو ہم دونوں بہت خوش تھے۔ اس کی آنکھوں میں ایک ناقابل تسخیر انسان کو فتح کرنے کا غرور تھا جبکہ میں ایک مرتبہ پھر اپنے پلان کی کامیابی پر مسرور تھا۔
تیز قدموں سے چلتا ہوا میں ہوٹل سے باہر آگیا اور ٹیکسی ڈھونڈنے لگا۔اگلے آدھے گھنٹے میں مجھے ایئر پورٹ پہنچنا تھاجہاں میں رات کی فلائٹ سے لاہور جا رہا تھا۔ 

منگل، 17 نومبر، 2015

اوہ بھینس!

چھوٹے چوہدری کی پوری توجہ اس وقت پڑھائی سے زیادہ کمرے سے اٹھنے والی ان چیخوں پر تھی جو اس کی ماں دردِ زہ کی وجہ سے نکال رہی تھی۔ صحن میں تخت پر بیٹھ کر پڑھتے ہوئے اس کی نظریں کتاب سے زیادہ اس بند دروازے پر تھیں جس کے پیچھے اس کی ماں  تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔ تنزیلہ نے اس کی کیفیت کو بھانپ لیا اور کتاب بند کرکے اسے باتوں میں مشغول کرنے لگی۔  اس نے پانچ سالہ ارحم کے بال سہلاتے ہوئے اس سے پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتا ہے؟ سوال سن کر ارحم کی معصوم آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی اور اس نے بڑے وثوق سے جواب دیا کہ وہ بڑا   ہو کر ابا بنے گا۔ تنزیلہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس نے  محبت سے پانچ سالہ ارحم کا کان کھینچتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چوہدری صاحب! کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، کوئی پائلٹ بننا چاہتا ہے، کسی کو فوج میں جانے کا شوق ہوتا ہے مگر آپ تو سب سے نرالے نکلے! آپ بڑے ہوکر ابا کیوں بننا چاہتے ہیں؟ ارحم نے ترنت جواب دیا کہ چونکہ ابا گاؤں کا سب سے بڑا آدمی  ہوتاہے! میرا ابا جہاں کہیں جاتا ہے سب اس سے کھڑے ہوکر ملتے ہیں۔ جھک کر سلام کرتے ہیں۔ وہ کرسی پر بیٹھے تو باقی سب زمین پر بیٹھتے ہیں۔ کوئی اس کے برابر میں بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ کہہ کر وہ سانس لینے کے لیئے رکا اور پھر تنزیلہ کی طرف دیکھ کر اشتیاق سے پوچھا، استانی جی آپ بڑی ہو کر کیا بنیں گی؟ اس سے پہلے کہ تنزیلہ کوئی جواب دیتی، گلی میں سے ڈھول کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور ارحم گفتگو کو چھوڑ کر دروازے کی طرف لپک گیا۔ جتنی دیر میں تنزیلہ اس تک پہنچتی، ڈھول کی آوازیں گھر کے دروازے تک پہنچ چکی تھیں اور گھر کا دروازہ کھول کر بڑے چوہدری صاحب اندر داخل ہورہے تھے۔ تنزیلہ نے انہیں دیکھ کر جلدی سے دوپٹہ درست کیا اور ارحم کو بازو سے پکڑ کر دوبارہ تخت کی طرف چل پڑی۔ چوہدری صاحب نے پیچھے دروازہ بند کیا اور اسے آواز دیتے ہوئے بولے، استانی جی! پڑھائی ہوتی رہے گی۔ یہ لو ، خود بھی منہ میٹھا کرو اور میرے شیر کو بھی کھلاؤ۔ تنزیلہ نے پلٹ کر دیکھا تو چوہدری صاحب کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔  مٹھائی اس کی بچپن کی کمزوری تھی! اس نے لپک کر مٹھائی کا ڈبہ چوہدری صاحب کے ہاتھ سے لیا اور ایک گلاب جامن منہ میں رکھتے ہوئے بولی، چوہدری صاحب! مبارکی ہو! خیر سے کس بات کی مٹھائی ہے؟  چوہدری صاحب  گویا اس ہی سوال کے انتظار میں تھے سو فورا ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنا شروع ہوگئے کہ کس طرح ان کی بھینس نے اس سال بھی ایک مادہ کو جنم دیا ہے اور کس طرح ان کے ازلی دشمن چوہدری بشیر کے ہاں لگاتار تیسری مرتبہ نر بھینسا پیدا ہوا ہے! چوہدری صاحب تو شاید اپنی بھینس کے قصیدے پوری شام سنانے کی تیاری سے تھے مگر کمرے سے اٹھنے والی کسی نومولود کے رونے کی آواز نے ان کے قصے میں خلل ڈال دیا  اور وہ کمرے کی طرف لپک گئے۔ ابھی وہ کمرے کے دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ دروازہ کھل گیا اور اندر سے ایک سہمی ہوئی دائی برآمد ہوئی جس نے ہاتھ میں  تولیے میں لپٹا ایک ننھا فرشتہ اٹھا رکھا تھا۔ چوہدری صاحب نے آگے بڑھ کر بچے کو اس کی گود سے لے لیا۔ شکل صورت دیکھنے کے لیئے ساری عمر پڑی تھی اس لیئے پہلے انہوں نے بچے کا تولیہ کھولا اور کچھ دیر کے لیئے سکتے میں آگئے۔ چوہدری صاحب کی اس خاموشی نے ماحول پر موت کا سا سناٹا مسلط کر دیا تھا۔ اور جب یہ سناٹا ٹوٹا تو سمجھو طوفان ہی آگیا۔ چوہدری صاحب نے پہلے تو بچے کو اٹھا کر دائی کی طرف پھینک دیا جسے اس نے معجزاتی طور پر گرنے سے پہلے ہی سنبھال لیا۔ اپنی گود سے گندگی دور کرنے کے بعد چوہدری صاحب کی زبان سے مغلظات کا ایک سیلاب جاری ہوگیا۔ نحشی! کرم جلی! مردود! آج کے بعد اگر تو نے اس گھر میں عورت ذات کو جنم دیا تو سن لے! تجھے طلاق، طلاق، طلاق! چوہدری صاحب یہ کہہ کر پاؤں پٹختے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے!

چوہدری صاحب کے جانے کے بعد فضا میں طوفان کے بعد کی سی خاموشی پھیل گئی۔ گویا گھر میں کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو! ننھا ارحم، تنزیلہ کا ہاتھ چھڑا کر کمرے کی طرف بڑھا اور عین اس جگہ جہاں اس کا باپ تھوڑی دیر پہلے کھڑا تھا وہیں باپ کے سے انداز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ پہلے تو اس نے ادھر ادھر دیکھ کر صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر اپنے ننھے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر چیخا،   نحشی! کرم جلی! مردود! آج کے بعد اگر تو نے اس گھر میں عورت ذات کو جنم دیا تو سن لے! تجھے طلاق، طلاق، طلاق! یہ کہہ کر وہ بعینہہ باپ کی طرح پائوں پٹختا ہوا آیا اور استانی کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔ تنزیلہ  کے پیروں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا وہ تخت پر بیٹھ گئی تھی۔ ارحم نے  ایک مرتبہ پھر اس پر سوالیہ نظر کی کہ شاید اس کی اپنے آئیڈیل کی اتنی اچھی نقل کرنے پر استانی  شاباش دیں گی مگر جب استانی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو وہ مایوس سا ہوگیا۔ ادھر تنزیلہ کے دماغ میں مسلسل زلزلے آرہے تھے۔ اگلے ماہ خود اس کی بھی شادی طے تھی۔ وہ اس شادی اور اس کے نتیجے میں کبھی نہ کبھی ہونے والے بچے  کی خوفناک سوچ میں ہی غلطاں تھی کہ اسے لگا سچ مچ زلزلہ آگیا ہے۔ خیالات کی دنیا سے باہر آکر اس نے دیکھا تو ارحم اس کا بازو جھنجھوڑ کر اس سے پوچھ رہا تھا کہ استانی جی ! آپ نے بتایا نہیں آپ بڑی ہوکر کیا بنیں گی؟  تنزیلہ کو لگتا تھا کہ اس کو خدا نے کمال ضبط سے نوازا ہے مگر خدا جانے کیسے ایک آنسو اس کی آنکھ کی بندش توڑ کر اس کے رخسار پر آگیا۔ اس نے ہاتھ سے گال رگڑ کر چہرا صاف کیا اور صرف اتنا کہہ پائی، کاش میں بڑی ہوکر بھینس بن جاؤں!

(دسمبر دو ہزار تیرہ کی ایک تحریر جو اس سے پہلے کبھی چھاپنے کی ہمت نہیں ہوئی!)

جمعہ، 13 نومبر، 2015

داستان الف لیلہ - قصہ سلیپنگ بیوٹی اور چمی باز شہزادے کا

تو جب چھ سو پانچویں شب آئی تو شہرزاد نے بدستور کہانی کہنا شروع کی۔

قصہ سلیپنگ بیوٹی اور چمی باز شہزادے کا
تو ہوا یوں کہ کسی ملک میں ایک نہایت عادل و رعایا پرور بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا۔ چونکہ بادشاہ نے مورخ  کو ایسا ہی لکھوایا تھا  اورویسے بھی بادشاہ بھلے وردی میں ہو یا عمامے میں، اس کی تعریف کرنا فرض عین ہوتا ہے لہٰذا بادشاہ  کے کردار پر بحث کرنے کے بجائے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔  تو  جیسا کہ داستان میں بیان ہوتا ہے کہ بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہت پیروں فقیروں، حکیم ویدوں کو دکھانے پر بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ بادشاہ کی بہنوں نے بادشاہ کو دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا مگر بادشاہ کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جہاں مرغی اذان دیتی ہے لہٰذا بادشاہ بسیار کوشش کے باوجود دوسری شادی کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اولاد نہ ہونے کے غم میں اس کی زندگی بسر ہو رہی تھی  اور اب وہ اکثر اداس رہنے لگا تھا۔ بادشاہ کا وزیرِ خاص اس سب کاروائی کو دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کے لیئے پریشان تھا۔ ایک دن دربار کی کاروائی سے فارغ ہونے کے بعد اس نے بادشاہ سے دست بستہ گزارش کی کہ اگر برا نہ مانیں تو ایک کونے میں تشریف لا کر خاکسار کی  ایک عرض سن لیں؟ بادشاہ وزیر کی بات سن کر سخت کھسیانہ ہوگیا اور اسے سمجھایا کہ وہ بادشاہ ہے، نواب نہیں۔ جو بات کرنی ہے یہیں کی جائے! وزیر  باتدبیر اپنی حرکت پر نادم ہوا اور جان گیا کہ اب بادشاہ سلامت سدھر گئے ہیں۔ اس نے خدا سے بھی فی الفور توبہ کی  اور بادشاہ سے بھی معافی کا خواستگوار ہوا۔ معافی تلافی سے فراغت کے بعد اس زیرک وزیر نے بادشاہ کو صلاح دی کہ حکیم، وید، ڈاکٹر، پیر، فقیر وغیرہم کو دکھانے کے علاوہ اگر ہوسکے تو ملکہ معظم کے ساتھ تین چار دن تک وہ بھی کر کے دیکھیں جو اتنے عرصے سے رعایا کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ خدا بہتر کرے گا۔ بادشاہ نے وزیر کی بات ناڑے سے باندھ لی اور خدا کے حکم سے کچھ ہی دن میں ملکہ بیگم کا پیر بھاری ہوگیا اور معینہ مدت کے بعد بادشاہ کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی نے جنم لیا۔

بیٹی کی پیدائش پر بادشاہ شدید  چھچھورا ہوگیا اور اس نے پورے ملک سے چندے کی اپیل کر دی تاکہ شہزادی کے اعزاز میں ایک عظیم الشان دعوت منعقد کی جا سکے۔  لوگوں نے بادشاہ کی اپیل پر کھل کر لبیک کہا اور کال کرنے کا بہانہ کرکے اپنے دوستوں کے موبائل سے بیس بیس روپے چندے والے خوب میسج بھیجے۔  جب خوب ساری رقم جمع ہوگئی تو بادشاہ نے اس  جمع شدہ رقم کے آدھے پیسوں  سے ٹیلیویژن پر اشتہار چلوا دیا تاکہ مزید لوگ اس نیک کام میں شامل ہوسکیں۔   مملکت کے لوگ کافی خدا ترس تھے اور زکٰوۃ ، صدقات نکالنے کے لیئے ویسے بھی بھکاریوں کو ڈھونڈتے ہی رہتے تھے لہٰذا انہوں نے  کروڑوں روپے کے ٹیلیویژن اشتہارات  دیکھ کر ایک بار پھر اس مہم میں بھرپور حصہ لیا اور ٹیلیویژن کے اشتہارات پر خرچ ہوئے کروڑوں روپے محض چھ ماہ میں دوبارہ جمع کر دیئے۔ بادشاہ اس جذبہ ایثار کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور  بہت جلد دعوت ِ عام  کرنے کا اعلان کردیا۔

جیسا  کہ پہلے بیان ہوچکا تھا کہ رعایا بہت اچھی تھی لہٰذا اس نے بادشاہ کی مزید انتظار کرنے والی بات خوش دلی سے قبول کرلی مگر مملکت میں رہنے والی ایک پری نما چڑیل کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔ وہ اڑ کر بادشاہ کے محل میں پہنچی اور شہزادی کے قریب  کھڑے بادشاہ و ملکہ دونوں کو جا لیا۔  چڑیل  نے بادشاہ کو  اول تو چند مغلظات سنائیں اور پھر شہزادی کو بد دعا دیتے ہوئے اڑ گئی کہ یہ پندرہ سال کی عمر میں مر جائے گی۔ چڑیل کی بد دعا سن کر ملکہ بہت پریشان ہوئی مگر پھر بادشاہ نے سمجھایا کہ یہ غریب کی بچی نہیں ہے جو بے موت ماری جائے یا کسی ناگہانی کا شکار ہو۔ بادشاہوں کے بچوں کا نہ ریپ ہوتا ہے نہ وہ زلزلوں میں مارے جاتے ہیں۔ حد تو  حد یہ کہ یہ کسی غریبوں والی بیماری میں بھی نہیں مرتے! بادشاہ کی منطقی اور مارکسی گفتگو سن کر ملکہ کی کچھ جان میں جان آئی مگر پھر بھی دل میں ایک گرہ سی رہ  گئی اور وہ شہزادی کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرنے لگی۔ اسے ایک منار میں چھپا دیا گیا اور اس کی دائی کے علاوہ تمام انسانوں کے اس سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی۔

کہتے ہیں کہ ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا سو وہی ہوا جو بادشاہ اور اس چڑیل نے کہا تھا۔ چڑیل کے کہنے پر وہ مر سی گئی مگر جیسا بادشاہ نے کہا تھا سو وہ مر کر بھی نہیں مری۔ حضور شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ میں  کسی مشہور سیاسی لیڈر کا بیان کر رہی ہوں جو بیچارہ آج تک چین سے مر بھی نہیں پایا اور اپنے متوالوں سے منتیں کرتے تھک چکا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے چین سے مرنے دو مگر وہ مصر ہیں کہ نہیں بھائی تُو زندہ ہے! یہ سب تو آنے والے وقتوں کے فسانے ہیں، اس وقت ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس وقت تو بس اتنا سا معاملہ تھا کہ شہزادی اور شہزادی کے ساتھ پورا ملک ایک گہری نیند میں ڈوب گیا تھا۔

پتہ نہیں کتنے سال اس ہی نیند کے عالم میں گزر گئے۔ شہزادی  گو نیند کے عالم میں تھی مگر اس کا دماغ  اس نیند کے عالم میں بھی جاگ رہا تھا اور  اسے نت نئے خواب دکھاتا  رہتا تھا۔ وہ سوچتی تھی کہ یہ کیا زندگی ہے؟ میرا  باپ کہتا ہے کہ میں شہزادی ہوں جبکہ درحقیقت میں اتنی غلام ہوں کہ اپنی مرضی سے اس بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتی!  کیا دنیا میں کوئی ایسی بھی لڑکی ہو گی جو کہنے کو خودمختار ہو اور درحقیقت میری طرح پابند ہو؟ پھر وہ سوچتی کے کبھی تو کوئی ایسا آئے گا جو مجھے اس نیند سے جگا دے گا! مجھے  واقعی وہ شہزادی بنا دے گا جو میں دراصل ہوں! پھر میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکوں گی! پھر مجھے اس طرح سونا نہیں پڑے گا! مجھے اس نیند سے چڑ ہے! کب آئے گا کوئی ؟ وہ دن بھر یہی سوچوں بھرے خواب دیکھتی رہتی اور اپنی قسمت پر کڑھتی رہتی۔

کہتے ہیں کہ خدا سب کی سنتا ہے۔ کسی ملک کا ایک شہزادہ جو اپنی ٹھرک کے لیئے مشہور تھا  ایک دن نئے مال کی تلاش میں اس ملک تک پہنچ گیا۔ یہاں شہر اور بازار سب ویران تھے کہ لوگ عالمِ خواب میں تھے۔ وہ اس بستی کی ویرانی پر تعجب کرتا ہوا بادشاہ کے محل تک پہنچا اور سستانے کی نیت سے محل میں داخل ہوگیا۔ محل میں اس کی نظر شہزادی پر پڑی جو اپنے کمرے کے فرش پر پڑی سو رہی تھی۔ شہزادے کو اس خوبصورت شہزادی پر بہت ٹھرک آئی جسے اس کے بادشاہ بننے کے بعد مورخین نے تصحیح کر کے پیار سے منسوب کردیا۔ تو جیسا کے داستان میں ہوتا آیا ہے، شہزادے نے شہزادی کو ایک طویل بوسہ دیا۔ اس کا ارادہ تو مکمل کاروائی کا تھا مگر اس کے منہ سے اٹھنے والی تمباکو کی بو سے شہزادی کو ابکائی آگئی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

شہزادی کے جاگنے کی دیر تھی کہ پورا محل  اور پورا شہر جاگ اٹھا۔ بادشاہ ملکہ دوڑتے ہوئے شہزادی کے کمرے میں پہنچے تو دیکھا کہ شہزادی ایک اجنبی کے ساتھ قابل دست اندازی پولیس قسم کی حالت میں تھی۔پہلے تو بادشاہ کو شدید غصہ آیا مگر پھر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ دست درازی کی کوشش کرنے والا، ان سے بھی بڑی ایک سلطنت کا ولی عہد ہے تو انہوں نے شریف مردوں کی طرح نکاح کی شرط لگا  کر مزید چھیڑ چھاڑ کی اجازت  دے دی۔اگلے ہی دن دھوم دھام  سے دونوں کا نکاح ہوگیا اور ایک طویل نیند سے جاگنے کی قیمت کے طور پر ،  وہ شہزادی جو ماں باپ کے حکم سے کسی مرد کو دیکھتی تک نہیں تھی، والدین کی خواہش پر ، خیر سے روزانہ ایک اجنبی کے ساتھ سونے لگی۔  خدا نے جیسے اس کے دن پھیرے، ویسے سب کے پھیرے!


جس وقت شہرزاد نے یہ کہانی ختم کی تو دنیا زاد اور بادشاہ دونوں  کی آنکھوں میں نیند کی شدت سے پانی آ چکا تھا ۔ بادشاہ کا دل تو کیا کہ اس آدھ ٹکے کہانی اور دنیا زاد کو حقیقی زندگی کا ٹیکا لگانے کی اس کوشش پر شہزادی کی گردن فی الفور اتار دے مگر پھر اس نے سزا کی اذیت بڑھانے کے لیئے شہرزاد کو رات بھر جدید اردو شاعری پڑھنے  اور اس میں جسمانی اعضاء کی تشریحات کے علاوہ کوئی مطلب ڈھونڈنے جیسے کام پر مامور کردیا۔ ایک دن کی مہلت مزید ملنے اور سزا کی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شہرزاد نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیااور عرض کیا کہ کل میں ایک اور کہانی سناؤں گی۔بادشاہ نے  سوچا کہ اگر اس نے دوبارہ کوشش کی تو میں اس کی گردن مار دوں گا۔ اب دیکھیں کہ شہرزاد دوبارہ کوشش کر کے زندہ بچ پاتی ہے یا نہیں اور اگر بچی تو دیکھیں گے کہ اگلی کہانی کیسی سناتی ہے۔

ہفتہ، 7 نومبر، 2015

گدھ

محبت میں دماغ استعمال کرنا تو عور ت کا خاصہ ہے۔ مرد تو حسن پرست ہوتا ہے۔ اسے تو صرف صورت درکار ہے۔ حمید مجھے اس دیوانگی سے کیسے چاہ سکتا ہے؟  دنیا کا کوئی بھی مرد میرے بارے میں اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے؟

 بے ترتیب بال، دھنسے ہوئے گال، ہونٹوں پر پپڑیاں، کمہلایا ہوا سانولا رنگ! آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی حمیدن بہت سالوں کے بعد اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہ تاثرات تھے  جیسے زندگی میں پہلی بار اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو۔

وہ ایک پچیس سالہ عورت اور پانچ بچوں کی ماں تھی۔ گو کہنے کو پچیس برس  زیادہ عمر نہیں ہوتی  مگر غریبوں کی جس بستی میں وہ رہتی تھی وہاں تیرہ چودہ سال کی عمر میں بیاہ کر رخصت ہونے والی لڑکیاں پچیس چھبیس سال میں ہی اپنی عمر جی چکی ہوتی تھیں اور بالعموم اپنی گیارہ بارہ سالہ لڑکی کی شادی کی فکر میں لگی ہوتی تھیں ۔ شاید یہی وجہ تھی کی اس کی تمام ہم عمر ساتھی آئینہ دیکھنے کے بجائے ہانڈی چولہا دیکھنے پر توجہ کرتی تھیں۔

خود اس کا ارادہ بھی بناؤ سنگھار کرنے کا نہیں تھا۔ وہ تو جس گھر میں کام کیا کرتی تھی وہاں سنگھار میز کو صاف کرتے ہوئے اس کی نظر شیشے پر پڑ گئی اور  وہ شیشے میں خود کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیئے رک گئی۔  پچھلے دس سال سے وہ اس گھر میں کام کر رہی تھی مگر کبھی شیشے کو دیکھ کر اس کے دل میں وہ سوالات نہیں آئے تھے جو آج اچانک سے اسے کاٹنے کو دوڑ رہے تھے۔  پیچھے سے بیگم صاحبہ کی چنگھاڑ کی آواز سن کر وہ اپنی محویت سے باہر آئی اور خود پر ایک تنقیدی نظر ڈالتی ہوئی صفائی کے لیئے آگے بڑھ گئی۔

پورا دن یہی خیال اسے ستاتا رہا ۔ حمید مجھے اس دیوانگی سے کیسے چاہ سکتا ہے؟  رات بچوں کے سونے کے بعد حمید اس کے پاس آیا تو آج اس نے مزاحمت نہیں کی۔ دن بھر کی تھکن کا افسانہ نہیں سنایا۔ چپ چاپ لیٹی رہی اور برداشت کرتی رہی۔ حمید نے اس تبدیلی کو محسوس کر لیا  اور رک کر تبدیلی کی وجہ پوچھ ڈالی۔ حمیدن نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا، حمیدے! تو باہر جاتا ہے۔ دنیا دیکھتا ہے۔ تیرا دل نہیں کرتا  کہ تیری بیوی گوری چٹی ، بھری بھری ہو؟ اس کی میری بیگم صاحبہ جیسی ریشمی زلفیں ہو؟  میں تو ایک لاش ہوں۔ مجھ میں تجھے کیا ملتا ہے؟  بلکہ میں  نے غور کیا ہے کہ اس بستی کی سب عورتیں لاشیں ہی تو ہیں! بس ان لاشوں کا معجزہ یہ ہے کہ یہ مسلسل بچے جننے میں مصروف ہیں؟ اس بستی کے مردوں کو ہم لاشوں میں کیا ملتا ہے؟

حمید نے ایک محبت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور بولا، تو سچ کہتی ہے حمیدن! اس بستی میں عورتیں نہیں لاشیں بستی ہیں۔ مگر تو یہ بھی تو دیکھ ناں کہ غربت نامی سامری نے اپنے جادو سے اس بستی کے عقابوں کو گدھ بنا دیا ہے! وہ گدھ جو خوشبودار اور خوشرنگ زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور مردار کھانے پر مطمئن ہو چکا ہے۔ جو اگر زندہ شکار پائے بھی تو اس کے مرنے کا انتظار کرتا ہے کہ اس کے مردار ہونے پر اس سے اپنی بھوک مٹا سکے۔ یہ کہہ کر حمید نے جواب کا انتظار کیئے بغیر دوبارہ اس کے جسم میں اپنی چونچ گاڑ دی اور بھنبھوڑنے میں مصروف ہوگیا۔

اتوار، 1 نومبر، 2015

طلاق

معاملہ سادہ سا تھا مگر معاشرے نے  اسے پیچیدہ کر دیا تھا۔ میری شادی کو تین سال ہو گئے تھے مگر بسیار کوشش کے باوجود ہم دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت پیدا نہیں ہوپائی تھی۔  شروع شروع میں ہم دونوں اس اختلاف رائے کو رشتے کا حسن سمجھتے تھے مگر وقت کے ساتھ ہم دونوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہمارا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ میری بیوی میں خدا نخواستہ کوئی اخلاقی برائی نہیں تھی۔ وہ پڑھی لکھی اور خوش شکل بھی  تھی۔  دنیا والوں کی نگاہ میں اس طلاق کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر ہم دونوں جانتے تھے کہ چیزیں اس ہی طرح چلتی رہیں تو ہماری روز کی تلخ کلامیاں بہت جلد جھگڑوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔ ایک دن ہم دونوں اس مدعے پر سر جوڑ کر بیٹھے اور تین سال میں پہلی مرتبہ ہم دونوں کسی بات پر متفق ہوگئے۔ ایک ہفتے تک معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے طلاق لے لی تھی۔

ہمارا ماننا تھا کہ کوئی کام دنیا کو دکھانے کے لیئے نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں تو ہمیں یہ حق ملنا چاہئے کہ ہم اس بات کا اظہار کر سکیں۔ ہمیں اس بات سے نفرت تھی کہ محض لوگوں کو دکھانے کے لیئے مسکراتے رہیں جبکہ درپردہ ہم خون کے آنسو رو رہے ہوں۔  دنیا مگر نہ اس طرح سوچتی ہے اور نہ اس طرح سوچنے کی اجازت دیتی ہے۔

جیسے ہی طلاق کی خبر احباب میں پھیلی، انہوں نے ہم دونوں کا گھیراؤ کر لیا۔اٹھتے بیٹھتے ہم دونوں کو سمجھایا جاتا کہ طلاق خدا کی ناپسندیدہ ترین چیز ہے۔ میں کہتا کہ منافقت شاید خدا کو طلاق سے زیادہ ناپسند ہے تبھی منافق کے بارے میں ہزاروں وعید موجود ہیں مگر مطلقہ کے جہنم میں جانے کے بارے میں کوئی بیان نہیں ملتا۔ جواب ملتا وہ منافقت ایمان لانے کا دکھاوا کرنے کے بارے میں تھی۔ میں عرض کرتا مگر رسول خداؐ نے تو اس بارے میں صراحت نہیں کی کہ صرف وہ منافق ہی جہنم میں جائیں گے؟ اور اگر کی بھی ہے تو میرے علم میں نہیں ہے! پھر کہا جاتا،  تم میاں بیوی تو پڑھے لکھے ہو! شعور رکھتے ہو! پھر ایسی جاہلانہ حرکت؟ میں پوچھتا کہ آپ نے کتنے جہلاء میں طلاق کا رجحان دیکھا؟ پڑھے لکھے ہیں تبھی جانتے ہیں کہ خدا نے کسی وجہ سے اس ناپسندیدہ چیز کو حلال رکھا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان شادی بیاہ کے معاملات میں غلطی کرسکتے ہیں اس لیئے اس نے باہر نکلنے کا ایک راستہ چھوڑ رکھا ہے۔ وہ کہتے کہ دیکھو میاں غلطی ہو ہی گئی تھی تو مرد بن کر نباہنی چاہیئے تھی! میں جواب دیتا کہ غلطی کرنا غلطی نہیں ہوتی، غلطی کر کے اس پر ڈٹے رہنا غلطی ہوتی ہے! وہ زچ ہوکر اٹھ جاتے اور  ان کے جانے کے بعد کسی اور صاحب سے دوبارہ ان جیسے ہی مکالموں پر مبنی مباحثہ شروع ہوجاتا۔

میری سابقہ بیوی بیچاری مجھ سے زیادہ مصیبت میں تھی۔ مجھے تو محض سمجھایا جاتا تھا مگر چونکہ وہ بدقسمتی سے عورت واقع ہوئی تھی سو اس کے حصے میں محض نصائح نہیں آتے تھے۔ اس غریب کو باقاعدہ ڈرایا جاتا تھا۔ بیٹا تم جانتی نہیں ہو کہ مطلقہ عورت کا اس معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے! وہ جواب میں کہتی، معاشرے میں ویسے بھی عورت کا مقام کسی کی بیٹی سے شروع ہو کر کسی کی بہن اور پھر کسی بیوی اور بالآخر کسی کی ماں ہی ہوتا ہے۔ سو اب اگر میں کسی کی بیوی والے مرحلے سے نکل گئی ہوں تو کیا ہوا؟ کسی کی مطلقہ تو ہوں نا؟ تو مرد کا نام تو الحمدللہ اب بھی موجود  ہے! میرے مقام پر کیا فرق پڑ گیا؟ فرق تو تب پڑتا جب خدانخواستہ لوگ مجھے میری ذاتی حیثیت میں جاننے لگتے۔  پھر کہا جاتا، لوگ تمہارے کردار پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ طلاق کے معاملے میں قصور وار ہمیشہ عورت ہی ہوتی ہے۔ خدا نے عورت کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات سے مطابقت اختیار کرلے۔ وہ جواب میں کہتی، مگر رسول خدا نے تو کہا تھا کہ عورت پسلی سے نکلی ہے! اسے اپنی مرضی کے مطابق  سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی۔ گویا رسول خداؐ تو کہتے ہیں کہ جس طرح اپنی پسلی کو ٹیڑھا پا کر بھی تم اسے سیدھا کرنے کے بجائے خود اس کے حساب سے مطابقت پیدا کرلیتے ہو ویسے اگر مرضی کی عورت نہ بھی ملے تو بھی اس کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرو! جواب ملتا، ہمیں اپنی مرضی کے مذہب کی تاویلات نہ سناؤ، سڑتی رہو! ہمارا کام بتانا تھا سو ہم نے بتا دیا۔ یہ کہہ کر لوگ باقی کے تازیانے اگلے آنے والے کے لیئے چھوڑ کر اگلے دن تک کے لیئے چلے جاتے۔

ہم دونوں اس صورتحال سے بہت عاجز تھے۔ میرے دوستوں کا مجھ پر بہت شدید دباؤ تھا کہ میں اپنی سابقہ بیوی سے رجوع کر لوں۔  ادھر ہم دونوں کا یہ حال تھا کہ  ہم دونوں ایک دوسرے کی عزت کرنے کے باوجود، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے یا ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا کہ وہ کس حال میں ہے۔ ہوائی جہاز کے سفر میں زندگی کا یہ زریں اصول میں نے بہت پہلے سیکھ لیا تھا کہ ہنگامی حالات میں پہلے اپنا آکسیجن ماسک لگائیں اور پھر دوسروں کی مدد کریں۔ان حالات میں میں اپنے لیئے آکسیجن ماسک نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا تو اس کی مدد کیسے کرتا؟

لوگوں کی باتوں سے میں بری طرح عاجز ہوچکا تھا۔ عاطف مجھ سے ملنے کے لیئے آیا تو میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ عاطف میرا سب سے مخلص دوست تھا۔ وہ روز مجھے سمجھانے آتا تھا اور گھنٹوں مجھے میری سابقہ بیوی کے فضائل گنوایا کرتا تھا اور ساتھ میں مجھے احساس دلانے کی کوشش بھی کرتا تھا کہ میری زندگی اس عورت کے بغیر کتنی نامکمل ہے۔ آج جب وہ دوبارہ مجھے سمجھانا شروع ہوا تو جیسے میں نے عرض کیا کہ میری ہمت جواب دے چکی تھی سو میں نے بحث سے بچنے کے لیئے اس کی زانو پر ہاتھ رکھا اور تھکے ہوئے لہجے میں کہہ دیا کہ یار! تو واقعی صحیح کہہ رہا ہے۔ مجھ سے بڑی بھول ہوگئی! بس اب دعا کرکہ کسی بھی طرح حالات صحیح ہوجائیں۔ میری یہ بات سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے مسرت بھرے لہجے میں میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا، جانی! اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے! وہ سب کی سنتا ہے! تو بس دعا کر، اللہ تعالیٰ سب صحیح کر دے گا! کسی چیز سے گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیرا بھائی تیرے ساتھ کھڑا ہے! بس تو بھابھی سے ایک بار بات کر لے۔ مجھے یقین ہے وہ بھی تجھ سے الگ ہوکر اچھی زندگی نہیں گزار رہی ہوں گی۔ تم دونوں کو اب دوبارہ ایک ہوجانا چاہیئے۔ اور ہاں، میں نے کہا ناں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں! گھر کی بات گھر میں رہے گی! میں حلالے کے لیئے تیار ہوں۔


بلاگ فالوورز

آمدورفت