ہم دونوں اس
وقت کراچی سے لاہور جانے والے جہاز میں موجود تھے۔ جب وہ میرے برابر والی نشست پر
آکر بیٹھی تو میں اسے دیکھ کر ہونق ہوگیا تھا۔ ایسا نہیں
کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی مگر بہرحال وہ ایک شدید خوبصورت لڑکی
تھی۔شاید میرے حواس باختہ ہونے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح جہاز میں
بالکل برابر والی نشست پر کسی ہم عمر اور خوبروہ
خاتون کے ساتھ بیٹھ کر جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ آج سے پہلے میں ہمیشہ
خراٹے دار مردوں، شادی زدہ عورتوں یا چھچھورے لڑکوں کے برابر میں ہی نشست پاتا رہا
تھا۔ جب وہ جہاز میں داخل ہوئی تو اسے
دیکھنے والے ہر مرد کی طرح میری بھی یہ خواہش تھی کہ وہ میرے برابر والی نشست پر
بیٹھ جائے۔مگر جب وہ واقعی میری نشست پر رک کر سامان بالائی خانے میں رکھنے لگی تو
میں بے چین سا ہوگیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کس قسم کا ردعمل دینا
چاہیئے۔ اس کے سامان رکھنے سے نشست پر براجمان ہونے کے درمیانی تیس سیکنڈ میں میں
تیس ہزار خیالات میرے دماغ میں آچکے تھے۔ یہ جب بیٹھے گی تو مجھے اس سے بات میں
پہل کرنی چاہیئے؟ یاپھر میں انتظار کروں کہ یہ مجھ سے خود مخاطب ہو؟ مگر یہ مجھ سے
مخاطب کیوں ہوگی؟ اور اگر میں نے اس سے
کلام کرنے میں پہل کی اور اس نے مجھے جھڑک دیا تو؟ ساری نشستیں قریب قریب ہوتی
ہیں۔ اس کی آواز بلند ہوگئی تو سب سمجھیں گے میں نے اس سے بدتمیزی کرنے کی کوشش کی
ہے! بے وجہ خفگی اٹھانی پڑ جائے گی! مگر زندگی روز تو ایسے مواقع نہیں دیتی؟ ڈیڑھ
گھنٹے کی اڑان کے بعد لاہور آجائے گا اور
پھر یہ اپنے راستے اور میں اپنے راستے! میں لاکھ کوشش کروں کبھی اس کے اتنے قریب
بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گا! کیا کروں؟ بات کروں ؟ جانے دوں؟ میں ان ہی سوچوں میں
گم تھا کہ اس نےاپنی نشست سنبھال کر میری
طرف دیکھے بغیر اپنے کانوں میں ایئر فون ٹھونس لیئے۔ اب کانوں سے ایئر فون نکلوا
کر گفتگو کی درخواست کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی سو میں نے آنکھیں موند کر کرسی
کی پشت پر ٹیک لگا لی۔
جہاز کے اڑنے
کے دس منٹ بعد تک میں ایسے ہی آنکھیں بند کرکے نیم دراز رہا مگر پھر اکتاہٹ کا
شکار ہوکر اپنی ڈائری کھول لی اور ایک نامکمل کہانی کو مکمل کرنے کی کوشش میں
مشغول ہوگیا۔ کوشش بھی کیا، کہ دو جملے لکھتا اور پھر ایک کاٹ ڈالتا۔ پھر آگے چلنے
کی کوشش کرتا اور دو قدم چلنے کے بعد اندازہ ہوتا کہ یہ وہ راستہ ہی نہیں جو منزل
کی طرف جاتا ہو۔ اسی ادھیڑ بن میں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کی مترنم آواز نے
مجھے چونکا دیا۔ آپ کہانیاں لکھتے ہیں؟ میں نے گربڑا کر دیکھا تو وہ بڑی دلچسپی سے میری ڈائری کی جانب دیکھ
رہی تھی ۔ میں نے جلدی سے ڈائری کو بند
کردیا گویا اس میں کہانی نہیں بلکہ ایٹم بم کا فارمولا لکھ رکھا ہو جس کے افشا
ہوجانے سے ملک و ملت کا اہم نقصان ہوجاتا۔
اس نے ڈائری سے نظریں ہٹا کر مجھ
پر ایک سوالیہ نظر ڈالی گویا کہہ رہی ہو کہ میاں! اب چھپانے کا کیا فائدہ جب میں
آپ کی لکھی پوری خرافات ویسے ہی پڑھ چکی ہوں؟ میں نے جھینپتے ہوئے ایک کھسیانی
مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی اور ہمت جمع کرکے جواب دیا، جی! میں کہانیاں لکھتا ہوں۔
میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر ایک جوش بھری مسکراہٹ آگئی۔ اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں
سے مجھ سے پوچھا، واقعی؟ آپ کسی رسالے کے لیئے لکھتے ہیں یا ٹیلیویژن کے لیئے؟ میں
نے شرمندگی سے جواب دیا کہ جی نہیں! میں صرف اپنے لیئے لکھتا ہوں۔ ٹیلیویژن اور
رسالوں کے لیئے لکھنے والے ایک عظیم تخیل کے مالک ہوتے ہیں جو ایسی کہانیاں تراشتے ہیں جن کا عام آدمی تصور
تک نہیں کر سکتا۔ میں تو صرف جو دیکھتا ہوں وہی اپنی کہانیوں میں بیان کر دیتا
ہوں۔ میرا جواب سن کر وہ کچھ مایوس سی
ہوگئی اور اپنی نشست میں واپس سمٹ گئی۔
اسے اس
طرح مایوس دیکھ کر میں اپنے آپ کو کوسنے لگا۔ کیا تھا اگر میں جھوٹ بول دیتا؟ وہ
کون سا ہر وقت ٹیلیویژن دیکھتی ہوگی؟ ویسے بھی ٹیلیویژن کے ڈراموں کے کردار اور
اداکار یاد رکھے جاتے ہیں، لیکھک کا نام کون پڑھتا ہے؟ اور پڑھ بھی لے تو کون یاد
رکھتا ہے؟ دیکھو کیسے مایوس ہوگئی بیچاری! یہ حزن اس چہرے پر جچتا ہے بھلا؟ میں نے دل میں خود کو کوستے ہوئے اس سے بات
کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ کہانیاں شوق سے
پڑھتی ہیں ؟ میں نے اس کی طرف جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر اثبات میں سر ہلا
دیا۔ میں نے ایک جوابی مسکراہٹ اس کی سمت اچھالی اور
اس کے پسندیدہ لکھاریوں اور موضوعات کے بارے میں سوال داغ دیا۔ اس کا جواب سن کر
مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جتنی خاص نظر آتی ہے، درحقیقت اتنی ہی عام لڑکی ہے۔
آگے کا کام میرے لیئے بہت آسان تھا۔ اگلے ایک گھنٹے میں میں اسے وہی معمول کی دہرائی ہوئی
کہانی سنا کر اسے یقین دلا چکا تھا کہ میں اس کے بتائے بغیر بھی اس کے بارے میں
بہت کچھ جانتا ہوں۔ وہی ، آج تک تمہیں کوئی ایسا انسان نہیں ملا جو تمہارے دکھ کو
سمجھ سکے۔ تم رشتوں میں اپنا سب کچھ لگا دیتی ہو مگر آج تک کوئی ایسا نہیں ملا جس
نے تمہارے جذبات کی صحیح معنوں میں قدر کی ہو۔ لوگوں کو تمہاری ہر بات سے محض اس
لیئے مسئلہ ہے کیونکہ وہ تمہاری آزادی سے جلتے ہیں۔ معاشرتی رسومات کی قیود کے زیر
اثر وہ تمہیں بھی پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ نناوے فی صد خواتین پر یہ کہانی اثر کر
جاتی ہے اور میری خوش قسمتی کہ وہ بھی ان میں سے ہی ایک تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر
مجھے دیکھ رہی تھی گویا میں کوئی عاملِ کامل ہوں جو لوگوں کے چہرے دیکھ کر ان کے
دلوں کا حال جان لیتا ہوں۔ اس غریب کو کیا خبر کے یہ میرا روز کا کام تھا؟ جہاز سے
اترنے سے پہلے ہم دونوں ایک دوسرے سے ٹیلیفون نمبرز کا تبادلہ کرچکے تھے، اور میں
اس سے وعدہ کرچکا تھا کہ میں ایک دن اس کی
کہانی ضرور لکھوں گا۔
لاہور پہنچنے
کے بعد میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایئرپورٹ سے نکلتے ہی اسے فون کر لوں مگر میں
جانتا تھا کہ گرم کھانے سے صرف منہ ہی جلتا ہے لہٰذا میں صبر کے ساتھ خود اس کے
مجھ سے رابطہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ میرا یہ انتظار زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا
اور رات کو ہی اس کا پیغام آگیا کہ اگر میں مصروف نہیں ہوں تو وہ مجھ سے بات کرنا
چاہتی ہے۔ میرے پاس اس وقت کرنے کو کوئی کام نہیں تھا مگر میں یہ جان چکا تھا کہ
وہ بھی تمام خوبصورت لڑکیوں کی طرح نرگسیت کا شکار ہے اور اسے مردوں کے اپنے آگے
پیچھے گھومتے دیکھنے کی عادت تھی۔میں فوری جواب دے کر ان مردوں میں سے ایک نہیں
دکھنا چاہتا تھا۔ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اپنے آگے
پیچھے گھومتا دیکھنا چاہتی تو ہیں مگر جب کوئی غریب ان کے آگے پیچھے گھومنے لگے تو
وہ ان کے نزدیک وقعت کھو دیتا ہے۔ لاحاصل، جب حاصل ہوجائے تو اس کی اوقات ماٹی سے
زیادہ نہیں ہوتی۔ سو میں نے پیغام پڑھ کر
موبائل ایک طرف ڈال دیا اور ٹیلیویژن پر انیس سو بانوے کے کرکٹ ورلڈ کپ کا چھتیس
مرتبہ دیکھا ہو اسیمی فائنل ایک بار پھر دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
جیسا میں نے
سوچا تھا عین اس کے مطابق، جب اس نے پیغام کے آگے پڑھے جانے کا اشارہ دیکھا اور
پھر بھی کوئی جواب نہیں پایا تو پانچ منٹ کے بعد اس نے تین سوالیہ نشان بنا کر
بھیج دیئے۔ میں نے اس کا پیغام پڑھا اور اپنی خواہشات پر بمشکل قابو پاتے ہوئے اسے
، اس وقت میرا گفتگو کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ ہم کل بات کریں؟ کا جواب بھجوادیا۔ مجھے
یقین ہے کہ وہ بے یقینی کے عالم میں اپنی موبائل کی اسکرین کو دیکھتی رہی ہوگی اور
چار منٹ کے بعد جب اسے واقعی یقین آگیا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی انسان موجود ہے
جس سے وہ مخاطب ہونا بھی چاہتی ہےمگر وہ اس کے لیئے وقت نکالنے پر تیار نہیں ہے تو اس نےفقط
انگریزی حرف کے لکھ کر بھیج دیا۔ وہ غریب
اس گمان میں تھی کہ شاید میں گھبرا کر اسے کال کروں گا اور اپنی اس بے اعتنائی پر نادم ہوں گا مگر وہ
معصوم نہیں جانتی تھی کہ میں جانتا تھا۔ میں نے موبائل ایک مرتبہ پھر صوفے پر ڈال
دیا اور مسکراتے ہوئے ٹیلیویژن دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
اگلا پورا دن
بھی وہ غریب میرے پیغام کی منتظر رہی مگر میں نے لاکھ خواہش کے باوجود اسے کوئی
پیغام نہیں بھیجا۔ یہ اعصاب کی جنگ تھی اور میں پہلے ہتھیار ڈال کر مال غنیمت سے
ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔ رات ایک بجے
کے قریب میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے اسے پیغام بھیجنے کے لیئے فون اٹھایا ہی
تھا کہ اسکرین پر اس کا نمبر جگمگانے لگا۔ وہ مجھ سے دس سیکنڈ پہلے ہمت ہار چکی
تھی۔ میں نے تین چار گھنٹیوں کا انتظار کیا اور اس کے بعد فون اٹھا لیا۔ ہم دونوں
نے پندرہ منٹ تک فون پر بات کی جس میں اس نے مجھے ہر طرح سے کھنگالنے کی کوشش کی
کہ میں اپنے بارے میں اتنا خوش فہم کیوں ہوں؟ اس جیسی حسین لڑکی کی توجہ کو میں
کیسے نظرانداز کر سکتا ہوں؟ میں اس کی گفتگو سن کر من ہی من مسکراتا رہا اور
اسے یہ یقین دلاتا رہا کہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا جس چیز کو وہ
میری خود پسندی سمجھ رہی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں ایک شادی شدہ انسان ہوں اور
ایک بیٹی کا باپ ہوں لہٰذا میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کو اس قابل نہیں
سمجھتا کہ اس پر نگاہ التفات کروں۔ میری پوری گفتگو سن کر اس نے صرف ایک سوال کیا،
کیا تمہاری بیوی مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے؟ میں اس سوال کے لیئے پہلے سے تیار
تھا سو میں نے اسے بتا دیا کہ میری بیوی
کا دنیا میں کوئی مقابل نہیں ہے!
انا کے بت پر
پڑنے والی یہ ضرب میری توقعات سے زیادہ اثر انگیز تھی۔ اس وقت تو اس نے یہ کہہ کر
فون رکھ دیا تھا کہ 'ٹھیک ہے! پھر آپ اپنی بیوی سے ہی بات کریں' مگر ٹھکرائے جانے
کا احساس اس کے اندر ناسور بن کر پھیلنے لگا تھا۔ میں لاہور سے کراچی آگیا۔ اس بات کو ایک ماہ گزر چکا
تھا۔ اس ایک ماہ میں اس نے کوئی دس مرتبہ مجھے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر میں نے
ایک بار بھی اس کا فون نہیں اٹھایا۔ پھر ایک دن میں دفتر میں موجود تھا کہ اس کا
پیغام آیا، "میں کراچی میں ہوں اور ہوٹل تاج میں ٹھہری ہوئی ہوں۔ میں جانتی ہوں آپ صرف اپنی
بیوی سے محبت کرتے ہیں مگر ہوسکے تو ایک بار ، صرف ایک بار آکر مجھ سے مل
لیں"۔
شام کو دفتر سے نکل کر میں سیدھا ہوٹل تاج پہنچ
گیا۔ ہوٹل میں پہنچ کر میں نے اسے پیغام بھیجا کہ میں ہوٹل میں موجود ہوں۔ اس نے
جواب میں اپنے کمرے کا نمبر مجھے بھجوا دیاکہ میں شدید تھکی ہوئی ہوں لہٰذا آپ
اوپر ہی تشریف لے آئیں۔ پانچ منٹ بعد میں اس کے کمرے میں موجود تھا۔
گھنٹے بھر کے
بعد میں جب کمرے سے نکلا تو ہم دونوں بہت خوش تھے۔ اس کی آنکھوں میں ایک ناقابل
تسخیر انسان کو فتح کرنے کا غرور تھا جبکہ میں ایک مرتبہ پھر اپنے پلان کی کامیابی
پر مسرور تھا۔
تیز قدموں سے
چلتا ہوا میں ہوٹل سے باہر آگیا اور ٹیکسی ڈھونڈنے لگا۔اگلے آدھے گھنٹے میں مجھے
ایئر پورٹ پہنچنا تھاجہاں میں رات کی فلائٹ سے لاہور جا رہا تھا۔