اتوار، 31 جولائی، 2016

اڑان

سڑک کے اس پار کھڑا وہ خشمگیں نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔  میں جانتا تھا کہ اس کی نظریں میرے ساتھ موجود میری بیٹی پر تھیں۔  ہاں میں مانتا ہوں کہ وہ میری سگی بیٹی نہیں تھی اور اس نے ہی اسے میرے حوالے کیا تھا کہ میں اس کا خیال رکھ سکوں ۔ وہ ایک سرکاری ہرکارہ تھا جو توجہ طلب بچوں کو ایسے گھرانوں میں بھیجتا تھا جو ان کا خیال رکھ سکیں۔ سرکار اسے اس کام کی تنخواہ اور ایسے بچوں کو رکھنے والوں کو اس کا محنتانہ دیتی تھی۔ مگر گزشتہ برسوں میں اس بچی کے ساتھ میرا تعلق اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ میں مکمل طور پر بھول بیٹھا کہ وہ میرے پاس بطور امانت رکھوائی گئی تھی۔ میں یہ کیسے بھول سکتا تھا کہ کس طرح اس ننھی پری نے آ کر میری زندگی کو مکمل کیا تھا۔  میری بے کار اور بد رنگ زیست کو ایک مقصد اور یہ خوشنما رنگ دیے تھے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میں نے اس کی ذمہ داری محض اس لالچ میں قبول کی تھی کہ میں اس سے پہلے  گود لئے گئے بچوں کی طرح ایک دو ماہ اسے اپنے پاس رکھ کر اس کا محنتانہ وصول کروں گا مگر جب وقت مقررہ کے بعد اس کے جانے کا وقت آیا تو پہلی مرتبہ میرا دل شدید پسیج گیا تھا۔ میں نے  اپنے تمام تعلقات اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس بچی کو اپنے پاس رکوا لیا تھا۔ اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے! بیچ میں ایک مرتبہ وہ اسے ایک ماہ کے لئے لے گیا تھا مگر اس ایک ماہ میں خود اس بچی کے واویلوں اور میری پیہم درخواست پر اس نے اس بچی کو واپس میرے حوالے کردیا تھا۔ جب تک وہ خود ذمہ دار نہیں ہوجاتی تب تک کے لئے اس کے ذمہ داری میرے نام لکھ دی گئی تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے میں اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے ناچتا ہوا گھر آیا تھا۔ مجھے اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ محنتانہ ملنا تو درکنار، الٹا مجھے اب اسے اپنے ساتھ رکھنے کی روازنہ کی بنیاد پر قیمت ادا کرنی تھی ۔ میرے لئے یہی بہت تھا کہ وہ میرے ساتھ تھی۔ میرے پاس تھی۔ میری بیٹی تھی۔ میری تھی۔ ہاں ٹھیک ہے کہ اس کی زندگی کے فیصلے اس نے اب بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے تھے اور اس کی زندگی میں کیا ہونا ہے یہ وہی طے کرتا تھا مگر روزمرہ کی چھوٹی موٹی تمام چیزیں میں اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر خود طے کرتا تھا اور یہی میرے لئے بہت تھا۔
 وقت کی سب سے اچھی اور سب سے بری بات ایک ہی ہے۔ یہ گزر جاتا ہے۔ اس بات کو کہنے کو سال گزر گئے تھے مگر سوچو تو کل کا ہی واقعہ لگتا ہے۔ یقین مانو تو میں تو اس بات کو سرے سے بھول ہی چکا ہوتامگر وہ مجھے یاد دلانا نہیں بھولتا تھا۔ ہر کچھ دن بعد وہ کسی غریب بچے کا ہاتھ پکڑ کر میرے دروازے پر کھڑا ہوتا تھا ۔ نت نئے بہانوں سے مجھے میرے ماضی کی طرف گھسیٹتا۔  مزید بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی ترغیب دیتا۔میرے نہ ماننے پر پیسوں کا لالچ دیتا۔ اور جب کوئی چیز اثر نہیں کرتی تو ہر بار میرے منہ پر سیاہی مل کر دوڑ جاتا۔ میں جانتا تھا کہ وہ طاقتور تھا سو میں اس سے بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ مجبوری میں سب کچھ برداشت کرنا پڑتا۔ کیوں نہ کرتا؟ اگر وہ طاقتور نہ بھی ہوتا تو بھی میری بیٹی اس ہی کی دی ہوئی تھی اور وہ چاہتا تو ہمارے معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی اسے واپس لے سکتا تھا۔ میں اس سے کیسے لڑسکتا تھا؟
گزشتہ کئی ماہ سے اس نے آنا چھوڑ دیا تھا تو میں بھی کچھ مطمئن ہوگیا تھا۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی ۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی بڑی ہورہی ہے۔اب وہ زندگی کو خود سے پرکھنا چاہتی تھی۔ خود کو پرکھنا چاہتی تھی۔ میں اس کے لئے بہت خوش ہوا تھا۔میں اس دن کو یاد کرتا جب وہ میرے پاس آئی تھی اور پھر آج کی اس لڑکی کو دیکھتا تو مانو میرا سینہ گز بھر کا ہوجاتا تھا۔ مگر جیسا میں نے کہا کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا سو اس دن بھی جب وہ میرے ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے بڑے قدم اٹھا کر مڑ مڑ کر مجھے ہنستے ہوئے دکھا رہی تھی کہ کس طرح وہ اب میرے نقش قدم سے بڑھ کر خود قدم اٹھا سکتی ہے تو تب ہی میری نظر اس پر پڑی تھی۔ وہی سرکاری کارندہ ایک کافی شاپ میں بیٹھا ، شیشے سے باہر ہم دونوں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ہماری نظریں ملیں تو اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے میری بیٹی کی طرف اشارہ کیا اور ایک مسکراہٹ میری سمت اچھال دی۔ میں اس مسکراہٹ کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکتا تھا سو میں نے جلدی سے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام لیا اور اسے تقریبا گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے آیا۔ میں محسوس کرسکتا تھا کہ اسے میری یہ حرکت قطعا پسند نہیں آئی تھی مگر میرا لحاظ کرتے ہوئے وہ خاموش ہوگئی۔
اس دن کے بعد سے تو یہ معمول ہی بن گیا۔ ہم دونوں جہاں کہیں بھی جاتے وہ وہاں پہنچ جاتا۔ مجھے دیکھ کر دانت نکوستا۔ میں زندگی میں کبھی اتنا بزدل نہیں رہا مگر اس وقت خوف کے مارے میری روح تک کانپ جاتی اور میں گھبرا کر بیٹی کا ہاتھ تھام لیتا۔ خود کو تسلی دینے کے لئے کہ وہ میرے ساتھ موجود ہے اور کوئی اسے مجھ سے جدا نہیں کرسکتا۔
آج جب میں نے اسے سڑک کے اس پار دیکھا تو پہلے تو میں نے سوچا کہ بیٹی کو منع کردوں کہ ہمیں سڑک کے اس پار نہیں جانا چاہیے مگر میں جانتا تھا کہ وہاں اس کا جانا ضروری تھا سو میں نے بادل نخواستہ اس کے ساتھ چلنا شروع کردیا۔ حسب معمول سڑک پار کرتے ہوئے میں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ سڑک پار کرکے جیسے ہی ہم فٹ پاتھ پر پہنچے تو اس سے پہلے کہ میں اس کا ہاتھ چھوڑنے کا سوچتا اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بول اٹھی، بابا! میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مگر میں اس محبت کے بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی ہوں۔ آپ کی محبت کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ میرا دم گھٹتا ہے۔ میں جینا چاہتی ہوں۔ اڑنا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ اس اڑان میں میرے بازو بننا چاہتے ہیں مگر بابا میرے اپنے پروں کا کیا؟ بابا! میں تھک چکی ہوں۔ میں زندگی کو اس طرح سے نہیں گزار سکتی جس طرح لوگ چاہتے ہیں کہ میں گزاروں۔ میری اپنی ذاتی خواہشات کا کیا؟ آپ مجھ سے یہ امید کیوں رکھتے ہیں کہ میں آپ کی جگہ آ کر سوچوں؟ میری جگہ آ کر کون سوچتا ہے؟ بابا! میں معذرت چاہتی ہوں اگر میرے الفاظ آپ کے لئے تکلیف دہ ہیں مگر بابا آپ کو تو خوش ہونا چاہئے۔ آپ کی بیٹی اب بڑی ہوگئی ہے۔ اپنے فیصلے خود لے سکتی ہے۔ اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتی ہے!

لوگ ہمارے پاس سے لاتعلق ہوکر گزر رہے تھے گویا اس گفتگو کو سن ہی نہ رہے ہوں مگر قریب ہی کھڑاوہ شخص قہقہے مار کر ہنس رہا تھا اور ان ہی قہقہوں کے درمیان اس نے میری بیٹی کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ لے کر چل دیا۔ معاہدے کے مطابق، میری بیٹی اب اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتی تھی! 

ہفتہ، 30 جولائی، 2016

یار جولاہے

برسوں پہلے
ایک نظم گلزار کی پڑھ کر
میں نے تجھ کو کھوجا تھا اے یار جولاہے!
سوچا تھا کہ
اک بھی گانٹھ گرہ بنتر کی
دیکھ نہیں پائے گا کوئی
لیکن میرے یار جولاہے
گانٹھ گرہ بنتر تو چھوڑو
یاں تو میرے سارے تانے
تو نے یونہی بیٹھے بیٹھے
کھیل ہی کھیل میں توڑ دیئے ہیں
اور میں اس تانے بانے میں
خود افسانہ بن بیٹھا ہوں
دیکھو میرے یار جولاہے
یار جولاہے
(چند مزید سسکیاں کہ جنہیں الفاظ کا کفن تک میسر نہ ہوا وغیرہ)

سید عاطف علی
29- جولائی- 2016
ڈیڑھ بجے شب

پیر، 25 جولائی، 2016

رپورٹ

آئیے میڈم تشریف رکھئے! صاحب نے بتایا تھا آپ کے آنے کا۔  میں نے تو کہا تھا صاحب کو کہ میں گھر جاکر رپورٹ لکھ آتا ہوں مگر انہوں نے کہا کہ  آپ راستے میں ہی ہیں۔ بتائیں کیا رپورٹ درج کرانی ہے؟
کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ کو مسلسل الٹیاں لگ جائیں؟َ
جی میڈم! ایک مرتبہ ایسا ہوا تھا۔ توبہ توبہ پورے دو دن تک قے کرکرکے برا حال ہوگیا تھا۔ آپ قے کی رپورٹ لکھوانے آئی ہیں؟
اچھا اگر یہ سلسلہ ہفتوں پر محیط ہوجاتا تو؟
توبہ توبہ میڈم جی! کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ دو دن میں آدھا ہوگیا تھا میں تو۔ ایک ہفتے میں تو اوپر نکل جاتا۔
اچھا کبھی آپ کے ساتھ موڈ سوئنگ ہوے ہیں؟
سوری میڈم جی! وہ کیا ہوتے ہیں؟
مطلب ابھی آپ بہت خوش ہیں اور ایک منٹ بعد آپ کا دل کرنے لگے کہ آپ سامنے والے کا سر پھاڑ دیں؟ اور جب آپ سر پھاڑنے کے لئے اٹھیں تو آپ کو اچانک ہی اس شخص پر پیار آنے لگے؟
میڈم جی ہمارے محلے میں ایک آدمی کو ہوتے تھے یہ ۔ بڑا سیاپا ہوتا تھا جی۔ پھر اس کے گھر والوں نے اسے پاگل خانے بھجوا دیا تو محلے میں کچھ سکون ہوا۔ اللہ بچائے جی!
 اچھا تصور کریں اس شخص کی زندگی جو سوائے ایک مخصوص پوزیشن کے مہینوں تک سو نہ سکتا ہو۔
کھی کھی کھی میڈم جی ہمارے ڈرائنگ روم کی سیر کرکے نکلنے والا  شخص ایک ہفتے تک سوائے ایک مخصوص پوزیشن کے سو نہیں سکتا۔ اس ایک ہفتے کا سوچ کر بڑے سے بڑے بدمعاش کا پتہ پانی ہوجاتا ہے آپ مہینوں کی بات کر رہی ہیں۔
اچھا یہ بلٹ پروف جیکٹ آپ نے میز پر کیوں رکھی ہوئی ہے؟  پہن کر کیوں نہیں رکھتے اسے؟
میڈم جی آپ رپورٹ لکھوانے ہی آئی ہیں نا؟
آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا؟
میڈم جی بیس کلو کی جیکٹ ہے۔ اس کو پہن کر رکھنا آسان ہے؟
اب سوچیں اگر کسی انسان کو مسلسل تین ماہ تک کے لئے اتنی بھاری جیکٹ پہنا دی جائے کہ اسے چلنا دوبھر ہوجائے اور اسے سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے وہ جیکٹ اتارنے کی اجازت نہ ہو؟
میڈم جی ایسا کوئی ٹارزن کا بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا جو یہ کرسکے۔ آپ رپورٹ لکھواؤ جی!
جی رپورٹ میں لکھوا دیتی ہوں بس ایک دو آخری سوال  اور۔ اگر کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنی ہڈیاں تک تڑوانی پڑ جائیں تو وہ چیز آپ کے لئے کتنی قیمتی ہوگی؟
یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے جی؟ بہت بہت قیمتی چیز ہوگی میڈم جی!
تصور کریں اگر ایک چیز ایسی ہو جسے حاصل کرنے کے لئے آپ کو بیک وقت کئی ہڈیاں تڑوانے جیسی اذیت برداشت کرنی پڑے؟
میڈم جی! دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے حاصل کرنے کے لئے میں یہ حماقت کروں۔ اللہ جی نے عقل دی ہے مجھے!
لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہو تو؟
کیا چیز ہوسکتی ہے؟
کوئی بھی چیز اگر ایسی ہو تو؟
میڈم جی! اول تو ایسی چیز ممکن نہیں مگر ایسا کچھ ہوا بھی تو پھر وہ واقعی اس قابل ہونا چاہئے کہ اس کے پیچھے بندہ یہ تکلیف برداشت کرے!
اچھا اور پھر وہ چیز اگر کھو جائے یا چوری ہوجائے تو؟
میڈم جی! آپ صاحب کے ریفرنس سے آئے ہوئے ہو  ۔۔ خیر ! میں نے جان نہیں لے لینی اس کی جو ایسی چیز چوری کرے؟
اگر آپ کو نہ معلوم ہو کہ چور کون ہے؟ اور وہ چیز اتنی نازک ہو کہ ٹوٹ سکتی ہو؟
میڈم! چیز خواہ کتنی ہی قیمتی ہو، اگر اپنے ہاتھوں سے ٹوٹے تو اور بات ہے۔ کھو جائے تو انسان پاگل نہ ہوجائے یہ سوچ سوچ کر کہ وہ چیز بچی بھی ہوگی یا نہیں؟

محرر صاحب! اب رپورٹ لکھیں! ہفتوں الٹیاں کرکے، محبت کرنے والے گھر والوں پر اپنے موڈ سوئنگز مسلط کرکے، مہینوں کمر کے بل ایک ہی حالت میں لیٹ کر، مسلسل بوجھ اٹھا کر، اور ناقابل برداشت زچگی کی تکلیف سہہ کرجس بچے کو میں نے جنم دیا تھا وہ کل رات سے غائب ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں ہمارے محلے میں غائب ہونا والا یہ تیسرا بچہ ہے۔  معاشرے میں لفظ اغوا جتنا معمولی سمجھا جانے لگا تھا تو میں نے سوچا کہ تھانے آ کر آپ کو ایک مرتبہ اس اغوا کا مطلب سمجھا دوں۔ آپ نے کہا تھا اگر اتنی مشقت کے بعد حاصل ہونے والی چیز آپ سے کوئی چھینے تو آپ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ کیا میں امید کرسکتی ہوں کہ آپ اپنی بات پر قائم رہیں گے؟

جمعہ، 22 جولائی، 2016

کٹھ پتلی

شہر میں اس  پتلی تماشے کی دھوم تھی۔  خدا معلوم یہ تماشہ گر کون تھا اور کہاں سے آیا تھا ۔ کسی نے اس کو دیکھا نہیں تھا مگر اس نے اپنے تماشے سے شہر بھر کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔  الگ الگ پتلیوں کو وہ بیک وقت اس طرح نچاتا تھا کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے تھے۔  تماشہ بظاہر بہت سادہ سا تھا۔ ایک گڈے کی ملکیت کی جنگ تھی جو کئی گڈیاں بیک وقت لڑ رہی تھیں۔ ایک گڈی اسے اپنی دی گئی خدمات کا واسطہ دے کر اپنی جانب کھینچتی تھی تو دوسری اپنے تعلق کا واسطہ دے کر اسے  رحم کرنے کا کہتی اور ایک وہ بھی تھی جو ان سب سے پرے خاموشی سے کھڑی ہوکر تماشہ دیکھتی تھی۔

گڈا بیچارہ ان کے بیچ میں پھنسا کھڑا رہتا۔ ہاتھ جوڑتا، اوندھے منہ گر جاتا، ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ وہ بیک وقت سب کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے کہ ان سب سے اس کے تعلق کی نوعیت بالکل الگ تھی مگر گڈیوں کے کان کہاں ہوتے ہیں۔ وہ اسے پکڑ کر اپنی جانب کھینچتیں اور تماشے کے اختتام پر روزانہ وہ کھینچ تان کر گڈے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتیں اورگڈا اپنے ہاتھ پاؤں لٹُا کر ہوا میں معلق رہ جاتا جس کے بعدپردہ گرا دیا جاتا تھا۔ 

ان گڈیوں میں سے ایک وہ بھی تھی۔ ویسے ہی ہاتھ اور پاؤں اور نقوش جیسے کہ تمام گڈیوں کے ہوتے ہیں۔ مگر خدا جانے تماشہ گر نے اس کی تخلیق میں کیا فسوں رکھا تھا کہ جو اسے ایک بار دیکھ لیتا پھر اس سے نظریں ہٹا نہیں سکتا تھا۔ وہ صرف تماشائیوں کی ہی نہیں، پتلیوں کی بھی محبوب تھی۔ شاید وہ بنائی ہی اس لئے گئی تھی کہ اس سے محبت کی جائے۔

بکسے میں جب پہلی مرتبہ اسے اتارا گیا تو اسے ساتھ کے سارے کردار اچھے لگے تھے۔ خیال کرنے والے اور خیال رکھنے والے۔ وہ بہت جلد ہی ان میں گھل مل گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ البتہ باقی تمام کردار پیچھے ہوتے چلے گئے اور وہ اس گڈے کے قریب ترین ہوتی چلی گئی۔  وہ چاہتی تھی کہ وہ جتنا زیادہ وقت اس گڈے کے ساتھ گزار سکتی ہے گزارے ۔ وہ اس سے سیکھنا چاہتی تھی۔ زندگی کے بارے میں۔ تماشہ گر کے بارے میں۔ خود اپنے بارے میں۔ اسے لگتا تھا کہ تماشہ گر کے بعد اس بکسے میں اگر کوئی اسے سمجھتا تھا تو وہ گڈا تھا۔اس کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے جتنے مسائل تھے ان سب کا حل اسے لگتا تھا کہ اس گڈے کے پاس موجود تھا۔  وہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی اور ان میں سے وہ موتی نکالنے کی کوشش کرتی جن کا علم شاید خود گڈے کو بھی نہیں تھا۔

کٹھ پتلیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے  کہ ان کی جسامت بہت محدود ہوتی ہے اور حصہ بقدر جثہ کے تحت دماغ اس سے بھی چھوٹا۔پتلیاں جب اس سے گڈے سے محبت کے بارے پوچھتیں تو وہ خوشی اور فخر سے ناچ کر اقرار کرتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ اسے بتایا جانے لگا کہ محبت کی تعریف وہ نہیں ہے جو یہ سمجھی تھی! دو کٹھ پتلیاں ایک دوجے سے محض اس وجہ سے محبت نہیں کرسکتیں کہ وہ کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہئے۔ شاید دوسری طرف گڈا بھی یہی سب کچھ سن  اور سہہ رہا تھا مگر ہزار بار سوچنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کے خیالات اپنے اندر نہ ڈھونڈ پائے جسے بکسے والے ان سے منسوب کرتے تھے۔
اب بکسے کے حالات کشیدہ ہونے لگے تھے۔ باقی کٹھ پتلیوں کو لگتا تھا کہ یہ دونوں جھوٹے ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو چیز وہ خود محسوس نہیں کرسکتے وہ کوئی اور محسوس کرلے؟ جیسا گڈا یا گڈی خود ان کی زندگی میں نہیں ہے وہ کسی اور کی زندگی میں آجائے؟  تعلقات کشیدہ تر ہوتے چلے گئے اور جب گڈی پر بس نہ چلا  کہ وہ ان کی توقعات سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی تھی تو گڈے پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی۔ دن رات پکڑ کر اس کے ہاتھ پاؤں کھینچے جاتے اور دن کے اختتام پر اس کو مکمل توڑ کر اپنے اپنے حصے کا گڈا لے کر سب سکون سے گھروں کو لوٹ جاتے۔ گڈی اس لڑائی میں شامل نہیں تھی۔ نہ ہونا چاہتی تھی۔ مگر اس کی ڈور بھی تماشہ گر کے ہاتھ میں ہی تھی۔ وہ جان بوجھ کر اسے گڈے کے حصے بخرے کرنے والوں کے درمیان کھڑا کردیتا۔اور جب رات گئے سب اپنے حصے کے اعضا لے جاتے تو وہ آخر میں بچ جانے والا واحد حصہ جو کسی کو درکار نہیں تھا اٹھا کر ساتھ لے آتی۔ گڈے کا دل!

تماش بین اس کھیل  سے خوب محظوظ ہوتے اور روزانہ اس گڈے کی بنتی درگت پر خوب خوب تالیاں پیٹتے کہ دنیا  کے خوبصورت ترین احساسات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ تکلیف سہنے والے اکیلے نہیں ہیں۔

آج بھی حسب معمول ہجوم جمع تھا اور تماشہ شروع ہونے کا منتظر تھا مگر آج جب پردہ اٹھا تو منظر کچھ مختلف تھا۔ آج گڈے کے تیور کچھ بدلے ہوئے تھے۔تماشہ گر جب جب ان گڈیوں کا دائرہ اس گڈے کے گرد تنگ کرتا وہ ان کے بیچ کھنچنے کے بجائے پہلو دے کر نکل جاتا۔ پہلے تو لوگ اسے تماشہ گر کا کوئی نیا پینترا سمجھے مگر معاملہ اس وقت عجیب ہوگیا جب لوگوں نے پہلی مرتبہ ایک کٹھ پتلی کوبولتے بلکہ چنگھاڑتے ہوئے سنا۔ وہ چیخ چیخ کر تماشہ گر کو للکار رہا تھا کہ اب وہ کٹھ پتلی بن کر مزید اس تماشے کا حصہ نہیں بن سکتا اور تماشہ گر کو اسے اس ناٹک سے رہائی دینی ہوگی۔  معاملہ اس وقت زیادہ دلچسپ ہوگیا جب لوگوں نے پہلی مرتبہ تماشہ گر کی آواز سنی۔ وہ تماشہ گر جو کبھی کسی کے سامنے نہیں آیا تھا اس وقت کٹھ پتلی کو یاد دلا رہا تھا کہ اس کی زندگی  اس بکسے سے جڑٰی ہوئی ہے۔ اس کی زندگی محض تب تک ہے جب تک اس کے جسم سے جڑی یہ ڈوریاں تماشہ گر کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر اس نے اس ڈوری کو چھوڑ دیا تو گڈا کوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ گڈا جواب میں چلا رہا تھا کہ وہ ایسی زندگی پر لعنت بھیجتا ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ وہ اب مزید ناچنے پر تیار نہیں تھا خواہ اس کی قیمت اس کی زندگی ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں نے تماشہ گر کے ہنسنے کی آواز سنی جو اپنے اس غلام کی خواہشات کا جواب  محض قہقہوں سے دے رہا تھا۔

تماشائی معاملہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ یہ لفظی جنگ ایک حقیقی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ گڈے نے تماشہ گر کی مرضی کے خلاف ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردئے۔ تماشہ گر اگر اس کے ہاتھ کو دائیں گھماتا تو گڈا اپنی ننھی سی جان بروئے کار لاتے ہوئے اسے بائیں ہاتھ کی طرف کھینچتا اور نتیجتا ہاتھ ایک پینڈولم کی طرح جھولنے لگتا۔ تماشائ اس کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے ایک بار پھر محظوظ ہونے لگے تھے مگر سٹیج پر ایک وحشت زدہ ماحول بن چکا تھا۔ گڈیاں نیچے گری پڑی تھیں اور محض گردن اٹھا کر  یہ مناظر دیکھ رہی تھیں۔  گڈا بکسے کے کونے پر کھڑا کبھی ہاتھوں کا پنڈولم جھلاتا تھا اور کبھی ٹانگوں کا۔ تماشائیوں کے قہقے اب آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ یہ احساس  کہ ایک کٹھ پتلی بھی اپنے آقا کے آگے کھڑی ہوسکتی ہے ان کے لئے بہت پر تفنن تھا۔ تماشہ گر نے جب  حاضرین کی اس دلچسپی کو دیکھا تو اب یہ پنڈولم کی حرکت افقی سے عمودی ہوگئی۔ وہ گڈے کے ہاتھ کو اوپر لے کر جاتا اور گڈا اسے ایک جھٹکے سے نیچے لے آتا۔ یہ بات البتہ اب واضح تھی کہ گڈا تھکتا جا رہا تھا۔ ہوتے ہوتے ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب تماشہ گر نے اس کا ہاتھ اوپر کیا تو وہ ہاتھ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ گڈیوں نے معاملہ جب سنبھلتا ہو ا دیکھا تو وہ بھی کھڑی ہوئیں اور ناچتی ہوئی اس گڈے کے گرد جمع ہوگئیں۔ مجمع کو آج نیا کھیل دیکھنے کو ملا تھا جسے انہوں نے دل سے پسند بھی کیا تھا سو لوگوں نے تالیاں پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ تالیوں کا شور جب تھما تو پردہ آہستگی سے گرنے لگا۔ پردے کے گرنے سے پہلے لوگوں نے آخری منظر جو دیکھا وہ یہ تھا کہ گڈے نے ہاتھ کو ایک آخری جنبش دی اور اپنی گردن سے جڑے دھاگے کو توڑ دیا۔ گڈے کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ تماشا تمام ہوا۔ 


دوسری طرف روز کی طرح آج بھی وہ بکسے میں موجود تھی جب اس نے گڈے کو پھٹتے دیکھا۔ چیختے اور چنگھاڑتے دیکھا۔ تماشہ گر سے لڑتے دیکھا۔ لڑکر گرتے دیکھا ۔ اور آخر میں جب سب گڈے کی ڈھلکی ہوئی گردن دیکھ رہے تھے تب یہ منظر نہ کسی تماش بین نے دیکھا نہ کسی لیکھک نے اسے بیان کیا کہ ایک اور ہاتھ اپنے گردن سے بندھی ڈور توڑنے میں مصروف تھا۔  تماشا واقعی تمام ہو چکا تھا۔

ہفتہ، 9 جولائی، 2016

ایدھی


آپ کو پتہ چلا ؟ عبدالستار ایدھی مر گئے!
کیا بکواس ہے؟ ایدھی صاحب کبھی نہیں مر سکتے! جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تب بھی خلق خدا انہیں مرنے نہیں دے گی! میں نے اس کے منہ پر کہتے ہوئے فون تو مار دیا مگر دل بیٹھتا چلا گیا۔ ایدھی صاحب میرے سوالات کا جواب دئے بغیر کیسے جاسکتے تھے؟ سوچا کہ ٹیلیویژن کھول کر خبر کی تصدیق کروں مگر پھر یہ سوچ کر ہمت نہیں ہوئی کہ اگر خبر سچ نکلی تو کیا ہوگا؟ ایدھی صاحب ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ ساری عمر لوگوں کے آنسو پونچھنے والا، لوگوں  کی آنکھوں کو کیسے نم کر سکتا ہے؟ ابھی ایدھی صاحب کی عمر ہی کیا تھی؟ محض اٹھاسی برس؟  اتنی جلدی کیا تھی؟   یہ سب سوچیں دماغ میں چل ہی رہیں تھیں کہ میرے سوالات ایک بار پھر اٹھ کر سامنے آکھڑے ہوئے۔
ایدھی صاحب! آپ لوگوں کے نزدیک فرشتہ ہوں گے مگر آپ سے مجھے کچھ شکوے ہیں اور شدید ہیں!
میرا آپ سے سب سے پہلا شکوہ یہ ہے کہ آپ نے سن ستاون میں پہلے ایدھی سینٹر کے قیام سے لے کر آج تک اس قوم کو محض انسٹھ سال کا وقت دیا ۔ خود انصاف کریں کہ اس ایک کم ساٹھ سال کے عرصے میں تب سے اب تک تقریباتیس کروڑ انسانوں سے دوسرا ایدھی کیسے نکالتے؟ میں نے آپ کے بارے میں پڑھا تھا  کہ آپ جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے تو آپ چالیس اکتالیس سال  کے لئے اس قوم کو کس کے آسرے پر چھوڑ گئے ہیں؟ جہاں آپ نے تمام زندگی سادگی اور برداشت کے ساتھ گزار دی تھی وہاں آپ کا کیا بگڑ جاتا اگر آپ گزشتہ کئی سالوں کی طرح، مزید چالیس بیالیس برس  ڈائلیسس جیسا تکلیف دہ عمل ہفتے میں تین مرتبہ مزید  برداشت کرلیتے؟  
میری دوسری شکایت آپ سے یہ ہے کہ آپ  منافق تھے۔ جب لوگوں نے آپ پر چندے کی رقم خوردبرد کرنے کے الزام لگائے، جب آپ پر آنے والی لاوارث لاشوں میں سے اعضا چوری ہونے ایسے رکیک الزام لگے تو ان سب پر کسی بھی عام آدمی کی طرح آپ نے یہ فلاحی ادارہ بند کیوں نہیں کیا؟ آپ بد دل کیوں نہیں ہوئے؟  جب ان ہی الزام لگانے والوں کے لاشے آپ کے سرد خانے میں لائے گئے تو آپ نے ان کے لئے دروازے کیوں بند نہیں کئے؟  آپ دراصل منافق تھے ورنہ میں یہ کیسے مان لوں کہ ہم میں سے ایک اور ہمارے درمیان موجود ایک انسان کا ظرف اتنا بلند ہوسکتا ہے؟
ایدھی صاحب! بات یہیں ختم نہیں ہوتی! شکایات ہیں اور شدید ہیں۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں محض اٹھارہ سو ایمبولینسز چلانا کہاں کی انسانیت ہے؟ محض کراچی شہر میں آٹھ ہسپتال بنانا  اور ایک مختصر سا ہی سہی مگر کینسر ہسپتال بنانا اور پھر اس کی مارکیٹنگ بھی نہ کرنا کون سا طریقہ ہے؟  اپنا گھر کے نام سے پندرہ ایسی چھتیں میسر کرنا جہاں بے سہارا، نفسیاتی، ذہنی معذور ،  ناجائز غرض معاشرے کے ناپسندیدہ تمام لوگوں کو باعزت چھت فراہم کرنے کے پیچھے کون سا ایجنڈا تھا؟  کیا وجہ تھی کہ جیلوں میں قید جن لوگوں کو ان کے اپنے چھوڑ چکے تھے انہیں آپ کی لیگل ایڈ کمیٹی  ہر قسم کی مدد فراہم کرتی تھی؟ بلا مبالغہ ہزاروں افراد آپ کے وکیلوں کی وجہ سے باعزت بری ہوگئے! کیوں آپ کے ڈاکٹرز جاکر جیلوں میں ان کے طبی معائنے کرتے تھے؟ تاکہ وہ بیمار زہن معاشرے میں واپس آکر دوبارہ فساد کرسکیں؟  اور جواب میں بچکانہ منطق کہ وہ مجرم ضرور ہے مگر انسان ہے؟ جب ان کے گھر والے ان پر لعنت بھیج چکے تو آپ کو ان کے لئے کیوں درد اٹھتے تھے؟مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے آپ کے کوئی مقاصد تھے ایدھی صاحب!
ایدھی صاحب! باقی سارے جرائم تو پھر بھلائے جا سکتے تھے مگر یہ بچوں کو پڑھا لکھا کر بگاڑنے، ہنر سکھا کر روزگار پر لگانے، وغیرہ جیسے کام کرنے کا جرم میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔  جس ملک کا قومی کھیل ہی سر پھٹول ہو اس قوم کے نوجوانوں کو کام دھندے پر لگا کر آپ اس نرسری کو اجاڑ رہے تھے جہاں اس کھیل کے مایہ ناز کھلاڑی پیدا ہوتے تھے۔ یہ کہاں کی شرافت تھی جناب؟

ایدھی صاحب! جو لوگ  آپ کو محض اخبارات اور ٹیلیویژن سے جانتے تھے وہ سارے آج رو رہے ہیں۔ اس بات پر نہیں کہ آپ چلے گئے۔ اس بات پر کہ اب کوئی ایدھی نہیں رہا۔ مگر میں حقیقت جانتا ہوں سو میں مطمئن ہوں کیونکہ یہ سارے بھی منافق ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان آج یتیم ہوگیا ۔ یتیم تو وہ ہوتا ہے جو باپ کو باپ مانتا ہو! ان میں سے کون ہے جو کھڑا ہو اور اپنے دفتر عمل سے ثابت کرسکے کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔ آپ کا جانشین ہے۔ خدا فیصل اور سعد اور بلقیس ایدھی  کو سلامت رکھے کہ ان سے کچھ امیدیں ہیں باقی لوگوں کی باتوں کا آپ نے زندگی میں برا نہیں منایا تو اب بھی نہیں مانئے گا۔ دو تین دن کا جوش ہے اس کے بعد جب سڑک سے گزریں اور کسی زخمی کو پڑا دیکھیں گے تو حسب معمول ویسے ہی گاڑی کو سائیڈ سے کرکے نکل جائیں گے جیسے آپ کی زندگی میں گزر جاتے تھے۔ وعدہ رہا!

بلاگ فالوورز

آمدورفت