پیر، 26 ستمبر، 2022

دیو

 کسی بھی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ پھر وہ مقام سے بڑھانا ہو یا اس کی اصل جگہ سے گھٹا دینا ،دونوں صورتوں میں   ظلم کی اصل تعریف میرے نزدیک یہی ہے۔ مظلوم کی تعریف البتہ  ہنوز بحث طلب  ہے کہ ایک کا ظالم ہی اکثر دوسرے کا مظلوم نکلتا ہے اور یہاں بحث چھ اور نو والی مثال سے آگے بڑھ جاتی ہے کہ لازمی نہیں ہر بار فرق محض نقطہ نظر کا ہو اور ایک کا چھ ہی دراصل دوسرے کا نو ہو۔ کبھی  کبھار وہ واقعی چھ یا نو میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے اور دو میں سے ایک فریق  غلط نکتہ نگاہ سے دیکھ کر زبردستی اسے الٹ ثابت کرنے کی کوشش میں جٹا رہتا ہے۔ اس کہانی میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ یہ فیصلہ ہم اپنے پڑھنے والوں کے ذہن رسا پر چھوڑ رکھتے ہیں۔

 بے حس انسانوں کے معاشرے میں احساس نامی بیماری کا پیدائشی روگ پال رکھنے کے علاوہ وہ ایک معمولی بچہ تھا۔ مگر احساس نامی اس بیماری کی وجہ سے معاشرے نے اسے اس کے بچپن  سے ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔  اپنے ہم عمر بچوں کے بیچ  اس کا گزارہ یوں ناممکن تھا کہ ان کی بچکانہ حرکات سے اسے وحشت ہوتی تھی  اور اپنے  سے بڑی عمر کے لوگ یہ کہہ کر اسے پاس بٹھانے  سے انکار کر دیتے کہ ابھی اس کی عمر  ان کے درمیان بیٹھنے  کی نہیں تھی۔ داڑھی مونچھ ابھی اگی نہیں تھی کہ اسے رنگ کر بزرگی کا چولا پہنا جا سکتا سو مجبوری میں  بچوں کے بیچ میں بچہ بن کر رہنے کی کوشش  کرنے کے علاوہ غریب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ لیجئے صاحب! ابھی ہم آپ کو نصیحت کرتے تھے کہ مظلوم ہونا  بالعموم نقطہ نگاہ کا کھیل ہے  اور ابھی ہم نے اس کے کردار کے ساتھ غریب کا لفظ جوڑ کر آپ کے تحت الشعور میں اس کی مظلومیت کا بیج بو بیٹھے ہیں۔ خیر! چونکہ ہم اس کردار کے خالق ہیں لہٰذا ہر خالق کی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہونا چاہئے  اپنے  کرداروں کے بارے میں جیسے چاہے لوگوں کی رائے قائم کرائیں اور بحیثیت مخلوق ہر تخلیق پر یہ لازم ہے کہ وہ راضی خوشی یا رو پیت کر مگر بہر حال اس کردار کو نبھاتی چلی جائے۔ اور اگر آپ اس بات پر غصہ ہیں کہ محض ایک کردار کی تخلیق کے لئے اتنے لمبے فلسفے کیوں بگھارے جا رہے ہیں تو یہ بھی ہم نے ایک خالق سے ہی سیکھا ہے کہ جس نے ایک کردار کو ناٹک میں دیکھنے کے لئے ارب ہا دیگر مخلوقات تراش دیں اور آج تک کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اختیارات کے اس بے جا استعمال پر انگلی اٹھا سکے۔ ہم ایک تیسرے درجے کے معمولی تخلیق کار ہیں تو ہمارا گلا پکڑا جاتا ہے؟حد ہے مظلومیت کی! مگر مظلومیت تو پھر نکتہ نگاہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

تو اپنے ہم سن بچوں کے بیچ جب یہ کمسن بوڑھا پہنچا تو ایک عجیب ماجرہ ہوا۔ اپنے حالات سے مطابقت  اختیار کرنے میں انسان سے بہتر آج تک کوئی مخلوق روئے زمین پر نہیں اتری ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں سینکڑوں فٹ کے ڈائناسورز نہ بچے وہاں یہ پانچ سے چھ فٹ کی عمومی جسامت والا جانور آج بھی دھرتی کو روندتا پھرتا ہے۔ تو  اس کے ہم عمر بچوں نے اس کے ساتھ مطابقت یہ اختیار کی کہ جیسے ہی یہ ان کے درمیان پہنچتا، وہ سارے اپنے وجود کا پورا زور لگا کر اپنی قامت کو چھوٹا کرلیتے اور یہ ان کے بیچ، ان ہی کی قامت کا ہوتے ہوئے  بھی دیو جیسا معلوم ہونے لگتا۔   اور منفرد چیزوں کا اشتیاق عین انسانی فطرت ہونے کے ناطے، کمرے میں موجود اختیاری بونوں کا موضوع سخن وہ خود ساختہ دیو بن جاتا جو اس سب معمول سے خائف تو بہت تھا مگر اوپر بیان کردہ مجبوری کے تحت ان ہی کے درمیان رہنے پر مجبور بھی تھا۔  اپنی جبلت سے مجبور ہوکر وہ رفیقوں کی تلاش میں ان بچوں کے بیچ آ بھی نکلتا تو بھی  اس کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح کوئی کونا ڈھونڈ کر وہاں چھپ رہے کہ اس کی دیگر مخلوقات سے تعلق کی ہوس بھی پوری ہوسکے اور اس کی قامت میں ہونے والے پریشان کن اضافے کے اسباب بھی نہ بہم ہوں۔ مگر انسانوں اور بالخصوص اختیاری بونوں کے بیچ میں ایک دیو کیونکر چھپ سکتا ہے؟  اس کے آنے کے تھوڑی ہی دیر میں ایک نعرہ بلند ہوتا اور سب  بونے مل کر اس کے گرد جمع ہوجاتے اور معمول کی کاروائی کا آغاز ہوجاتا کہ جس کے اختتام پر ہر بار کی طرح اس کی انا کے غبارے میں بے فیض ہوا بھر کر اس کا قد دو ہاتھ مزید اونچا کر دیا جاتا۔

دیو اب اس روزانہ کی مشقت سے تنگ آچکا تھا مگر تعلق کی ہوس اس قدر شدید تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس اذیت سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا۔  کافی غور و خوض کے بعد اس دیو نے اپنے تئیں ایک عقلمندانہ فیصلہ کیا اور ان بونوں میں سے چند قابل برداشت بونوں کا انتخاب کیا اور انہیں اپنی مٹھی میں بھر کر وہاں سے اٹھا لایا کہ اب وہ کسی پرسکون جگہ پر ان کے ساتھ رہ  کر اپنے قد کو واپس انسانی سطح پر لانا اور  ساتھ ان بونوں کی دوبارہ نمود کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ ایک ایسا دن بھی دیکھ سکے کہ جب وہ گھٹ کر اور یہ بونے نمو پاکر ایک دوسرے کے برابر ہوسکیں اوروہ زندگی میں پہلی مرتبہ برابری کی بنیاد پر تعلق قائم کر سکے۔ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس دیو نے ان بونوں کو اپنی مٹھی میں بند کیا اور لے کر نئے ٹھکانے کی تلاش میں  چل پڑا۔ احساس نامی بیماری کے تحت (کہ جس کا ذکر آپ داستان کے آغاز میں سن چکے ہیں)، اس  دیو نے  اس بات کا خاص خیال رکھا  کہ  وہ بونے اس انتقال کے دوران زمانے کے سرد و گرم سے  سے محفوظ رہیں۔ زمانے کی ہوا نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس کی مضبوط مٹھی میں نقب لگا سکے مگر اس دیو نے زمانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا اور کامل جذبے، خلوص اور عزم مصمم کے ساتھ نئی منزل کی کھوج میں لگا رہا۔ 

سوکھی زمین کو بھی اگر خلوص کا پانی مل جائے تو اس پر موجود پودے اپنی بساط کے حساب سے پھول، پھل یا کانٹے، غرض جو بھی کچھ انہیں میسر  ہو ، اپنے ساقی کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔  زمانے  نے بھی اس کے خلوص کے آگے ہار مان لی اور اپنے دامن میں موجود سب سے پرسکون جگہ کا  رمز  اس پر وا کر دیا۔ منزل پر پہنچ کر اس دیو نے اطمینان کی سانس لی اور بصد احتیاط مٹھی کھول کر ان بونوں کو اپنی بنائی ہوئی اس جنت میں اتار دیا۔ اس کے سامنے اس وقت ایک حسین وادی، ایک پہاڑ، اس پہاڑ سے بہتا ایک آبشار،  اس آبشار کے دامن  میں موجود ایک جھیل، اور اس جھیل کے کنارے چند بونوں کی لاشیں پڑی تھیں کہ جو خدا جانے کب اس کی مٹھی میں سانس نہ پانے کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔

روپانزل

 دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جگہ پر ایک ذہنی اعتبار سے بانجھ جوڑا رہا کرتا تھا۔ ذہنی اعتبار سے بانجھ ہونے کے باعث ان کی زندگی بہت پرسکون تھی اور وہ دونوں میاں بیوی دنیا و مافیہا کی تکالیف سے ماورا ہوکر محض اپنی زندگی جیتے اور فرصت کے ایام میں اپنے ہی جیسے بچے پیدا کیا کرتے تھے۔ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہیں تھی کہ اگر روزگار نہ بھی لگتا تو وہ اپنے گھر کے ساتھ واقع باغ (کہ جس کی چڑیل عرصہ پہلے ایک سبزی کے نام سے منسوب روپانزل کی بےوفائی سے دلبرداشتہ ہوکر علاقہ چھوڑ گئی تھی) سے جب جی چاہے بے دھڑک چیزیں توڑ کر کھاتے اور خوش رہتے تھے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ان کی اس ہی خوشی کی خرمستیوں میں پیدا ہونے والا ان کا چوتھا یا پانچواں بچہ تھا۔ ترتیب کا اس لئے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ پورا گھرانا اتنا معمولی تھا کہ کسی نے ان کی ترتیب نزولی کو دفتر کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا تھا۔

بچپن میں وہ اپنے باقی گھر والوں ہی کی طرح معمولی ہی تھا مگر پھر اس کی اس غیرمعمولی طور پر معمولی زندگی اور اس کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔ بات محض سوچنے کی بیماری تک محدود رہتی تو شاید معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا مگر وہ تو اب سوچنے کے ساتھ ساتھ سوال کرنے جیسی غلیظ عادت کا بھی شکار ہوگیا تھا۔ گھر والوں نے اس بیماری کی متعدی طبیعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فی الفور اس سے سماجی فاصلہ برقرار رکھنا شروع کردیا اور جس قدر بن پڑا اس کے علاج کے لئے کوششیں شروع کردیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی کارپوریٹ مینجرز کو دکھایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اچھی سے اچھی نو سے پانچ بھی اسے سوال کرنے اور سوچنے کی علت سے دور نہیں کرپارہی تھی۔ اور نو سے پانچ پر ہی کیا موقوف، ہفتے کی چھٹی، سالانہ بونس،  اور بیرون ملک تعیناتی کے امکانات جیسے مجرب نسخہ جات جو کبھی اور کہیں ناکام نہیں ہوتے وہ بھی اس کی مرتبہ میں بےاثر ثابت ہوچکے تھے۔ سماج کے مروجہ اصول کے مطابق نصیحت کے نام پر ہر شخص اس سے مل کر اپنی اپنی مجروح انا کی مقدور بھر تسکین حاصل کرچکا تھا مگر وہ سدھرنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" تو بالکل بےجا نہ ہوگا کہ اب اس نے باقاعدہ طور پر منطق پڑھنا اور کہانیوں اور غزلیات کے نام پر فلسفہ بکنا بھی شروع کردیا تھا۔

مسلسل بیماری میں ساتھ دینے کا سفر درپیش ہو تو انسان کے مخلص ترین رشتے بھی ہانپ جاتے ہیں جبکہ یہاں تو محض دنیا دار رشتے تھے۔ اور یہ مسلسل بیماری اگر متعدی ہونے کا ڈر بھی لاحق ہو تو محض خدا ہی ایسے انسان کو مہمان بناسکتا ہے، انسانوں سے ایسے خدائی ظرف کی امید رکھنا کم عقلی کی معراج ہے۔ سو وقت کے ساتھ وہ اپنی بیماری کے ساتھ  ساتھ تنہائی کا بھی شکار ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے بشری فطرت کے تقاضوں کے زیر اثر خود کو اس امید پر اپنی ہی ذات کے بے در منارے میں قید کرلیا کہ کوئی ایک، محض ایک انسان ایسا ہوگا جو اس کی فکر میں منار کی دیواروں کو توڑ کر دروازہ بنائے گا اور اسے اس خودساختہ قید اور تنہائی سے نجات دلا دے گا۔

اچھی امیدوں کا سب سے بڑا مسئلہ تب بھی یہی تھا کہ یہ ناہنجار اس وقت تک پوری نہیں ہوتیں کہ جب تک آپ ان کا دامن نہ چھوڑ دیں۔ گھڑی اور کیلنڈر کے حساب سے تو چند دن ہی گزرے ہوں گے مگر تنہائی کا ایک دن کیلنڈر کے تین سو پینسٹھ سال کے برابر ہوتا ہے اور اس اعتبار سے اس پر ہزارہا سال کا عرصہ بیت چلا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس پورے عرصے میں کوئی اس منار کے قریب نہ پھٹکا ہو۔ انجان اور پراسرار چیزیں عمومی لوگوں اور انسانوں کو یکساں طور پر متوجہ کرتی ہیں۔ کئی لوگ اس منفرد منارے کو دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے مگر منارے کے اردگرد گھوم کر جائزہ لینے اور کوئی داخلی دروازہ نہ پاکر بنانے والے انجینئر پر چار حروف بھیجنے کے بعد آگے بڑھ جاتے۔ ہر بار وہ انسانی آہٹ کو محسوس کرتا اور منار کی بلندی پر موجود اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچے جھانکتا اور آنے والے کی حرکات کا بغور معائنہ کرتا کہ وہ اس تک پہنچنے کے لئے کس حد تک جتن کرنے کے لئے تیار ہے اور بالآخر آنے والے کی مایوسی سے خود اپنے لئے بھی مایوسی کشید کرکے واپس اپنے بستر پر جا لیٹتا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ اس نے طے کر لیا کہ اب وہ محض تب خود کو زحمت دے گا کہ جب کوئی انسان واقعی منار میں در بنانے کے لئے کوئی عملی کوشش کرتا محسوس ہو۔ مگر مینار کو توڑنے کی کوشش کرنا تو دور، لوگوں نے وقت کے ساتھ اس منارے کے پاس بھٹکنا بھی چھوڑ دیا کہ جس میں اب وہ اور اس کی فراغت سے بھرپور تنہائی بسا کرتے تھے۔

ان ہزارہا برسوں میں فراغت کی طوالت سے تنگ آکر وہ اپنے خیالات کی زلفیں سنوارا کرتا تھا کہ مسلسل توجہ کے طفیل ان کی طوالت اب دسیوں گز ہوچکی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب کوئی مسیحا اس تک پہنچے تو وہ ان میں الجھ کر گر پڑے اور اس پکار پر لبیک نہ کہہ پائے۔ اور اس ہی مشغلے میں چند ہزار برس اس پر مزید بیت گئے یہاں تک کہ ایک دن اس نے منار کے نزدیک دوبارہ کسی انسان کی موجودگی کو محسوس کیا۔ اس سے پہلے کے نووارد منارے میں کوئی در نہ پاکر مایوس ہوکر لوٹ جاتا، اس نے ہمت کرکے کھڑکی میں سے آواز لگائی اپنی طویل زلفوں کو نیچے لٹکا دیا کہ اگر دیوار میں در بنانا مشکل ہے تو میری زلفوں کا سہارا لے کر ہی مجھ تک پہنچ جاؤ؟ نووارد نے اس کے بالوں کو کھینچ کر ان کی مضبوطی کا جائزہ لیا اور پھر  کچھ سوچ کر واپس لوٹ گیا۔

اس بار کی مایوسی اس کے لئے پہلے سے گراں تر تھی۔ اس سے پہلے کم از کم دل کو تسلی دینے کے لئے یہ خیال موجود تھا کہ اس نے خود کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر رکھا تھا۔ وہ اس تک پہنچنے کا نہ طریقہ جانتے تھے، نہ اس بات کی اہمیت۔ اب کی بار مگر اس نے نہ صرف خود صدا لگا کر لوگوں کو متوجہ کیا تھا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے خیالات کی زلفوں سے ان کو سہارا بھی دیا تھا کہ وہ اس تک پہنچ جائیں۔ شاید اس ہی لئے اس بار کی مایوسی میں خفت کے رنگ بہت نمایاں تھے۔

وہ بستر میں دراز خود کو اپنی اس حماقت کے لئے کوس ہی رہا تھا کہ اسے منار کے باہر بہت سے لوگوں کے بات کرنے کی بھنبھناہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے دوڑ کر کھڑکی میں سے جھانکا تو وہ پلٹ جانے والا انسان اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو ساتھ لئے کھڑا تھا۔ اسے کھڑکی میں آتا دیکھ کر ہجوم نے بیک زبان اس سے زلفیں کھڑکی سے باہر لٹکانے کی درخواست کردی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ لوگوں کو بتادے کہ اتنے سارے انسانوں کی اس تک پہنچ پانے کی خواہش رکھنا اب اسے اس منارے میں مقید رہنے کی ضرورت سے آزاد کرچکا ہے اور اب زلفیں لٹکانے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ وہ خود اب منار سے باہر آکر ان کے بیچ رہ سکتا ہے مگر ہجوم متواتر پکار کر اس سے زلفیں دراز کرنے کی درخواست کر رہا تھا۔ اس نے لوگوں کی خوشی کا خیال کرتے ہوئے زلفیں کھڑکی میں سے باہر لٹکا دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مجمع ان زلفوں پر ٹوٹ پڑا۔ اسے لگا کہ شاید وہ اپنی روایتی حماقت سے مغلوب ہوکر اسے بھی کوئی مقدس چیز سمجھ کر چومنا چاہتے ہیں مگر جیسے ہی مجمع تھوڑا تھما اور پیچھے ہٹا تو اس نے دیکھا کہ ان سب کے ہاتھوں میں قینچیاں موجود تھیں جن کی مدد سے ان میں سے ہر ایک نے مقدور بھر اس کی زلف کا حصہ کاٹ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجمع سے کچھ کہہ پاتا، ہجوم اس کا شکریہ ادا کرکے واپس پلٹ چکا تھا۔

اور اس دن کے بعد سے یہ روز کا معمول بن گیا۔ ہجوم روز منار کے گرد جمع ہوکر اس سے زلفیں لٹکانے کی درخواست کرتا اور وہ اس امید پر دن بھر کی محنت سے بڑھائی ہوئی اپنی خیالات کی زلفیں دراز کرتا کہ شاید ان سینکڑوں عمومیوں کے اندر کوئی ایک انسان موجود ہو جو قینچی ساتھ نہ لایا ہو اور واقعی منار کی بلندی سر کر کے اس تک پہنچنا چاہتا ہو مگر اچھی امیدوں کے بارے میں بیان آپ تین پیراگراف قبل پڑھ ہی چکے ہیں۔

وقت کے ساتھ اگر کچھ بدلا تھا تو بس یہ کہ جس ویرانے میں اس کی ذات کا یہ منار موجود تھا، وہاں اب ایک مکمل بازار سج چکا تھا کہ جہاں اس ہی کے بالوں سے بنی ہوئی وگ فروخت کی جاتی تھیں۔ تین چار بل بورڈ تھے کہ جن پر مشہور شیمپو کے اشتہارات چسپاں تھے۔ بالوں کی آرائش کی مصنوعات کے لئے ایک الگ قطار میں سات دکانیں موجود تھیں۔ اور دوسرے شہروں سے آنے والے فکری گنج پن کے شکار لوگوں کے لئے گیارہ عدد سرائے قایم تھیں جو اکثر اوقات گنجائش سے زائد مسافروں کو سنبھال رہی ہوتی تھیں۔

وہ اب اس روزانہ کی مشقت سے مایوس ہوچلا تھا۔ باہر اڑنے والی افواہوں کو سن کر اسے لگنا لگا تھا کہ لوگ اس کے خیالات کی زلفوں سے اپنے گھروں کو تو آراستہ کرسکتے ہیں مگر اپنے گھر میں اسے بلانا تو درکنار، خود اس کے گھر میں اس کے مہمان بننے کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔

اس بات کا صدمہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے سر کے بال جھڑنے لگے۔ وہ پورے دو دن تک کمرے میں بند اپنے بکھرے ہوئے بال سمیٹتا رہا اور کھڑکی میں بھی نہ جا سکا۔ دوسرے دن شام کو البتہ منار کے باہر سے احتجاج کی آوازیں اس حد تک بلند ہوگئیں کہ اسے صورتحال سمجھنے کے لئے کھڑکی میں آنا ہی پڑا۔ اسے یقین تھا کہ قسمت اتنے عرصے بعد بھی اتنی مہربان نہیں ہوسکتی کہ اس کی غیر موجودگی کا احساس لوگوں کو احتجاج کرنے پر مجبور کردے۔ وہ لوگوں کی بات دھیان سے سن کر اپنی رائے بنانا چاہتا تھا۔ اور جب کھڑکی میں آکر اس نے دیکھا تو باہر ہزارہا انسان سیاہ رنگ کے ماتمی بینر لئے کھڑے تھے جن پر مختلف انداز میں ایک ہی بات درج تھی کہ وہ کس درجہ کا کمینہ، نیچ، اور خودغرض انسان ہے کہ باہر ہزاروں لوگ اپنی ضرورت کے انتظار میں کھڑے ہیں جبکہ وہ کمرے میں بیٹھا اپنے بال سنوارتا رہتا ہے۔

اتنی صدیوں میں وہ اذیت کے ان گنت روپ دیکھ چکا تھا مگر کرب کی جو لہر اس وقت اس کے سراپے میں دوڑ رہی تھی وہ اس تکلیف سے یکسر ناآشنا تھا۔ اس نے اپنے بچے کھچے بال سمیٹ کر گردن کے گرد سے گزارتے ہوئے کھڑکی سے باہر لٹکائے اور کھڑکی بند کردی۔

ہجوم نے زلفیں نیچے آتی ہوئی دیکھیں تو ایک نعرہ مسرت بلند کیا اور دیوانہ وار ان کی طرف لپک پڑے۔ کچھ گرتے ہوئے ، اور کچھ گردن میں لپٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے آج زلفیں زمین تک نہیں پہنچ پائی تھیں مگر مجمع ناشکرے لوگوں کا نہیں تھا کہ جو اس بات کی شکایت کرتا۔ ان میں سے چند راہنما آگے بڑھے اور اچھل کر زلفوں سے لٹک گئے تاکہ اپنے وزن سے انہیں نیچے لاسکیں اور ایک عام مقتدی بھی ان سے فیضیاب ہوسکے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ان افراد کے وزن سے وہ بوسیدہ عمارت بھوسے کی طرح اپنی ہی بنیادوں پر ڈھیر ہوچکی تھی۔ مگر کہنے والوں کا کیا؟ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے جب اس عمارت کا جنازہ اٹھا تو شہر بھر کے ہزارہا گنجے اس میں شریک تھے۔ اور اس کا ثبوت وہ تصاویر کے جو اس ملبے کے ڈھیر کے ساتھ وہ اپنے سوشل میڈیا پر لگائے بیٹھے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

بدھ، 5 جنوری، 2022

گدھ - ششم

 ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کسی جنگل میں نئے سال کا جشن بپا تھا اور اس ہی سلسلے میں تمام چرند اور پرند مرکزی اجتماع گاہ میں موجود تھے۔  شیر اور بکری کو محاورے کی زبان میں ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے دعوت سے پہلے ہی شیروں اور عقابوں کے میڈیا مینجرز نے  ان کے کچھاروں اور گھونسلوں میں ہی میمنے اور خرگوشوں کی پیٹ بھر رسد فراہم کر دی تھی تاکہ شیر اور بکری کے سال میں ایک بار ساتھ پانی پینے کی تصاویر اگلے چناؤ میں  استعمال کرکے بکریوں اور خرگوشوں کو اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ جنگل کی حکمرانی کے اصل حقدار رحمدل ، پرخلوص اور رعایا پرور عقاب اور شیر ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور اس سکون کی نیند سو سکتے ہیں کہ پڑوسی جنگل سے آنے والے تمام درندوں سے حفاظت کے لئے ان کے یہ محافظ جاگ رہے ہیں۔

نئے سال کے اس جشن میں بھی حسب مراتب کا خاص خیال رکھا گیا تھا اور شیر اور عقاب اجتماع گاہ کے عین مرکز میں نشست جما کر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ دو موراپنے پنکھ پھیلائے چرندوں اور پرندوں کے ان بادشاہوں کو ہوا جھلنے میں مصروف تھے۔ بادشاہوں کے گرد، مرکزی پنڈال میں صرف درندوں کے لئے جگہ مخصوص تھی جبکہ  ان دردندوں  کے بعد گوشت خور جاندار، سینگ دار اور جسامت دار جاندار، اور ان سب کے بعد آخر میں سبزی خور بیچاروں کے لیے جگہ رکھی گئی تھی ۔

آج کا جشن گزشتہ تمام برسوں کے جشن سے تھوڑا مختلف تھا کہ اس برس عین جشن کے بیچ بھی جنگل کے بہت سے جانور، چچا  الو،  اور ان کے پٹھوں کے بہکاوے میں آکر جانورورں کے حقوق اور درندوں کے ہاتھوں ان کے ہونے والے استحصال جیسی نفرت انگیز باتوں میں مشغول تھے۔  جشن کے لوازمات تمام موجود تھے  مگر اب تک جشن کا ماحول تیار نہیں ہوسکا تھا۔ فضا میں ہر طرف چہ مگوئیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اور ان ہی چہ مگوئیوں کے درمیان فضا میں اچانک ہی ایک  مکروہ خاموشی پھیل گئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مردار خور گدھ اور فضلہ خور سور خراماں خراماں چلتے چلے آرہے ہیں۔ وہ دونوں جہاں سے گزرتے ، چرند پرند کچھ گھبرا کر اور کچھ گھن کھا کر ان  سے بچنے کے لئے ادھر ادھر ہوجاتے اور یوں ان کے چلے آنے کے لئے راستہ آپ ہی آپ بنتا چلا جا رہا تھا۔  سبزی خور بیچاروں کو عبور کرکے جب یہ دونوں جسامت دار اور سینگ دار جانداروں کے درمیان پہنچے تو یہاں سے چہ مگوئیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا اور جب تک یہ دونوں درندوں کے درمیاں پہنچے تو چہ مگوئیوں کا شور اس درخت کے تنے کی تھاپ سے فزوں تر ہوچکا تھا جسے بندر جڑی بوٹیوں کے نشے میں مسلسل پیٹے چلے جا رہے تھے۔ادھر جانور ان دونوں سے نمٹنے کے طریقے پر باہمی مباحثے میں مصروف تھے اور ادھر  گدھ اور سور تمام جانوروں کی گھن اور نفرت سے بے نیاز  ہو کر بندر کی بجائی گئی تھاپ پر رقص کناں تھے۔

لومڑ کی رائے میں جشن اور چناؤ سے قطع نظرگدھ اور سور کو عین پنڈال میں ہی عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے مگر گدھ سے منسوب وحشت کے کارن کوئی اس پر حملہ کرنے کو تیار نہیں تھا اور چیتے اور اس کے قبیل کے دیگر  درندے اپنے نئے ملبوسات کو بچانے کے لئے فضلے میں لت پت اس سور پر حملہ کرنے سے گریزاں تھے۔  نووارد بھی ان درندوں کی گفتگو سن چکے تھے لہٰذا اپنے رقص کو موقوف کر کے وہ بھی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ جشن کو یوں تھمتا دیکھ کر عقاب نے اپنا گلا کھکارا اور گدھ کو مخاطب کرکے گویا ہوا،مجھے شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ تمہارا جیسا رذیل پرندہ خدا نے ہم پرندوں کے بیچ میں پیدا کیا۔ تمہارا وجود کراہت کا ایک استعارہ ہے۔ اس ہی وجہ سے تمہیں تمام پرندوں سے دور رکھا جاتا ہے اور اگر تمہیں اپنے ان پروں کی ذرا بھی لاج ہے تو پرندوں کی برادری کی مزید رسوائی کئے بغیر فی الفور یہاں سے رخصت ہوجاؤ۔ ہم بھول جائیں گے کہ تم سے ایسی کوئی گستاخی ہوئی بھی تھی۔ آج جشن کا دن ہے ۔ اس خوشی میں ہم تمام لوگ تمہاری اس غلطی کو معاف کردیں گے۔ کیوں ساتھیو؟ کردو گے نا معاف؟ عقاب کی اس جذباتی تقریر پر تمام پرندوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ بے شک! بے شک! ہمارے دل آسمانوں کی طرح وسیع ہیں۔ ہم معاف کر دیں گے۔

عقاب کو اس طرح محفل لوٹتا دیکھ کر شیر کو بھی جوش آگیا۔ وہ بولا،  ہم چرند بھی کسی طرح پرندوں سے کم نہیں ہیں۔ ہماری سوچ بھی صندل کے درختوں کی طرح ہے ۔ خوشبودار اور بلند! اگر جنگلی سور اپنا بدبودار وجود لے کر فی الفور چلا جائے تو ہم بھی کسی قسم کی کوئی تاذیبی کاروائی نہیں کریں گے اور بالکل بھول جائیں گے کہ کس طرح ہمارے پاکیزہ جشن کو اس نے اپنے ناپاک وجود سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں ساتھیو؟ کردو گے نا معاف؟ پرندوں کی دیکھا دیکھی چرند بھی  بادشاہ کی آواز میں آواز ملا کر بولے، بے شک! بے شک!  ہماری سوچ صندل کی طرح بلند ہے ۔ ہم معاف کر دیں گے۔

گدھ اور سور نے اپنے اردگرد کے ماحول پر ایک متاسفانہ نگاہ کی اور پھر نظریں جھکا کر جس راہ  سے آئے تھے وہیں واپس پلٹ گئے۔  ان کو پلٹتا دیکھ کر تمام جانداروں نے شیر اور عقاب کے لئے ایک نعرہ تحسین بلند کیا اور اس وقت تک تالیاں پیٹتے رہے کہ جب تک گدھ اور سور مجمعے میں سے نکل کر نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے۔ شیر اور عقاب نے ایک دوسرے  کی طرف مسکرا کر دیکھا اور ایک دوسرے کو جام تجویز کرنے لگے ۔ وہ دونوں  جانتے تھے کہ ان کے میڈیا مینجرز اپنی ذمہ داریاں بہت خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے اور ان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں تھا۔

شیر اور عقاب کے پیچھے موجود بزرگ مور اپنے جوان بیٹے کو سمجھا رہا تھا کہ زندگی کبھی مضبوط چونچ اور طاقتور پروں کے ساتھ  توانا پنجے عنایت کردے تو گدھ بن کر نیم مردہ جانوروں کی مشکلات آسان کرنے  جیسی احمقانہ سوچ رکھنے سے بہتر ہے کہ عقاب بن کر کسی جانور کے ہنسے کھیلتے نورِ نظر کو بھنبھوڑ دینا۔ شاعر تمہیں غیرت کا استعارہ ٹھہرائیں گے اور خود کو تمام مخلوقات میں افضل ترین سمجھنے والا انسان تک تمہاری مثال اپنے بچوں کو دے گا۔ سور بن کر جنگل کا گند کھانے سے پہلے یہ سوچ رکھنا کہ دنیا کی تمام مخلوقات گند صاف کرنے والے کو ہی گندگی کا استعارہ بنا بیٹھتی ہیں۔ جنگل میں گندگی سے زیادہ اسے صاف کرنے والے سے گھن کھائی جاتی ہے۔ ٹھیک سے پنکھ چلا! ان بادشاہوں کا سایہ ہمارے سر رہا تو  بس سانپوں کا ڈر ہے، باقی ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔ سمجھا؟

بلاگ فالوورز

آمدورفت