عجب الجھن سی ہے دل میں
رگ و پے میں اذیت ہے
بہت بے چین ہوں کل سے
اداسی ہے ۔۔۔ مسلسل ہے!!!
مگر بے جا نہیں کچھ بھی ۔۔۔
سنا ہے اہلِ ایماں نے
جلا ڈالی ہے اک بستی
جہاں کچھ عورتیں، بچے ۔۔۔۔
مگر وہ قادیانی تھے،
قصور ان کا رہا ہوگا!!!
یا پھر وہ قتل و غارت کا
عجب اک سلسلہ جو ہے
ہمارے شہرِ قائد میں ۔۔۔
مگر یہ عام باتیں ہیں،
حکومت معاوضہ دے گی
سو اس پر کیا گلہ کرنا؟
تو پھر شاید یہ نوحہ ہے
غزہ کی بے نوائی کا
برستے آگ و آہن کا
سسکتے ننھے بچوں کا
مگر ان کا تو ٹھیکہ مذہبی تنظیم رکھتی ہیں
میں ان کا کیوں برا مانوں؟
کہ میں تو ایک لبرل ہوں!!!
یہ سب بکواس باتیں ہیں
دراصل ماجرہ یوں ہے
بہت ناشاد ہوں کل سے
بہت بے چین ہوں کل سے ۔۔
کہ میرے عید کا جوڑا
ابھی تک سل نہیں پایا
اداسی ہے ۔۔۔ مسلسل ہے ۔۔
چلو شاپنگ پہ چلتے ہیں!!!!
سید عاطف علی
29 جولائی
منگل، 29 جولائی، 2014
اتوار، 27 جولائی، 2014
فیصلہ
لو آج یہ دامن چاک کیا ۔۔۔
لو آج یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
لو آج یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
لو آج قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کیوں لکھوں میں اس بستی میں؟
جس بستی کے اندھے بہرے
گز بھر کی زبانیں رکھتے ہیں
جو سچ سننے سے عاری ہیں
جو اندھیاروں کے عادی ہیں
(جو سورج سے گھبراتے ہیں)
اپنوں کی جان کے دشمن ہیں
غیروں کیلئے چلاتے ہیں ۔۔۔
کیوں لکھوں ان کی خاطر میں؟
میں کیوں لکھوں ان کی خاطر؟
میں کیا لکھوں ان کی خاطر؟
کیا عشق ہے کیا مجبوری ہے؟
کیا وصل ہے کیا مہجوری ہے؟
یہ موضوع میرے ہو نہ سکے!!!
اس اندھی بہری بستی میں
میں روز کھڑا چلاتا تھا ۔۔
بازارِ سیاست کیا ہے یہ؟
بدحال ریاست کیا ہے یہ؟
کیوں لاشوں کے انبار یہاں؟
کیوں فاقوں کے انبار یہاں؟
کیوں چادر کھینچی جاتی ہے؟
کیوں عصمت بیچی جاتی ہے؟
یہ سارے موضوع میرے تھے ۔۔۔
پر ان کا سامع کوئی نہیں!!!
اب کیا لکھوں؟ اور کیوں لکھوں؟
اے میرے پیارے سب اندھوں!
اے چیخنے والے سب بہروں!!
نہ حزن کرو، نہ فکر کرو!!
تکلیف کے دن اب ختم ہوئے!!!
الفاظ مرے، اشعار مرے
اقوال مرے، ہذیان مرے
تم اندھے بہرے لوگوں میں
بیچارے زندہ رہ نہ سکے
اور تنگ آکر کل شب میں نے ۔۔۔
ایک آخری نوحہ لکھ ڈالا ۔۔۔
جس کے آخر میں شاعر نے ۔۔۔
اپنا یہ دامن چاک کیا ۔۔۔
آخر یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
کل رات یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
کل رات قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کل رات سے جینا چھوڑ دیا!!!!
سید عاطف علی
لو آج یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
لو آج یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
لو آج قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کیوں لکھوں میں اس بستی میں؟
جس بستی کے اندھے بہرے
گز بھر کی زبانیں رکھتے ہیں
جو سچ سننے سے عاری ہیں
جو اندھیاروں کے عادی ہیں
(جو سورج سے گھبراتے ہیں)
اپنوں کی جان کے دشمن ہیں
غیروں کیلئے چلاتے ہیں ۔۔۔
کیوں لکھوں ان کی خاطر میں؟
میں کیوں لکھوں ان کی خاطر؟
میں کیا لکھوں ان کی خاطر؟
کیا عشق ہے کیا مجبوری ہے؟
کیا وصل ہے کیا مہجوری ہے؟
یہ موضوع میرے ہو نہ سکے!!!
اس اندھی بہری بستی میں
میں روز کھڑا چلاتا تھا ۔۔
بازارِ سیاست کیا ہے یہ؟
بدحال ریاست کیا ہے یہ؟
کیوں لاشوں کے انبار یہاں؟
کیوں فاقوں کے انبار یہاں؟
کیوں چادر کھینچی جاتی ہے؟
کیوں عصمت بیچی جاتی ہے؟
یہ سارے موضوع میرے تھے ۔۔۔
پر ان کا سامع کوئی نہیں!!!
اب کیا لکھوں؟ اور کیوں لکھوں؟
اے میرے پیارے سب اندھوں!
اے چیخنے والے سب بہروں!!
نہ حزن کرو، نہ فکر کرو!!
تکلیف کے دن اب ختم ہوئے!!!
الفاظ مرے، اشعار مرے
اقوال مرے، ہذیان مرے
تم اندھے بہرے لوگوں میں
بیچارے زندہ رہ نہ سکے
اور تنگ آکر کل شب میں نے ۔۔۔
ایک آخری نوحہ لکھ ڈالا ۔۔۔
جس کے آخر میں شاعر نے ۔۔۔
اپنا یہ دامن چاک کیا ۔۔۔
آخر یہ قصہ پاک کیا ۔۔۔
کل رات یہ رشتہ توڑ دیا ۔۔۔
کل رات قلم یہ توڑ دیا ۔۔۔۔
کل رات سے جینا چھوڑ دیا!!!!
سید عاطف علی
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں
(
Atom
)