جمعرات، 29 اکتوبر، 2015

پاگل

دعا مانگنے سے پہلے سوچ لینا چاہیئے کہ اگر واقعی قبول ہوگئی تو کیا ہوگا۔ انسانی نفسیات کے طالبعلم کی حیثیت سے نجانے کس منحوس گھڑی میں میں نے یہ دعا کر دی تھی کہ مجھے خواہ چند گھنٹوں کیلئے ہی سہی مگر کسی پاگل خانے کے مریضوں کو قریب سے جاننے کا موقع مل سکے۔ دراصل مجھے یہ لگتا تھا کہ  اصل پاگل، پاگل خانوں کے باہر بستے ہیں اور جو لوگ ان پاگلوں کی طرح سوچنے، سمجھنے، اور بولنے سے انکار کردیتے اور دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے کی جسارت کرتے ہیں انہیں ہم پاگل قرار دے کر کسی پاگل خانے میں بھجوا دیتے ہیں تاکہ یہ بیماری بنی نوع انسان کے اس پرسکون معاشرے میں پھیل کر کوئی ہیجان نہ برپا کردے۔

میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری دعا اتنی جلدی اور اس طرح قبول ہوجائے گی۔ میری  خالہ کی بڑی بیٹی جنہیں ہم آپا  کہتے ہیں، پچھلے ہفتے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ آپا آسٹریلیا میں ہوتی ہیں اور نفسیات کی ایک مشہور ڈاکٹر ہیں۔ کراچی  میں  دماغی امراض کے حوالے سے کوئی کانفرنس تھی جس میں شرکت کے لیئے آپا کراچی آئی تھیں۔ دو دن تک آپا اس کانفرنس میں مصروف رہیں اور ہم ان کے ڈرائیور کی ڈیوٹی نبھاتے رہے۔  اور پھر بچپن کی الف لیلوی کہانیوں کی طرح جب آپا نے جانے سے پہلے ہم سے پوچھا کہ "مانگ کیا مانگتا ہے؟" تو ہم نے  پاگل خانے کے دورے کی فرمائش جھٹ سے ان کے سامنے رکھ دی۔ انتظام کروانا آپا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایک فون کال کی دیر تھی اور ہمیں اجازت کا پروانہ مل گیا۔ آنے والے اتوار کو ہمیں دو گھنٹے کے لیئے پاگل خانے میں وقت گزارنے اور پاگلوں سے بات چیت کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔

اتوار والے دن ہم وقت مقررہ سے پانچ منٹ پہلے ہی پاگل خانے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں اپنے کمرے میں بٹھا کر چائے پلائی اور محتاط رہتے ہوئے پاگلوں سے ملاقات کی اجازت دے دی کہ بعض پاگل دورہ پڑنے کی صورت میں خطرناک بھی ثابت ہوسکتے تھے۔

پہلا ایک گھنٹہ میری توقعات کے برخلاف بہت بیزار کن تھا۔ تمام پاگلوں کی ایک جیسی کہانیاں تھیں ۔ وہی محبت میں دھوکہ، کاروبار میں خسارا،  ازدواجی زندگی کی الجھنوں سے بڑھا ہوا دماغی دباؤ اور اس کے نتیجے میں پاگل خانے تک کا سفر وغیرہ۔ زیادہ تر پاگل اپنی کہانی سنانے کو تیار ہی نہیں تھے۔ یا شاید اس حالت میں ہی نہیں تھے کہ اپنا ماجرہ خود بیان کر سکیں۔ پاگل خانے کا عملہ مجھے ان کی کہانیاں سنا رہا تھا۔ اگر کوئی بات کرنے پر راضی ہو بھی جاتا تو وہی ایک جملے کی  گردان کہ "میں پاگل نہیں ہوں"۔  میں یہاں آنے کے فیصلے پر مایوس ہو ہی چکا تھا کہ میری ملاقات اس لڑکے سے ہوئی۔ وہ میرا ہی ہم عمر رہا ہوگا۔ میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کمرے کی میز پر چڑھ کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ آہٹ سن کر اس نے گھٹنوں سے منہ اوپر اٹھایا اور مجھے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کے قریب جا کر اسے مخاطب کرنے کے لیئے سلام کیا۔ توقعات کے برخلاف وہ اتنا پاگل نہیں تھا اور سلام کا جواب دینا جانتا تھا۔ اس کے منہ سے سلام کا جواب سن کر مجھے کچھ ڈھارس بندھی کہ غریب اتنا پاگل نہیں ہے اور شاید مجھے اس سے بات کرکے کچھ مقصد حاصل ہوجائے۔ میں نے گفتگو کو بڑھانے کے لیئے اس سے اس کا نام پوچھا جو اس نے خوش دلی سے بتا دیا۔ میں نے اسے اس کا نام لے کر مخاطب کیا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے۔آنے والے جواب کے لیئے میں ذہنی طور پر تیار تھا۔ اس نے کہا، میں پاگل نہیں ہوں۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تم پاگل نہیں ہو دوست! میں اس ہی لیئے تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ تم یہاں کیسے پہنچے؟ ہوسکتا ہے تمہاری کہانی سن کر میں تمہاری مدد کر سکوں۔

اس نے امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا، بھائی میں پاگل نہیں ہوں۔ پاگل یہ سب ہیں جو میری بات نہیں سمجھتے۔ نہ ابو، نہ بھائی، نہ دوست، نہ ڈاکٹر اور نہ پولیس والے۔ پولیس کا نام سن کر میری دلچسپی بڑھ گئی ۔ میں نے اس سے سے پوچھا کہ پولیس والوں کا اس کی بات سے کیا تعلق؟ اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا گویا میری کم علمی پر افسوس کر رہا ہو۔ پھر میری طرف جھک کر رازداری سے بولا، بھائی میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے! میں نے کہا، کیسی زیادتی؟ اس نے جھینپتے ہوئے نظریں جھکا لیں اور بولا، آپ اخبار میں نہیں پڑھتے کہ فلاں لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوگئی؟ میرے منہ سے بے ساختہ اوہ نکلی! وہ بیچارہ کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر یہاں پہنچا تھا۔ میں نے سوچ لیا کہ میں ضرور اس کی مدد کروں گا۔ میں نے اس سے تفصیلات جاننے کیلئے سوالات کا آغاز کر دیا۔ تو تمہاری ساتھ یہ زیادتی جس نے کی تم نے اس کو پکڑوایا کیوں نہیں؟ اس نے غصے میں آتے ہوئے کہا، میں ان پولیس والے کتوں کے پاس گیا تھا ان درندوں کو پکڑوانے مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی! جب میں نے بہت زیادہ چکر کاٹنے شروع کردیئے تو انہوں نے میرے گھر والوں  کو کہہ کر مجھے یہاں ڈلوا دیا۔ میں نے کہا، پولیس کا تمہارے ساتھ تعاون نہ کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر یہ تمہارے گھر والے کیوں تمہیں اس طرح یہاں چھوڑ جائیں گے؟ کیا جس نے زیادتی کی وہ بہت طاقتور لوگ ہیں؟ اس کی آنکھوں میں اب غصے کے ساتھ بے بسی بھی نظر آرہی تھی، اس نے کہا نہیں! تینوں کزنز ہیں! تمہارے اپنے کزنز؟ انہوں نے تمہارے ساتھ یہ کیا؟ سفاکی کی حد ہے! مجھے پورا واقعہ بتاؤ کہ کیا ہوا تھا۔  کیا تم گھر میں اکیلے تھے؟ ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے ہی بھائی کو نہ چھوڑا؟  اس نے کہا میں اس دن گھر میں اکیلا تھا۔ یہ بات آج سے سات سال پہلے کی ہے۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ کے قریب ہوگی۔ تو میں گھر میں اکیلا تھا جب میری  دونوں خالاؤں جو میری پھپھو بھی ہیں کی  تینوں بیٹیاں ہمارے گھر آئیں۔ وہ تینوں عمر میں مجھ سے بڑی اور غیر شادی شدہ تھیں۔ مجھے اکیلا پا کر انہوں نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔  مگر وہ کزنز کب آئے؟ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔ مجھے اس کی  خالہ و پھوپھی کی بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے کہا جی وہی تو بتا رہا ہوں کہ اس کے بعد ان تینوں نے مجھے باندھ دیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ کہہ کر وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔

میں نے اسے تسلی دے کر چپ کرایا اور پھر پوچھا کہ جب وہ بندھا ہوا تھا تب اس کے کزنز آگئے ہوں گے جنہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا؟ اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور بولا،  نہیں اس کے بعد تو گھر والے آئے تھے جنہوں نے مجھے کھول دیا تھا۔ تو زیادتی کب ہوئی؟   میں نے بے ساختہ پوچھا۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا ابھی تو بتایا کہ میری کزنز نے میری عزت لوٹ لی تھی۔ میں اب زچ ہونے لگا تھا، میں نے کہا مگر تم نے تو ایسا کچھ نہیں بتایا! تم نے تو بتایا کہ تمہاری کزنز نے تمہارا فائدہ اٹھایا مگر زیادتی والی بات تم گول کر گئے! ابھی کہتے ہو کہ کزنز نے عزت لوٹی اور پھر کہتے ہو وہ تو آئے ہی نہیں! اس نے میز پر سے اٹھ کر میرا گریبان پکڑا اور مجھے جھنجھوڑتے ہوئے چلانا شروع ہوگیا، میری عزت عورت نے لوٹی ہے! مجھ سے زیادتی   عورت نے کی ہے! میں جانتا ہوں تم مردوں کی دنیا میں یہ خبر ہوتی ہے سانحہ نہیں!  مگر جب ایک عورت کی عزت مرد  لوٹ سکتاہے تو مرد کی عزت عورت کیوں نہیں؟  سالے مرد کی عصمت ہوتی ہی نہیں کیا؟  جب تک بدفعلی کرنے والا مرد نہ ہو یہ بدفعلی ہی نہیں؟  تم ، ڈاکٹر ، پولیس، امی، خالہ، پھوپھا، ابو، سب کےسب پاگل ہو اور کوئی بھی عقلمند آدمی دکھ جائے تو اسے پاگل خانے میں ڈال دیتے ہو۔ وہ یہ کہتا جاتا تھا اور مجھے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتا جاتا تھاپاگل خانے کے عملے کی مدد سے میں نے بدقت تمام اپنا گریبان چھڑایا اور وہاں سے اٹھ آیا۔ پاگل سالا۔


صحیح کہتے ہیں، دعا مانگنے سے پہلے واقعی سوچ لینا چاہئے کہ اگر قبول ہوگئی تو کیا ہوگا۔  اور ہاں! پاگل، پاگل خانے کے باہر نہیں ، اندر ہی بستے ہیں!  

بدھ، 28 اکتوبر، 2015

ماں کی آنکھ ۔۔۔۔

بڑے شہروں کا یہ ہے کہ ان کے قبرستان بھی بڑے ہوتے ہیں۔  شہر سے کہیں زیادہ وسیع القلب! تدفین کے لیئے آنے والے کی ذات یا قومیت یا مذہب و مسلک سے بے نیاز۔  مٹی واقعی ماں ہوتی ہے۔ اس کے اوپر کتنے  ہی کانڈ کرکے جب آخر کار اس کے پاس پہنچو تو  بھی شکایت نہیں کرتی۔ منہ نہیں بسورتی۔ باتیں نہیں سناتی۔ بس خاموشی سے اپنے چوڑے سینے میں جگہ دے دیتی ہے۔  میں جب شہر میں کہیں قرار نہیں پاتا تو کنکریٹ اور تارکول کی اس بستی سے فرار حاصل کرنے کے لیئے قبرستان پہنچ جاتا ہوں۔ جتنی خاموشی لائبریری اور قبرستان میں ہوتی ہے شاید دنیا میں کہیں اور ممکن نہیں ۔ شاید اس ہی لیئے انسان ان دونوں جگہوں پر اکیلے جانے سے ہچکچاتا ہے۔  قبرستان کی خاموشی میں البتہ ایک سکون بھی ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔ سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں الجھنا اور اس پر بے وجہ رائے دینا تو زندوں کا کام ہے، مردے ایسی کسی بھی علت سے بے نیاز ہیں۔

بحیثیت لیکھک  میں اپنے تئیں ایک حساس آدمی ہوں ۔ روز ہی معاشرے سے کوئی روگ چن لیتا ہوں اور اس کو پھوڑا بنا کر اپنے تن پر سجا لیتا ہوں۔ پھوڑا اگر پیپ دینے لگے تو  قرطاس پر اس کی قے کر دیتا ہوں ورنہ خود ہی اس پھوڑے کی اذیت سے لذت کشید کرتا رہتا ہوں۔ شاید ہر فنکار کی طرح میں بھی ایک اذیت پسند انسان ہوں۔ اذیت نہ بھی ہو تو بھی اذیت لینے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتا ہوں۔ اور آج تو مجھے بہانہ ڈھونڈنا بھی نہیں پڑا تھا۔ دوپہر سے ہی طبیعت شدید مکدر تھی۔  ملک کے بعض علاقوں میں شدید نوعیت کا زلزلہ آیا تھا اور  اس قدرتی آفت سے جڑے انسانی المیوں کا سوچ کر میری روح بلک رہی تھی۔  کافی دیر تک تو جسم کے پنجرے میں قید اس روح کی زنجیر زنی اور سوز خوانی سے محظوظ ہوتا رہا مگر جب وحشت حد سے بڑھنے لگی تو میں نے قبرستان کا راستہ لینے میں ہی عافیت جانی۔

میں جب قبرستان پہنچا تو مغرب ہوچکی تھی اور  رات کے اندھیرے نے بجھتے سورج کو مکمل طور پر نگل لیا تھا۔ قبرستان کے دروازے سے چند سوگواران اپنے کسی پیارے کو مٹی کی آغوش میں سونپ کر باہر آرہے تھے۔ میں نے اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں ان کے چہروں کی طرف دیکھا۔ قبرستان سے باہر آنے والے چہرے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ بظاہر مضمحل مگر درپردہ خورسند۔ گویا موت کے گھر سے زندہ نکل آنے کا جشن منا رہے ہوں۔ قبرستان کے دروازے پر تواتر کے ساتھ کہا جانے والا یہ جملہ کہ" بس جی! موت کے آگے کس کی چلتی ہے؟" دراصل اعلان ہوتا ہے  کہ آؤ مجھے دیکھو! میں وہ کہ جس کا موت بھی اب تک کچھ نہیں بگاڑ پائی! میں! زندہ! خواہ اس زندگی سے کتنا ہی عاجز، مگر زندہ! موت کی پہنچ سے دور! موت ایسی طاقتور کی پہنچ سے دور! مانتے ہو؟ میں ان گزرتے چہروں کو پڑھتا ہوا قبرستان کے اندر داخل ہوگیا۔

میں چلتا ہوا سیدھا گورکن کی جھگی پر پہنچ گیا۔ جھگی کے باہر گورکن کا بارہ تیرہ سالہ بیٹا ایک قریبی سنگ مر مر سے بنی قبر پر لیٹا ہوا تھا جس کے ساتھ ہی ایک بجلی کا بلب بھی آویزاں تھا۔ قبر کے اندر روشنی ہو یا نہ ہو، قبر کے اوپر چراغ ضرور جلنا چاہیئے ۔ خیر مجھے دیکھتے ہی وہ لپک کر پاس چلا آیا اور پوچھا کہ آیا میں قبر خریدنے کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں؟ میرے انکار پر اس نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور یہ کہہ کر دوبارہ اس قبر پر جا لیٹا کہ صاحب! پرسوں آنا، اماں ابھی چھٹی پر ہے!

میں ابھی اس مردود کو سنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ گورکن آگیا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی بانچھیں کھل گئیں! اس کا بیٹا بھلے مجھے نہ پہچانتا ہو مگر گورکن جانتا تھا کہ  میں سابقہ کئی راتوں کی طرح رات یہیں قبرستان میں گزاروں گا اور جاتے وقت اگلے ایک دو دن کے لیئے اس کے واسطے ولایتی سگریٹ کا انتظام کرتا جاؤں گا۔  میں نے اس کو دیکھ کر خاموشی سے سگریٹ کا  پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس  نے اپنی مکروہ بتیسی دکھاتے ہوئے وہ پیکٹ میرے ہاتھ سے اڑس لیا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کردیا۔

کافی اندر چلنے کے بعد اس نے آج رات کے لیئے مجھے میرا کمرا دکھا دیا۔ وہ ایک بالکل تازہ آباد شدہ قبر کے برابر والی خالی قبر تھی۔ میں نے  سر کی جنبش سے گورکن کو جانے کا اشارہ کیا اور خود اس قبر میں اتر گیا۔ میں نے قبر میں اتر کر اس کی سطح ہموار کی  اور چبھنے والے چھوٹے کنکر  باہر پھینک کر قبر میں دراز ہوگیا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں کسی آباد قبر کے برابر میں لیٹا ہوا تھا۔ کسی مشہور آدمی کی کہی ہوئی یہ بات اکثر میرے دماغ میں گھومتی تھی کہ " خدا کی رحمت کے بارے میں جانتے ہوئے بھی اس سے انجان رہنا ایسا ہی ہے جیسا یہ جاننا کہ مردہ بے بس ہے اور ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر اس کے باوجود آپ رات کی تاریکی،  ایک لاش کے ساتھ لیٹ کر تنہائی میں گزارنے کی ہمت نہیں کریں گے کیونکہ آپ جانتے تو ہیں  کہ مردہ کچھ نہیں کرے گا مگر آپ اس بات پر مکمل ایمان نہیں رکھتے۔ جس دن آپ کا یقین مکمل ہوجائے کہ مردہ کچھ نہیں کرے گا اس دن آپ مردے کے ساتھ ویسے ہی رات گزار سکیں گے جیسے ایک گورکن یا مردہ خانے کا رکھوالا۔  بالکل ایسے ہی جس دن آپ خدا کی رحمت پر یقین کرلیں گے اس دن کے بعد  زندگی گزارنا آسان ہوجائے گا"۔ جب پہلی بار میں کسی قبر میں لیٹا تھا تو یہ بات  میرے کان میں رات بھر گونجی تھی اور صبح ہونے تک میں خدا کی رحمت پر تو مکمل یقین نہیں کر پایا مگر اس بات پر میرا ایمان کامل  ہوگیا  تھا کہ مردے واقعی کچھ نہیں کرسکتے۔

میں قبر میں دراز ہوکر لیٹا ہوا تھا اور دھرتی ماں کی ٹھنڈک بھری ممتا کو محسوس کر رہا تھا۔ پھر میں نے لاڈ میں آکر اس کا منہ سہلانا شروع کر دیا۔  اس کے ذرات پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے میں اس سے بات کرنا شروع ہوگیا۔  میں نے ماں کو بتایا کہ کیسے آج سوشل میڈیا پر لوگ بحث کر رہے تھے کہ آیا یہ زلزلے انسانی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں  یا پھر یہ سائنسی وجوہات کی بنا پر ہونے والا کوئی واقعہ ہے؟  ماں نے توجہ سے میری بات سنی اور ہر اچھی ماں کی طرح خود تحقیق کرکے جواب دینے کے بجائے کہہ دیا کہ "جب تم بڑے ہوجائو گے تو خود جان جاؤ گے"۔ میں نے منہ بسورا مگر پھر ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماں سے کیسے ناراض رہا جا سکتا ہے؟ میں نے پچھلے سوال کی کلفت بھلا کرماں کو بتایا کہ کس طرح سوشل میڈیا پر لوگ بتا رہے تھے کہ یہ زلزلے کسی چھ ماہ کے بچے کوجھولا جھلانے کے لیئے آتے ہیں؟ عجیب بچہ ہے جس کے جھولے کے چکر میں ہر مرتبہ ہزاروں انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھانی پڑتی ہے۔ پھر وہ گائے کے سینگوں والی بات؟  اور پھر دوبارہ وہ اعمال والی بات ؟ میں نے ماں سے پوچھ ہی لیا کہ اگر یہ سب ایسا ہی ہے تو تھائی لینڈ میں زلزلے کیوں نہیں آتے؟ وہاں زیادہ مسلمان بستے ہیں یا وہاں جو ہوتا ہے وہ گناہ نہیں ہوتا؟  ماں نے ایک بار پھر مجھ پر شفقت کی نظر کی مگر اس بار کچھ بولی نہیں۔ میں اس یکطرفہ گفتگو سے اکتا سا گیا تھا سو میں نے بوریت سے تنگ آکر سگریٹ نکال لی۔

میں نے جیسے ہی سگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر جلایا، کون ہے ، کون ہے کی آواز لگاتا ہوا کوئی منحوس میرے اوپر گر پڑا۔  میں نے جلدی سے جیب سے موبائل نکال کر ٹارچ روشن کی تو میرے پائنتی ایک حواس باختہ بوڑھا موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔ککک،،کون ہو تم؟ ییییہاں قبر میں ککک،،کیا کررہے ہو؟  میں نے حلق بھر کر سگریٹ کا کش لیا اور دھواں اس بوڑھے کی سمت اچھالتے ہوئے اس سے کہا، بڑے میاں! قبر میں چھلانگ تم نے لگائی ہے! تم بتاؤ تم کون ہو؟ بوڑھا اب اپنے حواسوں پر کچھ قابو پاچکا تھا۔ اس نے تشویشناک نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئےکہا، دیکھو میاں! مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ قبرستان تمہارا علاقہ ہے۔  میں یہاں روز نہیں  آتا ہوں۔ آج صرف دوسری کاروائی ہے۔ تم کہتے ہو تو میں کوئی دوسرا قبرستان ڈھونڈ لوں گا۔ تین سو کا بکتا ہے کفن اور اگر مجھے اس میں سے بھی حصہ دینا پڑا تو میں گھر کیا لے کر جاؤں گا؟ایک بیٹا معذور ہوگیا ہے اور  اس کی اولاد کا دال پانی بھی میری ذمہ داری بن چکی ہے۔ گھر میں سات کھانے والے ہیں۔ ڈیڑھ سو میں کہاں گزارا ہوگا؟ اور جہاں تک قبر میں چھلانگ لگانے کی بات ہے تواس تاریک رات میں مجھے اپنے پیچھےسے روشنی آتی ہوئی محسوس ہوئی تو گربڑا کر گر پڑا۔ اگلی بار خیال کروں گا۔ شروع شروع ہے،  تھوڑا وقت تو لگے گا قبرستان کا عادی ہونے میں۔


بوڑھے کے مجھے کفن چور سمجھنے کی وجہ سے میرا مزاج مکدر ہوگیا تھا۔ میں نے اسے اسی وقت قبر سے نکل جانے کو کہہ دیا۔ اس نے جب یہ سنا کہ مجھے حصہ بھی نہیں چاہیئے اور وہ چاہے تو کفن نکال کر خود بیچ کھا سکتا ہے تو وہ خوش ہوکر مجھے دعائیں دیتا ہوا بدقتِ تمام قبر سے نکل گیا اور برابر والی قبر سے کفن نکالنے  کے اسباب کرنے لگا۔  میں نے دھرتی ماں سے کہا، ماں  دیکھ انسانیت کتنی گر چکی ہے۔ جو قوم مردوں کے کفن تک نہ چھوڑتی ہو اس پر زلزلے نہ آئیں تو کیا جنت سے خلعت آئے؟  جو ہورہا ہے صحیح ہو رہا ہے۔  پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا کہ ثوبان تو کہتا ہے زلزلے فالٹ لائن کے پاس رہنے والے علاقوں میں آتے ہیں، خواہ ان کے اعمال کیسے بھی ہوں۔ دھرتی ماں جو میری باتیں خاموشی سے سن رہی تھی میری یہ سوچ پڑھ کر بولی،  بیٹا! فالٹ لائن والی بات کا ایک پہلو یہ بھی تو دیکھ کہ اس فالٹ لائن کے پاس کون امیر اقوام بستی ہیں؟ کوئی امیر ملک اس فالٹ لائن کے گرد  موجود تو ہوسکتا ہے مگر وہ یا تو زلزلے سے محفوظ عمارات بنا لے گا یا پھر اس فالٹ لائن کے گرد غرباء کی بستی بسا دے گا۔ تو نے کبھی یہ سنا کہ کوئی ارب پتی آدمی زلزلے میں ہلاک ہوگیا ہو؟ یہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں مرنے والی وہی کیوں ہوتے ہیں جو اگر جی جائیں تو ہر گھڑی موت کی آرزو لیئے گھومتے رہیں؟ میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہی ہے کہ مجھے ان زلزلے میں مرنے والے غرباء کی موت کا جشن منانا چاہیئے؟  اس سے پہلے کہ ماں میری بات کا جواب دیتی، اوپر سے بوڑھے کی آواز آئی، بیٹا  یہ سل بہت بھاری ہے۔ اگر برا نہ مناؤ تو ہاتھ لگا دو گے؟ میں نے غرا کر بوڑھے کو کہا، بڑے میاں! جو کام تمہارے اکیلے کے بس کا ہے نہیں، وہ کرنے کیوں نکلے ہو۔ انسان سکون کرنے کے لیئے قبر میں آتا ہے ، اگر یہاں بھی وہی ساری چخ چخ کرنی ہے تو یہاں آنے کا فائدہ؟ بوڑھے نے جواب دیا،  بیٹا! بوڑھے کی مدد کر دے گا تو تیرا کیا جائے گا؟ ویسے  بھی مسلمان بھائی کی مدد کرنا تو ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔ میں نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا کہ ماں سے اس خصیص بوڑھے کی شکایت کروں تو میں نے دیکھا کہ ماں وہاں موجود نہیں تھی۔ میں نے حیرت سے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ کہیں موجود نہیں تھی۔ میں اسے ڈھونڈنے کیلئے دیوانہ وار قبر سے باہر نکل آیا۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا کہ وہ بوڑھا ہانپتے ہوئے قبر کی سل کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میں نے دل ہی دل میں اس پر لعنت بھیجی اور ماں کی تلاش میں ایک قدم آگے بڑھا ہی ہوں گا کہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ دھرتی ماں پوری شدت سے اس کفن چور کی مدد کرنے میں مصروف تھی۔ بوڑھا بھی میری طرح زمین پر گر چکا تھا۔ زلزلہ تھمنے کے بعد بھی  میں زمین پر  ہی پڑا رہا۔  وہ بوڑھا البتہ سہارا لے کر کھڑا ہوگیا اور اب ناچ رہا تھا۔ میں نے پشت کو اوپر اٹھا کر دیکھا، زلزلے سے قبر کی سل ہٹ چکی تھی۔

جمعہ، 16 اکتوبر، 2015

کتیا

امی یہ ماں کا خصم کیا ہوتا ہے؟
ہنہہ؟ کیا بکواس کر رہے ہو؟ کہاں سے سن کر آئے ہو یہ؟
امی! وین والے انکل پولیس والے انکل کو بول رہے تھے  کہ بڑی گاڑی جو غلط پارک ہوئی ہے اس کا چالان نہیں کرتے وہ تمہاری ماں کا خصم ہے؟
اچھا میرا دماغ نہیں کھاؤ! اور آئندہ تمہارے منہ سے یہ لفظ نہ سنوں میں!
کیوں امی؟ کیا یہ گالی ہوتی ہے؟
ہاں بیٹا یہ گالی ہوتی ہے! اور آپ تو اچھے بچے ہیں ناں؟ اچھے بچے گالیاں نہیں دیتے!
امی ایک بات بتائیں؟
اب کیا ہے؟
کچھ نہیں!
اچھا پوچھو تو سہی ۔۔۔
امی ہر گالی ماں یا بہن پر کیوں ہوتی ہے؟
ارے یہ تو سادہ سی بات ہے! دیکھو ہم نے گھر میں ایک کتیا پالی ہوئی ہے۔ اب اگر کوئی بھی ایرا غیرا آکر اس کتیا کو تنگ کرے، یا تمہیں کہے کہ وہ تمہاری کتیا کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے تو تمہیں برا لگے گا ناں؟
جی امی!
ایسا کیوں؟
کیوں کہ وہ میری کتیا ہے! اور کیوں کہ وہ خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتی لہٰذا وہ مجھ سے امید رکھتی ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں گا۔!
ہاں اور وہ کتیا بھی اپنی ذمہ داری تمہارے اوپر ڈال کر مطمئن ہے ۔ حالانکہ وہ خود جواب میں بھی بھونک بھی سکتی ہے اور کاٹ بھی سکتی ہے مگر چونکہ اس نے تمہیں اپنا مالک تصور کرلیا ہے لہٰذا اب وہ تم سے امید رکھتی ہے کہ تم اس کیلئے یہ سب کام کرو گے۔ تمہارے دشمن بھی یہ بات جانتے ہیں اس لیئے وہ جان بوجھ کر تمہیں اس کتیا کے حوالے سے چھیڑتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ انسان اپنی ذات کیلئے تو لاپرواہ ہوسکتا ہے مگر اپنی ملکیت میں موجود چیز کی برائی سننا اس کے لیئے آسان نہیں ہوتا۔
امی وہ تو ٹھیک ہے مگر اس بات کا میرے سوال سے کیا تعلق؟
پتہ نہیں! افوہ میں بھی پتہ نہیں کن باتوں میں لگ گئی! ہانڈی چڑھا کر آئی تھی اسے جا کر دیکھوں کہیں لگ نہ گئی ہو!
امی میرا سوال؟
تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ فالتو سوال نہ کیا کرو؟ جاؤ جا کر نہائو دھو اور کپڑے بدلو۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

تقسیم

بابا ! کچھ تو بتائیں؟  کب تک ایسے گھٹتے رہیں گے؟ میں دیکھتا ہوں آپ جب بھی تنہا ہوتے ہیں اس ہی طرح آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ آج آپ کو اس دکھ کی روداد سنانی ہی پڑے گی!
کیا سناؤں بیٹا؟  کیسے سناؤں؟ یہ زخم ایسا ہے کہ میں چاہ کر بھی کسی کو نہیں دکھا سکتا!
میں آج آپ کی باتوں میں نہیں آنے والا! آج آپ کو سب کچھ کھل کر بتانا ہی پڑے گا!
کیوں مجھ ناتواں کو وہ بات بیان کرنے پر مجبور کرتے ہو جسے بیان کرنے کی میں تاب نہیں رکھتا؟
بابا! اگر آپ میری جگہ پر ہوتے؟ اگر آپ کے بابا اس طرح گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے ہوتے تو کیا آپ جانے دیتے؟
نام نہ لو میرے باپ کا! تم جاننا چاہتے ہو ناں کہ میں کیوں ایسے گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتا ہوں؟ کیوں میں کمرے کے کواڑ بند کرکے اندر روتا ہوں؟ تو سنو! ان سب کے پیچھے کوئی اور نہیں میرا باپ ہی ہے!
دادا ابا؟ مگر کیسے؟
میرے بیٹے! میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا! تمہارا دادا مرا نہیں ہے! مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یا گزر گئے! تمہاری پیدائش سے بھی پہلے میں ان سے بچھڑ گیا تھا۔
بچھڑ گئے تھے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ جانتے ہیں؟ دادا ابا کہاں ہیں؟ آپ نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟  یا خدا! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا!
میرے بیٹے! یہ بہت سال پہلے کی بات ہے۔ تمہاری پیدائش سے بھی چند سال پہلے! ملک میں بٹوارے کی لہر ان دنوں زوروں پر تھی۔  میں مسلم لیگ کا سرگرم کارکن تھا۔ میرے دن رات عظیم قائد کا پیغام عام کرنے میں بسر ہوتے تھے جبکہ تمہارے دادا کو مسلم لیگ کے نام سے ہی چڑ تھی۔ گھر میں روزانہ کے فسادات ہوا کرتے تھے۔ صورتحال پھر بھی اتنی خراب نہیں تھی کہ ان جھگڑوں کے باوجود ہم باپ بیٹے ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ پھر مگر وہ سیاہ دن آگیا۔ سرکار نے  انتخابات کا اعلان کروادیا۔ جیسا تم نے تاریخ کی کتب میں پڑھا ہے،   یہ انتخابات مسلم لیگ کی بقا کیلئے بہت اہم تھے۔ ہم اس زمانے میں لاہور میں رہا کرتے تھے۔ میں دیوانہ وار انتخابات کی مہم چلانے میں مگن تھا   کہ انتخابات سے ایک دن پہلے ایک صاحب نے مجھے طعنہ دے دیا کہ خود تو آپ مسلم لیگ کیلئے مہم چلا رہے ہیں جبکہ آپ کے اپنے گھر والے مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں؟ میں اس بندے کو تو کہہ سن کر قائل کر آیا مگر اس رات ہمارے گھر میں شدید مہا بھارت ہوگئی۔ ہم دونوں باپ بیٹے اس سیاست کے پیچھے اس طرح لڑے جیسے ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوں۔ تقسیم کی فضا ویسے ہی تیار تھی اور جذبات ان دنوں عروج پر ہوا کرتے تھے۔ ابا نے مجھے اور میں نے ابا کو کہہ دیا کہ اگر ایک نے دوسرے کی بات نہیں مانی تو دوسرا اس رشتے کو بھول جائے گا۔  
پھر کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا میرے بیٹے! میں وہ منحوس دن کیسے بھول سکتا ہوں؟ اگلے دن انتخابات تھے اور ابا نے میرے اصرار کرنے کے باوجود مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیا اور جب وہ بلے کے نشان پر مہر لگا کر آئے تو میرے اندر کا شیر بھی بیدار ہوگیا۔ گیارہ اکتوبر دو ہزار پندرہ وہ آخری دن تھا بیٹا جب ہم باپ بیٹے نے آخری مرتبہ ایک دوسرے کی شکل دیکھی تھی۔ کہتے ہوئے بابا پھوٹ پھوٹ کر رودیئے!

اس دن سے ڈریں جب آپ کے بچے اس قسم کی کہانیاں پڑھ رہے ہوں۔ 

منگل، 6 اکتوبر، 2015

قصہ الف لیلہ

تو جب نو سو  اٹھاسیویں شب آئی تو شہرزاد نے بدستور کہانی کہنا شروع کی۔

قصہ وقار عسکری و عفریت کا  شکار
تو ہواں یوں کہ کسی ملک میں ایک وقار عسکری نامی خلیفہ رہا کرتا تھا۔ یہ خلیفہ داستان گوکے بیان کردہ خلفاء جیسا نہ تھا بلکہ محاورہ موجود کے مطابق خلیفہ تھا کہ ہر کام میں اپنی خلافت جھاڑنے کا عادی تھا۔ خلقِ خدا اس سے تنگ تو نہ تھی مگر ہوتی بھی تو کس مائی کے لال میں اتنا دم کے اس بات کا اظہار کرسکے؟ ویسے بھی خلیفہ بے پناہ صلاحیتوں کا حامل انسان تھا۔ روایات کے مطابق اسے سحر و کلام پر مکمل دسترس تھی۔ مورخین نے خلیفہ کے گزرنے کے اڑھائی سو سال بعد لکھا کہ جو شخص خلیفہ سے بٖغض رکھتا یا ان کی شان میں کچھ گستاخی کرنے کا سوچتا بھی تو آپ اپنے سحر کے زور پر اسے ایسا غائب کرتے تھے کہ قاضی القضاء کا نوٹس بھی اسے واپس نہیں لاسکتا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تو ایک روز خلیفہ وقار عسکری کی طبیعت بہت اداس تھی اور وہ خودبخود گہرے خیالات میں الجھا ہوا تھا کہ خواجہ سرانے   عمرانہ کے آنے کی اطلاع کی۔خلیفہ نے سر کے اشارے سے اجازت دے دی۔عمرانہ  اندر آئی اور حسبِ معمول سلام کیا لیکن وقار نے صرف گردن اٹھا کر سلام کا جواب دیا اور دوبارہ اپنی سوچ میں بیڑہ غرق ہوگیا۔عمرانہ نے عرض کیا کہ آج نصیبِ نوازخلیفہ کی طبیعت  کیسی ہے؟ خلیفہ نے ایک آہ سرد بھر کر کہا، عمرانہ! بعض اوقات میرے خیالات کی رو ایسے دور دراز قصوں تک چلی جاتی ہے کہ پریشان ہو جاتا ہوں۔یہ تخت، یہ ڈنڈا،  یہ خلافت سب ہیچ لگنے لگتا ہے۔اور میں دل برداشتہ ہوکر سوچنے لگتا ہوں کہ کہیں ایسی جگہ نکل جاؤں جہاں روح کو سکون مل جائے۔ گو کہ مجھے خود بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ سکون کس چیز سے حاصل ہوتا ہے مگر میں نے ملک تھائی لینڈ کے بارے میں بہت سنا ہے کہ وہاں جانے سے بہت سکون ملتا ہے۔ خدا جانے ایسا کیا ماجرہ ہے وہاں؟ تم تو میری فطرت جانتے ہو کہ میں ایسے معاملات میں سدا کا کورا ہوں۔  جائیں گے تو دیکھیں گے!
عمرانہ نے کہا، یہ ہماری فطرت کا تقاضہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انسان بسا اوقات لامعلوم کی تلاش میں ہوا کرتا ہے۔لیکن آج میں فلسفہ کی گفتگو کرنے کے بجائے یہ یاد دہانی کرانے آئی ہوں کہ حضور نے آج لباس پہن کر ملک کراچی کا دورہ کرنے کا قصد کیا تھا کہ وہاں پائی جانے والی عفریت کا خاتمہ کرسکیں۔ حضور کی یاد دہانی کیلئے یہ بھی عرض کرتی چلوں کہ عفریت کے خاتمے کے بعد حضور نے ملک کی گورنری خادمہ کو سونپنے کا بھی پیمان کر رکھا ہے جو اس عفریت کی موجودگی میں شہر پر گورنری کرنے سے قاصر ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر حضور چلے چلیں تو طبیعت مسرور ہوجائے گی کہ شہر ڈیفینس کے کینٹونمنٹ کے  علاقے زمزمہ میں ہمارے اپنے بہت سے تھائی لینڈ موجود ہیں۔ خلیفہ نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو! چنانچہ اس ہی وقت مسرور ہوا اور خواجہ سرا کو طلب کرکے لباس تبدیل کیا اور عفریت کے شکار پر روانہ ہوگیا۔
شہر کراچی میں پہنچ کر خلیفہ کی نظر دور ایک مخلوق پر پڑی  جو خلیفہ کا قافلہ اور جاہ و جشم دیکھ کر بدک کر بھاگ اٹھی۔ خلیفہ کی زیرک نگاہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور اس سے پہلے کہ وہ عفریت خلیفہ کے قافلے سے بچ کر نکل جاتی، خلیفہ نے اپنا طمنچہ نکال کر گولی داغ دی۔ وہ کریہہ الشکل مخلوق ڈکراتی ہوئی دور جھاڑیوں میں ہی ڈھیر ہوگئی۔ خلیفہ نے ایک خواجہ سرا کو بھیجا کہ جاکر دیکھ کر آئے کہ جس مخلوق کا ہم نے ابھی شکار کیا ہے وہ کون سا جانور ہے۔ خواجہ سرا گیا اور دو منٹ بعد دوڑتا ہوا واپس آگیا۔ آکر بولا، خلیفہ حضور! آپ نے جس جانور کا ابھی شکار کیا ہے وہ اپنا نام فہیم بتا رہی ہے۔ مگر چونکہ گولی اس کی ران میں لگی ہے اور غالبا اس کی ٹانگ کی ہڈی اڑا چکی ہے لہٰذا ناچیز کے خیال میں اس مخلوق کا اب پورا نام، فہیم لنگڑا ہے۔

جس وقت شہرزاد نے یہ کہانی ختم کی تو دنیا زاد اور بادشاہ دونوں نے خلیفہ کے انصاف، بہادری اور پھرتی وغیرہ کی بہت داد دی اور قصد کیا کہ شہر میں بننے والی اگلی مسجد خلیفہ کے نام پر بنائی جائے گی۔ شہرزاد نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیااور عرض کیا کہ کل میں ایک اور کہانی سناؤں گی۔بادشاہ نے اس روز اس کے قتل کا حکم نہیں دیا کہ جانتا تھا کہ بہت جلد خلیفہ کے چاہنے والے خود اسے پھڑکا دیں گے۔اور اگر نہ ماریں تو دیکھیں گے کہ اگلی کہانی کیسی سناتی ہے۔

اتوار، 4 اکتوبر، 2015

شہرزاد - مکمل

عرضِ مصنف: میں نے اس شب پہلی بار عورت بن کر معاشرے پر نظر ڈالی۔ میں نے جو کچھ دیکھا اس سے مجھے شدید متلی کے ساتھ قے ہوگئی۔ اس قے میں ساتھ خون بھی آیا اور میرے سامنے پڑے قرطاس پر جابجا نقش ہوگیا۔ اس خون کی پچکاری سے بننے والے نقش کا نام شہرزاد ہے۔ اگر خون یا قے آپ کی نفیس طبیعت پر گراں گزرتی ہے تو یہ داستان آپ کے لیئے نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد تبصرہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھیئے گا کہ مصنف نہ آپ کی تعریف کا بھوکا ہے اور نہ آپ کی تنقید کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس پر کان دھرے۔ بہرصورت کوشش فضول ہے۔  شکریہ

شہرزاد - افسانہ

گھر

پہاڑ وں کے درمیان واقع ایک  چھوٹی سی وادی میں یہ  گائوں آباد تھا۔ گائوں کے  ساتھ ہی ایک ندی بہتی تھی جس کی وجہ سے گائوں کی زمین اب تک اچھی فصل دیتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس گائوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اب تک کھیتی باڑی ہی تھا۔ گائوں والوں کی زندگی میں تین ہی کام تھے، کھیتی باڑی، بچے پیدا کرنا، اور شام گئے گائوں کی چوپال میں بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے ہوئے دنیا  جہان کی خبروں پر تبصرے کرنا۔
پچھلے تین سال سے گاؤں کی چوپال میں دنیا جہان کی خبروں کے علاوہ ایک نیا موضوع بھی میسر ہوگیا تھا۔ یہ نیا موضوع وہ مکان تھا جو گاؤں کے ایک کونے پر، ندی کے کنارے آباد تھا۔ کہنے کو یہ گارے سے بنا ایک حقیر سا ہی مکان تھا مگر اس مکان کو خاص بناتی تھی وہ بڑی سی گاڑی، یا پھر شاید وہ حسین لڑکی جو ہر دو ایک ماہ کے بعد اس بڑی سی گاڑی سے اتر کر اس مکان کے اندر داخل ہوجاتی اور پھر پورا دن گزارنے کے بعد شام گئے واپس اس ہی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوجاتی تھی۔ ایسا نہیں کہ گاؤں والوں نے زندگی میں کبھی بڑی گاڑی یا خوبصورت لڑکی نہ دیکھ رکھی ہو۔ یہ گاؤں دارالحکومت سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور گاؤں کے تقریباً تمام ہی مکین دارالحکومت میں ایسی بڑی گاڑیاں اور فکرِ معاش سے آزاد ایسی ہی خوبصورت خواتین کو پہلے بھی دیکھ چکے تھے۔ گاؤں والوں نے البتہ کبھی اتنی بڑی گاڑی کو ایسی کسی کٹیا کے باہر رکتے نہیں دیکھا تھا اور یہی بات ان کو متجسس کرتی تھی۔   تجسس کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ جب تک آپ کسی چیز کی حقیقت جان نہ لیں تب تک یہ تجسس آپ کو ایک پل چین سے نہیں رہنے دیتا۔  مگر جب اس جان لیوا تجسس کو  جستجو کے باوجود جواب نہ ملے تو یہ بیچارہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ یا شاید حنوط کی اس کیفیت میں چلا جاتا ہے جس سے صرف تب نجات ممکن ہے جب کوئی نیا سراغ ہاتھ آجائے  اور یہ تجسس پھر انگڑائی لیکر جاگ سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ گائوں والوں کو اس کٹیا کی عادت ہوگئی تھی اور اب غیر اعلانیہ طور پر اس کٹیا کو گاؤں کا ہی ایک حصہ مان لیا گیا تھا۔  گاؤں کے وہ لوگ جو پہلے گاڑی کو دیکھ کر رک جاتے تھے اور اس لڑکی کو نظروں ہی نظروں میں گاڑی سے کٹیا تک چھوڑ کر آتے تھے، اب اس گاڑی کو دیکھ یوں آگے بڑھ جاتے تھے جیسے اس کا آنا روز کا معمول ہو۔  یا شاید انہوں نے اب اسے اپنے میں سے ہی ایک تصور کرلیا تھا  کیونکہ نظروں کی پاکیزگی تو صرف اپنی بہن بیٹیوں تک ہی محدود رکھی جاتی ہے۔
شہر زاد نے اپنی گاڑی اس کٹیا کے سامنے لا کر کھڑی کر دی اور سامان سمیٹ کر گاڑی سے نکل آئی۔  یہ  گارے سے بنا ئی ہوئ کٹیا اس کا بچپن کا خواب تھی۔  وہ دارالحکومت میں ہی پیدا ہوئی تھی اور وہی اس کا شہر تھا۔ بچپن میں جب اسکولوں کی تعطیلات ہوجاتیں تو اس کی ساری دوستیں اپنے اپنے شہر اور گاؤں کا رخ کر لیتی تھیں۔ دارالحکومت تعطیلات میں ایک سنسان جنگل کا سماں پیش کرتا تھا۔  تب وہ گھر میں بیٹھ کر حسرت سے سوچا کرتی تھی کہ کاش اس کا بھی کوئی گاؤں ہوتا۔ پھر وہ چشم تصور میں اپنے آپ کو ایک تخیلاتی گاؤں میں دیکھتی ۔ یہ خیالی گاؤں اس کے مزاج کی طرح ہر بار الگ منظر پیش کرتا تھا۔ کبھی یہاں تاحد نظر صرف فصل لہلہا رہی ہوتی اور کبھی اس گاؤں میں بے تحاشہ آبادی ہوجاتی اور یہ فصلیں گاؤں سے باہر منتقل ہوجاتیں۔ ایک چیز البتہ ہمیشہ مستقل رہتی تھی اور وہ تھا گارے سے بنا ہوا ایک مکان، جو مکمل طور پر اس کی ملکیت ہوتا تھا۔ اس مکان میں ایک چارپائی اور ایک مٹکا دھرا ہوتا تھا ۔ چارپائی صرف ایک اس لیئے کہ وہ اس مکان کو کسی کے ساتھ سانجھ نہیں سکتی تھی۔  یہ مکان اس کا، اور صرف اس ہی کا تھا۔ کبھی وہ سوچتی کہ امی بابا کو بھی اپنے اس مکان میں آنے دے گی مگر پھر فورا خود کو یاد دلاتی کہ امی بابا کی تو اپنی ایک الگ جھونپڑی ہوگی۔ یہ مکان تو صرف اس کا اپنا تھا۔ اس میں وہ کسی کو کیسے آنے دے سکتی تھی۔
  وقت کا پہیا اپنی رفتار کے ساتھ بھاگتا گیا اور بچپن کی شہرزاد اب  بچی سے پچیس سال کی  دوشیزہ بن چکی تھی۔ ایک خوشحال زندگی اور زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد بھی شہرزاد اپنی بچپن کی اس خواہش کو بھول نہیں پائی تھی۔  وسائل کی تنگی تو خیر کبھی بھی نہیں تھی مگر ہر بار وہ اس خواہش کو پایائے تکمیل تک پہنچانے  کا ارادہ کرتی اور ہر بار کسی نہ کسی چیز کو عذر بنا کر رک  جاتی۔ شاید اسے ڈر تھا کہ اگر یہ مکان  تکمیل کے بعد اسے وہ مسرت نہیں دے سکا جس مسرت کو  وہ بچپن سے اس مکان سے منسوب کرتی آئی تھی تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔  چونکہ وہ اس نقصان کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی لہٰذا ہر بار کسی چھوٹی سی چیز کو عذر بنا کر اس مکان کی تعمیر کا منصوبہ ترک کردیتی تھی۔
شاید یہ سلسلہ اس ہی طرح چلتا رہتا  اگر ڈیڑھ سال پہلے شہرزاد کا گزر اتفاقیہ طور پر اس گاؤں سے نہ ہوا ہوتا۔ اس کی بچپن کی سہیلی  دانیہ اپنی این جی او کے کسی کام کے سلسلے میں اس گاؤں آنا چاہتی تھی  اور شہر زاد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اسے زبردستی اپنے ساتھ کھینچ لائی تھی۔ اس دن گاڑی سے اترتے ہی شہر زاد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ اپنے خوابوں کی جھونپڑی آباد کرنا چاہتی تھی۔ دن بھر دانیہ اسے اپنے ساتھ لیکر گھومتی رہی اور شہرزاد بظاہر دانیہ کے ساتھ لوگوں کے مسائل سننے ، اور دراصل اپنے جھونپڑے کی منصوبہ بندی میں مصروف رہی۔ شام گئے جب وہ دونوں سہیلیاں اس گاؤں سے رخصت ہوئیں تو شہر زاد اپنے منصوبے کو حتمی شکل دے چکی تھی۔  زمین کے خریدنے میں تھوڑی دشواری کا سامنا ضرور رہا کہ شہرزاد  گھر میں کسی کو اس گھر کے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی لہٰذا اسے یہ تمام چیزیں خود نمٹانی پڑیں اور اسے ان چیزوں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ گاؤں کی زمین میں شہر کی طرح کسی پراپرٹی ایجنٹ کی مدد شامل نہیں  ہوتی لہٰذا تمام معاملات فروخت کنندہ اور خریدار نے آپس میں ہی نمٹانے ہوتے ہیں۔ ان معاملات کے طے ہونے میں عام طور پر ایک ملاقات کافی نہیں ہوتی اور بار بار شہر سے اٹھ کر گاؤں تک آنا اس کیلئے آسان نہیں تھا۔
خدا خدا کر کے جب زمین کی خریداری کا مرحلہ طے ہوگیا تو پھر مکان کی تعمیر کا مرحلہ سر پر آپہنچا۔ کہنے کو یہ صرف دو کمرے کی جھونپڑی  بننی تھی مگر شہرزاد اسے  فن تعمیر کے ایک شاہکار کی شکل دینا چاہتی تھی۔  یہ اس کے خوابوں کا تاج محل تھا۔  وہ اسے  واقعی تاج محل کی طرح خوبصورت دیکھنا چاہتی تھی۔  مگر پھر جیسا اس کے بابا اکثر کہا کرتے تھے کہ وقت اور شہرزاد کے ارادے کبھی ایک جیسے نہیں رہتے،  سو یہ تاج محل بھی جب بن کر تیار ہوا تو محض دو کمروں کا گارے سے بنا ہوا ایک جھونپڑا ہی تھا کہ مکان کی تعمیر سے پہلے ہی شہرزاد نے اس مکان  کو سادہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
شہرزاد نے سامان سمیٹا اور  تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی جھونپڑی میں داخل ہوگئی۔ آج موسم کے تیور کچھ اتنے اچھے نہیں نظر آتے تھے۔ بادل تو خیر صبح ہی سے موجود تھے مگر بارش ابھی ہی شروع ہوئی تھی۔  شہرزاد کا بھیگنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لہٰذا وہ گاڑی سے نکل کر تقریبا دوڑتی ہوئی اپنے گھر میں داخل ہوگئی۔ 

تصنیف

اس نے اندر آکر سامان ایک طرف پھینکا اور خود کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔  بارش کی بوندیں کھڑکی سے اچھل اچھل کر  اس کے چہرے پر گرنے لگیں ۔ اس نے آنکھیں بند کرکے ایک گہری سانس لی اور مٹی کی سوندھی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ بارش کے بعد مٹی سے اٹھنے والی یہ سوندھ اسے بچپن سے بہت پسند تھی۔  وہ کافی دیر کھڑکی پر ہی کھڑی رہی اور بارش سے محظوظ ہوتی رہی، پھر  اس نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا  اور ایک سگریٹ سلگا کر کھڑکی کے قریب ہی پڑی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔   غم کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ شاید واحد اذیت ہے جس میں فرد خود کو مزید اذیت دیکر تسکین حال کرتا ہے۔ شاید اس ہی لیئے جب وہ بہت زیادہ غمگین ہوتی تھی تو عادی سگریٹ نوش نہ ہونے اور سگریٹ نوشی کے نقصانات جاننے کے باوجود سگریٹ سلگا لیتی تھی۔ ایسے مواقع کیلئے گاڑی کے ڈیش بورڈ میں ہمیشہ سگریٹ کا ایک پیکٹ دھرا ہوتا تھا۔
آج بھی وہ گھر سے لڑ کر نکل کر آئی تھی۔ قصہ وہی پرانا تھا۔ اس کے لیئے پھر ایک رشتہ آیا ہوا تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح شادی سے انکاری تھی۔  اس  کے والدین کو لگتا تھا کہ شاید وہ سرے سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی اس لیئے ہر رشتے سے انکار کردیتی ہے جبکہ وہ انہیں سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی کہ وہ شادی سے انکاری نہیں ، البتہ فی الوقت شادی کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسے لگتا تھا کہ شادی عمر بھر کا فیصلہ ہے اور اس  فیصلے میں ذرا سی غلطی ساری عمر کا روگ بن سکتی ہے۔ اس کی ماں دن رات اسے شادی کی افادیت پر لیکچر سناتی اور وہ ہر بار مسکرا کر ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہتی ، آپ نے ہی تو مجھے سکھایا ہے کہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں، سو میرے لیئے خدا تعالٰی نے جس شخص کو چنا ہے وہ مجھے مل کر رہے گا! اور جو چیز ہوکر رہنی ہے اس میں کیا دیر کیا سویر؟  میرے سیاں جی میرے لیئے ذرا سا انتظار نہیں کرسکتے؟  ہر بار وہ  یہ کہہ کر ماں کا ماتھا چومتی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر بھاگ جاتی  اور ہر بار ماں کی صلواتیں دروازے تک اس کا پیچھا کر رہی ہوتی تھیں۔  وہ جان بوجھ کر انہیں تکلیف دینا نہیں چاہتی تھی مگر وہ کیا کرتی؟ اسے احساس تھا  کہ اس کے والدین کس وجہ سے اس پر شادی کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے اندر ابھی بہت بچپنا تھا اور وہ شادی جیسے نازک رشتے کیلئے تیار نہیں تھی۔
آج بھی جب وہ  ماں کی صلواتیں سن کر گھر سے باہر نکلی تو اس کا ارادہ صرف دھیان بٹانے کیلئے ڈرائو پر جانے کا تھا مگر  خیالات کی رو میں گاڑی چلاتے چلاتے اسے احساس نہیں ہوا کہ کب وہ دارالحکومت سے نکل کر گاؤں کے راستے پر چڑھ چکی تھی۔  جب ہوش آیا تو پہلے تو اس نے سوچا کہ گاڑی گھما لے مگر پھر اس نے گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ موبائل سے اس نے  بڑی بہن کو فون کرکے بتا دیا   تھا کہ وہ گھر دیر سے پہنچے گی ۔اور آدھے گھنٹے بعد   وہ گاؤں میں  اپنی کٹیا کے اندر موجود سگریٹ سے شغل کر رہی تھی۔
سگریٹ ختم کر کے  اس نے اپنا بیگ گھسیٹا اور اس میں سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر میں کمرے میں جگجیت سنگھ کی آواز میں غزلیں گونج رہی تھیں۔ اس نے لیپ ٹاپ اٹھا کر میز پر رکھ دیا اور خود کرسی میں مزید دھنس گئی۔ سامنے کھڑکی میں سے  جھلکتا بارش کا منظر، عمدہ شاعری، جگجیت کی آواز، تنہائی، ان سب چیزوں نے مل کر ایک عجیب سا سماں باندھ دیا تھا۔ پہلے تو وہ  کافی دیر تک مسحور سی ہوکر بیٹھی رہی پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نےاپنے بیگ میں سے ڈائری نکالی اور کرسی کو گھسیٹ کر میز کے سامنے بیٹھ گئی۔ پہلے تو وہ خالی نظروں سے ڈائری کو گھورتی رہی گویا یہ فیصلہ کر رہی ہو کہ کہاں سے لکھنا شروع کرے، پھر اس نے قلم اٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے ڈائری پر ایک لفظ لکھ دیا – شہرزاد۔

شہرزاد

ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے بعد جب وہ دنیا میں آئی تو اسلم صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس کی پیدائش سے ان کا گھرانہ اب مکمل ہوگیا تھا۔ شادی اور گھرانے سے متعلق ان کا خواب ہمیشہ سے دو بیٹیوں کا رہا تھا۔بیٹوں سے انہیں کوئی خاص رغبت نہیں تھی جس کی وجہ وہ خود یہ بیان کرتے تھے کہ میں خود ایک بیٹا ہوں اور یہ بات جانتا ہوں کہ والدین سے جتنی محبت بیٹیاں کرتی ہیں، بیٹے اس کی آدھی محبت بھی نہیں دے پاتے۔  جہاں تک دو بیٹیوں کی خواہش کا سوال تھا تو  شاید وہ بچپن سے اپنے گھر میں اکلوتی بہن کو دیکھتے آئے تھے جو ایک چھوٹی بہن کو ترستی رہی تھی اور اس کا دکھ محسوس کرنے کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کو اس اکیلے پن سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسکی پیدائش پر وہ بے انتہا خوش تھے۔ انہوں نے خود اس کا نام شہرزاد رکھا تھا، شہر کی بیٹی۔  وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی زندگی میں اس مقام پر پہنچے جہاں پورا شہر فخر سے کہہ سکے کہ یہ ہمارے شہر کی بیٹی ہے۔ شہرزاد نے انہیں مایوس نہیں کیا تھا۔
وہ بچپن سے ہی منفرد تھی۔ ہر کسی کا خیال کرنے والی۔ دوسروں کی تکالیف پر رو دینے والی۔  جس عمر میں بچے عام طور پر ضدی اور خودسر ہوجاتے ہیں وہ اس عمر میں بھی انتہائی تابعدار رہی تھی۔ جہاں بٹھا دیا، بیٹھ گئی۔ جو کہہ دیا، سو مان لیا۔ کبھی کسی کھلونے کیلئے ضد نہیں کی۔البتہ ایک چیز پر وہ کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتی تھی۔ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے، اسے باپ کے ساتھ کم از کم ایک گھنٹہ ضرور چاہئے ہوتا تھا۔  اسلم صاحب جیسے ہی دفتر سے گھر لوٹتے وہ باپ کے ساتھ چمٹ جاتی تھی۔باپ کے جوتے موزے اتار کر خود گود میں چڑھ جاتی اور پورے دن کی روداد سناتی۔ ایک مرتبہ اسلم صاحب کو  ایک ہفتے کیلئے ملک سے باہر جانا پڑگیا تو اس نے وہ وبال مچایا کہ اسلم صاحب کو اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر تین ہی دن میں لوٹ کر آنا پڑگیا۔ اور اس دن کے بعد سے اسلم صاحب کے اکیلے ملک سے باہر  جانے پر پابندی لگ گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ خود بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ انہوں نے یہ بات بھلے کسی سے نہ کہی ہو مگر درحقیقت اس تین دن کے دورے میں شہرزاد سے زیادہ وہ خود روئے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ شہرزاد بھی بڑی ہوتی گئی۔ مگر اس گزرے ہوئے وقت نے باپ بیٹی کے تعلق پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔  اس کے دونوں بہن بھائی اکثر اس بات پر زچ ہوجایا کرتے تھے کہ اسلم صاحب ہر بات میں شہرزاد کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ اسلم صاحب اس کے جواب میں ہمیشہ مسکرا کر یہی کہتے کہ اول تو ہماری شہرزاد کبھی ناجائز بات نہیں کرتی اور دوسرا ،  یکطرفہ محبت صرف خدا  کرسکتا ہے۔ انسانوں میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ کسی بھی تعلق کو یکطرفہ طور پر تا عمر نبھاتے چلے جائیں۔ سو شہرزاد سے جلنے کے بجائے خود شہرزاد بننے کی کوشش کرو۔
اس ہی محبت بھری نوک جھونک کے ساتھ وقت کا پہیہ چلتا رہا ۔ شہرزاد اپنے اے لیول کے امتحان دیکر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ایک دن اسے  پتہ چلا کہ اس کی بڑی بہن شہربانو  کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔  اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔  اسے بہن کی شادی سے زیادہ بہن کے جانے کی خوشی تھی۔  شہربانو کے جانے کے بعد اس کا پورا وارڈروب آخر کو اس ہی کے پاس تو آنا تھا۔ اور اگر نہ بھی آتا تو بھی شہرزاد کی خوشی کیلئے یہ بات کافی تھی کہ اب اسے اپنا کمرہ کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں پڑے گا۔
لڑکے والے ان کے گھر بھی آئے اور شہربانو کو پسند کرکے بھی چلے گئے۔ اسلم صاحب نے اپنے تئیں لڑکے کے بارے میں جو معلومات کر سکتے تھے سو کیں اورلڑکے اور اس کے گھر والوں میں بظاہر کوئی خرابی نہ پاکر اللہ کا نام لیا اور رشتہ قبول کرلیا۔ گو شادی کیلئے تین ماہ بعد کی تاریخ رکھی گئی تھی مگر یہ تین ماہ کس تیزی سے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ شہرزاد نے مہندی سے لیکر مایوں اور سنگیت سے لیکر بارات تک ہر چیز کو جی بھر کر انجوائے کیا۔ تمام رسومات میں وہ آگے آگے رہی۔ اور کیوں نہ رہتی؟ دلہن کی اکلوتی بہن جو ٹھہری! البتہ نکاح کے بعد  جب رخصتی کا وقت آیا تو وہ دروازے تک بہن کو رخصت نہیں کرپائی۔   بہن کے شرارے کا پلو تھامے وہ سٹیج سے تو ساتھ چلی تھی مگر شہربانو کے اٹھتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ زندگی کی سچائیاں اس پر ایک دم وا ہوتی چلی گئیں۔ سب سے پہلے تو اسے یہ احساس ہوا کہ وہ شہربانو سے بےحد محبت کرتی تھی اور اگر وہ چلی گئی تو بےشک کمرہ بلا شرکت غیر ےاس کا ہوجائے گا مگر اکیلے کمرے میں وہ دیواروں سے باتیں نہیں کرسکتی تھی۔ دوسرا  اور زیادہ تکلیف دہ احساس اسے یہ ہوا کہ ایک دن اس ہی طرح وہ بھی گھر سے رخصت کردی جائے گی۔ اپنے باپ سے دوری کا یہ احساس اس قدر جاں گسل تھا کہ اس نے شرارے کا پلو اپنے ساتھ چلتی خالہ زاد بہن کو پکڑایا اور تیزی سے سٹیج کے ساتھ بنے دلہن کے میک اپ روم میں جا کر گھس گئی۔
شہربانو کو رخصت کرنے کے بعد جب گھر جانے کی باری آئی تو شہرزاد کی ڈھنڈیا پڑگئی۔  پھر کسی نے بتایا کہ رشیدہ پھپھو نے اسےدلہن کے  میک اپ روم کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ اسلم صاحب دوڑ کر میک اپ روم میں پہنچے  تو وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے ہچکیاں لے رہی تھی۔  اسلم صاحب کا دل مانو حلق میں آگیا۔ انہوں نے دوڑ کر بیٹی کو گلے لگالیا۔  ادھر شہرزاد نے بھی باپ کو قریب پایا تو کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح باپ کو مضبوطی سے تھام لیا، گویا اگر اس نے اپنی گرفت زرا بھی چھوڑی تو کوئی نادیدہ طاقت باپ کو اس سے چھین کرلے جائے گی۔
   اسلم صاحب بیٹی کے آنسو دیکھنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ وہ جانتے تھے کہ دونوں بہنوں کا تعلق مضبوط ضرور تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ اس کی رخصتی کی وجہ سے وہ اس بری طرح رو رہی ہو۔ انہوں نے گھبرا کر بیٹی کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اس سے رونے کا سبب پوچھنے لگے۔ ادھر شہرزاد کچھ کہنا چاہتی تو آنسو حلق میں آجاتے اور وہ جواب دینے سے پہلے ہی ایک بار پھر سسکیوں اور ہچکیوں میں اٹک جاتی۔ اسلم صاحب نے محسوس کیا کہ اس وقت آنسوؤں کا نکل جانا ہی اس کیلئے بہتر تھا سو انہوں نے اسے سینے سے لگالیا اور چپ کرانے کی کوششیں ترک کردیں۔
 پانچ سات منٹ بعد جب شہرزاد بھڑاس نکال چکی اور سسکیوں میں وقفہ آگیا تو وہ باپ کے سینے سے الگ ہوئی اور باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر بولی، بابا! آپ وعدہ کریں مجھے شہربانو کی طرح شادی کرکے کبھی اپنے سے دور نہیں کریں گے۔ اسلم صاحب بیٹی کی اس سوچ پر تڑپ اٹھے۔ پہلے سوچا کہ اس کو دنیاوی مجبوریوں کے بارے میں بتایا جائے مگر پھر اس وقت کو اس بات کے لئے نامناسب جان کر انہوں نے شہرزاد کا ماتھا چوما اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ شہرزاد کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ آگئی جیسے کسی پیاسے کو میلوں صحرا میں چلنے کے بعد کہیں پانی دکھ گیا ہو۔ اس نے طمانیت بھری مسکراہٹ باپ کی طرف اچھالی اور ان کے ہاتھوں میں جھول گئی۔ اسلم صاحب نے دیکھا ، وہ بےہوش ہوچکی تھی۔
کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر شہرزاد نے قلم ایک طرف رکھ دیا اور کرسی پر نیم دراز ہوگئی۔  اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور خاموشی سے بارش کی بوندوں سے پیدا ہونے والی موسیقی سے محظوظ ہونے لگی۔
وہ کافی دیر تک یونہی بیٹھی رہی مگر پھر اکتا کر دوبارہ کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔ بارش اب مدھم ہوکر بوندا باندی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالا اور بوندوں کو اپنی مٹھی میں قید کرنے  کی کوشش کرنے لگی۔  پانی کو  مٹھی میں قید کرنے کی  اس کی یہ بچکانہ عادت بچپن سے اب تک چھوٹ نہیں پائی تھی۔اسے لگتا تھا کہ  شاید وہ اکیلی اس عادت کا شکار نہیں تھی ۔  فرق بس اتنا تھا کہ لوگ پانی کی جگہ زندگی کے لمحات اور رشتوں کو قید کرنے کی کوشش کرتے تھے اور وہ پانی کو۔ نتیجہ البتہ دونوں کا ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔
 وہ جان گئی تھی کہ  عادت وقت کے ساتھ اپنی شکل تو تبدیل کر سکتی ہے مگر چھوٹتی کبھی  نہیں ہے ۔ ویسے بھی بچپن کے شوق ساری عمر نہیں جاتے ، بس باقی لوگ انہیں چھپانا سیکھ جاتے ہیں جبکہ وہ چاہ کر بھی اپنا اصل چھپا نہیں پاتی تھی۔
کچھ دیر  تک تو وہ اس بچپن کے کھیل سے خوش ہوتی رہی مگر پھر اچانک اسے اداسی نے گھیر لیا۔ خوشگوار یادوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کمبخت  اکثر غلط وقت پر آکر آنکھوں کے کنارے بھگو دیتی ہیں۔ بچپن کی معصومانہ خواہشات  جن کو یاد کرکے عام دنوں میں اس کے لبوں پر مسکان دوڑ جاتی تھی اس وقت اسے یہ احساس دلا رہی تھیں کہ عقل اور  لوگ کیا کہیں گے نامی بلا ؤں کے ہاتھوں اس کا بچپن شہید ہوچکا تھا۔
ادھر بارش ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہی تھی۔بارش کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کے مزاج کو دس گنا بڑھا دیتی ہے۔ اب یہ آپ کا نصیب کہ آپ اس برسات کے سمے خوش تھے یا اداس۔ شہرزاد اس معاملے میں کبھی بھی خوش نصیب نہیں رہی تھی۔  اسے لگتا تھا کہ یہ برسات دراصل پہلی بوند کے گرجانے کے غم میں بہائے جانے والے بادل کے آنسو ہوتے ہیں۔ شہرزاد   نے گھبرا کر کھڑکی بند کی اور واپس  کرسی پر بیٹھ کر قلم اٹھا لیا۔ وہ لکھ کر اپنا دھیان بٹانا چاہتی تھی۔   اس نے ایک بار پھر لکھنا شروع کردیا۔
ابھی شہر بانو کی شادی کی دعوتیں ختم  بھی نہیں  ہوئیں تھیں کہ شہرزاد کے رشتوں کیلئے ایک قطار لگ گئی۔ اسلم صاحب بڑی بیٹی کی رخصتی کے وقت ہونے والے اس واقعے کو بھولے نہیں تھے  اور جانتے تھے کہ شہرزاد ابھی کمسن ہے لہٰذا انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے آنے والے تمام رشتوں سے معذرت کرلی۔  وہ جانتے تھے کہ شہرزاد ابھی شادی کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اور ویسے بھی انہیں خدا کی ذات پر بھروسہ تھا کہ  اگر اس کی شادی میں دیر سویر ہو بھی گئی تو ان کی خوبصورت و خوب سیرت بیٹی کا ہاتھ تھامنے کیلئے کوئی نہ کوئی مناسب لڑکا مل ہی جائے گا۔
ادھر شہرزاد  ان ساری چیزوں سے بےخبر اپنی پڑھائی میں مگن ہوچکی تھی۔ وہ ایک صحافی بننا چاہتی تھی۔  ایک اچھی یونیورسٹی میں اس کا داخلہ ہوچکا تھا اور وہ اپنی شاندار تعلیمی ماضی کی طرح  یونیورسٹی میں بھی اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا اور چار سال کس طرح گزر گئے اسے پتہ ہی نہیں چلا۔  ڈگری مکمل کرنے کے بعداس نے کچھ عرصہ آرام کرنے کیلئے گھر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔  دو دن سو کر گزارے مگر جب آرام سے اکتا گئی تو کیمرا اٹھا کر شمالی علاقہ جات کی طرف نکل گئی اور پندرہ دن  تک تصویر کشی  کرنے کے بعد جب وہ گھر پہنچی  تو ایک جاں خیز مصیبت اس کی منتظر تھی۔ اس بار رشتہ اس کی ماں کی خالہ زاد بہن کے ہاں سے آیا تھا۔ حمزہ  برطانیہ میں مقیم تھا اور ایم بی اے کرنے کے بعد وہیں نوکری کر رہا تھا۔ اس کے والدین اس رشتے سے بہت خوش تھے اور اس کے ہزار رونے کا بھی کسی پر اثر نہیں ہوا تھا۔ اسلم صاحب جو اس کی معمولی تکلیف پر بھی ایک پیر پر کھڑے ہوجاتے تھے، اس باراسکے مسلسل رونے دھونے کے باوجود ، وہ بھی اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ جب جب وہ ان سے لاڈ دکھا کر اس موضوع پر بات کرنا چاہتی تو وہ نہایت سنجیدگی سے اسے سمجھانا شروع کردیتے کہ شادی انسانی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے اور اب اس کی شادی ہوجانا کیوں ضروری ہے۔ شہرزاد کو اس لیکچر میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر چونکہ گفتگو خود اس نے ہی چھیڑی ہوتی تھی لہٰذا مجبورا اسے یہ لیکچر بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہر بار یہ سوچتی کہ آئندہ باپ سے اس موضوع پر بات نہیں کرے گی مگر ہر بار مستقبل کا خوف اسے باپ کو سمجھانے کی ایک اور کوشش کرنے  پر مجبور کردیتا۔
لڑکے والوں کے پاکستان آنے تک اس کی مسلسل کوشش رہی کہ وہ کسی طرح اس رشتے سے انکار کردے مگر اس بار اس کی ایک نہ سنی گئی اور حمزہ کے  پاکستان پہنچنے کے اگلے ہی ہفتے ایک سادہ مگر پروقار تقریب میں دونوں کی منگنی کردی گئی۔ اس کے مسلسل احتجاج سے بس یہ فائدہ ہوا کہ منگنی اور شادی کے بیچ میں ایک سال کا فرق رکھ دیا گیا کہ اس دوران لڑکا لڑکی ایکدوسرے کو ٹھیک سے جان بھی سکیں اور شہرزاد کا نوکری کرنے کا خواب بھی پورا ہوجائے۔ شہرزاد اس سب سے بہت خوش تو نہیں تھی البتہ یہ ایک سال کا وقفہ بھی اس کیلئے غنیمت تھا کہ اس ایک سال میں وہ آخری مرتبہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتی تھی۔
حمزہ ایک نہایت جذباتی اور شدت پسند نوجوان تھا۔ منگنی کے بعد واپس برطانیہ پہنچ کر اس کی محبت اور رویوں دونوں میں شدت بڑھ گئی تھی۔ وہ دن میں تین چار مرتبہ اسے فون کرتا۔ رات دیر گئے تک اسکائپ پر اس سے باتیں کرتا۔ باتیں بھی خیر کیا کہ وہ بولتا جاتا تھا اور یہ مسکرا کر سنتی جاتی تھی۔ شہرزاد کیلئے زندگی کا یہ ایک نیا روپ تھا۔ اس سے پہلے اس نے کبھی کسی مرد کو اس طرح قریب آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مردوں پر ہی کیا موقوف، وہ خواتین سے بھی ایک حد سے زائد دوستی کی عادی نہیں تھی۔کسی عزیز دوست سے بھی اگر ایک ہفتہ بات نہ ہو تو اس کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور اب اسے دن میں کئی کئی مرتبہ ایک ہی انسان سے بات کرنی پڑتی تھی اور دل میں خواہ کسی بھی قسم کے جذبات ہوں، چہرے پر ایک مسکان سجائے رکھنی پڑتی تھی کہ حمزہ کو اس کی مسکراہٹ بہت پسند تھی۔
شہرزاد ان سب تبدیلیوں کو محسوس کر رہی تھی اور خود اس کیلئے حیران کن طور پر اسے اب ان تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔ حمزہ نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اسے شہرزاد کا نوکری کرنا پسند نہیں ہے اور حیرت انگیز طور پر اس نے بغیر حیل و حجت کے اس کی یہ بات مان لی تھی۔ ویسے بھی جس حساب سے  اسے دن میں کئی مرتبہ حمزہ سے بات کرنی پڑتی تھی، اس حساب سے وہ نوکری جوائن کر بھی لیتی تو دو دن میں فارغ کردی جاتی۔ شہرزاد کو اپنے بالوں سے عشق تھا۔ حمزہ نے کہا کہ وہ اسے چھوٹے بالوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ شہرزاد اس ہی شام پارلر میں بیٹھی مسکراتے ہوئے اپنے بال کٹوا آئی۔ حمزہ کو سوشل میڈیا پر اس کی فرینڈ لسٹ میں موجود لڑکے آوارہ لگتے تھے، شہرزاد نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہی ڈی ایکٹویٹ کردیئے۔شہرزاد مسلسل سپردگی کے اس سفر پر رواں تھی جس کے انجام سے وہ نا واقف تھی۔
ان سب چیزوں کے باوجود شہرزاد اپنے تئیں بہت اچھی ساتھی  نہیں ثابت ہورہی تھی۔ وہ شہربانو اور اپنی ماں کو دیکھتی  تو  خجل ہوجاتی کہ وہ دونوں کس طرح اپنے شوہروں کے آگے بچھی جاتی ہیں۔ شہرزاد اب بھی ہفتے میں ایک آدھ بار حمزہ کی کسی بات کا برا مان جاتی اور  اس کے منانے تک خود سے  بات نہیں کرتی تھی جبکہ اس کی ماں اور شہربانو دونوں کبھی اپنے شوہروں کے سامنے ماتھے پر بل نہیں لاتی تھیں۔ اسے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس نے شہر بانو کے گال پر ہلکا نیل پڑا ہوا دیکھا تھا مگر اس کے لاکھ کریدنے کے باوجود شہربانو اس نیل کے وجود اور شوہر کے اس پر ہاتھ اٹھانے سے مسلسل انکاری رہی تھی۔ گو اس کی آنکھ کی جھلملاہٹ  حقیقت کو بیان کر گئی تھی مگر اس نے اپنے منہ سے اس بات پر بھاپ بھی نہیں نکالی تھی۔ شہربانو ان سب چیزوں کو یاد کرکے اپنے اور حمزہ کے تعلقات کا جائزہ لیتی اور پھر حمزہ سے شرمندہ ہوئی رہتی۔ اسے لگتا تھا کہ جیسے وہ حمزہ کا حق مار رہی ہو۔ جیسے اس سے منگنی کرواکے حمزہ  کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو۔ یہ سب سوچ کر وہ اور بھی دل و جان سے حمزہ کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتی تھی۔
شہرزاد کی منگنی کو سات ماہ کا عرصہ گزر چکا تھااور حمزہ کا جنون اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ ان دنوں اس نے نوکری بھی چھوڑ رکھی تھی اور سوشل ویلفیئر کے پیسوں پر گزارا کر رہا تھا۔ ان دنوں صبح سے شام تک اس کی زندگی کا مقصد صرف شہرزاد سے بات کرنا تھا۔   اس کی ماں کے بقول، شہرزاد بہت ہی اچھے نصیبوں کی مالک تھی ورنہ انہوں نے کبھی کوئی ایسا محبت کرنے والا شوہر نہیں دیکھا تھا۔ شہرزاد کو بھی اب حمزہ کے اس جنون کی عادت پڑگئی تھی اور یہ ہر وقت کی گفتگو اب اتنی بری بھی نہیں لگتی تھی جتنی شروع میں لگاکرتی تھی۔ مجموعی طور پر شہرزاد اپنی زندگی سے مطمئن تھی مگر یکساں رفتار سے چلنے والی چیز زندگی ہی کیوں کہلائے؟  اس دن بھی وہ حسب معمول حمزہ سے سکائپ پر بات کر رہی تھی کہ اسے ماں کی چیخ سنائی دی۔ وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئی تو ماں کو فون پکڑے روتا ہوا دیکھ کر گھبرا گئی۔ فون رکھ کر ماں نے ہچکیوں کے بیچ میں بتایا کہ اسلم صاحب کو دفتر میں ہی دل کا دورہ پڑا تھا اور دفتر والے انہیں لیکر قریبی ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔ ایک لحظے کیلئے تو شہر زاد کے پیروں تلے زمین نکل گئی مگراگلے ہی لمحے خدا جانے کہاں سے شہرزاد میں ڈھیروں ہمت آگئی ۔ اس نے ماں کو سنبھالا اور گاڑی دوڑاتی ہوئی ہسپتال پہنچ گئی۔ اگلے پانچ دن جب تک ڈاکٹرز نے اسلم صاحب کو خطرے سے باہر قرار نہیں دے دیا وہ باپ کے بستر سے لگی بیٹھی رہی۔ سب کو لگتا تھا کہ وہ رو رو کر ہلکان ہوجائے گی مگر  معمولی باتوں پر رو دینے والی شہرزاد نے  آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا ۔  بہا بھی کیسے سکتی تھی؟ اسکے دماغ میں تو بس یہ خیال تھا کہ اگر بابا نے مجھے روتے ہوئے دیکھ لیا یا انہیں پتہ چل گیا  کہ میں روئی تھی تو وہ پریشان ہوجائیں گے۔ وہ اس حالت میں انہیں پریشان کیسے کر سکتی تھی؟
پانچ دن کے بعد جب اسلم صاحب کی حالت تسلی بخش قرار دیکر انہیں ڈسچارج سے پہلے ایک دن کی معمول کی نگرانی کیلئے وارڈ میں شفٹ کیا گیا تو اس کی ماں نے زبردستی اسے واپس گھر بھیج دیا۔ وہ اب بھی باپ کے پاس سے ہلنے کو تیار نہیں تھی مگر جب اسلم صاحب نے خود اس کا ہاتھ تھام کر اس سے گھر جانے کی درخواست کی تو وہ باپ کی خوشی کیلئے مجبورا وہاں سے اٹھ آئی۔
گھر آکر نہانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ کس قدر شدید تھک چکی تھی۔ اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر کمر سیدھی کرلی جائے تاکہ رات کو وہ دوبارہ باپ کے پاس جاسکے مگر بستر پر گرتے ہی اسے ایسی نیند آئی کہ جب آنکھ کھلی تو رات کے تین بج چکے تھے۔ اپنے آپ کو کوستی ہوئی وہ بستر سے نکلی اور کچن میں جاکر اپنے لیئے نوڈلز بنا کر لاؤنج میں جاکر بیٹھ گئی۔  پانچ دن بعد اس نے سکون سے کچھ کھایا تھا۔ پیٹ میں کچھ گیا تو اس کے اوسان بحال ہونا شروع ہوئے اور پھر اسے خیال آیا کہ پچھلے پانچ دن سے وہ حمزہ سے ایک مرتبہ بھی بات نہیں کر پائی ہے۔ پہلے دو دن تو اس کا موبائل گھر پر ہی پڑا رہا تھا اور تیسرے دن جب اپنے فون پر  حمزہ کی مسلسل کالز سے تنگ آکر جب اس کی ماں نے اسکا موبائل گھر سے لاکر اسے دیا بھی تھا تو وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ کر بھول گئی تھی۔ اس وقت حمزہ کی کالز سے زیادہ اہم اس کے باپ کی صحت تھی۔ باپ کریٹکل کیئر یونٹ میں پڑا ہوا ہو تو وہ کیسے حمزہ کے ساتھ خوش گپیاں کرسکتی تھی؟ اسے پتہ تھا کہ اس کی ماں نے حمزہ کو اسلم صاحب کی طبیعت کی ناسازی کا بتا دیا تھا تو اسےامید تھی کہ حمزہ اس کی مشکل کو سمجھ سکتا ہوگا۔
اس نے حمزہ کا نمبر ملایا تو دوسری گھنٹی کے بعد ہی اس کی کال کاٹ دی گئی۔ یہ حمزہ کی ناراضگی کی مخصوص علامت تھی۔ شہرزاد اس کی حرکت پر مسکرا اٹھی۔ ابھی وہ اسے منانے کے طریقوں پر غور کر ہی رہی تھی کہ اسکے موبائل پر حمزہ کا میسج آیا، چیک یور ای میل! اس نے جلدی سے اپنا آئی پیڈ اٹھایا اور ای میل انباکس کھولا جس میں ، ڈبلو ٹی ایف کے عنوان سے حمزہ کی ایک دو دن پرانی ای میل  موجود تھی۔ اس نے فورا ای میل کھولی تو اس میں لکھا تھا،

شیری،
تم نے مجھے بہت شدید مایوس کیا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ انکل کی طبیعت خراب ہے وغیرہ وغیرہ مگر ایسا بھی کیا کہ تم اپنے باپ کیلئے اپنے ہونے والے شوہر کو نظرانداز کرکے بیٹھی ہوئی ہو؟ آج نہیں تو کل ویسے بھی ان کی عمر ہوگئی ہے مرنے والی، ہم ابھی جوان ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہئے! ویسے بھی تم ان کی بیٹی تھیں جبکہ میری نظر میں میری بیوی ہو! ہو اور تھی کا فرق تمہیں  پتہ ہونا چاہیئے! اور اگر تمہیں ان کے ساتھ وقت گزارنا ہی تھا تو تمہیں مجھ سے اجازت لینی چاہیئے تھی۔ تم نے مجھے شدید مایوس کیا ہے شیری۔ تم یہ کیسے بھول سکتی ہو کہ تم میری ہو؟ صرف میری! اور میں تمہیں کسی کے بھی ساتھ سانجھ نہیں سکتا خواہ وہ تمہارا باپ ہی کیوں نہ ہو! تمہاری وجہ سے میں نے اپنی نوکری تک چھوڑ دی کہ تمہیں دن بھر کمپنی دے سکوں تاکہ تمہیں کسی اور دوست کی ضرورت نہ پڑے! تم پھر بھی میرے ہوتے ہوئے دوست بنائے رکھتی ہو۔ میں اس پر بھی تمہیں کچھ نہیں کہتا مگر تم میری ڈھیل کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو۔ رشتے اس طرح نہیں چل سکتے۔ اپنے ماضی کی وجہ سے اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگاؤ۔ باز آجاؤ۔
تمہاری معافی کا منتظر
تمہارا جلد ہونے والا شوہر

شہرزاد کافی دیر تک تو اسکرین کو تکتی رہی گویا یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہو کہ اس کی آنکھوں نے جو کچھ پڑھا وہ واقعی سچ میں لکھا ہوا ہے یا کوئی بھیانک خواب ؟ پھر اس نے ای میل کو دوبارہ پڑھا۔ پھر سہ بارہ پڑھا اور چوتھی بار پڑھنے کے بعد اس نے مجذوبی کیفیت میں اس پیغام کا جواب تحریر کرنا شروع کردیا۔  اس نے لکھا

حیمی،
میرے بھی شیری سننے کے بعد وہی جذبات ہوتے ہیں جو تمہارے اپنے نام کے بگڑ کر حیمی ہونے پر ہیں۔ میرے باپ نے بہت مان اور چاؤ کے ساتھ میرا نام شہرزاد اس لیئے نہیں رکھا تھا کہ کوئی ان پڑھ انسان جسے شہرزاد لکھنا نہ آتا ہو، وہ اسے بگاڑ کر شیری کر سکے۔ آج کے بعد میرا نہیں خیال کے آپ کو مجھ سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے مگر پھر بھی اگر آپ بے غیرتی پر تلے ہوئے ہی ہوں تو  اگلی بار مجھے مخاطب کرتے یاد رکھئے گا کہ یہ ای میل ایڈریس کسی شیری کا نہیں شہریار کا ہے۔ میں کسی شیری کی ای میلز کو پڑھنے اور ان کا جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔
میں آپ سے معذرت خواہ اور اپنے آپ سے شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ کو یہ غلط فہمی دلائی کہ میری زندگی کے مالک آپ ہیں۔ میں تاعمر آپکی اس قیمتی یاد دہانی کی مشکور رہوں گی کہ آپ نے مجھے یاد دلایا کہ میں کس طرح  اشرف المخلوقات  کے درجے سے گر کر محض خودسپردگی کا ایک پھسپھسا ڈھیر بن کر رہ گئی۔ پیارے حیمی، اپنے باپ کے ساتھ وقت بتانے کیلئے مجھے تمہارے جیسے کسی بھی انسان کی ضرور ت نہیں ہے۔ اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ میری اس سوچ سے ہمارا مستقبل متاثر ہوگا تو یاد رکھو کہ تمہاری اس سوچ کے ساتھ ہمارا کوئی حال ہی نہیں ہے تو مستقبل کے ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
مجھے یہ کہتے ہوئے اپنے آپ پر یقین نہیں آتا کہ میں اس حد کی سفاک بھی ہوسکتی ہوں مگر اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے ہم گھر والوں کو اس مصیبت سے گزارا کہ اس پانچ سات دن کی مصیبت کے صدقے میں اپنی زندگی ایک نفسیاتی درندے کے ہاتھ میں دینے سے بچ گئی جو باپ بیٹی کے تعلق کو بھی میاں بیوی کے تعلقات کے بیچ میں لا سکتا ہے۔
سنا ہے کہ قیمتی اشیاء کوریئر کے ذریعے نہیں بھجوائی جاسکتیں سو اسلام آباد میں اپنا کوئی پتہ بھجوادو کہ جہاں میں انگوٹھی اور وہ سلامی کا زیور واپس بھجوا سکوں۔ تمہارے بھیجے گئے کارڈز اور پھول جو میں نے آج تک سنبھال کر رکھے ہوئے تھے وہ میں کل صبح تمہارے گھر کے پتے پر ارسال کردوں گی۔
آئندہ کسی قسم کے رابطے کے نہ ہونے کی متمنی
تمہاری کبھی نہ ہونے والی بیوی

ای میل بھیج کر شہرزاد جا کر صوفے پر لیٹ گئی۔ صبح اس نے حمزہ کی کال آنے سے پہلے ماں کو اپنے موقف کا حامی بنانا تھا۔اسلم صاحب ایسے کسی جھٹکے کیلئے تیار نہیں تھے اس لیئے اس وقت ماں کی حمایت اس کیلئے بے حد ضروری تھی۔ اس نےروشنی سے بچنے کیلئے ایک ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھا اور سوچنا شروع ہوگئی۔
شہرزاد نے یہاں پہنچ کر ایک مسکراہٹ کے ساتھ قلم میز پر اچھا لا اور جاکر چارپائی پر لیٹ گئی۔ باہر بارش ایک بار پھر زوروشور سے جاری تھی۔

ادراک

شہرزاد کافی دیر تک یونہی لیٹی موسیقی سے محظوظ ہوتی رہی۔ ماضی کے واقعات آج قطار اندر قطار اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اول تو وہ کافی دیر ان سے مزاحمت کرتی رہی مگر پھر اپنی مدافعت کو کمزور پڑتا دیکھ کر وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ آج کا دن بہت بھاری تھا۔ اسے آج کسی بھی طرح خود کو مصروف رکھنا تھا ورنہ یہ بے وقت کا ادراک اس کی جان لے لیتا۔ اس نے کہانی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے میز پر سے دوبارہ قلم اٹھایا اور لکھنے بیٹھ گئی۔ لکھنا شروع  کرنا چاہا تو خیالات کی کھڑکی ایک بار پھر وا ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ یہ قوت اظہار کتنی بڑی نعمت ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کتنے ہی ایسے گھاؤ ہیں جو اندر ہی اندر پک کر ناسور بن جائیں۔ سڑ جائیں اور انسان کو بھی اندر سے سڑا دیں۔ اس حد تک کہ ان سے باس آنے لگے۔ کوئی شخص بھی اس تعفن کے ڈر سے آپ کے قریب آنے کو تیار نہ ہو۔  اور اگر قوت اظہار میسر ہو تو اپنے ہی نہیں، دوسروں کے غم بھی آپ کی جانب دوڑے چلے آتے ہیں۔ دامن گیر ہوتے ہیں۔ فریاد کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، سنو مصنف! اپنے قلم سے چھو کر ہمیں زندگی بخش دو۔  یہاں تک معاملہ مصنف کی حساسیت کا ہے۔ اس کے بعد مصنف کی سفاکی کا دور شروع ہوتا ہے۔  وہ لوگوں کے مصائب کے خون میں لقمے لتھڑ کر کھانا شروع ہوتا ہے۔ جتنا گہرا نشتر چلائے گا، لقمہ اتنا ہی تر ہوگا۔ اور پھر اپنی انا کی تسکین میں وہ ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو دکھانا شروع ہوجائے گا۔ خود کو یہ احساس دلائے گا کہ دیکھو میں جس شخص کو چاہوں بدنامِ زمانہ ٹھہرا دوں اور جس ملعون کو بھی چاہوں اپنے قلم کی طاقت سے فرشتہ ثابت کردوں۔ کون ہے جو مجھے روک سکے؟  اگر میں اپنے قلم سے کسی متقی انسان کے کردار کی بھی دھجیاں بکھیر دوں تو وہ غریب میرا کیا بگاڑ لے گا؟ ساری عمر صفائیاں دیتا بھی پھرے تو یہ منفیت پسند معاشرہ اس کی بات پر اعتبار نہیں کرے گا۔ اور ویسے بھی الفاظ سے کھیلنا جس طرح ہم مصنفین کو آتا ہے، وہ غریب کہاں سے وہ الفاظ لائے گا جو ہم ایسے پختہ قلم کاروں کی لکھی ہجو کو رد کرسکیں؟
خیالات کا یہ ریلا اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ چھوڑ گیا تھا۔  جو کہانی وہ اب تک لکھ رہی تھی وہ بھی تو ایک خواب ہی تھی!
وہ اپنے گھر میں پیدا ہونے والی چوتھی بیٹی تھی۔ اوپر تلے تین بیٹیوں کی پیدائش کے بعد سب کو امید تھی کہ خدا کی مرضی سے اس مرتبہ ضرور لڑکا پید ہوگا۔ اس کے پیدا ہونے پر خوشی تو خیر کیا ہونی تھی، اس کی ماں دھاڑیں مار مار کر روئی تھی۔ اسے یہ بیٹی نہیں چاہیئے تھی۔ اسے تو بیٹے کی خواہش تھی۔ بیٹا جو اس کی شادی کو محفوظ بنا سکتا۔ اس کے شوہر کو وارث کی تلاش میں ایک اور شادی کرنے سے روک سکتا۔  مگر بیٹے کی جگہ خدا نے اسے ایک بار پھر بیٹی کی آزمائش سے گزار دیا تھا۔ شہرزاد کے باپ کو جب پتہ چلا تھا کہ ایک مرتبہ پھر بیٹی ہوئی ہے تو اس نے بیوی سے تو شکایت نہیں کی البتہ شہرزاد کو ایک مرتبہ بھی گود میں نہیں اٹھایا تھا۔
خدا جب خلق کرتا ہے اور بڑھانا چاہتا ہے تو جنگل میں خودرو جھاڑیوں کو بھی اگا دیتا ہے اور بڑھا بھی دیتا ہے۔ شہرزاد بھی اپنے گھر میں ایسی ہی کسی بے مصرف کسی جھاڑی کی مانند تھی۔ اسے سنبھالنا اور اس کا خیال رکھنا بڑی بہنوں کی ذمہ داری تھی ۔ وہ بیچاری خود عمر کے اس حصے میں تھیں کہ انہیں کسی سنبھالنے والے کی ضرورت رہتی تھی سو وہ شہرزاد کو کیا خاک سنبھالتیں؟ البتہ جو کچھ ان سے بن پڑتا تھا وہ اپنی ننھی گڑیا کیلئے کرنے کو تیار رہتی تھیں۔ شہرزاد کے باپ کا تبادلہ  ایک مرتبہ پھر کسی دوسرے شہر ہوگیا تھا اور اس مرتبہ انہوں نے شہرزاد کی بڑی بہنوں کے اسکول کا جواز بنا کر اس کی ماں کو بچوں کے ساتھ ہی اسلام آباد میں چھوڑ دیا تھا۔  تین چار مہینوں میں وہ ایک آدھ بار گھر چکر لگا بھی لیتے تو شہرزاد کی ماں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ان کا سامنا نہ کرے۔ ایسا نہیں کہ وہ اسے دیکھ کر غصے میں آجاتے ہوں مگر اس کی ماں کے نزدیک شہرزاد کی حیثیت اس ریپورٹ کارڈ کی سی تھی جسے بچہ پوری دنیا سے چھپاتا پھرتا تھا۔
شہر زاد جب تین سال کی ہوگئی تو  اس کے باپ کا تبادلہ واپس اسلام آباد میں ہوگیا۔ شہرزاد اب بولنے اور چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہورہی تھی۔شہرزاد کی نانی  اور ماں کے درمیان ایک دن طویل مکالمہ ہوا اوراس کے بعد شہرزاد زیادہ تر وقت اپنی نانی کے گھر میں گزارنے لگی۔
شہرزاد کو اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ نانی کو بھی امی بولتی تھی اور اسے یہ والی امی اپنی گھر والی امی سے زیادہ پسند تھیں۔ نانی کے گھر میں ایک بڑا سارا صحن تھا جس میں شہرزاد پورا دن کھیلتی رہتی تھی۔ اس کے گھر میں البتہ اس کے جانے کا یہ خوشگوار اثر ہوا کہ اس  کی ماں کا پاؤں ایک بار پھر بھاری ہوگیا۔ وہ جب بھی واپس گھر جاتی، اماں  اسے سمجھاتیں کہ معصوم بچوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اس لیئے اسے خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ میاں اسے جلدی سے ایک پیارا سا بھائی دے دیں۔ شہرزاد اپنے ننھے سے ہاتھ اٹھا کر آمین کہتی تو اماں کھل اٹھتیں۔ پھر اس کو پیار بھی کیا جاتا اور اگلے ایک آدھ گھنٹے تک اس کی ننھی خواہشات بھی پوری کی جاتیں۔
شاید خدا کو ویسے ہی ان پر رحم آگیا تھا یا شاید یہ شہرزاد کی دعاؤں کا اثر تھا کہ اسکی ماں جب ہسپتال سے گھر لوٹی تو  اس مرتبہ ان کے ساتھ ایک بیٹا تھا۔ انکے شوہر کا وارث! انکی شادی کے تحفظ کا ضامن!
بھائی کے آنے کے بعد تو گویا شہرزاد کی لاٹری ہی نکل آئی۔ اماں ابا کو پوری دنیا میں کسی کی پرواہ نہیں تھی سو شہرزاد اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں آزاد تھی۔ اس کی عمر کی ساری لڑکیاں جب صبح جمائیاں لیتے ہوئے اسکول جاتی تھیں تب وہ بستر میں پڑی سو رہی ہوتی تھی۔ دوپہر سے شام تک جب باقی بہنیں بچپن کی سکھائی گئی عادت سے مجبور سو رہی ہوتی تھیں تو وہ گلی میں بچوں کے ساتھ یا تو درختوں پر بندروں کی طرح جھول رہی ہوتی تھی یا اپنی سائیکل چلا رہی ہوتی تھی۔ چھ سال کی عمر میں اس نے اسکول جانا شروع کیا تو بھی کبھی کسی نے اس سے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ صاحبزادی آپ ٹیسٹ میں پاس ہوئیں یا فیل؟ یا فلاں مضمون میں اگر آپ کے نمبر کم آئے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟  گھر پر ایک مولوی صاحب سیپارہ پڑھانے آتے تھے اور ایک ماسٹر جی ٹیوشن کیلئے۔ باقی بہنوں کے ساتھ اسے بھی اب انکے سامنے بٹھایا جانے لگا کہ والدین ہونے کے ناتے پڑھائی کا اہتمام کروانا تو ان کا فرض تھا۔ اس فرض کی ادائیگی کے بعد البتہ وہ دونوں میاں بیوی آزاد تھے اور باقی بچیوں کا نصیب کہ وہ امتحانات میں پاس ہوتی ہیں یا فیل۔ ویسے  بھی ان کی ماں کے نزدیک، امتحانات میں پاس ہوکر بھی انہوں نے زندگی میں آگے چل کر ہانڈی چولہا ہی تو کرنا تھا سو کیا فرق پڑتا تھا؟
نوفل کی پیدائش کے بعد اگلے چار سال میں شہرزاد کے گھر میں دو بھائیوں کا مزید اضافہ ہوگیا تھا اور اب اس کی ماں کے نزدیک ان کا گھر مکمل ہوگیا تھا۔ تینوں بیٹوں میں ماں کی جان چھپی تھی۔ ان کی زندگی کا مقصد اب بیٹوں کی پرورش اور ان کے آرام کا خیال رکھنا تھا۔ بیٹیاں البتہ بڑی اور سمجھدار ہوگئی تھیں سو وہ اپنا اچھا برا خود سمجھ سکتی تھیں۔ ویسے بھی لڑکیوں کو اپنا آپ سنبھالنے کی بچپن سے عادت ہونی چاہیئے کیوں کہ آگے چل کر انہوں نے نہ صرف خود کو بلکہ پورے گھر کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا سوائے اسکے والدین کی فکر کے۔ کھاتے پیتے گھرانے کے خاندانی لوگ تھے لہٰذا بچیوں کے رشتوں میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوئی۔ ایک ایک کر کے تین بیٹیاں اپنے گھروں کی ہوگئی تھیں اور اب سینے پر صرف شہرزاد کا بوجھ باقی تھا۔
شہرزاد سے بڑی بہن شہربانو کی شادی کے بعد شہرزاد کی زندگی میں بہت ڈرامائی تبدیلی آگئی تھی۔ اس کے گھر والوں کو اچانک سے یہ احساس ہوگیا تھا کہ ان کے گھر میں شہرزاد نامی ایک لڑکی بھی موجود ہے جس کے وجود سے وہ اس سے پہلے بے خبر تھے۔  اس سے پہلے چونکہ اس کا وجود کسی کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا لہٰذا کسی کو اسکے معمولات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ کہاں گھومتی پھرتی ہے، کس سے ملتی ہے، کمرے میں بند کیا پڑھتی رہتی ہے، ان سب باتوں کی کسی کیلئے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ شہربانو کی شادی کے بعد البتہ اچانک سب کو اس کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ اسکے اٹھنے بیٹھنے، اوڑھنے پہننے، آنے جانے غرض ہر چیز پر اس کی ماں کی نظر رہنے لگی تھی۔ وہ اسے وقت بے وقت بٹھا کر زندگی کے بارے میں سکھانے اور اس کی پیدائش سے لیکر اب  تک اس کی وجہ سے دی گئی قربانیوں کی تفصیلات گنوا کر اس سے محبت جتاتیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ شہرزاد ان سب باتوں سے خوش ہوتی مگر شہرزاد کو اب ان باتوں سے منافقت کی بو آتی تھی۔  جب اس کی ماں اسےوالدین اور اولاد کے رشتے کے بارے میں یاد کراتی تو وہ اندر ہی اندر چڑ جاتی تھی۔ وہ رشتہ جس کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو اس کے فضائل کے بارے میں جان کر اس نے کیا کرنا تھا؟ ایسا نہیں کہ اسے ماں سے محبت نہیں تھی یا وہ اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی۔ البتہ ساری عمر دور رہنے کے بعد اچانک سے اٹھنے والی یہ شدید محبت اس کی سمجھ سے باہر تھی۔  وہ کوشش کرتی تھی کہ  اس کی باتوں سے اسکے اندرونی خلفشار کا ماں کو پتہ نہ چلے مگر وہ اندر ہی اندر اس سوچ کی وجہ سے اکثر کڑھتی رہتی تھی۔ اب بھی جب وہ ماں کو بیٹوں کے آگے بچھے دیکھتی تھی تو اس کا دل کرتا تھا کہ وہ گلا پھاڑ کر چلائے اور انہیں دکھائے کہ یہ ہوتی ہے محبت جو آپکے عمل میں دکھتی ہے۔ مگر وہ اپنی ماں کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی سو نجانے کتنی چیخوں کی طرح یہ چیخ بھی اس کے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی تھی۔
شہربانو کی شادی کے بعد اس کیلئے بہت سے رشتے آئے مگر اس نے سختی سے والدین کو بتا دیا کہ فی الحال وہ شادی جیسے رشتے کیلئے خود کو تیار نہیں پاتی اور اگر ان کے بہت مجبور کرنے پر اس نے شادی کر بھی لی تو وہ اس رشتے کو نبھانے کیلئے تیار نہیں ہے لہٰذا ان کو سوچ لینا چاہیئے کہ کنواری لڑکی کے والدین ہونا پسند کریں گے یا مطلقہ کے۔
شہرزاد کی ماں اس کا یہ جملہ سن کر آپے سے باہر ہوگئی تھیں۔ انہیں لگتا تھا کہ ضرورت سے زیادہ پڑھائی اور ہر وقت مطالعے کی عادت نے شہرزاد کا دماغ خراب کردیا تھا۔ شہرزاد کے باپ کو ان سب معاملات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی سو انہوں نے یہ معاملہ ماں بیٹی پر ہو چھوڑا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے انہیں چڑھانے کی بہت کوشش کی مگر خدا نے انکے دل میں رحم ڈال دیا اور انہوں نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا کہ شادی دو دنوں کا کھیل نہیں بلکہ عمر بھر کا معاملہ ہے۔ زبردستی کرکے کام خراب مت کرو۔ اسے اپنی پڑھائی پوری کرلینے دو۔
شوہر کے کہنے پر شہرزاد کی ماں اس وقت تو چپ ہوگئیں مگر انہوں نے یہ بات دل میں بٹھا لی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے اب ان کی زندگی کا مقصد شہرزاد کے کاموں میں نقص نکالنا تھا۔ شاید ان کے معصوم ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر گھر کی زندگی اجیرن کر دی جائے تو شہرزاد فرار کیلئے شادی پر آمادہ ہوجائے گی اور یوں وہ ایک مقدس فریضے سے عہدہ بر آ ہوجائیں گی۔
شہرزاد یہ سب چیزیں دیکھ بھی رہی تھی اور محسوس بھی کر رہی تھی مگر وہ جذبات میں آکر کوئی بھی احمقانہ فیصلہ لینے پر تیار نہیں تھی۔  جب اس کی ماں نے دیکھا کہ یہ پینترا کام نہیں کر رہا تو انہوں نے شہرزاد سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک دن انہوں نے شہرزاد کو محبت سے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھ بیٹھیں کہ کہیں وہ کسی لڑکے سے محبت تو  نہیں کربیٹھی؟ شہرزاد نے سوالیہ نظروں سے ماں کی جانب دیکھا تو وہ جلدی سے بول اٹھیں کہ اگر کرتی بھی ہو تو کوئی بات نہیں ہے۔ بس اس کو بولو کہ ہم خاندانی لوگ ہیں اور ہمارے ہاں ہر چیز بزرگوں کی مرضی سے ہوتی ہے۔ اگر وہ تم سے واقعی محبت کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے والدین کو رشتہ دیکر بھیجے۔  شہرزاد یوں تو ایک آزاد خیال لڑکی تھی مگر گھریلو ماحول کی وجہ سے چوری چھپے کسی بھی لڑکے سے پینگیں بڑھانے کا تصور اس کیلئے نہایت ذلت آمیز تھا۔ اس کے دوستوں میں لڑکے بھی شامل تھے مگر جس طرح اس کی ماں سوچ رہی تھی اس طرح اس نے کبھی کسی لڑکے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔  دل میں لاکھوں باتیں آئیں مگر زبان سے وہ ماں کو صرف اتنا کہہ پائی کہ کیا آپ کو لگتا ہے میں آپ لوگوں سے چھپ کر کسی لڑکے سے افیئر چلا رہی ہوں؟ آئندہ سے میں کمرے کا دروازہ کھول کر پڑھائی کرلیا کروں گی۔ باقی یہ رہا میرا موبائل فون۔ شوق سے اسے اپنے پاس رکھ لیں مگر آئندہ اس قسم کی کوئی بات میرے متعلق نہیں سوچیئے گا۔میں اگر محبت کروں گی تو ڈنکے کی چوٹ پر کروں گی اور سب سے پہلے آپ کو ہی بتاؤں گی۔
اس دن کے بعد سے ماں بیٹٰی کے درمیان حائل خلیج اور گہری ہوگئی۔ شہرزاد نے باہر نکلنا بالکل چھوڑ دیا ۔ زیادہ تر وقت  ماسی کے ساتھ لگ کر گھر کے کام نمٹاتی ورنہ لاؤنج میں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھتی رہتی۔ ماں کو بھی یہ اطمینان ہوگیا تھا کہ بیٹی محبت جیسی کسی خرافات میں مبتلا نہیں ہے سو انہوں نے بھی اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
ماں سے فراغت ملی تو اب یہ فکر اس کی بہنوں نے سنبھال لی تھی۔ ایک تو خیر شادی کے بعد آسٹریلیا چلی گئی تھی البتہ باقی دونوں بہنیں جب بات ہوتی اس کی شادی کی فکر لیکر بیٹھ جاتیں۔شہر بانو اس سے محض دو سال بڑی تھی مگر وہ بھی اب تین بچوں کی ماں بن چکی تھی اور اسے اس بات پر اچھا خاصا فخر بھی تھا۔ پرسوں  رات بھی وہ اسے بٹھا کر شادی کی اہمیت پر لیکچر دے رہی تھی جبکہ شہرزاد اس کی بیٹی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔ جب  کافی دیر کے بعد بھی اس کا لیکچر ختم نہیں ہوا تو شہرزاد نے اس سے پوچھ لیا کہ اس نے شادی کیوں کی تھی؟ شہربانو تھوڑی دیر کیلئے تو سٹپٹا گئی مگر پھر کچھ سوچ کر بولی ، کیونکہ سب لوگ کرتے ہیں! شہرزاد بہت زور سے ہنسی تھی اس کی یہ بات سن کر۔ شہربانو تھوڑا کھسیا گئی مگر پھر تنک کر بولی ، مگر میرے پاس اپنا گھر ہے۔ تم ابھی تک ابو کے گھر میں رہتی ہو جبکہ میرے پاس اپنا گھر ہے۔ تم ہر کام میں آج بھی یہ سنتی ہو کہ اپنے گھر جا کر کرنا جو کرنا ہے جبکہ میرے پاس وہ اپنا گھر موجود ہے۔  شہرزاد کیلئے اچانک یہ گفتگو بہت دلچسپ ہوگئی ۔ اس نے پوچھا ، کیا واقعی تم اب جو جی چاہے کرسکتی ہو؟ نہیں ، دراصل میری ساس جب شادی کرکے آئی تھیں تو ان کی ساس زندہ تھیں اور اس لیئے وہ اپنی مرضی سے گھر نہیں چلا سکیں۔ اب ان کی ساس نہیں رہیں تو  وہ اپنی مرضی سے گھر چلا رہی ہیں۔ جب وہ نہیں رہیں گی تو پھر میری باری آئے گی نا؟ شہرزاد بہت زور کا قہقہہ مار کر ہنسی تھی اور شہربانو کو جب سمجھ آئی تو وہ چپل اٹھا کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی تھی۔
شہرزاد کو لگا تھا کہ رات کے ساتھ بات بھی ختم ہوگئی ہے مگرجب صبح سو کر اٹھی تو  ایک نیا فضیحتا اس کا منتظر تھا۔ شہربانو نے ماں سے اپنے دیور کیلئے شہرزاد کے رشتے کی بات کرلی تھی اور اس کی اماں راضی خوشی اس رشتے کیلئے تیار ہوگئی تھیں۔کل سے اب تک گھر میں اس بات پر سرد جنگ جاری تھی اور آج شہرزاد تنگ آکر اپنا سامان اٹھا کر یہاں گاؤں چلی آئی تھی۔


انجام

کسی مصنف نے کہیں لکھا تھا کہ اگر سب کچھ اچھا نہیں ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ابھی باقی ہے۔ کہانی کے اختتام پر ہمیشہ سب ہنسی خوشی ہی رہنا شروع کردیتے ہیں۔ چونکہ وہ مصنف برصغیر کی عورت نہیں تھی لہٰذا ہم اسے اس احمقانہ بات پر معاف کرسکتے ہیں۔ شہرزاد نے جملہ مکمل کرکے ایک نظر دوبارہ اس سطر پر ڈالی اور بے اختیار مسکرا اٹھی۔ ہائے اس وقت کوئی انسان موجود ہوتا  تو میں یہ جملہ ضرور اسے پڑھاتی۔ ایک سخنور کا کل سرمایہ اس کے قارئین و سامعین ہی تو ہوتے ہیں۔میں  بھی تو اس ہی لیئے لکھتی ہوں کہ الفاظ کا سہارا لیکر اپنی شخصیت دنیا کے سامنے لا سکوں۔ امر ہوسکوں۔ کہ جب میرا وجود مٹ بھی جائے تب بھی میرے الفاظ میرے ہونے کی گواہی دے سکیں۔ شہرزاد نے بڑبڑاتے ہوئے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالا اور سلگا لیا۔ وہ طویل کہانیاں لکھنے کی عادی نہیں تھی۔ اسے لگتا تھا کہ طویل کہانیاں وہ غریب لوگ لکھتے ہیں جنہیں مختصر الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر نہیں آتا۔ وہ اب اس شہرزاد کی کہانی کو بھی ایک اختتام دینا چاہتی تھی۔ اس نے قلم واپس میز پر رکھ دیا اور کرسی کی پشت پر ٹیک لگا کر سگریٹ کے گہرے کش لیتے ہوئے کہانی کے ممکنہ انجام کے بارے میں سوچنے لگی۔
پہلے اس نے سوچا کہ وہ شہرزاد کے منگیتر سے معافی منگوا کر ان دونوں کی شادی کروا دے اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ پھر مگر خیال آیا کہ ایسا صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں کوئی بھی ہنسی خوشی نہیں رہتا۔ شادی کےکچھ عرصے بعد عورت یا تو ماں بن جاتی ہے یا پھر نہیں بنتی۔ اگر نہیں بنتی تو طعنے دے دے کر اس کی شخصیت مسخ کردی جاتی ہے اور اگر بن جائے تو پھر وہ عورت نہیں رہتی، فقط ماں بن جاتی ہے۔ اولاد نیک مل جائے تو دنیا سے انہیں بچانےمیں گھل جاتی ہے اور اگر نیک نہ ملے تو اولاد کے غم میں گھلتی رہی ہے۔ بہر صورت وہ خوش کبھی نہیں رہ پاتی۔
پھر اس نے سوچا کہ شہرزاد کو ایک مضبوط عورت کے روپ میں دکھائے جو اس کے بعد ساری عمر شادی نہیں کرتی اور ہنسی خوشی رہتی ہے۔ اس کا ماننا ہوتا ہے کہ عورت مرد سے شادی اس لیئے کرتی ہے کیونکہ مرد بدلے میں اسے جسم، ناموس، لباس، چھت، خوراک وغیرہ کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے بدلے میں عورت اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ زندگی اس کے ساتھ بسر کرتی ہے۔ سو اگر یہی ضمانت اگر ایک عورت ،مرد کو دے دے تو وہ اس کے لیئے اپنا سب کچھ تیاگ کر اس کے ساتھ زندگی کیوں بسر نہیں کرسکتا؟ اپنا خاندانی نام بدل کر اس کا نام کیوں اپنے نام کے ساتھ نہیں جوڑ سکتا؟ پھر اسے اپنے اس خیال پر خود ہی ہنسی آگئی ۔ ایسا تو کہانیوں میں بھی نہیں ہوتا ، اگر میں اس کہانی کو  یہ انجام دے بھی دوں تو لوگ اس انجام کی وجہ سے کہانی کے باقی حصے کو بھی تخیلاتی سمجھ بیٹھیں گے۔ میری شہرزاد تو ایک حقیقت ہے۔ میں اسے تخیل کیسے بننے دوں؟ یہ سب سوچ کر اس نے یہ خیال بھی ترک کردیا۔
کافی دیر تک وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں رہی اور سوچوں میں مگن کافی کے مگ سے کھیلتی رہی۔ جب بہت سوچنے کے بعد بھی اسے کوئی حل نظر نہیں آیا تو اس نے جھنجھلا کر کافی کا مگ اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا اور اٹھ کر کھڑکی میں آگئی۔ اس کا دماغ بالکل خالی ہوچکا تھا۔ کافی دیر یونہی کھڑکی میں کھڑی باہر تکتی رہی پھر بیزار ہوکر کھڑکی سے بھی ہٹ آئی۔ وہاں سے ہٹی تو دیوار کے ساتھ مگ کے ٹکڑے پڑے ہوئے نظر آئے۔ انہیں دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔ اسے لگا کہ مگ کی طرح ہی تو انسان کوزمین پر بھیجا  جاتا ہے۔ نئے مگ کی طرح ہر نئے آنے والے انسان کو سینت سنبھال کر رکھا جاتا ہے اور پھر جب وہ تھوڑا پرانا ہوجاتا ہے تو کسی نہ کسی بہانے اسے اٹھا کر کسی نہ کسی دیوار پر اٹھا مارا جاتا ہے۔ پھر انسان بھی ٹوٹے مگ کی طرح فرش پر پڑا اپنے مستقبل کیلئے دوسروں سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ نصیب اچھے ہوئے تو کوئی جوڑنے والا محلول لگا کر دوبارہ جوڑ دیتا ہے اور اگر نہیں تو جیسے مگ کسی کچرے دان کا انتظار کرتا ہے ویسے ہی انسان اس انتظار میں وقت گزارنا شروع کردیتا ہے کہ کب اسے باقاعدہ طور پر اس کے عقیدے کے مطابق دفنایا ،یا جلایا جائے گا۔  جو اپنے تئیں خوش قسمت مگ جڑنے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو بھی ان کے جوڑ اتنے نمایاں ہوجاتے ہیں کہ وہ  کافی یا چائے کے تو نہیں البتہ کبھی کبھار استعمال ہونے والی چیزیں رکھنے کے کام آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ٹوٹنے سے پہلے والی اہمیت بیچاروں کیلئے پھر بھی ایک خواب ہی رہتی ہے۔ انجام ان کا بھی بالآخر کچرے دان میں ہی ہوتا ہے مگر ان بیچاروں کی اذیت انہیں علاج کے نام پر ایک بار پھر جوڑ کر کچھ ماہ یا پھر سال کیلئے اور بڑھا دی جاتی ہے۔ ان سے بہتر شاید وہ ٹکڑے ہی رہتے ہیں جنہیں ٹوٹنے کے بعد ہی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے ۔مگر ہر مگ ایک جیسا نصیب بھی تو نہیں رکھتا نا؟
اس نے مگ کے ٹکڑوں کو سمیٹ کر اٹھایا اور انہیں لیکر دوبارہ لکھنے کی میز پر آگئی۔ کہانی میں اب اس کی دلچسپی مزید بڑھ  چکی تھی۔ اب اسے اس بات کی فکر نہیں تھی کہ شہرزاد کے ٹکڑوں پر کونسا محلول لگا کر انہیں جوڑا جائے گا۔ کونسا نیا رنگ چڑھا کر اس کے وجود پر پڑی ہوئی دڑاریں چھپائی جائیں گی۔ وہ اب محض اس بات پر سوچ رہی تھی کہ شہرزاد کے ٹکڑے آخر کب اپنے اصل مقام یعنی کوڑے دان میں پہنچیں گے۔ اس نے سوچا کہ وہ شہرزاد کو مار ڈالے۔ پھر مگر خیال آیا کہ اس طرح تو دنیا شہرزاد کو بزدل بولے گی؟ اس کی شہرزاد جو اس کے نزدیک سب سے قیمتی تھی اسے ایک بزدل اور فرار پسند عورت قرار دیا جائے گا! لوگ مصنف کو گالیاں دیں گے کہ اس نے کس طرح ایک اتنی معصوم اور نازک لڑکی کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا۔ کیا تھا اگر اس کی بھی شادی کرادی جاتی؟ جیسی سب کہانیوں میں کرادی جاتی ہے؟ جس کے آخر میں سب جانتے ہیں کہ جھوٹ ہے مگر پھر بھی خوش ہوکر پڑھتے ہیں کہ وہ ہنسی خوشی رہنے لگی؟ دنیا میں کوئی ایک مرد ایسا نہیں ہے جو شہرزاد کو سمجھ سکے؟ اسے اس طرح رکھ سکے جس طرح وہ رہنا چاہتی ہے؟  مگر کیا میں شہرزاد پر خطرہ مول لے سکتی ہوں؟ کیا میں محض یہ سوچ کر اس کی شادی کرا سکتی ہوں کہ ہوسکتا ہے اس کا خاوند ان دس میں سے ایک انسان ہو جو عورت کو واقعی برابر کا انسان سمجھتے ہیں؟اگر وہ باقی نو جیسا نکلا تو؟ کیا میں اپنی شہرزاد کو اندھے کنویں میں دھکیل دوں؟ وہ اب باقاعدہ خود کلامی پر اتر آئی تھی۔ وہ ایسے بڑبڑا رہی تھی جیسے سامنے ایک مجمع موجود ہو اور باقاعدہ مباحثہ جارہ ہو۔ وہ کبھی قاری بن کو سوال کرتی اور کبھی مصنف بن کر جواب دیتی۔
  اس نے قاری بن کر خود کو ہی سمجھایا کہ دیکھو تم تو مصنف ہو۔ قلم تمہارے ہاتھ میں ہے! جیسا چاہو ویسا کردار تراش دو! ویسے بھی دنیا میں اچھے مردوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ کیا ہوگا اگر ان میں سے ایک شہرزاد کے نصیب میں لکھ دیا جائے گا؟  مگر تم یہ بھی تو سوچو کہ کیا یہ ان باقی شہرزادیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی کہ جن کی تقدیر کا قلم ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟  تمہیں کیا؟ کم از کم جس شہرزاد کا قلم تمہارے ہاتھ میں ہے اسے تو بہتر مستقبل دے دو!
شہرزاد نے مسکرا کر قلم اٹھایا گویا قارئین کی رائے پر سر تسلیم خم کردیا ہو۔ اس نے لکھنا شروع کیا اور اگلے چند لمحوں میں شہرزاد رخصت ہوکر حمزہ کے گھر پہنچ چکی تھی جہاں وہ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
کہانی مکمل کرکے اس نے قلم ایک جانب رکھا اور ڈائری بند کردی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکان تھی۔ اس نے مگ کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا اٹھا کر اپنی کلائی پر رکھا اور وحشیوں کی طرح اسے اپنی کلائی پر چلانے لگی۔ اپنی زندگی کی کہانی کا قلم اس کے ہاتھ میں بے شک نہ ہو، مگر وہ اپنی زیست کے مصنف کو بتادینا چاہتی تھی کہ اس کی کہانی کا انجام کوئی اور نہیں طے کرسکتا تھا۔


خون تیزی کے ساتھ میز سے ہوتا ہوا کمرے کے کچے فرش میں جذب ہورہا تھا۔ گاڑھا سرخ خون!

بلاگ فالوورز

آمدورفت